غصہ انسانی شخصیت کی بنیادی خامی

تحریر : مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


’’ غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے‘‘ ( مسند احمد :17985 ، ابوداود :4784) غصہ آئے تو ’’اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم‘‘ پڑھ لیا کرو ،غصہ ختم ہو جائے گا(ابودائود:4780 )بدترین آدمی وہ ہے جس کو غصہ جلد آئے اور ختم ہو دیر سے، بہترین آدمی وہ ہے جسے غصہ دیر سے آئے اور جلد چلا جائے(ترمذی : 2198 ) غصہ کو روکنے کی تدبیر یہ ہے کہ انسان اپنی موجودہ کیفیت میں تبدیلی لے آئے ، کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے(ابو دائود ، جامع ترمذی)

غصہ انسان کوکمزورکر دیتاہے کبھی کبھی غصہ میں انسان وہ کام کر جاتا ہے کہ اس کے غصہ کااثر نسلوں تک پہنچتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی بھی اجیرن بن جاتی ہے۔ انسان مجموعہ اضداد ہے، طاقتور ایسا کہ سمندر اور پہاڑ بھی اس کی ٹھوکروں میں ہے اور کمزور ایسا کہ پانی کا معمولی سا تلاطم اور پہاڑ کا ایک سنگ ریزہ بھی اس کی موت کیلئے کافی ہے ، محبت کرے تو شبنم اور بادِ نسیم سے بھی زیادہ خنک اورنفرت پر اتر جائے تو آتش فشاں بھی اس کی گرمی عداوت پر شرمائے۔

 انسانی فطرت میں ایک اہم عنصر غصہ، غیظ و غضب اور جوش و انتقام کا ہے۔ یہ ایک آگ ہے جو انسان کے سینہ کو سلگا کر رکھ دیتی ہے اور اس کا انگ انگ اس کی حرارت سے دہک اٹھتا ہے۔ آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے ، زبان بے قابو ہوجاتی ہے اور جب غصہ شدید ہوتو اپنے اعضا پر بھی انسان کی گرفت باقی نہیں رہتی۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ : ’’ غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے‘‘ (مسند احمد : 17985، ابوداود: 4784)۔ گویا غصہ کی حالت میں انسان شیطان کا نمائندہ بن جاتا ہے اور شیطان اس کو اپنے مقصد ومنشا کی تکمیل کیلئے ذریعہ بناتا ہے۔ 

غصہ کی کیفیت انسان کو دینی اعتبار سے بعض اوقات سخت خسارہ میں ڈال دیتی ہے ، زبان سے کفریہ کلمات نکل جاتے ہیں ، آدمی ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو سراسر تقاضہ دین و ایمان کے مغائر ہوتی ہیں، یہی جوشِ غضب انسان کو قتل و قتال اور سب و شتم تک پہنچا دیتا ہے، دینی نقصان تو ہے ہی، دنیوی نقطہ نظر سے بھی انسان کچھ کم نقصان سے دو چار نہیں ہوتا۔ بہت سے واقعات ہیں کہ بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں ، بعض مغلوب العقل حضرات خود کشی کر بیٹھتے ہیں، شدتِ غضب میں اپنا ہی سامان توڑ پھوڑ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ غصہ کی وجہ سے انسان دماغی مریض بھی بن سکتا ہے اور قلب پر حملہ سے بھی دو چار ہو سکتا ہے۔

 اگر معاشرہ کے مفاسد کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر برائیاں غصہ ہی کی وجہ سے ہیں، خاندانوں کی باہمی نفرت، میاں بیوی کے درمیان ذہنی فاصلے، ایک دوسرے کی عزت ریزی، صلح کے مواقع تلاش کرنے کے بجائے مقدمہ بازی اور جنگ و جدال کا تسلسل، سماج کی یہ مہلک بیماریاں نوے فیصد غصہ ہی کے سبب ہیں ۔ اسی لئے اسلام میں غصہ کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور غصہ پر قابو پانے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔

 لاتعداد مسائل کی بنیاد ہی غصہ ہے۔ایک بندہ میرے پاس آیاکہنے لگا مولوی صاحب  میں نے غصہ میں اپنی بیوی کوتین طلاقیں دے دی ہیں، کیاطلاق ہوگئی ہے یانہیں ؟میں نے کہابھائی پیار میں توآج تک کسی نے اپنی بیوی کوطلاق نہیں دی،  جناب والا پہلے سوچ لیتے توآج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جیسے ایلوا شہد کو خراب کر دیتا ہے، اسی طرح غصہ ایمان کو ، ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص غصہ کرتا ہے وہ جہنم کے قریب ہو جاتا ہے (احیا العلوم )

آپ ﷺنے فرمایا: بد ترین آدمی وہ ہے جس کو غصہ جلد آئے اور ختم ہو دیر سے اور بہترین آدمی وہ ہے جسے غصہ دیر سے آئے اور جلد چلا جائے (جامع ترمذی:  2198 )

ایک بار آپ ﷺ کا گزر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جو پتھر اٹھا رہے تھے۔ آپ ﷺنے دریافت فرمایا : یہ کیا کر رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا : پتھر اٹھارہے ہیں، لوگ ان کی بہادری بیان کرناچاہ رہے تھے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تم کو ان سے بھی بہادر آدمی نہ بتلائوں؟ پھر ارشاد فرمایا: ان سے بھی بہادر وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس سے آپ ﷺ گزرے جو منتشر حالت میں تھے، آپ ﷺنے دریافت فرمایا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : فلاں پہلوان ہے کہ جس پہلوان سے بھی کشتی لڑتا ہے اسے زیر کر دیتا ہے، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : کیا میں تم کو اس سے بھی زیادہ پہلوان شخص کے بارے میں نہ بتائوں؟ اس سے بھی بڑا بہادر وہ شخص ہے جس پرکوئی شخص ظلم کرے اور وہ اپنے غصہ کو پی جائے، اس نے اپنے غصہ پر بھی غلبہ پایا اور اپنے شیطان پر بھی اور اپنے حریف کے شیطان پر بھی(مجمع الزوائد)۔ 

ایک اور روایت میں ہے کہ اصل بہادر وہ ہے کہ جسے غصہ آئے خوب غصہ آئے، چہرہ سرخ ہو جائے اور بال کھڑے ہو جائیں، پھر بھی وہ اپنے غصہ پر قابو پالے ۔ (حوالہ بالا)

اسی لئے رسول اللہ ﷺخاص طور پر غصہ سے بچنے کی نصیحت فرماتے ، ایک صاحب نے آپ ﷺسے نصیحت کی خواہش کی ، آپ ﷺنے فرمایا غصہ نہ کرو، وہ بار بار پوچھتے رہے اورآپ ﷺبار بار یہی جواب دیتے رہے۔ حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی ؓ نے عرض کیا کہ مجھے کوئی مفید مگر مختصر نصیحت فرمائیے: آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: غصہ نہ کرو، وہ بار بار نصیحت کی درخواست کرتے رہے اور آپ ﷺہر بار یہی جواب ارشاد فرماتے (مجمع الزوائد ، طبرانی)

حضرت ابو دردا ء ؓ نے درخواست کی کہ ایسا عمل ارشاد فرمایا جائے جو مجھے جنت میں داخل کردے، فرمایا : غصہ نہ کرو، (حوالہ بالا)۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ایسا عمل جاننے کی خواہش کی جو خدا کے غضب سے بچانے والا ہو، اب بھی یہی ارشاد ہوا کہ غصہ نہ کرو ، (حوالہ بالا بحوالہ مسند احمد)۔ایک صحابی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺسے نصیحت کی درخواست کی ، آپ ﷺنے غصہ سے بچنے کو فرمایا، میں نے اس میں غور کیا تو محسوس کیا کہ غصہ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔(حوالہ بالا)

امام جعفر کا قول منقول ہے کہ غضب ہر برائی کی کلید ہے،حضرت عمرؓ اکثر اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے کہ جو شخص حرص، خواہش نفس اور غصہ سے بچ گیا وہ کامیاب ہو گیا۔ مشہور محدث عبد اللہ بن مبارک سے دریافت کیا گیا کہ آپ ایک جملہ میں حسن اخلاق کو بتائیے ، امام صاحب نے فرمایا : غصہ چھوڑ دو (احیا العلوم )

