پی ٹی آئی احتجاج ناکام،ذمہ دار کون؟

تحریر : عابد حمید


پاکستان تحریک انصاف کی 24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے دی جانے والی فائنل کال کامیاب رہی یا ناکام اس سے قطع نظر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس دوران جو کارکن جاں بحق ہوئے اور ڈیوٹی دینے والے جو پولیس اوررینجرز اہلکار جان کی بازی ہار گئے اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟پی ٹی آئی قیادت جتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے دعوے کررہی ہے ثبوت کے طور پر تادم تحریر کچھ پیش نہیں کر سکی ۔

پی ٹی آئی کے اس احتجاجی مارچ میں اعتماد کا فقدان نظرآیا۔خدشہ یہی تھا کہ اسلام آباد میں داخل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت ایک بارپھر غائب نہ ہوجائے ۔ماضی کو مدنظررکھتے ہوئے کارکن وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سے یوں جڑے ہوئے تھے کہ انہیں ایک لحظہ بھی خود سے جدا ہونے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔پشاور سے نکلتے وقت اس قافلے کی سربراہی وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کررہے تھے لیکن آخری لمحات میں بشریٰ بی بی اس قافلے کا حصہ بن گئیں ۔چیونٹی کی رفتار سے چلتا یہ قافلہ شام کو صوابی پہنچ سکا اوررات گئے صوابی کے قریب پڑاؤ ڈالا گیا۔ صوابی کے بعد جب قافلہ روانہ ہواتو قیادت علی امین گنڈاپور کے ہاتھ میں ہی تھی لیکن ہزارہ موٹروے کے قریب پہنچنے کے بعد صورتحال اس وقت بدل گئی جب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ہری پور سے آنے والے قافلوں کو ریسکیو کیا۔ان قافلوں کے ساتھ عمرایوب اور مشتاق غنی چوبیس گھنٹوں سے دوسری طرف پھنسے ہوئے تھے۔عمرایوب اور علی امین گنڈاپورنے بشریٰ بی بی سے ملاقات کی اورانہیں سنگجانی سمیت کسی دوسری جگہ پر دھرنادینے کا مشورہ دیالیکن بشریٰ بی بی نے انکار کردیا۔یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد بشریٰ بی بی نے قافلے کی کمان خود سنبھال لی ۔ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب نے بشریٰ بی بی کو ڈی چوک کے بجائے دوسرے مقام پر دھرنا دینے کیلئے بات کی مگر تکرار کے بعد بشریٰ بی بی گاڑی سے اُترآئیں اور خود ہی جلسے کی کمان سنبھال کر کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کا حکم دیا۔بیشتر رہنماؤں کی جانب سے امید کی جارہی تھی کہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے سے قبل شاید کوئی بریک تھرو ہوجائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکاالبتہ پارٹی کے اندراختلافات مزید کھل کر سامنے آگئے۔عاطف خان اورشہریار آفریدی جیسے رہنما اس جلوس میں شریک تھے لیکن وہ کنٹینر پرنہیں آئے۔اسی طرح دیگر رہنما بھی کنٹینر پر جلوہ افروز نہیں ہوئے ۔اسلام آباد کی طرف مارچ کے دوران یہ بات واضح طورپر محسوس کی گئی کہ کارکن اپنی قیادت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔ زیادہ تر کارکنوں کو ڈر تھا کہ ماضی کی طرح ایک بارپھر مرکزی قیادت راتوں رات غائب نہ ہوجائے لیکن بشریٰ بی بی نے کارکنوں کا حوصلہ بحال کیاجس طریقے سے انہوں نے قافلے کو صوابی سے اسلام آباد تک لیڈ کیا وہ کسی گھریلوخاتون کے بس کی بات نہیں۔پشاور سے صوابی پہنچتے پہنچتے کارکنوں کی تعداد ہزاروں تک جاپہنچی۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق یہ تعداد 40 سے 50 ہزار تک ہوسکتی ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پشاور سے جو لوگ نکلے ان کی تعداد چار سے پانچ ہزار بتائی جارہی ہے لیکن چارسدہ،مردان،صوابی،سوات اور ملاکنڈ سے آنے والے قافلوں کی تعداد بہت بڑی تھی۔