شکر کے انسانی زندگی پر اثرات
’’حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا‘‘ (ترمذی شریف)۔ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کی قدر دانی سے انسان کا دل ممنونیت کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے۔ پھر یہ احسان مندی اور قدر شناسی کے جذبات انسان کے دل میں ایمان کے چراغ کو روشن کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شکر سے بڑھ کر کوئی اور چیز انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان ربوبیت کو راسخ اور پختہ کرنے والی نہیں ہے۔
ارشاد خداوندی ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر کرو اور ایمان لائو، اللہ تعالیٰ قدر دان اور جاننے والا ہے‘‘۔اس آیت کریمہ میں شکر مقدم اور ایمان موخر ہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شکر سے ایمان پیدا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا بار بار تقاضااس لیے کیا ہے کہ کہیں ہم یہ نہ سمجھنے لگیں کہ خدا کے فضل و کرم کے سوا ہم خود بھی ان نعمتوں کے مستحق ہیں، ان کیلئے نہ کوئی ہمارا خاندانی استحقاق تھا نہ علمی اور عملی استحقاق، جو کچھ ملا اس کے فضل و کرم سے ملا اور جو کچھ ملے گا وہ اسی کی عطا اور بخشش ہو گی۔
انسان ان گنت احساناتِ خداوندی کو دیکھ کر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا احسان نہیں بلکہ فطرت کی عام بخشش ہے جس کے شکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ بیج ہے جس سے کفر والحاد کی شاخیں پھوٹتی ہیں، جیسے فرعون، قارون، نمرود وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنا ایک احسان تو گنوایا ہے اور اس پر شکر ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ان کو گنوانے کا مقصود یہی ہے کہ انسان اپنے محسن کی قدر کو پہچانے، اس کے مرتبے کو جانے اور اس کے مرتبے کو مانے اور اس کی نعمت و بخشش کو قدر دانی اور احسان مندی کی نگاہ سے دیکھے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کی بناء پر بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی قدرو عظمت کا داعیہ ابھرتا ہے، پھر اس کی بدولت انسان احکام خداوندی کی پیروی کرتا ہے۔ اس ساری گفتگو سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ شکر اطاعت الٰہی کی بنیاد ہے۔
شکر گزاری سے انسان میں اطاعت اور فرمانبرداری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس صورت میں اسے نہ ڈرانے کی ضرورت ہے نہ دھمکانے کی بلکہ محض احسان مندی کے جذبہ کے تحت وہ اپنے محسن کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کر دیتا ہے۔
سورہ ابراہیم کی آیت7 میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’لئن شکرتم لا زیدنکم‘‘، ترجمہ : ’’اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا‘‘۔اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ نعمتوں کا صحیح استعمال شکرہے، جس پر اللہ تعالیٰ نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے۔ دنیا میں مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے مربی اور محسن کے احسانات کو قدردانی کی نگاہ سے دیکھے تو محسن پہلے سے زیادہ احسان کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ تو تمام انسانوں سے زیادہ اپنے بندوں کے اعمال کی قدر دانی کرنے والا ہے۔ اس کے شکر پر اس کی نعمتوں میں اضافے کا بھلا کیا ٹھکانا۔ متکبر آدمی دوسرے کا احسان ماننے میں کسرِ شان سمجھتا ہے۔ شکر میں یہ بات ضروری ہے کہ آدمی اپنے محسن کی فضلیت کو تسلیم کرے۔ اسی طریقہ سے اس کا تکبر ٹوٹتا ہے اور اس کی طبیعت میں تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضاء اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے جو ایک مومن کی معراج ہے۔ سورہ زمر کی آیت7میں ارشاد ہے، ’’اگر تم شکر کرو تو اللہ تم سے راضی ہو جائے‘‘. جو لوگ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے ہیں وہ دنیا میں عذاب خداوندی سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کا عذاب الٰہی سے محفوظ رہنے کا سبب قرآن پاک نے ان کی شگر کزاری کو بتایا ہے۔
شکر گزاروں کو اللہ تعالیٰ آخرت کی نعمتوں سے بھی خوب نوازے گا۔ ارشاد ہے ’’شکر کرنے والوں کو ہم عنقریب بدلہ دیں گے۔‘‘
شکر گزاری کی وجہ سے جب اہل ثروت اپنے غریب اور محتاج بھائیوں کی مالی و جسمانی خدمت کریں گے تو ان کے درمیان محبت و خلوص کے جذبات پیدا ہوں گے ، جو حسن معاشرت کی بنیاد ہیں،اسی طرح معاشرے میں محبت کی فضاء پیدا ہو جاتی ہے۔ شکر گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔ ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے ’’جو شخص کھانا کھائے اور کہے کہ شکر اُس اللہ کا جس نے ہر تدبیر اور طاقت کے بغیر مجھے کھانا دیا تو اس کے پہلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں‘‘۔اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں کو ٹھیک اسی کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا بھی اللہ کی شکر گزاری ہے۔