پی ٹی آئی،جے یو آئی اتحاد کی حقیقت

تحریر : عابد حمید


پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مابین رابطے ایک بار پھر بحال ہورہے ہیں ۔جمعیت علمائے اسلام (ف) دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل پر وفاق سے ناراض ہے ۔

یہ ناراضگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب مولانافضل الرحمن نے پی ٹی آئی کی بعد اسلام آباد کی طرف مارچ کی دھمکی دے دی ہے ۔مولانا پہلے ہی مسلم لیگ (ن اور پیپلزپارٹی سے ناراض ہیں ۔عام انتخابات کے بعد جے یو آئی کا موقف تھا کہ ان کے مینڈیٹ پر مبینہ طورپر ڈاکا ڈالا گیا۔ گفت وشنید ہوئی اور یہ امید پیداہوئی کہ شاید مولانا فضل الرحمن کو صدر مملکت بنادیاجائے گا لیکن صدر زرداری کی بچھائی گئی سیاسی شطرنج کی بساط پر ان کے مہرے کمزور نکلے اور قرعہ آصف علی زرداری کے حق میں نکلا۔ صدارت سے محرومی نے جے یو آئی کے مرکزی امیر کی زودرنجی میں اضافہ کردیا۔ پی ٹی آئی اور جے یوآئی کے مابین مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اسی دوران چھبیسویں آئینی ترمیم منظور کرلی گئی جس کیلئے مولانافضل الرحمن نے خوب واہ واہ سمیٹی لیکن معاملات اس وقت خراب ہوگئے جب مدارس کی رجسٹریشن کا بل صدر مملکت کے پاس گیا اور انہوں نے اس پر اعتراض لگا کر واپس کردیا۔ جے یو آئی اس پر شدید ناراض ہے۔ اگرچہ مدارس کی رجسٹریشن کا نیشنل ایکشن پلان میں واضح طورپرذکر تھا اور تمام فریق اس پر راضی تھے لیکن اس میں ترامیم ہر کوئی اپنے طورپر کرنا چاہتاہے سیاسی طورپر تو مولانا فضل الرحمن شکست تسلیم کرلیں گے لیکن جہاں مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ آئے گا اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ وہ اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹیں۔ مدارس کی رجسٹریشن کامعاملہ کئی دہائیوں سے چلاآرہا ہے لیکن اسے قابلِ توجہ نہیں سمجھا گیا یا مذہبی قوتوں کے دباؤ میں نظرانداز کردیاگیاتھا‘تاہم اب ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے اندرونی اور بیرونی دباؤبڑھتاجارہا ہے ۔حالیہ دہائی میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں اس کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے ۔چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنانے پر زور دیاجارہاہے ۔مذہبی جماعتیں اس معاملے پر تقسیم ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات بھی اس معاملے میں آڑے آرہے ہیں ۔یہ معاملہ اتنی شدت اختیار کرگیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن پی ٹی آئی کے ساتھ رابطوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جے یو آئی کے مرکزی امیر نے پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر کے ساتھ رابطہ کیا اور سیاسی صورتحال پر بات چیت کی۔ اگرچہ اسے کوئی بڑابریک تھرو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اگر دونوں جماعتیں اکٹھی ہوجائیں تو کیا مرکزکیلئے کوئی خطرہ بن سکتی ہیں؟ اس کا جواب ہاں میں دیاجاسکتا ہے، لیکن اس میں بھی کئی پیچیدگیاں ہیں ۔پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا اتحاد ایوان کی حد تک تو ہو سکتا ہے لیکن سڑکوں پر اکٹھے نکلنا زرامشکل ہو گا۔ جے یو آئی سمجھ رہی ہے کہ اسے دیوار سے لگایاجارہاہے، پی ٹی آئی میں بھی یہی جذبات ابھر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی تو اس کااظہار بھی کررہی ہے ۔جے یو آئی بھی ماضی قریب میں انتخابات ہارنے کے بعد اس طرف اشارہ کرچکی ہے کہ اسے دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دیوار سے لگانے کی شکایت کرنے والی یہ دونوں جماعتیں پھر بھی ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں،وجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے پر اعتبارنہیں۔جے یو آئی کو خوف ہے کہ پی ٹی آئی اس کا کندھا استعمال کرتے ہوئے مقتدرہ کے ساتھ اپنے معاملات سیدھے کرلے گی اور اسے بیچ منجدھار چھوڑ دیاجائے گا، کچھ ایسا ہی خوف پی ٹی آئی کو بھی ہیں ۔ اعتماد کی کمی کی وجہ سے دونوں جماعتیں ایک جیسا مؤقف رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے بُعدالمشرقین جیسی دوری پر ہیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ جے یو آئی کا پی ٹی آئی سے رابطہ ایک سیاسی چال ہے جسے وفاق اور مقتدرہ پر دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال کیاجاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کی حد تک تو دونوں جماعتیں اکٹھ کرسکتی ہیں لیکن پارلیمنٹ سے باہر ایسا ممکن نہیں۔ ماضی میں بانی پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کیلئے جس قسم کے الفاظ کا استعمال کرتے رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ دونوں جماعتوں کے ورکرزایک ساتھ کسی بھی احتجاج پر راضی ہوں گے۔ماضی میں پیپلز پارٹی اور(ن) لیگ سمیت دیگر جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں کچھ ایسی ہی صورتحال تھی جب اس اتحادمیں شامل جماعتیں اپنا علیحدہ سے احتجاج کرتیں تو ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کرلیتیں لیکن جب احتجاج پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوتا تو یہ جلسہ سکڑکر رہ جاتا۔ہرجماعت کارکنوں کو نکالنے کی ذمہ داری دوسری جماعت پر ڈالتی۔ اب اگرپی ٹی آئی اور جے یو آئی کے مابین اتحاد ہوبھی جاتا ہے تو پی ٹی آئی کا ورکر تذبذب کا شکار ہوگا،جے یوآئی کے سیاسی ورکرز اور مولانا فضل الرحمن کے پیروکاروں کیلئے بھی یہ بات ہضم کرنا قدرے مشکل ہوگا۔ویسے بھی مولانافضل الرحمن گزشتہ اتوار کو پشاورمیں ’’اسرائیل مردہ بادریلی ‘‘میں ہزاروں کارکنوں کو جمع کرکے متاثرکن جلسہ کرچکے ہیں۔ اگرچہ یہ ریلی اسرائیل کے مظالم کے خلاف تھی لیکن اس میں وفاقی حکومت کو خوب تڑیاں لگائی گئیں۔ مولانا فضل الرحمن نے سخت زبان کا استعمال کیااور اسلام آباد آنے کی دھمکی دی ۔اس ریلی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جے یو آئی کو کسی اور سیاسی جماعت کی شاید اتنی ضرورت نہ پڑے۔دوسری جانب پی ٹی آئی ورکرز فی الوقت اسلام آباد احتجاج کے بعد بننے والے مقدمات میں ضمانتیں کروانے میں مصروف ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ سے ایک ہی دن میں کئی کئی راہداری ضمانتیں حاصل کی جارہی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما پشاور میں ہی پائے جاتے ہیں جہاں وہ پشاور ہائیکورٹ سے ضمانتیں لے رہے ہیں۔

