پرتشدد سیاست جمہوریت کیلئے خطرہ معاشی ترقی کا خواب حقیقت بن پائے گا؟
حکومت کے خلاف اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے پی ٹی آئی کی آخری کال فیصلہ کن تو ثابت نہ ہو سکی البتہ اسلام آباد میں پرتشدد احتجاجی عمل کے بعد اب سیاست میں مذاکرات اور ڈائیلاگ کا عمل چلتا نظر نہیں آ رہا۔
تنائو اور ٹکرائو کی اس کیفیت کا کسی حکومت یا جماعت کو فائدہ ہو نہ ہو البتہ اس کا نقصان ملک و قوم اور خصوصاً معاشی بحالی اور ترقی کے عمل کو ضرور ہوگا جس کے حوالے سے یہ امید تھی کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والے پروگرام اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری سے ملک آگے بڑھے گا۔ بظاہر تحریک انصاف نے اسلام آباد میں جاری اپنے احتجاج کی منسوخی کا اعلان کر دیا ہے اور اسلام آباد میں احتجاجی مارچ میں طاقت اور قوت کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے جلد نئے لائحہ عمل کے اعلان کا کہاہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اب جمہوری و سیاسی عمل کا حصہ بن کر آگے بڑھنے کی بجائے جارحانہ عزائم کے تابع حکمت عملی پر کاربند ہے۔ کیا یہ تحریک انصاف کے اپنے مستقل کے حوالے سے درست ہوگا؟سیاسی جماعتیں اپنے احتجاج اور مزاحمتی عمل کو آئین اور قانون کے تابع رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ایک عرصہ سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ایک طرف جہاں حکومت اس احتجاجی اور مزاحمتی عمل کا مقابلہ سیاسی حکمت عملی سے کرنے کی بجائے انتظامی اقدامات پر کاربند ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی اور اس کی لیڈر شپ بھی احتجاجی روش سے باہر آنے کو تیار نہیں ۔ ان کے ذمہ داران کی جانب سے احتجاجی عمل میں مرنے مارنے کی باتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیاہے اور پختونخوا حکومت کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام آباد پر چڑھائی کی گئی ہے۔ کوئی محب وطن بھی اس کی تائید نہیں کر سکتا۔ حکومت نے کوشش کی کہ اس احتجاجی عمل کو سنگجانی کے مقام پر روک دیا جائے۔اس حوالے سے پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی حکومتی ذمہ داران سے مذاکرات کی خبریں بھی آئیں لیکن جیل میں بیٹھی لیڈر شپ اور ان کی خاص ہدایت پر احتجاجی عمل کو منظم کرنے کیلئے بشریٰ بی بی کو دی جانے والی ذمہ داری کے بعد انہوں نے احتجاج کو ڈی چوک پر ہی منظم کرنے کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے ایک بات اہم ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں آنے والا مارچ تمام تر رکاوٹیں عبورکرتا ہوا ڈی چوک پہنچ گیا؟احتجاجی مارچ ڈی چوک پہنچا اور یہاں احتجاج کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا مگر حکومتی آپریشن کے نتیجہ میں علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ حکومت ہی بہتر بتا سکتی ہے البتہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات واضح نظر آ رہی ہے کہ تنائو اور ٹکرائو کا یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں اور پی ٹی آئی کو اس جارحانہ سیاست اور احتجاجی عمل کو کسی نہ کسی کی آشیر باد قرار دیا جاتا ہے ۔ یہی تائید و حمایت اسے پسپائی اختیار نہیں کرنے دے رہی۔ اب پھر سے بانی پی ٹی آئی کے بیانات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں کہ جو کرنا ہے کر لو مطالبات کی منظوری تک پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔وہ اپنے احتجاجی کارکنوں اور ذمہ داران کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ڈٹے رہنے کی ہدایات جاری کرتے نظر آ رہے ہیں اور واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اس صورتحال کے اثرات پاکستان کی سیاست پر ہوں یا نہ ہوں ملک اور اس کی معیشت پر ضرور نظر آ رہے ہیں ۔ یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اس صورتحال میں معاشی بحالی اور ترقی کا خواب حقیقت بن سکے گا؟ فی الحال اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اب بھی پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کی نئی کال متوقع ہے جو کسی طور بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہوگی، لہٰذا اس امر کا جائزہ ضروری ہے کہ آخر نوبت یہاں تک کیونکر پہنچی اور کیا وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں، قیادتیں اور حکومتیں مذاکراتی عمل سے دور ہیں؟ ماضی میں سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈیڈ لاک کی کیفیت کے خاتمہ کیلئے ریاست کے ادارے کردار ادا کرتے تھے اور انہیں مل بیٹھنے کی ترغیب دیتے تھے لیکن اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ڈیڈلاک ٹوٹتا نظر نہیں آ رہا۔ سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ سے نکل سکتا ہے مگر پارلیمنٹ بھی اس صورتحال میں فعال کردار ادا نہیں کر رہی ۔ مگر جب سیاست پر تشدد حاوی ہو جائے تو یہ جمہوریت اور سیاست کے مسائل کے حوالے سے خوش آئند نہیں ہوتا۔ ایک طرف حکومت کی جانب سے اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے انحراف برتا جا رہا ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کی قیادت انتہا پسندوں کے پاس منتقل ہو چکی ہے خصوصاً بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی سیاسی میدان میں طوفان برپا کرکے اپنی لیڈر شپ منوانے کے چکر میں ہیں اور وہ کارکنوں کو آگے بڑھنے اور حکومت پر چڑھ دوڑنے کے احکامات دیتی دکھائی دے رہی ہیں۔اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ ایک دوسرے کو گرانا ہے یا سسٹم کو آگے چلانا ہے۔ یہ طے ہے کہ حکومت کو احتجاجی کالوں سے گرایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی سیاسی قوتوں کے کردار کو طاقت اور قوت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی بحرانوں اور احتجاجی طوفانوں کا حل ڈائیلاگ سے ہی نکالا جا سکتا ہے، لہٰذا فریقین کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے اور مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالنا چاہئے۔ ایک وقت تک ان قوتوں کے پاس فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے لیکن اگر اس کا فائدہ نہ اٹھایا جائے تو پھر وقت ان کے ہاتھ میں نہیں رہتا۔ پاکستان ایک ذمہ دار نیو کلیئر طاقت ہے یہاں تنائو ٹکرائو کا عمل دشمن کا ایجنڈا تو ہو سکتا ہے کوئی محب وطن جماعت اور قیادت اسے غیر مستحکم ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔ کسی صوبہ کی مرکز کے خلاف چڑھائی وفاق کے حوالے سے اچھی نہیں۔ حکومتی وسائل عوام کی خدمت کیلئے ہوتے ہیں نہ کہ احتجاجی مارچ کیلئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک صوبہ اور اس کے وزیرعلیٰ اسلام آباد پر چڑھائی کے اعلانات کرتے نظر آ رہے ہیں ؟ کوئی قومی جماعت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی اور ویسے بھی حالیہ احتجاجی عمل میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ احتجاج کی یہ لہر ملک گیر نہیں تھی، صر ف خیبر پختونخوا تک تھی۔ کسی حد تک پنجاب سے بھی مظاہرین نکلے لیکن پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے نمائندگی کو صرف علامتی قرار دیا جا سکتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں مذکورہ روش کی بڑی وجہ پی ٹی آئی سے زیادہ وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے ۔ جب حکومت اور حکومتی وسائل کا استعمال احتجاج کیلئے ہونے لگے اور صوبائی حکومت پر احتجاج سوار ہو تو اس کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ اس حوالے سے سوچنا خود پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے۔