مدارس بل،جے یو آئی پسپائی کیلئے کیوں تیار نہیں؟
حکومت کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود جمعیت علماء اسلام اور اس کے لیڈر مولانا فضل الرحمن مدارس کے حوالے سے منظور شدہ بل میں تبدیلی کیلئے مطمئن نہیں، اور موجودہ صورتحال میں یہ ایک بڑا ایشوبن چکا ہے۔
رواں ہفتہ وزیراعظم شہبازشریف نے اہم قومی اور سیاسی ایشوز پر گفتگو کیلئے اپنی جماعت کے لیڈر اور سابق وزیراعظم نوازشریف سے جاتی عمرہ میں ملاقات کی اور انہیں مدارس بل سمیت مختلف ایشوز پر اعتماد میں لیا اور انہیں بتایا کہ مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کرکے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ مدارس کے حوالے سے بل میں سقم دور کرکے اسے منظور کرایا جائے گا۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ ملاقات میں نوازشریف نے وزیراعظم شہبازشریف کو ہدایت دی کہ مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور کرنے ہیں اور کوشش کی جائے کہ مسائل کا سیاسی حل نکالا جائے۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کی جانب سے مدارس بل کو انا کا مسئلہ بنانے کی بات ہے تو جمعیت علماء اسلام کا موقف یہ ہے کہ مدارس کے حوالے سے بل پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے اور اس بل کی منظوری کے بعد اس کی ایوان میں واپسی کا کوئی جوازنہیں ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس بل کے حوالے سے حکومت کی دونوں بڑی جماعتوں کا مؤقف یہ ہے کہ ہم اس پر مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور کریں گے اور بل پاس بھی کروائیں گے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایوان میں یہ بل پیش ہوا اور منظور ہوا تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو اُس وقت تحفظات کیوں نہ تھے ، اب کیوں ہیں؟ یوں لگتا ہے کہ اس بل پر کسی نہ کسی سطح پر ریاست کے تحفظات ہیں اور یہ بل بعض بین الاقوامی معاہدوں کی زد میں آ رہا ہے جس کا اظہار نہیں کیا جا رہا اور حکومت کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف اسے پی ٹی آئی کے بڑھتے دبائو کا سامنا ہے اور دوسری جانب جمعیت علماء اسلام کے احتجاجی طرز عمل کا ، مگر حکومت اس وقت پی ٹی آئی طرز کے کسی اور مارچ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ وزیراعظم شہبازشریف کے حوالے سے خبریں ہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمن سے رابطے میں ہیں اور انہیں ایسے کسی اقدام سے باز رہنے کی اپیل کی ہے جس سے ریاست اور حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوں ۔مولانا فضل الرحمن کے طرز عمل اور سیاست پر غور کیا جائے تو وہ کسی عملی اقدام کے بغیر بھی حکومت پر دبائو ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنا کام نکالنا اور چلانا جانتے ہیں، لہٰذا انہوں نے واضح کیا ہے کہ ہم اسلام آباد مارچ کو آخری آپشن سمجھتے ہیں اور بغیر احتجاج کے اس قانونی مسئلہ کا حل چاہتے ہیں، لیکن دوسری جانب ان کی جماعت احتجاج کی تیاری کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے ان کی جماعت کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری حکومت کو یہ باور کراتے دکھائی دیتے ہیں کہ حکومت کو یہ بل منظور کرنا ہو گا اور اس حوالے سے لیت ولعل برتا گیا تو احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔اس صورتحال میں حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ جمعیت علماء اسلام اور حکومت کے درمیان روابط ہیں اور بالآخریہ بل منظوری کے مراحل طے کرے گا۔
