امہات المؤمنین،مثالی خواتین
خلاقِ عالم نے انبیاء کو غیر انبیاء پر اورپھر انبیاء کرام علیہم السلام میں سے نبی کریمﷺ کو باقی تمام انبیاء علیہم السلام پر فوقیت عطافرمائی۔اسی طرح وہ پاکبازخواتین جو نبی رحمت ﷺکے نکاح میں رہیں،ان کو بھی بنی نوع انسان کے حصہ نسوانیت پر خصوصی شرف اور برتری عطاکی، ان مقدس خواتین کے عمومی فضائل بہت سارے ہیں۔
ازواج مطہرات کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ اور رسول اللہﷺ نے خود ان کا انتخاب اور پھر ان عورتوں نے بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کو اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس کے بعد (کہ انہوں نے دنیوی منفعتوں پر آپ کی رضا و خدمت کو ترجیح دے دی ہے) آپ کیلئے بھی اور عورتیں (نکاح میں لینا) حلال نہیں (تاکہ یہی اَزواج اپنے شرف میں ممتاز رہیں)، اور یہ بھی جائز نہیں کہ (بعض کی طلاق کی صورت میں اس عدد کو ہمارا حکم سمجھ کر برقرار رکھنے کیلئے) آپ ان کے بدلے دیگر اَزواج (عقد میں) لے لیں ،اگرچہ آپ کو ان کا حْسنِ (سیرت و اخلاق اور اشاعتِ دین کا سلیقہ) کتنا ہی عمدہ لگے مگر جو کنیز (ہمارے حکم سے) آپ کی مِلک میں ہو (جائز ہے)، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگہبان ہے (الاحزاب:52)
امہات المؤمنین کا مقام و مرتبہ دین اسلام میں بہت بلند ہے۔ قرآن اور احادیث میں ان کی شان و فضائل کو خصوصیت سے بیان کیا گیا ہے، اور ان کے کردار و عمل میں امت مسلمہ کیلئے راہِ ہدایت موجود ہیں۔ یہاں ان کے چندخصائص و فضائل کا ذکر کیاجائے گا۔
قرآن کریم میں خاص مقام
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اُمہات المؤمنین کو ’’مؤمنین کی مائیں‘‘ کہا ہے: ’’یہ نبی (مکرّم) مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں‘‘ (الاحزاب: 6)۔ اس آیت کریمہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات کو مؤمنین کی مائیں قرار دیا، جو ان کے بلند مقام اور احترام کی نشانی ہے، لہٰذا امہات المومنین کا تعظیم و حرمت میں اور ان سے نکاح ہمیشہ کیلئے حرام ہونے میں وہی حکم ہے جو سگی ماں کا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے احکام میں جیسے وراثت اور پردہ وغیرہ، ان کا وہی حکم ہے جو اجنبی عورتوں کا ہے، یعنی ان سے پردہ بھی کیا جائے گا۔
آخرت میں مقام
اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ امہات المؤمنین کو آخرت میں عظیم اجر ملے گا،قرآن مجیدمیں ہے: ’’ تم میں سے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت گزار رہیں اور نیک اعمال کرتی رہیں تو ہم ان کا ثواب (بھی) انہیں دوگنا دیں گے اور ہم نے اْن کیلئے (جنت میں) باعزت رزق تیار کر رکھا ہے‘‘ (الاحزاب:31)۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی رحمت ﷺ کی ازواجِ مطہرات کو عام عورتوں پر بڑی فضیلت حاصل ہے اور انہیں نیک عمل پر دگنا اجر و ثواب دیا جاتا ہے۔
طبقہ نسواں میں امتیازی مقام
ازواج مطہرات ایک ایسی ہستی کے گھر کی ملکائیں تھیں جن کی ذات اور جن کاکاشانہ اقدس پوری امت مسلمہ کیلئے ایک مثالی نمونہ تھا۔ اس لئے ان خواتین کی ذمے داریاں بڑی نازک، بڑی کٹھن اور نہایت اہم تھیں۔ یہاں عیش و عشرت اور نازونعم کی بجائے صبر و ضبط ،ریاضت و مشقت اور ایثار و قربانی کا دور دورہ تھا۔ یہاں ہر لمحہ امتحان و آزمائش کا مرحلہ درپیش تھا۔ انہی وجوہات کی بنا پر ان کے مرتبے اور ان کے مقام کو دوسری خواتین کے مقابلے میں نمایاں اور ممتاز قرار دیا گیا ،اس کا اعلان قرآن مجید اس طرح کرتا ہے: ’’اے اَزواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو‘‘(الاحزاب:32)