جلسے جلوسوں سے قدرے فارغ ہوکر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے صوبے کے مسائل کی طرف توجہ دینے کیلئے وقت نکال لیا ہے۔خیبر پختونخوا میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ امن وامان کی صورتحال ہے ۔ضلع کرم میں متحارب قبائل کے مابین امن کے قیام کیلئے کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔اس حوالے سے صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل دیئے گئے گرینڈ قومی جرگے کی فریقین سے ملاقاتیں اور مذاکرات جاری ہیں۔صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طرح ضلع کرم میں متحارب قبائل کی جانب سے قائم کئے گئے بنکرز کو ختم کیاجائے اور سڑک کو محفوظ بنایاجائے، لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب قبائل کے مابین اراضی تنازعات کا حل نکالاجائے اوران علاقوں میں بیرونی مداخلت اور فنڈنگ کو بھی روکا جائے۔ وزیراعلیٰ کو اب صوبے کے مالی معاملات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بقایا جات کے حصول کیلئے صوبے کے وفاق سے مذاکرات ضروری ہیں۔صرف خطوط لکھ دینے سے بات نہیں بننے والی۔قبائلی عوام سے کئے گئے وعدوں کو بھی عملی جامہ پہنانے کا وقت آ گیا ہے۔ ان علاقوں کی تعمیر وترقی کیلئے تمام صوبوں نے جو ایک فیصد فنڈ فراہم کرنے کا وعدہ کیاتھا وہ بھی پوراکیاجانا ضروری ہے جس کے بعد ہی امن کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فیض حمید کے خلاف فرد جرم پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی

پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر فردِ جرم عائد ہونا اور ان پر تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ رابطوں اور ملک کو انتشار کا شکار کرنے کے الزامات تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرنے جا رہے ہیں۔

مدارس بل،جے یو آئی پسپائی کیلئے کیوں تیار نہیں؟

حکومت کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود جمعیت علماء اسلام اور اس کے لیڈر مولانا فضل الرحمن مدارس کے حوالے سے منظور شدہ بل میں تبدیلی کیلئے مطمئن نہیں، اور موجودہ صورتحال میں یہ ایک بڑا ایشوبن چکا ہے۔

سرد موسم میں سیاسی گرما گرمی

ملک میں سردی آگئی مگر سیاسی درجہ حرارت میں کمی نہیں آئی۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد مارچ کی گرمی ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اسلام آباد کی طرف رُخ کرنے کا اعلان کردیا۔ ادھر سندھ میں ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ نے آگ پر ہانڈی چڑھا دی۔ پیپلز پارٹی نے بھی چولہے کی لو تیز کردی ہے۔

بلوچستان کی ترقی کیلئے سیاسی تعاون

بلوچستان کی معاشی ترقی کیلئے حکومت کے صنعتی، تجارتی اور زرعی منصوبے عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ وفاقی وزیر تجارت جام کمال اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی ترقی کی یقین دہانیاں خوش آئند ہیں مگر ماضی کے تجربات شفافیت اور سنجیدہ عمل درآمد کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔

مطالبات منظور،احتجاج ختم

آزاد جموں و کشمیر میں حکومت نے ’’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘‘ کو واپس لے لیا جس کے بعد مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج بھی پر امن طریقے سے ختم ہو گیاہے۔

لیموں قدرت کا انمول تحفہ

یہ مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے