مذاکرات مسائل کا حل
بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے حالات سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے ۔وجوہات بہت سی ہیں ،صوبے کے حالات کو مذاکرات سے حل کرنے کی ماضی کی حکومتوں نے کوششیں کیں لیکن یہ سب بے سود ثابت ہوئیں ۔
موجودہ دور حکومت میں بدامنی کے واقعات میں شدت نے حکومت اور اداروں کو ایک بار پھر بلوچستان میں بھرپور ’آپریشن ‘ کا جواز دے دیا ہے۔ دوسری جانب کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ طاقت سے مسائل مزید گمبھیر ہوجائیں گے ،دانشمندی کا تقاضایہی ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت مل کر بلوچستان کے معاملے پرغور کرے اور ان سیاسی لوگوں سے مذکرات کرے جو پارلیمنٹ میں یا پارلیمنٹ سے باہرہیں۔ حکومت اس میں پہل کرے اورحقیقی مسائل جن میں لاپتہ افراد کا معاملہ بھی شامل ہے، کے حل اور حقیقت پسندانہ مؤقف کو سامنے لایا جائے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق طاقت سے مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا کہ بلوچستان میں گزشتہ چھ آپریشنز کے دوران چند مخصوص علاقوں میں وقتی طور پر امن قائم ہوا لیکن بد امنی کے اثرات آہستہ آہستہ دیگر علاقوں تک جاپہنچے اور آج حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ بلوچ علاقوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں بھی علیحدگی پسندوں کی کارروئیاں بڑھ گئی ہیں اور بعض حلقوں کا تو یہ بھی کہنا ہے مکران سمیت دیگر علاقوں میں علیحدگی پسندوں کو کچھ عوامی حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہوتی جارہی ہے ۔اس کاادراک سیکورٹی اداروں کو بھی ہوچکا ہے کہ مکران سمیت کسی بھی علاقے میں واقعہ کے بعد شدت پسندوں کا آبادی والے علاقوں میں غائب ہوجانا معمول بنتا جارہا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لینا چاہیے کہ بلوچستان کے حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں ۔سنجیدہ حلقوں کی رائے ہے کہ بلوچستان کے حالات کو ٹھیک کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ صوبے میں آپریشن ہونا چاہیے لیکن وہ کرپشن ،بے روزگاری ،اقرباپروری، ناانصافیوں ،کاغذی ترقی ، فنڈزکی بے دریغ بندر بانٹ اور ان لوگوں کا احتساب ہو جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے صوبے وسائل کو لوٹا ۔بیڈ گورننس ہمیشہ سے صوبے کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ رہی ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق وفاق اور صوبے میں قائم ہونے والی بعض حکومتوں نے تاریخ سے سبق سیکھنے کی بجائے لوگوں کو مزید احساسِ محرومی کی دلدل میں دھکیلا۔اگرچہ وزیر اعلیٰ بلو چستان میر سر فراز بگٹی ہر پلیٹ فارم پر حکومت اور اداروں کا دفاع کر تے دکھائی دیتے ہیں وہیں وہ حالات کو بہتر کرنے ، نوجوانوں کو روزگار دینے اور مسائل کو مذکرات سے حل کرنے کے متعدد بار اعلانات کرچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مذکرات کس سے کریں؟ صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث لوگوں سے تو کسی صورت مذکرات نہیں ہو سکتے۔ 14 ویں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے شرکا سے خطاب کر تے ہوئے وزیر اعلی بلوچستان کاکہنا تھا کہ بلوچستان سے متعلق تاریخی حقائق سے آگاہی ضروری ہے۔ بلوچستان کو تین حوالوں سے عدم استحکام کی جانب دھکیلا جاررہا ہے ،تشدد کے ذریعے بے گناہ افراد کا قتل کرکے بے چینی پھیلائی جارہی ہے، کسی پنجابی ، سندھی ، سرائیکی یا کسی اور نے بلوچستان کو پسماندہ نہیں رکھا، اس میں اپنے لوگوں کا ہاتھ ہے ۔بلوچستان میں ریاست اور نوجوانوں کے درمیان خلیج کم کرنے کیلئے ترجیح بنیادوں پراقدامات اٹھائے جارہے اوربلوچستان میں گورننس کی بہتری کیلئے کام کر رہے ہیں۔