اسی لئے غصہ کو پی جانے پر بڑا اجر ہے ، حضرت معاذ بن انس ؓسے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا جو شخص غصہ اتارنے پر قادر ہو، اس کے باوجود وہ غصہ پی جائے، اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن تمام مخلوقات کی موجودگی میں (از راہِ اعزاز)طلب فرمائیں گے اور اسے اختیار دیں گے کہ جس حور کا چاہے انتخاب کرلے (ترمذی )۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ غصہ پر قابو پانا اور غصہ کے وقت اپنے آپ کو عدل اوراعتدال پر قائم رکھنا آسان نہیں اورانسان کے اخلاق و رواداری کا اصل امتحان اسی موقع پر ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے خوب فرمایا کہ آدمی کی بردباری کو اس وقت دیکھوجب وہ غصہ کی حالت میں ہواور اس کی امانت و دیانت کا اندازہ اس کی طمع و حرص کے مواقع پر ، جس کو تم نے حالت ِغضب میں نہیں دیکھا ، تم کو اس کی بردباری کا علم نہیں اور جس کو تم نے حرص و لالچ کے مواقع پر نہیں دیکھا ، تم کو اس کی دیانت کی خبر نہیں۔(احیا العلوم )

حقیقت یہ ہے کہ غصہ کو پی جانا بہت بڑا عمل ہے اور جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا ، نہایت ہی بہادری کا کام ہے ۔ اسی لئے آپ ﷺ نے غصہ پر قابو پانے کی مختلف تدابیر بتائی ہیں ، آپ ﷺنے اس کی ایک تدبیر یہ بتائی کہ ایسے وقت میں آدمی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھے۔ ایک صاحب اتنا غضب ناک تھے کہ لگتا تھا کہ اب ان کی ناک پھٹ پڑے گی، آپ ﷺنے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ کہے تو اس کا غصہ فرو ہو جائے، دریافت کیا گیا وہ کیا کلمہ ہے؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم‘‘ (ابودائود:4780، بخاری )

وجہ اس کی ظاہر ہے کہ غصہ ایک شیطانی حرکت ہے، جب انسان اس موقع پر تعوذ پڑھے گا، تو اللہ کی مدد سے اس شیطانی حرکت پر غلبہ پالے گا ، نفسیاتی اعتبار سے بھی اس کلمہ کو پڑھتے ہوئے آدمی کا ذہن اس جانب منتقل ہو تا ہے کہ وہ اس وقت شیطان کا آلہ کار ہے، اس خیال سے وہ اپنے آپ کو موجودہ کیفیت سے بآسانی نکال سکے گا ۔ 

غصہ پر قابو پانے کی ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ غصہ کے وقت انسان کچھ نہ بولے اور چپ سادھ لے، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ : جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو خاموش رہے (مسند احمد) کیوں کہ غصہ کی حالت میں انسان جتنا زیادہ بولتا ہے ، جو شِ غضب بڑھتا جاتا ہے اور اکثر اوقات ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو خود اس کیلئے نقصان دہ ہوتی ہے۔

 غصہ کو روکنے کی ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ انسان اپنی موجودہ کیفیت میں تبدیلی لے آئے ، کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے، رسول اللہ ﷺنے حضرت ابوذر غفاری ؓکو غصہ کے وقت اس تدبیر کے اختیار کرنے کا حکم فرمایا تھا(ابو دائود ، ترمذی) ۔

ابو وائل ایک واعظ تھے، وہ عروہ بن محمد سعدی  کے پاس گئے، عروہ سے ایک شخص نے ایسی بات کہی کہ ان کو غصہ آگیا، وہ اٹھ گئے اور وضو کر کے واپس آئے۔ پھر ایک حدیث بیان فرمائی کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : غصہ شیطان کی طرف سے ہے ، شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے ، اس لئے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وضو کر لینا چاہئے (ابو دائود)