پشاور سے نکلتے وقت ماضی کی طرح اس بار کنٹینرز کو ہٹانے کیلئے پی ٹی آئی کے قافلے کے پاس کوئی بڑی کرین بھی نہیں تھی اس کے باوجود فقیر آباد پل کے قریب کارکن پہلی بڑی رکاوٹ عبور کرنے میں کامیاب رہے۔رات گئے کارکنوں نے پل کے نیچے رکھے گئے کنٹینرز کو ہاتھوں کے ذریعے دھکیل دیا،آنسو گیس کی شیلنگ کے باوجود یہ کافی بڑی کامیابی تھی۔ہری پور سے آنے والے قافلوں کو بھی اسی طرح ریسکیو کیاگیا۔ڈی آئی خان اور میانوالی سے بڑی تعداد میں قافلے سی پیک موٹر وے کے راستے ہکلہ کے مقام پر پہنچے ۔آنسو گیس کی شیلنگ کھاتے اور مقابلہ کرتے پہنچنے والے ان قافلوں کے ساتھ بھاری مشینری بھی تھی۔ سست روی سے بڑھتے اس قافلے کوبشریٰ بی بی لیڈ کرتی رہیں۔ اس دوران پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کے کئی دورہوئے۔ حکومت چاہتی تھی کہ پی ٹی آئی دھرنے کیلئے ڈی چوک کے بجائے کوئی اور مقام چنے،سنگجانی کی بھی آفر کی گئی لیکن بشریٰ بی بی کنٹینر پر کھڑے ہوکر باقاعدہ ڈی چوک کی جانب بڑھنے کا اعلان کرتی رہیں۔ اس احتجاجی مارچ سے ایک بات واضح ہوگئی کہ مذاکرات کی کنجی بشریٰ بی بی کے ہاتھ میں آگئی تھی اور وہ بانی پی ٹی آئی کے بعد پارٹی کے اندر سب سے طاقتور دکھائی دیں۔ ڈی چوک کے قریب پہنچنے کے بعدحالات تیزی سے تبدیل ہوئے اوراسلام آباد انتظامیہ اور وفاقی حکومت نے اس بار مظاہرین سے مختلف حکمت عملی سے نمٹا۔علی امین گنڈاپور ایک بارپھر بشریٰ بی بی کے ساتھ اسلام آباد سے جو غروب ہوئے تواگلے دن مانسہرہ میں ان کا ظہور ہوا، لیکن کارکن اسی طرح رات بھر مار کھاتے رہے یا گرفتاریاں دیتے رہے ۔مانسہرہ میں علی امین گنڈاپور نے پریس کانفرنس میں نئی حکمت عملی کا اعلان کیا۔انہوں نے اپنی مدعیت میں ایف آئی آر کاٹنے کا اعلان کیا ۔ ان کے مطابق ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو پر اسلام آباد میں قاتلانہ حملہ کیاگیا ہے اور وہ اپنی مدعیت میں اس کی ایف آئی آر کروائیں گے۔ بشریٰ بی بی کے بارے کہا جا رہا تھا کہ وہ اس پریس کانفرنس میں بیٹھیں گی لیکن وہ نظر نہیں آئیں ۔ اس سے قبل بھی علی امین گنڈاپور نے آئی جی اسلام آباد کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کا اعلان کیاتھا جس کی باقاعدہ کابینہ سے منظوری لی گئی تھی لیکن بعدازاں یہ فیصلہ واپس لے لیاگیا۔ علی امین گنڈاپور کی جانب سے زخمی اور جاں بحق ہونے والے کارکنوں کیلئے ایک ایک کروڑ روپے امداد کا بھی اعلان کیاگیا ہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ ایک سیاسی جلسے میں جاں بحق ہونے والے کارکنوں کو وہ حکومتی خزانے سے کیسے پیسے دیں گے؟ذرائع کے مطابق مانسہرہ میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں چیف سیکرٹری نے اس پر اختلاف بھی ظاہر کیاہے۔علی امین گنڈاپور اس پریس کانفرنس میں کارکنوں کو کوئی واضح حکمت عملی دینے میں بھی ناکام نظر آئے۔ ان کا محض یہ کہناتھا کہ اسلام آباد میں دھرنا جاری رہے گا اور دھرنا کارکنوں کے بغیر بھی دیاجاسکتا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں علی امین واضح طورپر پریشان اور کسی حکمت عملی سے عاری نظرآئے۔بار بار کے مظاہروں کے بعد پی ٹی آئی ایک بند گلی میں جاتی نظرآرہی ہے اور اگر صورتحال یہی رہی تو نومئی کے بعد ایک بارپھر پاکستان تحریک انصاف کیلئے واپسی کا راستہ بہت دشوار گزار ہوگا۔اس دھرنے کی ابتدائی کامیابی اور آخر میں اس طرح کی پسپائی سے بشریٰ بی بی کی سیاست میں انٹری اور مستقبل کے حوالے سے بھی سوالیہ نشان پیدا ہوگئے ہیں۔یوں لگ رہا ہے کہ پارٹی قیادت اوران کے مابین واضح طورپر ایک خلیج پیدا ہواگئی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احتجاج کا ڈرامائی ڈراپ سین

