مطالبات منظور،احتجاج ختم
آزاد جموں و کشمیر میں حکومت نے ’’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘‘ کو واپس لے لیا جس کے بعد مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج بھی پر امن طریقے سے ختم ہو گیاہے۔
حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات منظور کر لیے ہیں۔ دوران احتجاج گرفتار تاجروں کو بھی رہاکر دیا گیا۔ اتوار کے روز کوہالہ کے مقام پر حکومتی ٹیم میں شامل وزیر صحت ڈاکٹر انصر ابدالی ، سیکرٹری اطلاعات سردار عدنان خورشید، کمشنر پونچھ اور ڈی آئی جی پونچھ نے عوامی ایکشن کمیٹی کے وفد سے مذاکرات کئے۔ فریقین کے درمیان تحریری معاہدے کے مطابق مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی نے نہ صرف دھرنا ختم کر دیا بلکہ 23 جنوری کی ہڑتال کی کال بھی واپس لے لی۔گزشتہ سال 13 مئی کو گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والے اظہر کے بھائی کو مستقل سرکاری نوکری اور زخمی مظاہرین کو فی کس دس لاکھ روپے کی نقد امداد دی جائے گی۔ طلبہ یونین کی بحالی کے ساتھ بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز کے علاوہ اختیارات بھی دے جائیں گے۔ جن صارفین نے گزشتہ دو سال سے بجلی کے بل ادا نہیں کئے انہیں سابقہ بقایا جات 36 اقساط میں جمع کروانے کی سہولت دی گئی ہے۔ تاجروں نے اس احتجاج کی منصوبہ بندی مئی میں شروع کی تھی۔
دراصل تاجر سمجھتے ہیں کہ بجلی سستی کروانے کیلئے احتجاج انہوں نے منظم کیا تھا مگر سستی بجلی اور آٹے کے فوائد گھریلو صارف کو مل رہے ہیں؛چنانچہ گزشتہ چھ ماہ سے تاجر کمرشل بجلی کا ریٹ کم کرنے کیلئے احتجاج کا موقع تلاش کر رہے تھے۔ 29 اکتوبر کو حکومت نے ’’ پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس ‘‘ جاری کیا تو عوامی ایکشن کمیٹی نے اس آرڈیننس کو’’ زبان بندی کا آرڈیننس‘‘ اور’’ کالا قانون‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ اس آرڈیننس کے مطابق کسی عوامی جلسے ، جلوس یا مظاہرے کیلئے ضلعی انتظامیہ سے ایک ہفتہ قبل اجازت لینا لازمی ہے۔
آرڈیننس کو آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے تو اپنے فیصلے میں درست قرار دیا مگر سپریم کورٹ نے اسے معطل کر کے مستقل بنیادوں پر سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال کا بظاہر کوئی جواز نہیں تھا لیکن اس کے باوجود تاجروں نے نہ صرف ہڑتال جاری رکھی بلکہ آزاد جموں و کشمیر کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کر کے دھرنا شروع کر دیا۔ اس دھرنے کے دوران کچھ ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے جس پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے احتجاج کیا البتہ عوامی ایکشن کمیٹی نے ان واقعات سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔تاجر مئی سے ایک ایسے موقع کی تلاش میں تھے جسے وہ استعمال کر کے احتجاج کی کال دیں اور آزاد جموں و کشمیر میں بجلی کا کمرشل ریٹ کم ہو۔ یوں ان کو بھی گھریلو صارفین کی طرح سستی بجلی مل جائے۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے حالیہ احتجاج پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس کی آڑ میں آزاد جموں و کشمیر میں بجلی کا کمرشل ریٹ ختم کروانے کیلئے کیا تھا۔ آزاد جموں و کشمیر میں بجلی کا کمرشل ریٹ 57 روپے فی یونٹ تھا جسے حالیہ احتجاج کے بعد کم کر کے 25 روپے فی یونٹ کردیا گیا ہے۔عوامی ایکشن کمیٹی نے دکانداروں کے ساتھ ساتھ ہوٹلز ، میرج ہالز اور پٹرول پمپوں کو بھی فی یونٹ بجلی 57 روپے سے کم کر واکر 25 روپے فی یونٹ بجلی دینے پر حکومت کو مجبور کر دیا۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے اس سال مئی میں بیس ارب روپے سے زائد کا پیکیج دیا تھا جس کے ذریعے آزاد کشمیر میں گھریلو صارف کو بجلی فی یونٹ 24 روپے کے بجائے اب پانچ روپے میں مل رہی ہے جبکہ کمرشل میٹر کی بجلی 57 روپے فی یونٹ کے حساب سے تھی۔ دکاندار اس احتجاج سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔دکاندار اگر ہیٹر یا اے سی چلائیں تو بھی ایک ہزار یونٹ سے کم بجلی استعمال ہو گی مگر عوامی ایکشن کمیٹی نے ان کیلئے دو ہزار یونٹ تک کمرشل بجلی کو گھریلو ٹیرف لگا کر اپنا بجلی کا مطالبہ منوالیا ہے۔
باقی اشرافیہ کی مراعات کم کرنے یا صحت کارڈ کے مطالبے پر عوامی ایکشن کمیٹی نے کوئی دھیان نہیں دیا جس پر عام لوگ اور ان کے ہمدرد بھی حیران ہیں۔ تاجروں کو سستی بجلی دینے کے بعد اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ڈیوٹی ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو متحرک کرے اور ناپ تول ، مصنوعات کا معیار، معیاد ، قیمت ، روزانہ کی بنیادپر قیمتوں کا تعین یقینی بنائے اورجن دکانداروں نے اپنی دکان ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ نہیں کرائی ان کو ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دے اور اس کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔
علاوہ ازیں جو دکاندار یا تاجر فٹ پاتھوں پر سامان رکھ کر راہ گیروں کے راستوں پر قابض ہیں ان سے وہ خالی کر وائیں۔ حکومت اپنے انتظامی عملے کو تحصیل اور ضلع کی سطح پر باہر نکالے اور کاروبار کے حوالے سے جو سرکاری شرائط ہیں وہ تاجروں سے منوائے اور قانون کا بر وقت اور درست استعمال کرے۔ دکانداروں نے سستی بجلی تو لی ، تو کیا اب یہ دکاندار عام شہری کو چیز یں بھی سستی دیں گے؟ کیا دکاندار ملاوٹ سے پاک دودھ فروخت کرنے کے پابند نہیں؟ کیا دکاندار حکومت کو مستقل بنیادوں پر ٹیکس دیتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب حکومت دفتروں میں بیٹھی انتظامیہ کو متحرک کر کے لے سکتی ہے۔ دوسری طرف شہریوں اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ہر دکاندار کا بجلی کا میٹر اس کی دکان کے سامنے کھمبے پر نصب کروائے یا دکان کے باہر اسے لگایا جائے، نیز جدید اور کمپیوٹرائزڈ میٹروں کی تنصیب کا آغاز کاروباری مراکز سے کیا جائے اور جس تاجر نے میٹر دکان کے اندر نصب کیا ہو اس کو باہر نمایاں کر کے لگانے کا پابند کیا جائے تاکہ بجلی چوری میں بھی کمی آسکے۔