عہد کی پابندی دینداری کی علامت

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ بہت کم ایسا ہوا کہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں خطبہ دیا اور یہ ارشاد نہ فرمایا ہو کہ جس میںامانت نہیں اس کا ایمان (کامل) نہیں اور جس میں عہد( کی پابندی) نہیں اس کا دین (کامل) نہیں‘‘ (البیہقی فی شعب الایمان)۔ اللہ تعالیٰ نے جس دین کامل کو رسول اللہ ﷺ کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا اس میں ایمان کے بعد جن باتوں پر بہت زیادہ تاکید بیان کی گئی وہ اچھے اخلاق اختیار کرنا اور برے اخلاق سے حفاظت کرنا ہے۔

انسان کی زندگی میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوشگواری سے گزرے گی اور دوسروں کیلئے بھی اس کا وجود رحمت اور چین کا باعث ہو گا اور اگر انسان کے اخلاق برے ہوں تو وہ خود بھی زندگی کے لطف و مسرت سے محروم رہے گا۔ جن لوگوں سے اس کا واسطہ اور تعلق ہو گا ان کی زندگیاں بھی بدمزہ اور تلخ ہوں گی۔ 

یہ تو خوش اخلاقی اور بداخلاقی کے دنیا کی زندگی میں ظاہر ہونے والے نتائج ہیں جن کا ہر انسان اپنی روز مرہ زندگی میں مشاہدہ کر رہا ہے لیکن مرنے کے بعد آنے والی ابدی زندگی میں اچھے اور برے اخلاق کے اور زیادہ اہم نتائج نکلنے والے ہیں۔خوش اخلاقی کا نتیجہ ارحم الراحمین کی رضا اور جنت ہے اور بداخلاقی کا انجام خداوند قہار کا غضب اور جہنم کی آگ ہے۔ان ہی اخلاقی خوبیوں میں سے ایک خوبی عہد کی پابندی ہے۔ جس کے بارے میں سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 34 میں فرمایا : ’’اور تم عہد کو پورا کیا کرو بیشک عہد کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا‘‘۔

اس بارے میں تین الفاظ بولے جاتے ہیں وعدہ، عہد اور معاہدہ۔وعدہ اور عہد دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں۔دونوں کے معنی تقریباً ایک جیسے ہیں یعنی قول و قرار کسی بات کو پختہ کر کے طے کر لینا ۔ اردو زبان میں ان دونوں لفظوں کے استعمال میں کبھی فرق بھی کر لیا جاتا ہے ۔اگر کسی بات کو عام انداز میں ذکر کر دیا جائے تو وعدہ کرنا کہتے ہیں اور بہت ہی پختہ کر دیا جائے تو عہد کہتے ہیں اور جب دو انسانوں یا دو قوموں کے درمیان کوئی بات طے ہو جائے تو اسے معاہدہ کہتے ہیں۔ کبھی یہ فرق بھی کیا جاتا ہے کہ اگر ایک شخص یکطرفہ قول و قرار کر لے تو اسے وعدہ کہتے ہیں اور دو طرف سے قول و قرار ہو تو اسے عہد کہتے ہیں۔ عہد دو طرح کے ہیں ایک وہ جو بندے اور اللہ کے درمیان ہو۔ جیسے ازل میں بندے کا یہ عہد کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے۔

 یہ عہد تو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر انسان نے ازل میں کیا ہے پھر دنیا میں وجود میں آنے کے بعد مومن کا عہد جو اس نے کلمہ شہادت کے اقرار کے ذریعے کیا ہے، اس معاہدہ پر عمل کرنا بہر صورت واجب ہے۔ دوسری قسم عہد کی وہ ہے جو ایک انسان دوسرے انسان سے کرتا ہے اس میں تمام تجارتی معاہدات، سیاسی معاہدے اور دوسرے تمام معاہدوں کی صورتیں شامل ہیں۔  اس قسم کے تمام عہد اگر ان میں اسلامی تعلیمات یعنی احکام شرعیہ کے  خلاف کوئی بات نہ ہو تو ان کا پورا کرنا بھی واجب ہوتا ہے۔ اگر اس عہد میں کوئی خلاف شرع بات ہو یا غیر شرعی کام کا عہد کیا ہو تو دوسرے فریق کو اطلاع کر کے اس معاہدہ کو ختم کر دینا واجب ہے۔

 کوئی سے دو فریق کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا معاہدہ کر لیں پھر ایک فریق معاہدہ پر عمل نہ کرے تو عدالت میں دعویٰ دائر کر کے معاہدہ پر عمل کرایا جا سکتا ہے۔اگر کوئی شخص کسی سے یکطرفہ وعدہ کر لیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا یا فلاں وقت آپ سے ملوں گا یا آپ کا فلاں کام کر دوں گا۔ اس کا پورا کرنا بھی انسان کے ذمہ واجب ہوتا ہے بسااوقات وعدہ کو بھی عہد کے مفہوم میں داخل سمجھا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ فرق موجود رہے گا کہ اگر یکطرفہ وعدہ یا عہد ہو تو اسے عدالت کے ذریعہ جبراً پورا نہیں کروایا جا سکتا جبکہ دو طرفہ معاہدہ میں عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے،یکطرفہ عہد یا وعدہ کی پابندی بھی شرعاً لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص بلا عذر شرعی عہد کی پابندی نہ کرے وہ شرعی طور پر گنہگار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہو گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے ،ترجمہ’’ اور تم عہد کو پورا کرو بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔‘‘ سورۃ المومن کے آغاز میں مومنین کی فلاح و کامیابی کے جو اصول بیان فرمائے ان میں ایک اصول آیت نمبر8میں فرما یا ،ترجمہ’’اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔

 رسول اکرم ﷺ خود اپنی زندگی میں عہد کی پابندی کس قدرفرماتے تھے اس کا اندازہ ابو داؤد کی اس روایت سے ہوتا ہے جس کے راوی عبداللہ بن ابی الحمساء ہیں کہتے ہیں کہ اس دور کی بات ہے جب رسول اکرم ﷺنے نبوت کا اعلان نہیں فرمایا تھا،میں نے آپ ﷺسے خرید و  فروخت کا ایک معاملہ کیاجو کچھ میں نے دینا تھا اس کا کچھ حصہ میں نے دے دیا اور کچھ اداکرنا باقی رہ گیا تو میں نے آپﷺ سے وعدہ کیا کہ میں باقی حصہ ابھی اسی جگہ لے کر آتا ہوں پھر میں بھول گیا اور 3 دن بعد مجھے یاد آیامیں اسی وقت وہ لے کر وہاں پہنچا۔ عبداللہ بن ابی الحمساء کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺاسی جگہ موجود ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا’’تم نے مجھے بڑی مشکل اور مشقت میں ڈالا میں تمہارے انتظار میں3 دن سے یہاں ہوں‘‘۔عہد کی پابندی کا یہ اعلیٰ ترین معیار ہے جو اعلان نبوت سے قبل رسول اللہ ﷺ نے پیش فرمایا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم:چیمپئنز ٹرافی:معاملہ لٹک گیا

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی2025ءکا ایونٹ جو 19 فروری سے 9 مارچ تک پاکستان میں شیڈول ہے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان میزبانی کے اپنے اصولی موقف پر سختی سے ڈٹا ہوا ہے، جس کے بعد بھارت نے مزید وقت مانگ لیا ہے۔ اسی لئے گزشتہ روز ہونے والا آئی سی سی کا اجلاس بھی نہ ہو سکا اور ذرائع کے مطابق اب یہ اجلاس اگلے 48 گھنٹوں میں ہونے کا امکان ہے۔

فیڈرل ویمنز باسکٹ بال ٹورنامنٹ

پاکستان میں باسکٹ بال کا کھیل روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل نہ صرف قومی اور صوبائی سطح پر باسکٹ بال کے متواتر ٹورنامنٹس اور دیگر مقابلے ہو رہے ہیں بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھی اس کھیل کے ایونٹس کا انعقاد ہو رہا ہے۔

دوستی ہو تو ایسی

کامران اور عمر کی دوستی پوری کالونی میں مشہور تھی۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ سب کامران کو پیار سے کامی کہتے تھے۔ ایک دفعہ عمر، ٹیچر سے پانی پینے کا پوچھ کر گیا لیکن پھر اس کی واپسی نہیں ہوئی۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، کامی پریشان ہو رہا تھا۔ چھٹی کے وقت کامی، عمر کے گھر گیا اور کہا ’’ آنٹی! عمر، ٹیچر سے پانی کا پوچھ کر گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا، کیا وہ گھر آ گیا ہے؟‘‘۔ اس بات سے عمر کے گھر والے پریشان ہو گئے۔

کریلا

کریلا میرا نام بچو! کریلا میرا نام سبزی میں ہے خاص مقامگہرا ہرا ہوں میں خوش رنگ

میری پہلی سیر

میرے پیارے پیارے بھائیوں اور بہنوں اور روزنامہ دنیا کے بچوں کے صفحہ ’’پھولوں کی دُنیا‘‘ کے باقاعدہ مطالعہ کرنے والے ساتھیو! میرا نام محمد بن ڈاکٹر نوید انجم جٹ ہے۔ اس وقت میں چار برس کا ہوں۔ میں نے چند ماہ قبل اپنی والدہ ڈاکٹر اسماء سلیم پی ایچ ڈی سے پہاڑی علاقہ جات دیکھنے کی فرمائش کی جو چھٹیوں پر تھیںاور انہوں نے صوبہ کے پی کے شہر مردان کی یونیورسٹی میں ملازمت کیلئے درخواست دے رکھی تھی۔ مردان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے انہیں انٹرویو کی کال دی تو مجھے لگا کہ اب میری خواہش پوری ہونے والی ہے جس پر خوشی کی انتہا نہ رہی۔

سنہرے موتی

٭… اس دنیا میں اتنی بلند دیواروں والے محلوں میں نہ رہو کہ جس میں تمہاری آواز گھٹ جائے۔ ٭… آنکھیں بولتی ہیں اور ان کی زبان صرف آنکھ ہی جان سکتی ہے۔