جہاں تک پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی کال کا تعلق ہے تو فی الحال حکومت سے زیادہ خود پی ٹی آئی اس حوالے سے دبائو میں نظر آ رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی مشکلات ختم ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اسلام آباد مارچ نتیجہ خیز نہ ہونے سے حکومت کی بجائے پی ٹی آئی خود بحرانی کیفیت سے دوچار ہوئی ہے اور پی ٹی آئی کے ذمہ داران اس ناکامی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتے نظر آ رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پارٹی لیڈر شپ کے درمیان اختیارات کا معاملہ بھی پی ٹی آئی میں بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ جہاں تک سول نافرمانی کی کال کا تعلق ہے تو پارٹی کے ذمہ داران کے اس حوالے سے تحفظات ہیں۔البتہ واقفانِ حال کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ سول نافرمانی کی کال اسلام آباد مارچ سے جماعت کے اندر پیدا شدہ اختلافی صورتحال سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے،مگر اس کے اعلان کا فی الحال امکان نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف فرد جرم کو بھی پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا جا سکتا ہے۔ فردِ جرم میں جہاں آفیشل سکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ، ریاست کی سلامتی کو نقصان پہنچانے، سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننے کا الزام ہے وہاں اس میں 9مئی کے پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کی بات یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ واقعہ ایک پلاننگ کے تحت ہوا ۔ فیض حمید کے خلاف ان واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات سے لگتا ہے کہ اُن کے ساتھ بانی پی ٹی آئی کی فوجی عدالت میں پیشی بھی نوشتۂ دیوار ہے۔9مئی کے واقعات ایسے ہیں جنہیں پاکستان کی ریاست ہضم کرنے کو تیار نہیں کہ ان کا تعلق پاکستان کی سلامتی سے ہے۔پاک فوج ان واقعات کی بنا پر اپنے کچھ سینئر افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لا چکی ہے، اگر فوج اپنے ادارے میں اس حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر کاربندہے تو پھر اس کے سیاسی مقاصد حاصل کرنے والے کیسے بچ پائیں گے؟
سردی کی شدت اور بجلی کے بلوں میں کمی کے رجحان سے بجلی کا بحران ٹل گیا ہے البتہ حکومت کی جانب سے نجی بجلی گھروں کے معاملات میں دلچسپی اور بجلی کے نرخوں میں کمی کیلئے حکومتی ٹاسک فورس کی کوششوں کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اورآئی پی پیز سے معاہدوں کے از سر نو جائزہ کے بعد یہ امکان نظر آ رہا ہے کہ ان کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار کا بھی کسی حد تک ازالہ ہوگا ۔ نجی بجلی گھروں کی جانب سے قومی خزانہ سے ہونے والی لوٹ مار پر پہلی جماعت اسلامی کے امیر نعیم الرحمن نے اسلام آباد دھرنا کی صورت میں توجہ دلائی تھی جس سے حکومت پر دبائو بڑھا اور وزیراعظم شہبازشریف نے ٹاسک فورس بنا کر آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کا ٹاسک دیا ۔ آئی پی پیز کے مالکان نے حکومتی عزم کو دیکھتے ہوئے پسپائی اختیار کرلی‘ اب وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آٹھ آئی پی پیز کے ساتھ کمٹمنٹ معاہدوں کی منظوری دی گئی ہے جس کے بعد کہا جا رہا ہے کہ بجلی کے صارفین کو ریلیف ملے گا اور ان معاہدوں پر نظرثانی کے بعد قومی خزانہ کو 230ارب کا فائدہ ہوگا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے وفاقی کابینہ کو بتایا کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کیلئے ضروری اقدامات کریں گے۔ وزیراعظم ملکی معاشی معاملات کیلئے خاصے سرگرم ہیں اور ان کی کوششوں سے معیشت خطرناک زون سے نکل آئی ہے لیکن سیاسی اور عوامی سطح پر حکومتی مشکلات کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ بجلی کا بحران اور اس کی قیمتوں میں آنے والے طوفان نے عوام کی زندگیاں اجیرن کی ہیں۔ اگر حکومت بجلی کے معاہدوں پر نظرثانی کرتے ہوئے بجلی کے بلوں کو عوامی دسترس میں لاتی ہے تو اس سے نہ صرف عوام کو ریلیف ملے گا بلکہ صنعتی عمل بھی توانا ہوگا۔ بجلی کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ نے پاکستان میں صنعتی عمل پر منفی اثرات چھوڑے ہیں اور بجلی کے نرخ صنعتوں کی بندش کا باعث بنے ہیں۔