علم کا خزانہ
امہات المؤمنین میں خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو دین کے علم میں بہت بلند مقام حاصل ہے۔ انہوں نے نبی کریمﷺ کے اقوال اور اعمال کو اُمت تک پہنچایا اور ان کے ذریعہ بہت سی احادیث اور اسلامی احکام ہم تک پہنچے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے نبی مکرمﷺکے فرائض اس طرح بیان کئے ہیں: ’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے، تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے، تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے، حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘ (البقرہ: 151)
قرآن مجید کی اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمدﷺ کے سپرد جو کام کیا تھا کہ آپ ﷺ ایک ایسی قوم کو جو عام تہذیب و تمدن سے نابلدتھی،ہر شعبہ زندگی میں تعلیم و تربیت دے کر اعلیٰ درجہ کی مہذب ،متمدن، شائستہ اور باکردار قوم بنائیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے صرف مردوں کو تعلیم و تربیت کے نور سے منور کر دینا کافی نہ تھا بلکہ طبقہ نسواں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی۔ ازواج مطہرات نبی مکرمﷺکی ازواج ہونے کی حیثیت سے خود بخود اپنے رفیق زندگی کے ان کاموں میں مددگاراور معاون تھیں۔
صبر و استقامت کی مثالیں
اُمہات المؤمنین (حضرت عائشہ، حضرت سودہ، حضرت حفصہ، حضرت زینب بنت جحش، حضرت ام سلمہ، حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن)، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگرمسلم خواتین کی صبر و استقامت کی مثالیں اسلامی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ ان خواتین نے مختلف حالات میں اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے راستے پر ثابت قدم رہ کر اپنی زندگیاں گزاریں، اور ان کے عمل آج بھی مسلمانوں کیلئے رہنمائی کا باعث ہیں۔اُمہات المؤمنین کی زندگیوں سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں آزمائشیں، مصیبتیں اور مشکلات ضرور آئیں گی، لیکن صبر، اللہ پر توکل اور اس کے راستے پر چلنا ہر حال میں ضروری ہے۔ ان خواتین نے اپنی زندگیوں میں بے شمار مشکلات کا سامنا کیا، لیکن ان کی ثابت قدمی اور صبر نے انہیں ایک اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔امہات المؤمنین نے بہت سی مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کیا۔ خصوصاً حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مکہ میں اسلام کی ابتدا میں مشکلات برداشت کیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مدینہ میں منافقین کی طرف سے جھوٹے الزامات کا سامنا کیا، لیکن ہر حال میں ثابت قدم رہیں۔
امہات المؤمنین مسلمان خواتین کیلئے بہترین نمونہ ہیں۔ ان کی زندگیوں میں ہمیں ایسے کردار، اخلاق اور طرزِ زندگی کے نمونے ملتے ہیں جو دین کی رہنمائی اور دنیاوی معاملات میں حکمت سے بھرپور ہیں۔اُمہات المؤمنین کی زندگیوں کا ہر پہلو سے مختلف میدانوں میں چاہے وہ ازدواجی زندگی ہو، تربیت اولاد، صبر و شکر، تعلقات، عبادت، صدقہ و خیرات، علم اوردین کی خدمت، عورتوں کیلئے زندگی گزارنے کی عملی ہدایات ملتی ہیں۔
خواتین کیلئے بہترین نمونہ
امہات المؤمنین مسلمان خواتین کیلئے بہترین نمونہ ہیں۔ ان کی زندگیوں میں ہمیں ایسے کردار، اخلاق اور طرزِ زندگی کے نمونے ملتے ہیں جو دین کی رہنمائی اور دنیاوی معاملات میں حکمت سے بھرپور ہیں۔اُمہات المؤمنین میں سے ہر ایک کی جداگانہ خصوصیات اور خوبیاں ہیں، جس سے خواتین اسلام زندگی کے مختلف مراحل میں رہنمائی لے سکتی ہیں۔
ان میں سے چندایک حسب ذیل ہیں:
1۔حضرت خدیجہ
حضرت خدیجہ آپ ? کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں، جو بہترین بیوی، وفادار ساتھی اور ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں۔ آپ نے ہر مشکل میں آپ ? کا ساتھ دیا اور اسلام کے ابتدائی دنوں میں اپنا مال و دولت اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی راہ میں خرچ کیا۔ حضرت خدیجہ کی زندگی سے خواتین کو محبت، وفا اور صبر کا سبق ملتا ہے۔
حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ? نے فرمایا : اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریم ہیں اور (اسی طرح) اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت خدیجہ ہیں۔(صحیح بخاری:3805)
حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں: نبی اکرم ? جب کبھی بھی حضرت خدیجہ کا ذکر فرماتے تو ان کی خوب تعریف فرماتے : آپ فرماتی ہیں کہ ایک دن مجھے غیرت آ گئی اور میں نے کہا کہ آپ سرخ رخساروں والی کا تذکرہ بہت زیادہ کرتے ہیں، حالانکہ ا? تبارک و تعالیٰ نے اس سے بہتر عورتیں اس کے نعم البدل کے طور پر آپ کو عطا فرمائی ہیں، آپ ? نے فرمایا : ا? تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر بدل عطا نہیں فرمایا، وہ تو ایسی خاتون تھیں جو مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے ،میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے ، اپنے مال سے اس وقت میری ڈھارس بندھائی جب لوگ مجھے محروم کر رہے تھے اور ا? تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری عورتوں سے مجھے اولاد عطا فرمانے سے محروم رکھا۔(مسنداحمد:24908)
2۔ حضرت عائشہ
حضرت عائشہ کو اللہ نے بیپناہ علم اور حکمت عطا فرمائی۔ آپ بہت ذہین، فصیح و بلیغ اور علم و فقہ میں ماہر تھیں:
حضرت ابوموسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول ? کے لئے جب کبھی بھی کوئی حدیث مشکل ہو جاتی تو ہم ام المومنین حضرت عائشہ سے اس کے بارے میں پوچھتے ،تو ان کے ہاں اس حدیث کا صحیح علم پالیتے۔(جامع ترمذی:3883)
حضرت عطا بیان کرتے ہیں: کہ حضرت عائشہ صدیقہ تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔(مستدرک حاکم:6748)
حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے بڑھ کر، شعر، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ:26044)
آپ کی زندگی سے خواتین کو علم حاصل کرنے، دین کے مسائل کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
3۔ حضرت حفصہ
حضرت حفصہ کو قرآن کا خاص علم تھا اور ان کی زندگی میں عبادت صوم وصلوٰ? کا خاص ذوق تھا۔
