دوستی ہو تو ایسی
کامران اور عمر کی دوستی پوری کالونی میں مشہور تھی۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ سب کامران کو پیار سے کامی کہتے تھے۔ ایک دفعہ عمر، ٹیچر سے پانی پینے کا پوچھ کر گیا لیکن پھر اس کی واپسی نہیں ہوئی۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، کامی پریشان ہو رہا تھا۔ چھٹی کے وقت کامی، عمر کے گھر گیا اور کہا ’’ آنٹی! عمر، ٹیچر سے پانی کا پوچھ کر گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا، کیا وہ گھر آ گیا ہے؟‘‘۔ اس بات سے عمر کے گھر والے پریشان ہو گئے۔
اب کامی کو ایک جوگی کی باتیں یاد آنے لگیں، ایک دن جوگی نے کہا تھا ’’ اب میں بوڑھا ہونے والا ہوں، کاش کوئی میرا بیٹا ہوتا، اس کو میں تمام نسخے بتاتا اور وہ خوب دولت کماتا‘‘۔ اتنا کہہ کر جوگی نے چمکدار نظروں سے عمر کی طرف دیکھا تھا۔ اس پر عمر نے جوگی سے کہا تھا کہ ’’آپ سمجھیں میں آپ کا بیٹا ہوں، مجھے تمام نسخے بتائیں ‘‘۔یہ تمام باتیں کامی نے عمر کے والد کو بتا دیں اور کہا ’’ ہو نہ ہو، یہ جوگی کی کارستانی معلوم ہوتی ہے‘‘۔ اب ہر کوئی جو گی کی تلاش میں نکل گیا۔
کامران چلتے چلتے جنگل پہنچ گیا۔ شام کے سائے بڑھ رہے تھے اور کامی لگاتار چل رہا تھا۔ وہ واپس مڑنے ہی والا تھا کہ اسے زمین پر گری ہوئی کاپی نظر آئی، کاپی اٹھائی تو وہ عمر کی تھی۔ کامی کو سراغ مل چکا تھا، اب وہ واپس نہیں جا سکتا تھا۔ کامی ایک سمت چلتا چلا گیا۔ رات ہو گئی تھی، اب اسے ڈر لگ رہا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہاں بدروحیں رہتی ہیں، جو لوگ بھی جنگل میں گئے، وہ واپس زخمی ہو کر آئے۔
ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ اسے دور آگ کا شعلہ نظر آیا۔ کامی نے سوچا، ضرور کوئی انسان وہاں ہے اور یہی وقت ہے اپنے دوست کی مدد کرنے کا، ہو سکتا ہے جوگی صبح عمر کو کہیں اور لے جائے۔ کامی آہستہ آہستہ بغیر آواز پیدا کئے بڑھتا رہا۔ تقریباً آدھا گھنٹے چلنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ آگ کے قریب آ گیا ہے۔ وہ رک گیا، اس کا سانس پھول چکا تھا۔اس نے آگ سے پرے نظر ڈالی تو اسے ایک جھونپڑی نظر آ ئی۔ کامی جلدی سے آگے بڑھا اور دوسرے درخت کے تنے کی طرف گیا پھر رک گیا۔ وہ آگ کے قریب ہو گیا اور دیکھا کہ ایک پتھروں کا چولہا بنا ہوا ہے، آگ پر کوئی برتن رکھا ہوا ہے، جس میں کچھ پک رہا ہے ۔
وہ بار بار جھونپڑی کی گھور رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ جھونپڑی میں کوئی ہے۔اچانک جھونپڑی سے کوئی باہر نکلا، یہ وہی جوگی تھا، جو سکول کے باہر بیٹھ کر بچوں کو کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ جوگی برتن پر جھکا کچھ دیکھتا رہا، پھر جھونپڑی میں چلا گیا۔
جھونپڑی کی پشت پر ایک درخت تھا، کامی آہستہ آہستہ اس درخت کے پیچھے چھپ گیا، اب اسے جھونپڑی ہی نہیں بلکہ اندر کا بھی سب کچھ نظر آ رہا تھا۔ ایک طرف سے پردہ ہٹا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ عمر رسیوں سے بندھا ہوا ہے۔ اس کا دل چاہا کہ بھاگ کر عمر کی رسیاں کھول دے مگر احتیاط لازم تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے دوست کو چھڑاتے چھڑاتے خود بھی پھنس جائے۔ جوگی پھر اندر آیا اور بندھے ہوئے عمر سے مخاطب ہو کر بولا ’’ برخوردار! بس پانچ منٹ ٹھہر جائو، دوا تیار ہو رہی ہے۔ جب تمہیں پلائوں گا تو تم اپنی یادداشت بھول جائو گے، بس تمہیں یہی یاد ہو گا کہ تم میرے بیٹے ہو‘‘۔
