فیض حمید کے خلاف فرد جرم پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی
پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر فردِ جرم عائد ہونا اور ان پر تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ رابطوں اور ملک کو انتشار کا شکار کرنے کے الزامات تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرنے جا رہے ہیں۔
تحریک انصاف نے 15دسمبر سے سول نا فرمانی کی تحریک چلانے کا پلان بنا رکھا ہے لیکن اس سے قبل حکومت سے مذاکرات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے کہ تحریک انصاف بات چیت کے لیے رابطے کر رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بات چیت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور وہ مفاہمتی ماحول پیدا کرنے کے لیے تحریک انصاف کی بات چیت کی پیشکش قبول کرنے کو تیار ہے، مگر تحریک انصاف اس حکومتی دعوے کی تاحال تصدیق نہیں کر رہی۔ البتہ یہ بات ضرور دلچسپ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف‘ جو پہلے صرف مقتدرہ سے بات چیت کرنے کے لیے مُصر تھی‘ اب سیاسی قیادت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے ایوان میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو سب سے بات کرنے کے لیے تیار ہے۔ ملک کی بہتری اور ترقی کے لیے مل بیٹھ کر بات کریں۔
تحریک انصاف یہ مذاکراتی عمل ایک ایسے وقت میں شروع کرنا چاہتی ہے جب سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے خلاف نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے معاملے پر تفتیش شروع ہو چکی ہے اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی سیاسی سرگرمیوں‘ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیوں اور ریاستی مفاد کو نقصان پہنچانے اور اختیارات کے غلط استعمال پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید پر سیاسی عناصر سے ملی بھگت کا بھی الزام ہے اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ بتا رہی ہے کہ ان کے خلاف بڑی تعداد میں شواہد موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مرحلہ آن پہنچا کہ ان پر فرد جرم عائد کی جائے۔ اس کے بعد یہ معاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر الزامات کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے مگر ان پر سب سے بڑا الزام بعد از ریٹائرمنٹ سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ بدامنی اور پُرتشدد واقعات میں ملوث ہونا ہے۔ معاملہ صرف 9مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کا نہیں بلکہ 25مئی 2022ء کو اسلام آباد پر یلغار اور نومبر 2022ء میں آرمی چیف کی تقرری کے عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے راولپنڈی مارچ کے تانے بانے بھی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سے مل رہے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو اندازہ ہو چکا ہے کہ یہ کارروائی صرف فیض حمید تک محدود نہیں رہے گی بلکہ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں بانی پی ٹی آئی سمیت کئی شخصیات کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف نے ریاست پر دباؤ ڈالنے کے لیے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی کال سے متعلق اپنا پیغام پارٹی قیادت کو بھجوا دیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ یومِ سوگ 14کے بجائے 15دسمبرکو منایا جائے گا اور اُسی روز پارٹی قیادت کی جانب سے سول نا فرمانی کی تحریک کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ سول نافرمانی کی تحریک میں پہلے مرحلے میں سمندر پار پاکستانیوں کو بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر بھیجنے سے روکا جائے گا۔ شرط رکھی جائے گی کہ تحریک انصاف کے سیاسی قیدیوں کو چھوڑا جائے اور نو مئی اور 26نومبر کے معاملے پر جوڈیشل انکوائری کروائی جائے۔ بانی پی ٹی آئی اس سے قبل پارٹی کی سینئر قیادت پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں جس سے حکومت نے ابھی تک رابطہ نہیں کیا۔ جیل میں صحافیوں نے بانی پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ سول نا فرمانی کی تحریک تو اس سے قبل 2014ء میں بھی شروع کی گئی تھی مگر وہ ناکام ہو گئی‘ اس مرتبہ آپ کا لائحہ عمل کیا ہے؟ جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اس وقت ان کی مقبولیت 2014ء سے کہیں زیادہ ہے۔
سول نافرمانی کی تحریک میں سمندر پار پاکستانیوں کو ملک میں زرِمبادلہ نہ بھجوانے کی تحریک کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے‘ اس بات کا جائزہ ترسیلاتِ زر کے حالیہ اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف دعویٰ کرتی ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں میں بڑی تعداد ان کے فالورز کی ہے اور پارٹی کی اپیل پر وہ بیرونِ ملک سے رقم بھجوانا بند کر دیں گے۔ مگر گزشتہ ایک سال کے ڈیٹا پر نظر دوڑائیں تو سمندر پار پاکستانیوں نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں پہلے سے زیادہ رقم پاکستان بھجوائی۔ نومبر 2023ء میں یو اے ای سے 41کروڑ 18لاکھ ڈالرز پاکستان بھجوائے گئے تھے جبکہ نومبر 2024ء میں یو اے ای سے 61کروڑ 94لاکھ ڈالرز پاکستان بھجوائے گئے۔ اسی عرصے کے دوران سعودی عرب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر 54کروڑ 36لاکھ ڈالرز سے بڑھ کر 72کروڑ 92لاکھ ڈالرز ماہانہ تک پہنچ گئیں۔ امریکہ سے نومبر 2023ء میں 26کروڑ 16لاکھ ڈالرز بھجوائے گئے تھے اور نومبر 2024ء میں 28کروڑ 82لاکھ ڈالرز پاکستان بھیجے گئے۔ اسی طرح برطانیہ سے نومبر 2023ء میں 34کروڑ 22لاکھ ڈالرز پاکستان بھیجے گئے تھے اور نومبر 2024ء میں 41کروڑ ڈالرز کی ترسیلاتِ زر پاکستان بھیجی گئیں۔ یورپی ممالک کی ترسیلاتِ زر کی بات کریں تو یہ نومبر 2023ء میں 26کروڑ 86لاکھ ڈالرز تھیں جو نومبر 2024ء میں 32 کروڑ 31لاکھ ڈالرز ریکارڈ ہوئیں۔ نومبر 2023ء سے نومبر 2024ء کے درمیان تقریباً ماہانہ بنیادوں پر ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوا۔ ان ٹرینڈز کو دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ سمندر پار پاکستانی موجودہ سیاسی صورتحال کے باوجود ترسیلاتِ زر میں کمی کرنے کے بجائے اضافہ ہی کرتے چلے گئے۔ ماہرین کے مطابق بیرونِ ملک سے پاکستان رقوم بھجوانے کا معاملہ سیاست سے ہٹ کر ضرورت پر مبنی ہے جو بیرونِ ملک رہ کر ملک کی خدمت کرنے والوں کے گھروں کو چلانے کے لیے ناگزیر ہے۔
تحریک انصاف کی سول نافرمانی کی تحریک کئی مراحل پر مشتمل دکھائی دیتی ہے مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ ان حقائق کی روشنی میں پہلا مرحلہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