ایک ہنگامہ خیز ہفتے کے بعد تحریک انصاف کے احتجاج کا ڈرامائی ڈراپ سین ہوا اور اس میں ایک شخصیت کا کردار انتہائی اہم اور دلچسپ رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج نے کئی سوالات بھی کھڑے کر دیئے ہیں جن کے جوا ب آنا باقی ہیں۔ پی ٹی آئی کے بیانیے کو جو نقصان اس دھرنے سے پہنچا ہے ایسا اپریل 2022ء کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔

پرتشدد سیاست جمہوریت کیلئے خطرہ معاشی ترقی کا خواب حقیقت بن پائے گا؟

حکومت کے خلاف اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے پی ٹی آئی کی آخری کال فیصلہ کن تو ثابت نہ ہو سکی البتہ اسلام آباد میں پرتشدد احتجاجی عمل کے بعد اب سیاست میں مذاکرات اور ڈائیلاگ کا عمل چلتا نظر نہیں آ رہا۔

دریائے سندھ سے نئی نہروں پر تحفظات

دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کا مجوزہ منصوبہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اختلاف کا باعث بنا ہوا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت تمام رہنما اور تنظیمیں منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

مذاکرات مسائل کا حل

بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے حالات سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے ۔وجوہات بہت سی ہیں ،صوبے کے حالات کو مذاکرات سے حل کرنے کی ماضی کی حکومتوں نے کوششیں کیں لیکن یہ سب بے سود ثابت ہوئیں ۔

حکومت مخالف سیاسی قوتوں کو دھچکا

آزاد جموں وکشمیر میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو ہٹانے کے حوالے سے متحرک سیاسی قوتوں کو اس وقت دھچکا لگا جب مسلم لیگ (ن) آزاد جموںوکشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے گزشتہ ہفتہ وادی نیلم کے علاقے شاردہ میں ایک افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگلے ڈیڑھ سال کے بعد آزاد کشمیر میں انتخابات ہوں گے۔

جلد کوتروتازہ رکھئے

قانون قدرت ہے کہ ہر جاندار بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی جانب بتدریج گامزن رہتا ہے۔ جلد بھی بالکل انہی مراحل سے گزرتی ہے۔ یہ جسم کے دوسرے حصوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتی ہے۔