عمر بولا’’ تت… تت، تم… تم ایسا نہیں کر سکتے، مجھے چھوڑ دو‘‘۔ جوگی غصے سے بولا ’’ تم ہی نے تو مجھے کہا تھا کہ مجھے اپنا بیٹا سمجھو اور تمام نسخے مجھے دے دو‘‘۔
عمر بولا ’’ میں نے تو تمہیں انسانی ہمدردی کیلئے کہا تھا۔ لعنت بھیجتا ہوں میں ایسی دولت پر، تمہیں احساس نہیں کہ میرے گھر والوں پر کیا بیت رہی ہوگی‘‘۔
جوگی بولا’’ مجھے دوسروں سے کیا لینا دینا، مجھے تو تمہاری ضرورت ہے۔ اگر میں کامیاب ہو گیا تو تمہیں میں بہت دور لے جائوں گا، جہاں ہمارا ڈیرا ہوگا، بے وقوف لڑکے یہاں تمہاری چیخ و پکار کوئی نہیں سنے گا۔ میں تمہیں جب وہ دوا پلائوں گا تو تمہیں اپنے آپ کا بھی ہوش نہیں رہے گا اور جو کچھ میں کہوں گا، وہی تم کرو گے‘‘۔
’’ تم پاگل ہو‘‘ ایک دم عمر پوری قوت سے چیخا۔
’’ بس دو منٹ ٹھہرو‘‘۔ یہ کہہ کر جوگی جھونپڑی سے باہر نکل گیا۔ کامی نے سوچا کہ یہی وہ وقت ہے اپنے دوست کو چھڑانے کا۔ وہ یہ سوچ کر دھڑکتے دل کے ساتھ جھونپڑی میں داخل ہوا۔ جب عمر نے کامی کو دیکھا تو کامی نے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور سرگوشیانہ انداز میں بولا ’’ شاید میں تمہیں جلدی کھول نہ سکوں لیکن تم فکر نہ کرو، میں تمہیں دوائی پلانے نہیں دوں گا‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا اور پھر درخت کے عقب میں چھپ گیا۔ اس نے قریب پڑا ہوا ایک پتھر پکڑ لیا تاکہ برتن پردے مارے لیکن جوگی جھونپڑی میں واپس نہ آیا۔
کامی دبے پائوں آہستہ آہستہ چولہے کی طرف بڑھا۔ جوگی سیاہ چیز کو برتن میں انڈیل رہا تھا۔ کامی پیٹ کے بل لیٹا رہا، اس کی نظریں جوگی پر مرکوز تھیں۔ اچانک جوگی نے دوائی چکھی اور مطمئن انداز میں سر ہلانے لگا۔
’’ظالم انسان!‘‘ کامی بڑ بڑایا اور یہی بڑ بڑاہٹ اسے لے ڈوبی، جوگی ایک دم ہوشیار ہوگیا، جیسے اسے احساس ہو کہ اس کے نزدیک کوئی دوسرا بھی موجود ہے۔ وہ چوکنا ہو گیا۔ کامی کا دل دھڑکنے لگا۔ جوگی وہاں بیٹھا چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ سیدھا جھونپڑی کی طرف چلا گیا۔ مٹی کا برتن جس میں دوا تھی، وہیں پڑا ہوا تھا۔ کامی کا دل چاہا کہ نشانہ لے کر اسے توڑ دے۔ اسے خطرہ تھا کہ اگر نشانہ ٹھیک نہ لگا تو کھٹکا ضرور ہوگا۔ پھر جیسے ہی اس نے پتھر نشانے کیلئے اوپر اٹھایا اور خود بھی سیدھا ہوا تو جوگی جھونپڑے سے نکل کر چولہے کی طرف بڑھنے لگا۔
وہ اب بھی چوکنا تھا۔ کامی دھڑام سے زمین پر گرا اور آواز سناٹے میں ابھری۔ جوگی ایک دم اچھل پڑا۔ اب کامی کا بچنا مشکل تھا لہٰذا وہ پتھر کو لئے ایک دم کھڑا ہو گیا۔ کامی نے ایک دم وہ پتھر جوگی کو مارا۔ جوگی جو پہلے ہی تیار تھا، ایک طرف ہو گیا۔ کامی نے دوڑ لگا دی، جوگی بھی اس کے پیچھے تھا۔
کامی نے جھک کر پتھر اٹھایا اور پوری طاقت سے جوگی کو مارا لیکن خوش قسمتی سے وہ ایک بار پھر بچ گیا۔ جوگی نے دوڑنا بند کردیا۔ کامی بھی رک گیا۔
جوگی واپس پلٹا اور آہستہ آہستہ جھونپڑی کی طرف جانے لگا۔ اچانک جوگی نے اس پر پتھر دے مارا۔کامی ہوشیار کھڑا تھا، وہ جھکا اور جھکنے کے بعد تیزی سے کھڑا ہوا اور پھر پوری طاقت سے جوگی کو پتھر دے مارا۔ پتھر جوگی کی ناک پر لگا اور پھر دوسرا پتھر اس کے سر پر لگا ، جوگی زمین پر گرا اور اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔
کامی نے عمر کو ساتھ لیا اور جاتے ہوئے اس نے سیاہ مادہ زمین پر گرا دیا۔ دونوں جنگل میں بھوکے پیاسے بھٹکتے رہے اور جنگل بھی خوفناک تھا۔ آخر صبح ہونے کے بعد وہ جنگل سے نکل چکے تھے۔
کامی اپنے دوست سے محبت نہ رکھتا اور اتنا بڑا خطرہ مول نہ لیتا تو شاید اس کا دوست جوگی کا بیٹا بن کر رہ چکا تھا لیکن کامی کی جرات نے اپنے دوست کو موت کے منہ سے نکال لیا۔