دریائے سندھ سے نئی نہروں پر تحفظات
دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کا مجوزہ منصوبہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اختلاف کا باعث بنا ہوا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت تمام رہنما اور تنظیمیں منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
بلاول بھٹو نے واضح کیا ہے کہ وفاقی حکومت متنازع منصوبہ شروع کرنے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے۔انہوں نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے تحفظات جائز ہیں انہیں سنا جانا چاہیے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی کہہ چکے ہیں کہ سندھ کے پانی کے حصے کا ایک قطرہ بھی کسی دوسرے کو نہیں دیں گے، جبکہ ایوانِ زراعت سندھ کے جنرل سیکرٹری زاہد بھرگڑی کا کہنا ہے کہ نئی نہریں نکالنے کے اس منصوبے سے ہماری سرسبز زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔بقول اُن کے پہلے ہی پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث اہم فصلوں کی پیداوار میں غیر معمولی کمی ہو رہی ہے۔صوبے کی دیگر مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بھی نئی نہروں کے خلاف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نئی نہریں نہ صرف سندھ بلکہ بلوچستان میں بھی زراعت کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔ وفاقی حکومت نے’’ سبز اقدامات‘‘ کے تحت نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کی شدید مخالفت کی جارہی ہے۔
اب کچھ بات کرلیتے ہیں کراچی کی جس کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، سیوریج لائنیں برباد ہیں اور رہی سہی کسر سڑکوں پر تجاوزات نے پوری کررکھی ہے۔ گزشتہ دونوں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے زیرصدارت اہم اجلاس ہوا جو شہر کے تین اہم منصوبوں کے حوالے سے تھا، یعنی کریم آباد انڈرپاس، کورنگی کاز وے اور ملیر ایکسپریس وے۔ کریم آباد انڈر پاس کی تعمیر نے تو عوام کو خون تھکوا دیا ہے، اب تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے صدیاں گزر گئیں ہوں اور منصوبہ ہے کہ مکمل ہونے کا نام بھی نہیں لے رہا۔ وزیراعلیٰ نے اب بھی منصوبے مکمل ہونے کی حتمی تاریخ مانگی ہے اور کہا ہے کہ وہ کسی قسم کی تاخیر برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے بروقت تکمیل نہ ہونے پر محکمہ بلدیات سے سوال جواب بھی کیے کہ فنڈز بروقت جاری ہوئے پھر بھی تاخیر کیوں ہوئی۔
اگر وزیراعلیٰ ساتھ ہی ذمہ دار افسران اور ٹھیکیدار کے خلاف کارروائی کی بھی ہدایت کردیتے تو شاید کچھ لوگوں کو تنبیہ ہوجاتی، ورنہ تاخیر کا یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا، ہر تاریخ کے بعد نئی تاریخ آتی رہے گی۔ میئر کراچی بھی اب منظر عام پر دوبارہ نظر آنے لگے ہیں، ان کے مطابق سڑکوں کی استر کاری جاری ہے، شہر بدل رہا ہے، تبدیلی کے مناظر عوام کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور آئندہ بھی اسی طرح جاری رہیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو ورنہ ایسا لگتا ہے کہ شہر صدیوں سے تباہی کا شکار ہے اور اس کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہے۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سینئر وزیر شرجیل میمن نے جلد ای وی ٹیکسی سکیم لانے کا اعلان کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت مسائل حل کرنے کو ترجیح دینے کے ساتھ عوام کی امیدوں پر پورا اترنا چاہئے، پیپلز پارٹی نے بس سروس کا تحفہ دیا اس میں الیکٹرانک بسیں بھی شامل ہیں، اب جلد ای وی ٹیکسی لارہے ہیں، حکومت فنڈ کرے گی، بینک کا قرض ہوگا اور ایک حصہ ٹیکسی لینے والا نوجوان ادا کرے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے خیبرپختونخوا حکومت پر بھی تنقید کی اور کہا کہ گنڈاپور حکومت احتجاج میں لگی ہوئی ہے، کرم ایجنسی میں لوگ شہید ہورہے ہیں لیکن ان لوگوں کو کوئی فکر نہیں، یہ لوگ صرف ذاتی مفاد کیلئے انتشار پھیلا رہے ہیں۔ ادھر ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر اسد اللہ بھٹو کی زیر صدارت ادارہ نور حق میں صوبائی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں ضلع کرم کی صورتحال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فسادات کو گہری اور منظم سازش قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ ملک دشمن سرگرم ہیں، عوام کو تقسیم اور ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، عوام کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے علمائے کرام پر زور دیا گیا کہ وہ جمعہ کے خطبات میں آواز بلند کریں۔
کراچی میں سٹریٹ کرائمز کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر نے وارداتوں میں اضافے اور لوٹ مار کے دوران جانی نقصان پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ دوبارہ شروع ہوچکی ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما نے صوبائی وزیر داخلہ سے سوال کیا کہ آخر جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑا کیوں نہیں جارہا۔ ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کب شروع ہوگی۔آئی جی سندھ بھی جرائم کے خلاف اپنی سی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور انہوں نے اعلان کیا ہے کہ چار ہزار عادی ملزمان کی نگرانی کا آغاز ہوگا اور انہیں الیکٹرانک ٹیگنگ ڈیوائسز لگائی جائیں گی۔ عادی ملزمان اور ان کی نگرانی کا تعین عدالت کرے گی۔ آلات کی خریداری کے لیے اشتہار بھی جاری ہوچکا ہے، سندھ پولیس کا یہ اقدام اچھی بات ہے، اس سے عادی ملزموں کو لگام ڈالی جاسکے گی اور قانون کی حکمرانی میں مدد ملے گی۔صوبائی حکومت ٹیکس جمع کرنے میں بھی سنجیدہ نظر آرہی ہے۔ ایف آئی اے نے صوبے کی 31شوگر ملوں میں ٹیمیں تعینات کردی ہیںتاکہ کرشنگ سیزن میں چینی کی تیاری کی نگرانی کی جاسکے۔ اس کام میں ایف بی آر بھی اپنا کردار ادا کرے گی۔