سوء ادب :ہمارے جانور (شیر )

تحریر : ظفر اقبال


ایک لکڑ ہارا جنگل میں اپنے کام پر جا رہا تھا کہ اُسے ایک بلّی ملی جو رو رہی تھی ۔اُس سے اُس نے رونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ شیر نے اُسے بہت پریشان کر رکھا ہے اور بار بار جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے اتنے میں شیر بھی کہیں سے آدھمکا جسے لکڑ ہارے نے سرزنش کی کہ ایک معصوم بلّی کو پریشان کرتے ہو جس پر شیر بولا ،تم اپنے کام سے کام رکھو لیکن لکڑ ہارا بھی ڈٹ گیا جس پر شیر نے کہا کہ اگر اتنے ہی بہادر ہو تو میرے ساتھ لڑائی کر لو۔

 لکڑہارے نے کہا کہ میں تیار ہوں لیکن قریبی گائوں میں مجھے تھوڑا سا کام ہے میں تھوڑی دیر میں واپس آکر تم سے لڑ لوں گا۔ شیر نے کہا ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا لکڑہارا چند قدم چلنے کے بعد واپس آگیا اور بولا ،مجھے خدشہ ہے کہ تم بھاگ جائو گے ۔شیر نے کہا،کیا بات کرتے ہو ، میں شیر ہوں ہر گز نہیں بھاگوں گا ۔لکڑ ہارا پھر چند قدم چل کر واپس آگیا اور بولا کہ مجھے یقین ہے کہ تم بھاگ جائو گے جس پر شیر نے کہا کہ تمہیں کیسے یقین آئے گا کہ میں یہیں رہوں گا ۔لکڑ ہارے نے کہا کہ اِس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ میں تم کو درخت کے ساتھ باندھ جائوںاور واپس آکرتمہیں کھول دوں اور تم سے لڑائی کرلوں۔ شیر نے کہا، ٹھیک ہے۔ چنانچہ لکڑ ہارے نے اُسے اپنے رسّے سے ایک درخت کے تنے سے جکڑ کر باندھ دیا اور اپنی کلہاڑی کے ساتھ اسی درخت سے ایک شاخ کاٹ کر ایک سوٹا بنایا اور شیر کی دھلائی شروع کر دی شیر کی چیخیں سُن کر بلّی بھی قریب آکر شیر کی پٹائی کا نظارا کرنے لگی ۔لکڑ ہارا جب اسے جی بھر کر پِیٹ چکا تو شیر نے کہا کہ اب تو مجھے کھول دو جس پر لکڑ ہارے نے کہا کہ تمہیں اب وہی کھولے گا جو اپنی جان کا دشمن ہو گا ۔

جنگل میں ایک شیر کا ہاتھی سے ٹاکرا ہو گیا جس سے شیر نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ جنگل کا سب سے طاقتور جانور کون ہے ؟اِس پر ہاتھی نے اُسے اپنی سُونڈ میں لپیٹا اور چالیس فٹ دور پھینک دیا ۔شیر نے اُٹھ کر مٹی وغیرہ جھاڑی اور بولا ،’’اگر تمہیں معلوم نہیں تھا تو اِس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا بات تھی ‘‘

٭٭٭

سخن آباد (کلیات)

یہ بیرونِ ملک مقیم ہمارے دوست اور جدید اُردو غزل کے سربر آوردہ شاعر فیصل عجمی کے کُلّیا ت ہیں جو پانچ شعری مجموعوں ،درویش ،سمندر ،خواب ،شام او رمراسم پر مشتمل ہیں۔ کتاب کسی دیباچے یا مقدمے کے بغیر ہے ،اسے آثار اکادمی لاہور نے چھاپا ہے انتساب اِس طرح سے ہے :

دُعا جو دُور بوڑھی ہڈیوں کے ایک سیپارے سے اُٹھتی ہے ،وہ ساری جُھرّیاں جو اُس کے چہرے پر صحیفوں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں سب دُعا گو ہیں یہ سب کچھ اُس دعا کا معجزہ ہے

 آغاز میں ’’سمندر سخی ہے ‘‘کے عنوان سے ایک آزاد نظم ہے جبکہ پسِ سرورق شاعر کی تصویر او ر یہ شعر درج ہے :