بلوچستان کی سیاست رواں برس اپریل کے مہینے میں کابینہ کی تشکیل کے بعد تھوڑی سست ہوگئی تھی مگر ان دنوں چند گردش کرتی خبروں نے سیاست میں تیزی پیدا کردی ہے۔ سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا میں باز گشت ہے کہ وزیر اعلیٰ بلو چستان تبدیل ہونے جارہے ہیں۔ ان خبروں کے حوالے سے وزیر اعلیٰ بلو چستان کہتے ہیں کہ تبدیلی کی باتوں پر تبصرہ نہیں کروں گا نہ ایسی کوئی چیز میرے علم میں ہے۔بقول ان کے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) سمیت بلوچستان میں اتحادیوں نے انہیں اعتماد کا ووٹ دیا ہے اور ان کے خلاف کسی نے کاغذات جمع نہیں کروائے تھے۔ جب تک موقع ہے صوبے کی خدمت کروں گا۔بلوچستان میں بڑھتی دہشت گردی، امن و امان کی خراب صورتحال اور عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکامی نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھا دئے ہیں۔ جمعیت علمااسلام بلوچستان کے صوبائی امیر سینیٹر مولانا عبدالواسع کے حالیہ بیان میں ان مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مولانا عبدا لواسع کہتے ہیں کہ امن وامان کی ابتر صورتحال نہ صرف عوام کیلئے تشویش کا باعث ہے بلکہ حکومتی نااہلی کا بھی مظہر ہے۔بقول ان کے اربوں روپے کے بجٹ کے باوجود امن و امان کی صورتحال خراب تر ہوتی جا رہی ہے ۔یہ سوال اٹھانا بجا ہے کہ آخر اتنی بڑی رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے اور اس کے باوجود عوام خود کو غیر محفوظ کیوں محسوس کر رہے ہیں؟بلوچستان کے حالات ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن چکے ہیں جہاں حکومت نے فوجی آپریشن کے ذریعے امن قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے مگر صوبے کی قوم نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل میر کبیر احمد محمدشہی نے اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے مطابق طاقت کے استعمال سے بلوچستان میں موجود سیاسی اور سماجی مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوا ہے۔
دوسری جانب کوئٹہ سے دس سالہ مصور خان کے اغوا کا واقعہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کو بے نقاب کررہا ہے۔ لواحقین کا 12 روز سے جاری احتجاج،شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال نہ صرف عوام کی بے بسی بلکہ حکومت کی بے حسی کی واضح مثال ہے۔ اس سنگین واقعے نے پورے شہر کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔اس واقعے پر مختلف سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں، تاجروں اور وکلاکی جانب سے مظاہروں میں شرکت ایک مثبت پہلو ہے۔ مصور خان کا اغوا اور اس کے نتیجے میں ہونے والا عوامی احتجاج حکومت اور ریاستی اداروں کیلئے ایک آئینہ ہے۔ اگر اب بھی حکومت نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی تو یہ بحران نہ صرف عوامی اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچائے گا بلکہ پورے نظام کو ایک گہرے بحران میں دھکیل دے گا۔وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ دس سالہ بچے کے اغواپر افسوس ہوا، کوئی حکومت نہیں چاہے گی کہ بچے اغوا ہو ں، ہماری جتنی بھی استعداد کار ہے اسے بروئے کار لا رہے ہیں ۔بلوچستان میں دہشت گردی پھیلانے والوں اور صوبے میں دہشت گردوں کے کیمپس موجود ہیں جن کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن ہوگا ۔آپریشن کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں کے پاس اگر دہشت گردوں، بچوں کو اغواکرنے والوں ، بلوچوں ، پنجابیوں اور سیکورٹی فورسز کو مارنے والوں کے خلاف کوئی حل موجود ہے تو بتائیں ہم اس پر عمل کرنے کیلئے تیار ہیں۔