پنجابی شاعری کی اصناف
ہر زبان کی شاعری متنوع اصناف کی حامل ہوتی ہے۔ یہی حال پنجابی زبان کا ہے جس کا شمار دنیا کی دس بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب انڈیا کا حصہ بنا اور مغربی پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بن گیا۔
پنجاب کے ان دو حصوں کا پنجابی شاعر پر ایک مذہبی اثر بھی پڑا کہ پاکستانی پنجاب میں مسلم اکثریت ہونے کی وجہ سے حمد اور نعت کا رواج عام ہوا۔ اسی طرح پنجابی صوفی بزرگوں کی سرزمین ہونے کی وجہ سے کلاسیکی پنجابی صوفیانہ شاعری کی تتبع میں صوفیانہ پنجابی شاعری کا رجحان بڑھا جس میں منقبت کی شاعری بھی تھی اور پنجابی نوحے، دوہڑے، سلام اور سنوز کی شاعری بھی پروان چڑھی۔ جبکہ انڈین پنجاب میں چونکہ سکھ اکثریت تھی اسی لئے وہاں کی مذہبی پنجابی شاعری بابا گرونانک اور ان کی تعلیمات کے حوالے سے پروان چڑھی۔ مثلاً اشلوک، تصوف کی پنجابی شاعری انڈین پنجاب کا بھی حصہ رہی اور اسی طرح رومانی و سماجی پنجابی شاعری بھی پنجاب کے دونوں حصوں کا مشترکہ اثاثہ بنی رہی۔
اردو شاعری کی تین بڑی قسموں(گیت، نظم، غزل) کی طرح پنجابی شاعری بھی انہی تین قسموں پر محیط ہے۔ پنجابی گیتوں میں لوک گیت بھی اہم ہیں اور بعد میں لکھے گئے گیت بھی اور ان میں پنجابی فلمی گیت بھی بہت نمایاں ہیں۔ لوک گیتوں میں ماہیے، ٹپے، بولیاں، دوہڑے، ڈھولے کافیاں اور چوہیتے وغیرہ شامل ہیں جبکہ بعد میں لکھے گئے گیت کئی بحروں میں اور کئی بحروں کے ملاپ سے وجود میں آئے( ماہیے، ٹپے اور بولیاں ایسے گیت ہیں کہ ان کے اپنے مخصوص اوزان اور مخصوص بحریں ہیں)۔
پنجابی کی کلاسیکی نظموں میں جنگ نامے، بارہ ماسے، سی حرفیاں، منظوم مذہبی اور رومانی داستانیں، واراں، ست وارے، گلزار، ڈیوڑھے، اٹھوارے، چرخہ نامے، کسب نامے، بارہ منقبتاں اور دیگر توصیفی و محسینی نظمیں شامل رہیں۔ بعد میں دور میں پنجابی کی نظمیہ شاعری میں مزاحیہ نظمیں جدید نظمیں، نثری نظمیں، آزاد نظمیں، قطعات، رباعیات اور ملی نظمیں وغیرہ بھی شامل ہو گئیں۔
صوفی شاعر میاں محمد بخش ؒ کے بیت، فردیات کے ضمن میں آتے ہیں کیونکہ ایک مخصوص بحر کے مطلعوں جیسے وہ پنجابی مصرعے اپنے طور پر ایک مکمل مضمون کے حامل ہیں۔ تصوف کا رنگ ان کی اضافی خوبی ہے۔ 1990ء کے بعد سے نامور پنجابی شاعر پروفیسر محمد عباس مرزا کے ’’بیت‘‘ زیادہ تر سماجی معاملات پر مبنی ہیں۔ ایک مخصوص بحر میں وہ 2021ء تک گیارہ ہزار سے زیادہ ’’بیت‘‘ تخلیق کر چکے ہیں۔ وہ ناروال کے ہیں مگر عشروں سے لاہور کے باسی ہیں۔
علی پارک کے میدان (اندرون ٹکسالی ، دروازہ لاہور) اور بادشاہی مسجد شاہی قلعہ کے مابین واقع ’’ حضوری باغ‘‘ میں پنجابی شاعروں کے ہفتہ وار کٹھ یوں تو متنوع پنجابی شاعر سے معمور ہوتے تھے مگر ایک اہم پنجابی صنف سخن کا چلن وہاں زیادہ تھا۔ یہ رنگ عدل منہاس لاہور نے پوری طرح اپنایا اور 2021ء تک وہ ایسے سینکڑوں ’’چوبیتے‘‘ تخلیق کر چکے ہیں یہی رنگ عقیل شافی نے بھی خوب اپنایا ہے ان شعراء کو لاہور کے مشاعروں میں سننے کا اکثر اتفاق ہوتا ہے اور بلاشبہ یہ شعراء مشاعروں میں اپنا رنگ خوب جماتے ہیں۔
گیتوں اور نظموں کی پنجابی شاعری کے ساتھ ساتھ پنجابی غزل بھی بہت لکھی جا رہی ہے اور اس کا رجحان پاکستانی پنجاب میں 1960ء کے بعد پروان چڑھا۔ انڈین پنجاب میں پنجابی غزل زیادہ مقام نہیں بنا سکی۔ وہاں جدید انداز کے پنجابی گیتوں کو زیادہ مقبولیت ملی۔ ایسے پنجابی گیت پاکستانی پنجاب میں بھی کم مقبول نہیں۔ پنجابی غزل کے اہم شاعروں میں نذیر قیصر اور تجمل کلیم بہت نمایاں ہیں۔ رومانی پنجابی شاعری میں سرفراز انور صفی کا نام اہم ہے۔ ان کے ہم عصر پنجابی شاعروں میں نصیر احمد نصیر، اعجاز اللہ ناز، صوفیہ بیدار، ڈاکٹر صغریٰ صدف، انجم قریشی، طاہرہ سراء، ثانیہ شیخ، صابر علی صابر، ہارون عدیم، سلیم طاہر، راء محمد ناصر کھرل، غلام حسین ساجد وغیرہ نمایاں ہیں۔