احتجاج کا ڈرامائی ڈراپ سین
ایک ہنگامہ خیز ہفتے کے بعد تحریک انصاف کے احتجاج کا ڈرامائی ڈراپ سین ہوا اور اس میں ایک شخصیت کا کردار انتہائی اہم اور دلچسپ رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج نے کئی سوالات بھی کھڑے کر دیئے ہیں جن کے جوا ب آنا باقی ہیں۔ پی ٹی آئی کے بیانیے کو جو نقصان اس دھرنے سے پہنچا ہے ایسا اپریل 2022ء کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔
سب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ایسا ہوا کیا کہ جو حکومت گزشتہ دنوں مسلسل بیک فٹ پر دکھائی دے رہی تھی وہ اچانک بحرانی کیفیت سے نکل آئی۔ جب بانی پی ٹی آئی سنگجانی کے مقام پر احتجاج کیلئے مان گئے تھے تو بشریٰ بی بی ڈی چوک پر احتجاج کیلئے کیوں بضد تھیں؟فائنل کال کی ناکامی کا ذمہ دار کون تھا؟ علی امین گنڈا پور پر مسلسل سیاسی دباؤ ڈال کر انہیں ڈی چوک پر پہنچنے کیلئے مجبور کرنے والی بشریٰ بی بی خود فائنل کال کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر انہی کی گاڑی میں بیٹھ کر کیوں چلی گئیں؟ کیا پس پردہ کوئی انگیجمنٹ تھی یا نہیں؟
بانی پی ٹی آئی واقعی جب مان گئے کہ احتجاج کو ڈی چوک پر نہ لے جایا جائے تو بشریٰ بی بی کی جانب سے اس بات پر بضد رہنا کہ احتجاج ڈی چوک پر ہی ہو گا حیران کن تھا اور یہ بات حکومت کیلئے بھی حیران کن تھی۔ علی امین گنڈا پور بھی چاہتے تھے کہ احتجاج کو ڈی چوک پر نہ لے جایا جائے مگر بشریٰ بی بی نے احتجاج ڈی چوک پر لے جا کر پاکستان تحریک انصاف کیلئے نہ صرف مشکلات کھڑی کر دیں بلکہ حکومت کو فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا موقع بھی دیا اور حکومت کو حیران کن طور پر بڑی کامیابی ملی۔ خود پاکستان تحریک انصاف میں یہ بحث زور پکڑتی جا رہی ہے کہ اس احتجاج کی ناکامی کی بڑی وجہ بشریٰ بی بی کی حکمت عملی تھی۔ بشریٰ بی بی نے حال ہی میں بانی پی ٹی آئی کے دورۂ سعودی عرب سے متعلق جو بیان دیا اس کی قیمت بھی مستقبل میں پاکستان تحریک انصاف کو چکانی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں تو یہ بحث پہلے ہی کچھ حلقوں میں چلتی رہی کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران مسائل اور اس کے خاتمے کی بڑی وجہ بھی انہی شخصیات کے اس نوعیت کے فیصلے تھے۔ اب بشریٰ بی بی کے اس فیصلے کے باعث ایک بحرانی کیفیت پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ حکومت کیلئے یقینا ایک کڑا امتحان تھا کہ اس نے انسانی جانوں کے نقصان کے بغیر اس بحران سے کیسے نکلنا ہے۔
تحریک انصاف کا سب سے بڑا مطالبہ بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی تھا جو پورا ہونا موجودہ صورتحال میں نا ممکن تھا۔ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات کی خبریں بھی گردش میں آئیں مگر مقتدرہ کے ذمہ دار ذرائع نے یہ بات واضح کی کہ تحریک انصاف کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ اگر مذاکرات ہونے تو صر ف سیاسی قیادت کے ساتھ ہونے ہیں، اسٹیبلشمنٹ اس معاملے میں نہیں پڑے گی۔ حکومت کی جانب سے بھی صرف محسن نقوی بات چیت کے عمل کا حصہ تھے اور اس بات چیت میں بھی دھرنے کے مقام کی تبدیلی حکومت کی ترجیح تھی۔
بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ان کا بیانیہ ہے جس میں وہ موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ، جس کے باعث سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان کی رہائی ہو جائے تو کیا وہ ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کریں گے یا موجودہ سیٹ اَپ کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی باری کا انتظار کریں گے؟ ایسے میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملک میں عدم استحکام کا خاتمہ تبھی ہو گا جب تحریک انصاف کو انگیج کیا جائے گا ان کو جواب دینے کیلئے حکومت یہ کہتی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے مطالبات مان کر عدم استحکام ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائے گا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کے باعث پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ آج تک با ضابطہ مذاکراتی عمل شروع نہیں ہو سکا۔
اگر بات کی جائے کہ پرتشدد احتجاجی تحریک کو ختم کرنے میں کس شخصیت کا کردار تھا تو اس میں ریاستی مشینری کے ساتھ وزیر داخلہ محسن نقوی وہ شخصیت تھے جن کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل اور مؤثر رہا۔ ایک ہی وقت میں محسن نقوی اس معاملے کے سیاسی ، انتظامی اور انفارمیشن ڈومین کے پہلوؤں کو خود دیکھ رہے تھے۔ معاملہ اتنا حساس تھا کہ بیلاروس کے صدر ایک بڑے وفد کے ساتھ ڈی چوک سے چند قدم کے فاصلے پر اہم دورے پر موجود تھے اور چند قدم کے فاصلے پر کنٹینرز کے اُس پارڈی چوک تک مظاہرین پہنچ چکے تھے۔اب حکومت میں سب سے زیادہ وفاقی وزیر داخلہ کا امتحان شروع ہو چکا تھا کہ خون خرابہ بھی نہ ہو اور مظاہرین پر بھی قابو پا لیا جائے۔ ڈی چوک پر آخری تین پریس کانفرنسز میں وزیر داخلہ محسن نقوی نے سیاسی بھڑکیں مارنے کی بجائے نپے تلے انداز میں گفتگو کی اور صرف وہی بات کی جو اس وقت کی پس پردہ حقیقت تھی۔ انہوں نے اپنے پتے سینے سے لگا رکھے تھے اور آپریشن کو ایسے مؤثر انداز میں کیا کہ منگل کی رات بارہ بجے سے قبل یعنی چند ہی گھنٹوں میں جناح ایونیو کو خالی کرایا جا چکا تھا۔
یہاں یہ سوال اور اس کا جواب انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر چند گھنٹوں میں ڈی چوک سمیت پور ا جناح ایونیو خالی کروا لیا گیا اور تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک ختم ہو گئی تو یہ کام اٹک کے پل یا اسلام آباد کے داخلی پوائنٹ چنگی نمبر 26 پر کیوں نہ کیا گیا اور مظاہرین کو جناح ایونیو پر داخل ہی کیوں ہونے دیا؟ کئی روز تک بحرانی کیفیت کو کیوں جاری رہنے دیا گیا؟
بنیادی طور پر یہ ریاستی مشینری اور وزارت داخلہ کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ مظاہرین جب اٹک پل پر پہنچے تو مظاہرین کی تعداد 30ہزار سے زائد بتائی جا رہی تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں مظاہرین سے وہاں نمٹنا ایک مشکل کام تھا وہ کارکن ابھی تازہ دم تھے۔ انہیں اٹک پل سے اسلام آباد کے جنا ح ایونیو تک پہنچنے تک مشکل سفر اور آنسو گیس کی شیلنگ سے نڈھال ہونے دیا گیا اور اسلام آباد میں جی نائن کے مقام پر مظاہرین کی تعداد آٹھ سے دس ہزار تک رہ گئی تھی۔ اس صورتحال میں علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کا مظاہرین کو چھوڑ کو چلے جانا یقیناً تحریک انصاف کیلئے دھچکا تھا اور کارکن بہت مایوس تھے۔ اس کریک ڈاؤن میں سینکڑوں کارکن گرفتار ہو ئے ہیں مگر ان کو یہاں لانے والی قیادت ایک مرتبہ پھر انہیں چھوڑ کر واپس جانے میں کامیاب ہو گئی۔