سوء ادب :ہمارے جانور (شیر )
ایک لکڑ ہارا جنگل میں اپنے کام پر جا رہا تھا کہ اُسے ایک بلّی ملی جو رو رہی تھی ۔اُس سے اُس نے رونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ شیر نے اُسے بہت پریشان کر رکھا ہے اور بار بار جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے اتنے میں شیر بھی کہیں سے آدھمکا جسے لکڑ ہارے نے سرزنش کی کہ ایک معصوم بلّی کو پریشان کرتے ہو جس پر شیر بولا ،تم اپنے کام سے کام رکھو لیکن لکڑ ہارا بھی ڈٹ گیا جس پر شیر نے کہا کہ اگر اتنے ہی بہادر ہو تو میرے ساتھ لڑائی کر لو۔
لکڑہارے نے کہا کہ میں تیار ہوں لیکن قریبی گائوں میں مجھے تھوڑا سا کام ہے میں تھوڑی دیر میں واپس آکر تم سے لڑ لوں گا۔ شیر نے کہا ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا لکڑہارا چند قدم چلنے کے بعد واپس آگیا اور بولا ،مجھے خدشہ ہے کہ تم بھاگ جائو گے ۔شیر نے کہا،کیا بات کرتے ہو ، میں شیر ہوں ہر گز نہیں بھاگوں گا ۔لکڑ ہارا پھر چند قدم چل کر واپس آگیا اور بولا کہ مجھے یقین ہے کہ تم بھاگ جائو گے جس پر شیر نے کہا کہ تمہیں کیسے یقین آئے گا کہ میں یہیں رہوں گا ۔لکڑ ہارے نے کہا کہ اِس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ میں تم کو درخت کے ساتھ باندھ جائوںاور واپس آکرتمہیں کھول دوں اور تم سے لڑائی کرلوں۔ شیر نے کہا، ٹھیک ہے۔ چنانچہ لکڑ ہارے نے اُسے اپنے رسّے سے ایک درخت کے تنے سے جکڑ کر باندھ دیا اور اپنی کلہاڑی کے ساتھ اسی درخت سے ایک شاخ کاٹ کر ایک سوٹا بنایا اور شیر کی دھلائی شروع کر دی شیر کی چیخیں سُن کر بلّی بھی قریب آکر شیر کی پٹائی کا نظارا کرنے لگی ۔لکڑ ہارا جب اسے جی بھر کر پِیٹ چکا تو شیر نے کہا کہ اب تو مجھے کھول دو جس پر لکڑ ہارے نے کہا کہ تمہیں اب وہی کھولے گا جو اپنی جان کا دشمن ہو گا ۔
جنگل میں ایک شیر کا ہاتھی سے ٹاکرا ہو گیا جس سے شیر نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ جنگل کا سب سے طاقتور جانور کون ہے ؟اِس پر ہاتھی نے اُسے اپنی سُونڈ میں لپیٹا اور چالیس فٹ دور پھینک دیا ۔شیر نے اُٹھ کر مٹی وغیرہ جھاڑی اور بولا ،’’اگر تمہیں معلوم نہیں تھا تو اِس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا بات تھی ‘‘
٭٭٭
سخن آباد (کلیات)
یہ بیرونِ ملک مقیم ہمارے دوست اور جدید اُردو غزل کے سربر آوردہ شاعر فیصل عجمی کے کُلّیا ت ہیں جو پانچ شعری مجموعوں ،درویش ،سمندر ،خواب ،شام او رمراسم پر مشتمل ہیں۔ کتاب کسی دیباچے یا مقدمے کے بغیر ہے ،اسے آثار اکادمی لاہور نے چھاپا ہے انتساب اِس طرح سے ہے :
دُعا جو دُور بوڑھی ہڈیوں کے ایک سیپارے سے اُٹھتی ہے ،وہ ساری جُھرّیاں جو اُس کے چہرے پر صحیفوں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں سب دُعا گو ہیں یہ سب کچھ اُس دعا کا معجزہ ہے
آغاز میں ’’سمندر سخی ہے ‘‘کے عنوان سے ایک آزاد نظم ہے جبکہ پسِ سرورق شاعر کی تصویر او ر یہ شعر درج ہے :
سب ایک ساتھ ہوں گے یہ آب و سراب ختم
جب میری پیاس گھونٹ بھرے گی زمین کا
ٹائٹل دلکش ہے ،صفحات672اور قیمت 3000 روپے ہے ۔
شاعر چھوٹا یا بڑا اور اچھا یا بُرا نہیں ہوتا وہ صرف ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ۔رُوسو نے کہا تھا کہ میں بہترین نہ ہوں گا لیکن میں باقی سب سے مختلف ہو سکتا ہوں۔اور شاعر ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آپ دوسروں سے کس حد تک مختلف ہیں کہ ایک معیار بلکہ اصل معیار یہ بھی ہے اور اِس کا کچھ اندازہ فیصل عجمی کے اِس ضرب المثل شعر سے بھی لگایا جا سکتا ہے :
سوچتا ہی رہتا ہوں وہ جہان کیسا ہے
دوسری طرف سے یہ آسمان کیسا ہے
اور مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ فیصل عجمی اب بھی اُتنے ہی زور و شور سے شعر کہہ رہے ہیں جو قارئین کے لیے ایک نعمت ِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے اور یہ اُس کے چاہنے والوں کے لیے ایک خوشخبری کی حیثیت بھی رکھتی ہے ۔
اور اب آخر میں شعری مجموعہ’’ درویش‘‘ میں سے نمونہ ٔ کلام کے طور پر یہ غزل۔۔۔
غزل
دیوانگی کا خود پہ اثر کم کیا گیا
روئے بہت ہیں ،آنکھ کو تر کم کیا گیا
دل سے نکال دی گئی خواہش سوال کی
جنگل سے ایک اور شجر کم کیا گیا
ہے دل کا بوجھ ا ب مرے اعصاب پر سوار
بڑھنے لگا اِدھر جو اُدھر کم کیا گیا
تجھ سے کہا نہ تھا کہ مرے زخم کو نہ چھیڑ
بڑھ جائے گا یہ اور اگر کم کیا گیا
فیصل صدائیں دیتے ہیں مجھ کو غبار میں
وہ راستے کہ جن پہ سفر کم کیا گیا