حکومت مخالف سیاسی قوتوں کو دھچکا

تحریر : محمد اسلم میر


آزاد جموں وکشمیر میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو ہٹانے کے حوالے سے متحرک سیاسی قوتوں کو اس وقت دھچکا لگا جب مسلم لیگ (ن) آزاد جموںوکشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے گزشتہ ہفتہ وادی نیلم کے علاقے شاردہ میں ایک افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگلے ڈیڑھ سال کے بعد آزاد کشمیر میں انتخابات ہوں گے۔

ان کے اس بیان سے جہاں علاقے کی ان سیاسی قوتوں کو مایوسی ہوئی جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر موجودہ حکومت کو گرانے کی ہرماہ بعد نئی تاریخ دے کر پیشگوئی کیا کرتی تھیں وہیں دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی واضح پیغام ملا کہ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق بقیہ ڈیڑھ سال کی مدت بھی پوری کریں گے۔ مسلم لیگ (ن)کے صد رکے اس بیان کے بعد آزاد جموں وکشمیر میں اب دیگر سیاسی جماعتوں نے کارکنوں کو انتخابات کیلئے تیار کر دیا ہے ۔مسلم لیگ (ن) کے صدر شاہ غلام قادر کے انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے دیے گئے بیان کے بعد یہ بات مزید واضح ہوگئی ہے کہ قسمت کی دیوی وزیر اعظم چوہدری انوار الحق پر مہربان ہے۔

ادھر مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی نے پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024  ـ کے خلاف پانچ دسمبر کوپہیہ جام ہڑتال کی کال دے رکھی ہے جس پر وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے گزشتہ روز مظفر آباد میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ صدارتی آرڈیننس عام شہریوں کو مہذب دائرہ میں رہ کر احتجاج کا حق دے رہا ہے تاہم اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو وہ اپنی رائے دے سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ اگر اس میں تبدیلی کرنی ہے تو وہ بھی کی جا سکتی ہے ۔ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کہا کہ اگر آزاد کشمیر کے عوام سمجھتے ہیں کہ یہ صدارتی آرڈیننس ختم ہونا چاہے تو حکومت اس کو ختم بھی کر سکتی ہے تاہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی اس بات کی اجازت ہو گی کہ جس کا جہاں جی کرے وہ وہاں جاکر احتجاج کر کے عوام کو تکلیف پہنچائے۔ پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024 ـ کے تحت آزاد جموں وکشمیر میں مظاہرہ اور احتجاج کیلئے انتظامیہ سے پیشگی اجازت ضروری ہے اور انتظامیہ ہی مظاہرہ کی جگہ کا تعین کرے گی۔ اس آرڈیننس کے حوالے سے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کا حالیہ بیان اس بات کی تائید کرتا ہے کہ وہ معاشرے کے ہر ایک طبقے کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور یہی سوچ اس وقت آزاد جموں کشمیر میں ہر ایک سیاسی جماعت اور سیاسی کارکن کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔

 دوسری جانب حکومت کی گزشتہ ڈیڑھ سال سے زائدعرصہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی بڑی حد تک مثالی ہے ۔ گزشتہ ہفتے لکڑی سمگلنگ کے کیس میں ایک ڈی ایس پی اور اس کے ڈرائیور کو نوکری سے معطل کیا گیا اور اعلیٰ سطح پر اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے ۔ ڈی ایس پی کی سرکاری گاڑی جس میں لکڑی سمگل کی جارہی تھی کو محکمہ جنگلات کے ایک فارست گارڈ نے روک کر لکڑی ضبط کر کے محکمہ کو مزید کارروائی کی تحریک کردی۔ ماضی میں اس طرح سرکاری محکموں کے چھوٹے ملازمین کی طرف سے اعلیٰ افسران کے سامنے ڈٹ جانے کی مثال نہیں ملتی لیکن اب سرکاری افسر نہ صرف قانون کی گرفت میں آرہے ہیں بلکہ ان کے خلاف محکمانہ کارروائیاں بھی ہورہی ہیں۔ 

گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران حکومت نے جو کام کئے ہیں ان میں محکمہ تعلیم میں ایلیمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے 130 اساتذہ کے خلاف کارروائی بھی شامل ہے ۔ ان اساتذہ میں سے بیشتر سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے بدوں منظوری رخصت، عدم اعتراض سرٹیفکیٹ اور بیرون ممالک رہائش اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی سے مسلسل غیر حاضر رہنے والے ملازمین بھی شامل ہیں۔ ان غیر حاضر اساتذہ میں سے بیشتر کو سرکاری نوکری سے فارغ کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ محکمہ تعلیم جس پر آزاد کشمیر کے کل بجٹ کا 27 فیصد سالانہ خرچ کیا جاتا ہے اور بیس ارب روپے سے زائد رقم صرف سالانہ تنخواہوں کی مد میں چلی جاتی ہے وہاں گزشتہ دس دس سال سے اساتذہ کس بنا پر غیر حاضر رہے اور بیشتر بیرون ممالک سفر کے ساتھ ساتھ بغیر محکمہ کی اجازت کے وہاں رہائش بھی اختیار کر چکے ہیں۔ موجود حکومت کو بالعموم وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو یہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے سرکاری ملازمین کو نہ صرف ڈیوٹی پر حاضر رہنے کیلئے مجبور کیا بلکہ غیر حاضر ملازمین اور سرکاری افسران کے خلاف وسیع پیمانے پر محکمانہ کارروائیاں بھی شروع کروادیں۔ بعض سرکاری محکموں میں موجودہ حکومت کے سخت اقدامات اور کارکردگی کو بنیاد بنا کر چند سینئر افسران کو جبری طور ریٹائرڈ بھی کردیا گیا۔ حکومت کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ بعض سرکاری محکموں میں ایڈہاک آسامیوں پر بھرتی ہونے والے ملازمین ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں لیکن ان آسامیوں پر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتیاں نہیں ہوسکیں ۔ آزاد جموں وکشمیر میں سرکاری محکموں میں ایڈہاک ازم کو ختم کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ عدالتوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایڈہاک آسامیوں پر براجمان لوگوں کو حکم امتناعی جاری کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ محکموں کو بھی پابند کریں کہ وہ ان آسامیوں پر پبلک سروس کمیشن اور دیگر سرکاری بھرتیوں کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں اور بچیوں کو آگے آنے کا موقع دیں، جس سے متعلقہ محکموں میں نوجوان بھرتیوں کی وجہ سے ان کی کارکردگی بہتر ہوگی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احتجاج کا ڈرامائی ڈراپ سین

ایک ہنگامہ خیز ہفتے کے بعد تحریک انصاف کے احتجاج کا ڈرامائی ڈراپ سین ہوا اور اس میں ایک شخصیت کا کردار انتہائی اہم اور دلچسپ رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج نے کئی سوالات بھی کھڑے کر دیئے ہیں جن کے جوا ب آنا باقی ہیں۔ پی ٹی آئی کے بیانیے کو جو نقصان اس دھرنے سے پہنچا ہے ایسا اپریل 2022ء کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔

پرتشدد سیاست جمہوریت کیلئے خطرہ معاشی ترقی کا خواب حقیقت بن پائے گا؟

حکومت کے خلاف اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے پی ٹی آئی کی آخری کال فیصلہ کن تو ثابت نہ ہو سکی البتہ اسلام آباد میں پرتشدد احتجاجی عمل کے بعد اب سیاست میں مذاکرات اور ڈائیلاگ کا عمل چلتا نظر نہیں آ رہا۔

دریائے سندھ سے نئی نہروں پر تحفظات

دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کا مجوزہ منصوبہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اختلاف کا باعث بنا ہوا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت تمام رہنما اور تنظیمیں منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی احتجاج ناکام،ذمہ دار کون؟

پاکستان تحریک انصاف کی 24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے دی جانے والی فائنل کال کامیاب رہی یا ناکام اس سے قطع نظر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس دوران جو کارکن جاں بحق ہوئے اور ڈیوٹی دینے والے جو پولیس اوررینجرز اہلکار جان کی بازی ہار گئے اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟پی ٹی آئی قیادت جتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے دعوے کررہی ہے ثبوت کے طور پر تادم تحریر کچھ پیش نہیں کر سکی ۔

مذاکرات مسائل کا حل

بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے حالات سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے ۔وجوہات بہت سی ہیں ،صوبے کے حالات کو مذاکرات سے حل کرنے کی ماضی کی حکومتوں نے کوششیں کیں لیکن یہ سب بے سود ثابت ہوئیں ۔

جلد کوتروتازہ رکھئے

قانون قدرت ہے کہ ہر جاندار بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی جانب بتدریج گامزن رہتا ہے۔ جلد بھی بالکل انہی مراحل سے گزرتی ہے۔ یہ جسم کے دوسرے حصوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتی ہے۔