حضرت قیس بن زید بیان کرتے ہیں: کہ نبی اکرم ? نے حضرت حفصہ بنت عمر کو طلاق دی، پس آپ کے ماموں قدامہ اور عثمان جو کہ مظعون کے بیٹے ہیں ،آپ کو ملنے آئے تو آپ رو پڑیں اور کہا : خدا کی قسم! حضور نبی اکرم ?نے مجھے غصہ اور غضب کی وجہ سے طلاق نہیں دی، اسی دوران حضور نبی اکرم ? ادھر تشریف لائے اور فرمایا : جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا ہے : آپ حفصہ کی طرف رجوع کر لیں۔ بے شک وہ بہت زیادہ روزے رکھنے اور قیام کرنے والی ہیں اور بے شک وہ جنت میں بھی آپ کی اہلیہ ہیں۔(مستدرک حاکم:6753)
آپ کی زندگی خواتین کو دین کی تعلیمات کو محفوظ کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
4۔ حضرت زینب
ام المؤ منین حضرت زینب بنت خزیمہ کا شمار تاریخ کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے ،جو غریب پروری ، مسکین نوازی ، رحم دلی ، سخاوت اور فیاضی جیسے اوصاف میں نہایت بلند مقام پر فائز ہیں۔سخی اور فیاض طبیعت نیز یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ مہربانی اور شفقت کے ساتھ پیش آنے اور انہیں کثرت کے ساتھ کھانا کھلانے کے باعث آپ کا لقب ہی ام المساکین مشہور ہوگیا تھا۔
1۔علامہ قسطلانی ?لکھتے ہیں: مساکین کو کھانا کھلانے کے باعث زمانہ? جاہلیت میں ہی آپ کو امْ المساکین کے لقب سے پکاراجانے لگا تھا۔(المواہب اللدنیہ ،ج1،ص411)
غزوہ احدمیں اپنے شوہرحضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت کے بعد آپ نے نبی کریم? کی زوجہ بننے کا شرف پایا اور ام المؤ منین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں۔اس وقت آپ? کے نکاح میں تین ازواج ِ مطہرات حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت سودہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ پہلے سے موجود تھیں جبکہ حضرت خدیجہ الکبریٰ کا تقریباً چھ سال قبل انتقال ہو چکا تھا۔
2۔محمدبن سعدلکھتے ہیں:
جب سرکارِدوعالم?نے انہیں نکاح کا پیغام دیا تو انہوں نے اپنا معاملہ آپ ? کے سپرد کردیا ، پھر آپ ?نے ان سے نکاح کرلیا اور ساڑھے بارہ اوقیہ مہرِ نکاح مقرر کیا۔(طبقات ابن سعد ،ج8،ص91)
آپ ان صحابیات میں سے ہیں ، جنہوں نے اپنی جانیں اللہ کے رسول? کو ہبہ کردی تھیں اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
(اے حبیب! آپ کو اختیار ہے) ان میں سے جِس (زوجہ) کو چاہیں (باری میں) مؤخّر رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس (پہلے) جگہ دیں، اور جن سے آپ نے (عارضی) کنارہ کشی اختیار فرما رکھی تھی آپ انہیں (اپنی قربت کے لئے) طلب فرما لیں، تو آپ پر کچھ مضائقہ نہیں، یہ اس کے قریب تر ہے کہ ان کی آنکھیں (آپ کے دیدار سے) ٹھنڈی ہوں گی اور وہ غمگین نہیں رہیں گی اور وہ سب اس سے راضی رہیں گی جو کچھ آپ نے انہیں عطا فرما دیا ہے، اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا بڑا حِلم والا ہے۔(الاحزاب51:33)
3۔حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں ان عورتوں پر غیرت کرتی تھی جو اپنی جانیں رسول اللہ ? کو بخش دیتی تھیں۔ میں کہتی تھی : کیا عورت اپنی جان بخشتی ہے ؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ کے رب کو نہیں دیکھتی مگر وہ آپ کی خواہش پوری کرنے میں جلدی فرماتا ہے۔(صحیح بخاری: 4788)
5۔ حضرت ام سلمہ
