سوء ادب : ہمارے جانور گائے

تحریر : ظفر اقبال


ایک اللہ میاں کی گائے ہوتی ہے لیکن اِس محاورے کو فالتو ہی سمجھا جائے کیونکہ ساری ہی گائیں بلا شبہ اللہ میاں ہی کی گائیں ہوتی ہیں۔ گائے کی دُم جیسی چیز کو گائو دم کہتے ہیں اور یہ بھینس پر اُس کی برتری کی نشانی ہے کیونکہ بھینس کی دُم کو یہ شرف حاصل نہیں ہے حالانکہ اُس جیسی بھی کئی چیزیں ہوتی ہوں گی ۔یہی صورتحال گائو زبان کی بھی ہے۔

آ بیل مجھے مار کا محاورہ عام طور پر مستعمل ہے حالانکہ اصل محاورہ آ گائے مجھے مار ہونا چاہیے کیونکہ گائے بیل سے زیادہ مرکھنّی ہوتی ہے ۔گائو دی بیوقوف آدمی کو کہتے ہیں اور یہ گائے جیسے نہایت مفید جانور کی توہین کے زمرے میں آتا ہے ۔ہندو احباب گائے کو گائو ماتا کہتے ہیں حالانکہ اِس فضلیت پر بھینس کا حق زیادہ ہے کیونکہ وہ گائے سے بڑی ہوتی ہے اور دودھ بھی گائے سے زیادہ دیتی ہے۔ مشہور فلمی نغمہ’’ گائے جا گیت ملن کے‘‘کا گائے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گائے کا بَیر بھی مشہور ہے اور وہ بدلہ لے کر ہی چھوڑتی ہے ۔ہمارے بچپن میں ایک نظم ہُوا کرتی تھی جس کا پہلا شعر تھا! 

رب کا شُکر ادا کر بھائی 

جس نے ہماری گائے بنائی  

حالانکہ بھینس بنانے کے حوالے سے اللہ میاں کا شُکر زیادہ ادا کرنا چاہیے ۔

ایک شخص کی گائے بیمار پڑ گئی تو وہ اپنے ایک دوست کے پاس گیا اور اُسے کہا کہ تمہاری گائے بیمار ہو گئی تھی تو تم نے بتایا تھا کہ تم نے اُسے تارپین کا تیل پلایا تھا۔ میری گائے بھی بیمار ہوئی تو میں نے بھی اُسے تارپین کا تیل پلایا تھا لیکن میری گائے تو مر گئی ہے،تو دوست بولا ،

’’میری گائے بھی مر گئی تھی ‘‘

خاک زار

 یہ ہمارے عزیز دوست اور جدید لہجے کے غزل گو قمر رضا شہزاد کے کُلّیات ہیں جو اُن کے چھ مجموعوں’’پیاس بھرا مشکیزہ ،ہارا ہُوا عشق ،یاد دہانی ،خامشی ،بارگاہ اور شش جہات‘‘ پر مشتمل ہے۔ اِس کا کوئی دیباچہ یا مقدمہ نہیں ہے، صرف ایک اندرونی فلیپ پر اُس کی اپنی مختصر تحریر ہے جو یوں ہے کہ میری زندگی کی چھ دہائیاں اور میری غزلیات کے چھ مجموعے میرے لیے اِ س حد تک تو اطمینان کا باعث ہیں کہ میں نے جس راستے کو اپنے اظہار کیلئے منتخب کیا ہے اُس پر ابھی تک نہایت حوصلے سے رواں دواں ہوں ۔میری غزل نے کس حد تک اُردو غزل کے خزانے میں اضافہ کیا ہے، اُس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ میری غزل کی عمارت میں زیادہ تر میری اپنی ہی مٹی استعما ل ہوئی ہے اور میری یہ کوشش شعوری بھی نہیں ہے ۔میں جیسا ہوں اپنی غزل میںجھلکتا ہوں شاید اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں نے ڈکٹیشن لینے کی بجائے خود کو اور دنیا کو اپنی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اپنے ہی دل کی بات مانی ۔

میرا یہ فیصلہ ٹھیک رہا یا غلط مجھے اِس کی بھی کوئی پروا نہیں ہے ،یہی بہت ہے کہ میں نے کُھل کر اپنی غزل میں اپنا اظہار کر لیا ۔

سو ،قمر رضا شہزاد اپنے اندر اور اپنے اِرد گرد ہی رہنے والا شاعر ہے ،دوسرے شعراء کیا کہتے ہیں ،اِس سے اُسے کوئی غرض نہیں ہے اور اِس طرح اُس نے اپنی انفرادیت کو قائم رکھا ہے۔ اِس کی غزلیں عام طور سے پانچ شعر وں سے آگے نہیں بڑھتیں۔ شاید اِس لیے اُس کے بعد اُس نے اور غزل بھی کہنا ہوتی ہے جو اُسے بُری طرح سے آئی ہوئی ہوتی ہے ۔انتساب اِس طر سے ہیـ: اُردو زبان کے نام جو بدقسمتی سے پوری صدی کے بعد بھی ہمارے ملک کی سرکاری زبان نہیں بن سکی ۔

کتاب کا آغا ز اِ س خوبصورت شعر سے ہوتا ہے !

بدلتا جاتاہوں راستا او رلبا س شہزاد 

میں اک زمانہ کئی زمانوں سے آرہا ہوں 

خوبصورت ٹائٹل فراز علی زیرک نے بنایا ہے او ر اسے شرکت پرنٹک پریس نسبت روڈ لاہور نے چھاپا ہے۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر ہے، صفحات 512اورقیمت 2500 روپے ہے ۔

غزل

کسی سے وعدہ و پیمان بھی نہیں میرا 

یہ شہر چھوڑ نا آسان بھی نہیں میرا 

میں لخت لخت ہوا آسماں سے لڑے ہوئے 

مگر یہ خاک پر احسان بھی نہیں میرا 

میں صر ف اپنی حراست میں دن گزارتا ہوں 

مرے سوا کوئی زندان بھی نہیں میرا 

سکوتِ شب میں تری چشم نیم وا کے سوا 

کوئی چراغ نگہبان بھی نہیں میرا 

دھری ہوئی کوئی اُمید بھی نہیں مرے پاس 

کھلا ہوا درِ امکان بھی نہیں میرا 

یہ کس کے بوجھ نے مجھ کو تھکا دیا کہ یہاں 

بجز دُعا کوئی سامان بھی نہیں میرا 

میں اُ س کی روح میں اُترا ہُوا ہوں او ر شہزاد 

کمال یہ ہے اُسے دھیان بھی نہیں میرا 

آج کا مطلع

آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں ،ظفر 

کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5 برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