بلوچستان کی ترقی کیلئے سیاسی تعاون
بلوچستان کی معاشی ترقی کیلئے حکومت کے صنعتی، تجارتی اور زرعی منصوبے عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ وفاقی وزیر تجارت جام کمال اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی ترقی کی یقین دہانیاں خوش آئند ہیں مگر ماضی کے تجربات شفافیت اور سنجیدہ عمل درآمد کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔
سیاسی ہم آہنگی اور مشترکہ قومی مفاد ہی مسائل کے حل کا ضامن ہو سکتے ہیں۔ رواں ہفتہ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات ہوئی ۔دونوں رہنماؤں کی ملاقات بلوچستان کی ترقی کیلئے سیاسی تعاون کو ظاہر کرتی ہے۔ بینظیربھٹو سکالرشپ پروگرام اور امراضِ قلب کے جدید ہسپتال کا قیام صوبے میں عوامی فلاح کیلئے ایک اہم پیشرفت ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں دیرپا ترقی کیلئے وفاقی حکومت کے ساتھ مضبوط رابطہ، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور بلدیاتی اداروں کی مالی خودمختاری ضروری ہے۔ سیاسی عزم کو عملی اقدامات میں بدلنے سے ہی صوبے کے عوام حقیقی تبدیلی محسوس کر سکیں گے۔وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ون ونڈو آپریشن اور سیکورٹی کی فراہمی کا اعلان بھی کیا ۔ یہ اقدام صوبے کی معاشی ترقی میں اہم سمجھا جا رہا ہے، جہاں قدرتی وسائل کی موجودگی کے باوجود ترقیاتی عمل سست ہے۔کراچی میں تاجر برادری سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے سرمایہ کاروں کو بیوروکریسی کی رکاوٹوں سے بچانے کیلئے ون ونڈو آپریشن شروع کرنے کا وعدہ کیا۔ ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ کاروباری ماحول میں شفافیت اور تیزی لا سکتا ہے۔ تاہم اس منصوبے کی کامیابی انتظامی شفافیت پر منحصر ہے۔سیکورٹی کی یقین دہانی بھی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ مقامی سرمایہ کاروں کو بھی عالمی معیار کی سیکورٹی فراہم کرنے کا وعدہ حوصلہ افزا ہے لیکن عملی اقدامات ضروری ہیں۔توانائی اور انفراسٹرکچر کی کمی دیرینہ مسائل ہیں جن کے حل کے بغیر سرمایہ کاری کے منصوبے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وزیراعلیٰ نے 30 ہزار نوجوانوں کی فنی تربیت اور مزدوروں کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا جو انسانی وسائل کی ترقی کیلئے اہم ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان بینک کے قیام کا اعلان صوبے کی معاشی خودمختاری میں مددگار ہو سکتا ہے بشرطیکہ شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اپنے وعدے پورے کرنے میں کامیاب رہی تو یہ اقدامات بلوچستان اور ملک کی مجموعی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
رواں ہفتہ بلوچستان کابینہ کے حالیہ اجلاس میں پی پی ایل لیز معاہدے پر تحفظات کا اظہار اور دیگر اہم فیصلے صوبے کے سیاسی و اقتصادی مفادات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ترجمان حکومت شاہد رند کے مطابق پی پی ایل معاہدے کی پندرہ سالہ میعاد ختم ہونے کے باوجود صوبائی حکومت کو اس کا جائز حصہ نہیں ملا جو کہ وفاقی و صوبائی اداروں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔صوبائی کابینہ کے فیصلوں میں زرعی پیداوار کے رولز میں ترامیم، ایس ایم ای ڈویلپمنٹ سٹریٹیجی کی منظوری اور ریکوڈک ترمیمی مائننگ لائسنس کا اجرااقتصادی ترقی کیلئے اہم پیش رفت ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے تکتو حفاظتی علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ دینا ماحولیاتی تحفظ کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ ’’بلوچستان پبلک گیدرنگ اسمبلی اینڈ پروسیشن ایکٹ 2024‘‘کی منظوری حکومت کے امن و امان کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔یہ فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچستان حکومت معاشی خودمختاری، ماحولیاتی تحفظ اور سماجی امن کے فروغ کیلئے متحرک ہے۔ تاہم پی پی ایل معاہدے جیسے مسائل پر وفاقی حکومت کا تعاون کلیدی اہمیت رکھتا ہے تاکہ صوبے کی جائز اقتصادی و سیاسی خودمختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان کے حالیہ بیان نے بلوچستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے اہم مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان ایک بین الاقوامی بزنس گیٹ وے ہے۔ بلوچستان میں صنعت و تجارت کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنیادی ڈھانچے اور توانائی کی قلت ہے۔ جام کمال خان نے تسلیم کیا کہ انڈسٹریل زونز میں پانی، بجلی اور گیس کی عدم فراہمی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہ مسائل برسوں سے برقرار ہیں اور انہیں حل کرنے کیلئے فوری اور نتیجہ خیز اقدامات ضروری ہیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بہتر رابطہ اور مشترکہ منصوبہ بندی ضروری ہے۔ انڈسٹریل زونز کی بحالی اور سپیشل اکنامک زونز کی ترقی کیلئے سرمایہ کاری اور کاروباری طبقے کا اعتماد بحال کرنا ناگزیر ہے۔ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارتی روابط کو بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان خطے کا تجارتی مرکز بن سکے۔ بلوچستان میں معدنیات اور قدرتی وسائل کی کثرت کے باوجود ان کا مناسب استعمال نہ ہونا حکومتی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے۔اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں صنعتوں کی ترقی میں دلچسپی لیں تو بلوچستان کی معیشت میں انقلاب آ سکتا ہے۔ تاہم یہ صرف بیانات تک محدود رہا تو مستقبل میں مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بلوچستان کے عوام عملی اقدامات اور دیرپا منصوبوں کے منتظر ہیں۔
دوسری جانب دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ بھی سیاسی و مذہبی حلقوں میں شدت اختیار کر چکا ہے۔ جمعیت علما اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما میر محمد صادق عمرانی کے حالیہ بیانات سے یہ تنازع بلوچستان میںطول پکڑ سکتا ہے۔ ان بیانات میں مدارس کی رجسٹریشن، قومی سلامتی اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی ہے۔مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ پاکستان میں ہمیشہ ایک حساس موضوع رہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ رجسٹریشن کا مقصد دینی تعلیم کو منظم کرنا، شفافیت یقینی بنانا اور ممکنہ انتہا پسندی کی روک تھام ہے‘ تاہم مذہبی حلقوں کا موقف ہے کہ یہ اقدام دینی مدارس کو سرکاری کنٹرول میں لینے اور اسلامی تشخص کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔ مولانا عبدالواسع نے مدارس کو اسلام کے قلعے قرار دیتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا کہ مدارس بل مسترد کرنا مذہبی طبقے کی توہین کے مترادف ہے۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر میر محمد صادق عمرانی نے مولانا فضل الرحمن سے مدارس کی رجسٹریشن معاہدے کی پاسداری کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کا نظام بہتر بنانے اور شفافیت یقینی بنانے کیلئے وفاقی وزارت تعلیم اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے درمیان اگست 2019ء کو ہونے والے معاہدے پر عمل ضروری ہے۔ انہوں نے سیاسی رسہ کشی کیلئے مدارس کے استعمال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مدارس اور ان کے طلبا قومی سلامتی کیلئے اہم ہیں لیکن ان کے معاملات کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنا نقصان دہ ہوگا۔مدارس بل جیسے حساس معاملے کو گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے، حکومت کو مذہبی قیادت کے تحفظات سننے اور ان کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مدارس کی رجسٹریشن کا مقصد نظام کی بہتری اور شفافیت ہے تو یہ تنازع افہام و تفہیم سے ختم کیا جا سکتا ہے ۔