  معلوم ہوا کہ وضو بھی غصہ پر قابو پانے میں ایک موثر طریقہ ہے، روحانی طور پر تو وضو میں غصہ فرو کرنے کی تاثیر ہوگی ہی کیوں کہ یہ ارشاد نبوی ﷺہے اورآپ ﷺکے ارشاد سے بڑھ کر صحیح و درست بات اور کیا ہو سکتی ہے؟

 لیکن علاوہ اس کے نفسیاتی اعتبار سے بھی اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ پانی کی ٹھنڈک جسم کی حرارت ، تکان اور غیر معتدل کیفیت کو دور کرنے اور معتدل بنانے میں بہت موثر ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان تمام تدابیر کا حاصل اور غصہ پر قابو پانے کا سب سے موثر ذریعہ خدا کا خوف ہے ، خدا سے بے خوفی انسان کو ظلم پر جری بناتی ہے اور خدا کا خوف انسان کے بے قابو جذبات کو تھام لیتا ہے۔

 غصہ پینا سب سے بڑی بہادری ہے ،اللہ پاک ہماری بھی غصہ کے وقت حفاظت فرمائے (آمین یارب العالمین )۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم:چیمپئنز ٹرافی:معاملہ لٹک گیا

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی2025ءکا ایونٹ جو 19 فروری سے 9 مارچ تک پاکستان میں شیڈول ہے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان میزبانی کے اپنے اصولی موقف پر سختی سے ڈٹا ہوا ہے، جس کے بعد بھارت نے مزید وقت مانگ لیا ہے۔ اسی لئے گزشتہ روز ہونے والا آئی سی سی کا اجلاس بھی نہ ہو سکا اور ذرائع کے مطابق اب یہ اجلاس اگلے 48 گھنٹوں میں ہونے کا امکان ہے۔

فیڈرل ویمنز باسکٹ بال ٹورنامنٹ

پاکستان میں باسکٹ بال کا کھیل روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل نہ صرف قومی اور صوبائی سطح پر باسکٹ بال کے متواتر ٹورنامنٹس اور دیگر مقابلے ہو رہے ہیں بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھی اس کھیل کے ایونٹس کا انعقاد ہو رہا ہے۔

دوستی ہو تو ایسی

کامران اور عمر کی دوستی پوری کالونی میں مشہور تھی۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ سب کامران کو پیار سے کامی کہتے تھے۔ ایک دفعہ عمر، ٹیچر سے پانی پینے کا پوچھ کر گیا لیکن پھر اس کی واپسی نہیں ہوئی۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، کامی پریشان ہو رہا تھا۔ چھٹی کے وقت کامی، عمر کے گھر گیا اور کہا ’’ آنٹی! عمر، ٹیچر سے پانی کا پوچھ کر گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا، کیا وہ گھر آ گیا ہے؟‘‘۔ اس بات سے عمر کے گھر والے پریشان ہو گئے۔

کریلا

کریلا میرا نام بچو! کریلا میرا نام سبزی میں ہے خاص مقامگہرا ہرا ہوں میں خوش رنگ

میری پہلی سیر

میرے پیارے پیارے بھائیوں اور بہنوں اور روزنامہ دنیا کے بچوں کے صفحہ ’’پھولوں کی دُنیا‘‘ کے باقاعدہ مطالعہ کرنے والے ساتھیو! میرا نام محمد بن ڈاکٹر نوید انجم جٹ ہے۔ اس وقت میں چار برس کا ہوں۔ میں نے چند ماہ قبل اپنی والدہ ڈاکٹر اسماء سلیم پی ایچ ڈی سے پہاڑی علاقہ جات دیکھنے کی فرمائش کی جو چھٹیوں پر تھیںاور انہوں نے صوبہ کے پی کے شہر مردان کی یونیورسٹی میں ملازمت کیلئے درخواست دے رکھی تھی۔ مردان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے انہیں انٹرویو کی کال دی تو مجھے لگا کہ اب میری خواہش پوری ہونے والی ہے جس پر خوشی کی انتہا نہ رہی۔

سنہرے موتی

٭… اس دنیا میں اتنی بلند دیواروں والے محلوں میں نہ رہو کہ جس میں تمہاری آواز گھٹ جائے۔ ٭… آنکھیں بولتی ہیں اور ان کی زبان صرف آنکھ ہی جان سکتی ہے۔