سب ایک ساتھ ہوں گے یہ آب و سراب ختم

جب میری پیاس گھونٹ بھرے گی زمین کا 

ٹائٹل دلکش ہے ،صفحات672اور قیمت 3000 روپے ہے ۔

شاعر چھوٹا یا بڑا اور اچھا یا بُرا نہیں ہوتا وہ صرف ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ۔رُوسو نے کہا تھا کہ میں بہترین نہ ہوں گا لیکن میں باقی سب سے مختلف ہو سکتا ہوں۔اور شاعر ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آپ دوسروں سے کس حد تک مختلف ہیں کہ ایک معیار بلکہ اصل معیار یہ بھی ہے اور اِس کا کچھ اندازہ فیصل عجمی کے اِس ضرب المثل شعر سے بھی لگایا جا سکتا ہے :

سوچتا ہی رہتا ہوں وہ جہان کیسا ہے 

دوسری طرف سے یہ آسمان کیسا ہے 

اور مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ فیصل عجمی اب بھی اُتنے ہی زور و شور سے شعر کہہ رہے ہیں جو قارئین کے لیے ایک نعمت ِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے اور یہ اُس کے چاہنے والوں کے لیے ایک خوشخبری کی حیثیت بھی رکھتی ہے ۔

اور اب آخر میں شعری مجموعہ’’ درویش‘‘ میں سے نمونہ ٔ کلام کے طور پر یہ غزل۔۔۔

غزل

دیوانگی کا خود پہ اثر کم کیا گیا 

روئے بہت ہیں ،آنکھ کو تر کم کیا گیا 

 

دل سے نکال دی گئی خواہش سوال کی 

جنگل سے ایک اور شجر کم کیا گیا 

 

ہے دل کا بوجھ ا ب مرے اعصاب پر سوار 

بڑھنے لگا اِدھر جو اُدھر کم کیا گیا 

 

تجھ سے کہا نہ تھا کہ مرے زخم کو نہ چھیڑ 

بڑھ جائے گا یہ اور اگر کم کیا گیا 

 

فیصل صدائیں دیتے ہیں مجھ کو غبار میں 

وہ راستے کہ جن پہ سفر کم کیا گیا 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فیض حمید کے خلاف فرد جرم پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی

پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر فردِ جرم عائد ہونا اور ان پر تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ رابطوں اور ملک کو انتشار کا شکار کرنے کے الزامات تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرنے جا رہے ہیں۔

مدارس بل،جے یو آئی پسپائی کیلئے کیوں تیار نہیں؟

حکومت کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود جمعیت علماء اسلام اور اس کے لیڈر مولانا فضل الرحمن مدارس کے حوالے سے منظور شدہ بل میں تبدیلی کیلئے مطمئن نہیں، اور موجودہ صورتحال میں یہ ایک بڑا ایشوبن چکا ہے۔

سرد موسم میں سیاسی گرما گرمی

ملک میں سردی آگئی مگر سیاسی درجہ حرارت میں کمی نہیں آئی۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد مارچ کی گرمی ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اسلام آباد کی طرف رُخ کرنے کا اعلان کردیا۔ ادھر سندھ میں ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ نے آگ پر ہانڈی چڑھا دی۔ پیپلز پارٹی نے بھی چولہے کی لو تیز کردی ہے۔

پی ٹی آئی،جے یو آئی اتحاد کی حقیقت

پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مابین رابطے ایک بار پھر بحال ہورہے ہیں ۔جمعیت علمائے اسلام (ف) دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل پر وفاق سے ناراض ہے ۔

بلوچستان کی ترقی کیلئے سیاسی تعاون

بلوچستان کی معاشی ترقی کیلئے حکومت کے صنعتی، تجارتی اور زرعی منصوبے عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ وفاقی وزیر تجارت جام کمال اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی ترقی کی یقین دہانیاں خوش آئند ہیں مگر ماضی کے تجربات شفافیت اور سنجیدہ عمل درآمد کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔

مطالبات منظور،احتجاج ختم

آزاد جموں و کشمیر میں حکومت نے ’’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘‘ کو واپس لے لیا جس کے بعد مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج بھی پر امن طریقے سے ختم ہو گیاہے۔