حضرت اْمِ سلمہ نہایت بلند اَخلاق ، فیاض اور رحم دل تھیں۔ کسی سائل کو اپنے دروازے سے کبھی خالی ہاتھ واپس نہ لوٹاتیں۔ ا?پ حضور?سے بہت محبت کرتی تھیں اور ا?پ کی ضرورتوں کا سب سے زیادہ خیال رکھتی تھیں۔ ا?پ اوصافِ حمیدہ اور ذہنی و عقلی صلاحیتوں کی مالک اور انتہائی ذی استعدادشخصیت کی حامل تھیں۔ حضرت اْم سلمہ اپنی ذات کی قدرومنزلت سے خوب اچھی طرح واقف تھیں، کیوں کہ ان کے راسخ ایمان اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے، ان کی موروثی عزت و بزرگی اور نبی کریم?کے حرم میں داخل ہونے کی وجہ سے، ان کی بے مثال عقل وذہانت اور انتہائی حسن و جمال جیسی صفات کی وجہ سے ان کو اسلامی معاشرے میں ایک بلند مقام حاصل ہوا تھا۔حضرت اْم سلمہ بڑی عالمہ و محدثہ تھیں، بڑے جلیل القدر صحابہ و تابعین ا?پ سے حدیث روایت کرنے والوں میں شامل ہیں۔ حدیث کی کتابوں میں ا?پ سے 378 کے قریب احادیثِ نبوی? موجود ہیں۔ ا?پ قرا?ن حکیم اسی لہجے اور ترتیل کے ساتھ پڑ ھتی تھیں، جیساکہ رسول اللہ?پڑھا کرتے تھے۔
امہات المؤمنین کی زندگیوں کا ہر پہلو سے مختلف میدانوں میں چاہے وہ ازدواجی زندگی ہو، تربیت اولاد، صبر و شکر،تعلقات، عبادت، صدقہ و خیرات ،علم اوردین کی خدمت ، عورتوں کیلئے زندگی گزارنے کی عملی ہدایات ملتی ہیں۔
حقیقی کامیابی اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے احکام اور نبی اکرمﷺ کی سنت کی پیروی میں ہے۔
سیرت امہات المومنین میں جو پہلو سب سے نمایاں نظر ا?تا ہے ، وہ ہے اللہ کے رسول ? کی جدوجہد میں امہات المومنین کا کردار۔امہات المومنین ایمان کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ایمان کے تقاضوں کی تکمیل میں اول درجہ رکھتی تھیں۔ جس طرح نبی کریم ? دن رات بندوں کو بندوں کے رب سے روشناس کرانے کی جدوجہد میں مصروف رہتے، اسی طرح ازواج مطہرات بھی دن رات اسی جدوجہد میں مصروف رہتیں۔ نبی ? مردوں کے درمیان دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیتے تھے اور امہات المومنین خواتین کے درمیان دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیتی تھیں۔
مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی نے اللہ کے رسول ? کی ایک سے زائد شادیوں کا مقصد ہی دین کی سربلندی کے لیے جدوجہداور خواتین کے درمیان کارِ رسالت کی انجام دہی قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:
’’یہ شادیاں اپنی روح اور اپنی غایت کے لحاظ سے بالکل جداگانہ نوعیت کی تھیں، اور اپنی الگ شان رکھتی تھیں،
یہ شادیاں ایک عظیم مقصد کے تحت ہوئی تھیں، وہ عظیم مقصدتھا عورتوں میں اسلام کی دعوت وتبلیغ،عورتوں کی دینی تعلیم وتربیت،خواتین کی دنیا میں کارِرسالت کی انجام دہی !یہ شادیاں ہوئی تھیں صرف اور صرف اللہ کے لیے،اس کے دین کی سربلندی کے لیے، حلقہ? خواتین میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے، عورتوں اور بچوں میں قرا?ن پاک کی تعلیم وتربیت عام کرنے کے لیے!یہ تمام شادیاں رحمت عالم ? نے اس وقت کی تھیں جب عمر مبارک کا سورج ڈھل چکا تھا، اور وہ زندگی کی سہ پہر،اور زندگی کی شام کے اشارے دے رہا تھا ، جب تک جوانی تھی، اور جوانی کی توانائیاں تھیں،اس وقت تک ا?پ? کی خلوت کی رفیق صرف حضرت خدیجہ تھیں،عظمت وکمال کے تاجداروں کو چھوٹی ذہنیت کے ساتھ سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان کی عظمتوں کوسمجھنے کے لیے اپنی ذہنی اور فکری سطح اونچی کرنی بہت ضروری ہوتی ہے۔جو لوگ رحمت عالم? کی عظمت بے پایاں کو سمجھنا چاہیں، ان کے لیے یہ نکتہ سامنے رکھنا نہایت ضروری ہے۔ (مہرومحبت جس کی شان ، ص ۴۷،۴۸)
اس لیے عصرحاضرکی خواتین کوچاہیے کہ وہ امہات المؤمنین کی زندگیوں کامطالعہ کریں اوران کونمونہ حیات بناتے ہوئے ان کے کرداروعمل کواپنائیں۔