صدقہ :احکام و مصرف

تحریر : مولانا قادری محمد سلمان عثمانی


صدقہ کرنا ہر مسلمان کا شیوہ ہونے چاہیئے چونکہ صدقہ مصیبتوں، آزمائیشوں، پریشانیوں کو ٹالتا ہے، اللہ تعالیٰ کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے، ہر آنیوالی پریشانی میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ اس کے علا وہ صدقہ و خیرات کرنے کے بے پناہ فوائد ہیں۔

حضر ت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’اپنے بھائی کی خوشی کی خاطر ذرا مسکرا دینا بھی صدقہ ہے، کوئی نیک بات کہہ دینا بھی صدقہ ہے،تمہارا کسی کو بری بات سے روک دینا بھی صدقہ ہے، کسی بے نشان زمین کا کسی کو راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے، جس شخص کی نظر کمزور ہو اس کی مدد کردینا بھی صدقہ ہے، راستہ سے پتھر،کانٹا اورہڈی کا ہٹا دینا بھی تمہارے لیے ایک صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے‘‘ (صحیح ترمذی : 1594)۔

اللہ کے رسول ﷺ نے قسم اٹھا کر جو باتیں ارشاد فرمائی ہیں ان میں پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں لوگوں کی دینی و دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے سے یعنی صدقہ کرنے سے انسان کے مال میں ہرگز کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر فقراء کو دے دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تمہارے کاموں کی اللہ کو خوب خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرۃ: 271)۔ صدقہ دونوں طرح سے کرنا درست ہے ظاہر کر کے بھی کیا جائے تو اس میں حرج نہیں اور چھپا کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں ظاہر کر کے دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے تاکہ باقی لوگوں میں بھی اس کی ترغیب اور شوق پیدا ہو اور وہ بھی نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ 

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے (یعنی دینا لینے سے بہتر ہے) تو شروع کر اپنے اہل و عیال سے (یعنی پہلے انہیں کو دے) عیال کون ہیں؟تیری ماں، تیرا باپ، تیری بہن، تیرا بھائی، پھر جو زیادہ قریب ہو، پھر جو اس کے قریب تر ہو‘‘ (معارف الحدیث، طبرانی، مسلم و بخاری)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مرد نے جو اپنے اہل اور اپنی ذی رحم اور ذی قرابت پر خرچ کیا وہ سب اس کیلئے صدقہ ہے (طبرانی، معارف الحدیث)۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کی تین لڑکیاں ہیں یہ ان کو ادب سکھاتا ہے، ان پر رحم کرتا ہے، ان کا کفیل ہے تو اس کیلئے یقیناً جنت واجب کی گئی، کسی نے کہا: یارسول اللہ ﷺ بھلا اگر دو ہی لڑکیاں ہوں؟ فرمایا چاہیں دو ہی ہوں، بعض لوگوں نے سمجھاکہ اگر ایک لڑکی کیلئے سوال کیا جاتا تو ایک کو بھی آپﷺ فرما دیتے۔ طبرانی نے یہ زیادہ کیا ہے کہ اس نے ان کا نکاح بھی کر دیا (احمد،بزار، طبرانی)۔ 

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جو مسلمان بندہ کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے تو اس درخت یا اس کھیتی میں سے جو پھل یا جو دانہ کوئی انسان یا کوئی پرندہ یا کوئی چوپایہ کھائے گا وہ اس (درخت یا کھیتی والے) بندہ کیلئے صدقہ اور اجر و ثواب کا ذریعہ ہو گا(صحیح بخاری و مسلم،معارف الحدیث)۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں انہوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! کونسا صدقہ افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ صدقہ افضل ترین ہے جو غریب آدمی اپنی کمائی سے کرے اور پہلے ان پر خرچ کرے جس کا وہ ذمہ دار ہو‘‘ (یعنی اپنی بیوی بچوں پر)(سنن ابو داؤد)۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جتنے انسان ہیں سب کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ بنائے گئے ہیں (ہر جوڑ کی طرف سے ایک صدقہ ادا کرنا واجب ہوتا ہے) تو جس نے اللہ اکبر کہا یا الحمدللہ یا لاالہ الااللہ یا سبحان اللہ یا استغفراللہ کہا ہرایک صدقہ شمار ہو جاتا ہے، اسی طرح جس نے لوگوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا (ترجمان السنہ، ادب المفرد)۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ اگر تم سے کچھ اور نہ ہوسکے تو بے کس اور حاجت مند کی مدد ہی کیا کرو‘‘ (صحیح مسلم : 546)۔ یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’بھولے بھٹکے ہوئے کو اور کسی اندھے کو راستہ بتانا بھی صدقہ ہے ‘‘(ترمذی)۔ نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص راستہ چلنے میں کوئی کانٹا راستہ سے ہٹا دے تو اللہ تعالیٰ اس کے کام کی قدر کرتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے‘‘ (جامع ترمذی، سیرۃ النبیﷺ)۔ 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا: میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے ترکہ میں کچھ مال چھوڑا ہے اور صدقہ وغیرہ کی کوئی وصیت نہیں کی ہے،تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا میرا یہ صدقہ ان کیلئے کفارہ اور مغفرت ونجات کا ذریعہ بن جائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ سے اسی کی امید ہے (تہذیب الآثار لبن جریر،معار ف الحدیث)۔

حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’تم اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر اس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کرتی رہو اور گنومت(یعنی اس فکر میں مت پڑ و کہ میرے پاس کتنا ہے اور اس میں سے کتنا راہ خدا میں دوں) اگر تم اس کی راہ میں اس طرح حساب کرکر کے دو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا اور اگر بے حساب دو گی تووہ بھی اپنی نعمتیں تم پر بے حساب انڈیلے گا اور دولت جوڑ جوڑ کر اور بند کرکے نہ رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا(کہ رحمت اور برکت کے دروازے تم پر خدانخواستہ بند ہوجائیں گے)لہٰذا تھوڑا بہت جو کچھ ہوسکے اور جس کی توفیق ملے راہِ خدا میں کشادہ دستی سے دیتی رہو‘‘(صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:کہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے۔ (جامع ترمذی)۔حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’خیرات کرنے میں (حتیٰ الامکان) جلدی کیا کروکیونکہ بلا اس سے آگے بڑھنے نہیں پاتی‘‘ (رزین، حیوٰۃ المسلمین)۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’صدقہ سے مال میں کمی نہیں آتی (بلکہ اضافہ ہوتا ہے)اور قصور معاف کردینے سے آدمی نیچا نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کو سربلند کردیتا ہے اور اس کی عزت میں اضافہ ہوجاتا ہے، جو بندہ اللہ تعالیٰ کیلئے فروتنی اور خاکساری کا رویہ اختیار کرے گا،اللہ تعالیٰ اس کورفعت اور بالاتری بخشے گا‘‘(صحیح مسلم)۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’سات چیزیں ہیں جن کا ثواب بندہ کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور یہ قبر میں پڑا رہتا ہے،جس نے علم (دین)سکھایا، کوئی نہر کھودی، کوئی کنواں کھدوایا، کوئی درخت لگایا، کوئی مسجد بنائی،یا قرآن ترکہ میں چھوڑگیا،کوئی اولاد چھوڑی جو اس کے مرنے کے بعد بخشش کی دعا کرے‘‘ ۔اس حدیث سے دینی مدرسہ کی اور رفاہِ عامہ کے کاموں کی فضیلت ثابت ہوئی۔

اللہ کو راضی کرنے کیلئے صدقہ کریں،مال زیادہ ہو یا تھوڑا بہرحال صدقہ کریں۔اچھے اور پاکیزہ مال کا صدقہ کریں۔ نیک صالح لوگوں پر صدقہ کریں۔مستحق قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کریں۔دینی اداروں کے طلباء پر صدقہ کریں۔ اپنے بچوں کو صدقہ دینے کا عادی بنائیں اور ان کے ہاتھ سے صدقہ دلوائیں۔ صدقہ دینے کے بعد احسان نہ جتلائیں۔ مشکوک یا حرام مال اور مشکوک جگہوں پرزکوٰۃ اور صدقات ادا نہ کریں۔  

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اصلی مسکین (جس کی صدقہ سے مدد کرنی چاہیے)وہ آدمی نہیں ہے جو (مانگنے کیلئے)لوگوں کے پاس آتا  ہے (در،در پھرتا ہے اورسائلانہ چکر لگاتا ہے)اور ایک دو لقمے یا ایک دو کھجوریں (جب اس کے ہاتھ پر رکھ دی جاتی ہیں تو)لے کر واپس لوٹ جاتا ہے،بلکہ اصلی مسکین وہ بندہ ہے جس کے پاس اپنی ضرورتیں پوری کرنے کا سامان بھی نہیں ہے اور (چونکہ وہ اپنے اس حال کو لوگوں سے چھپاتا ہے اس لئے)کسی کو اس کی حاجت مندی کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ صدقہ سے اس کی مدد کی جائے اور نہ وہ چل پھر کرلوگوں سے سوال کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری،مسلم)

’’حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صدقہ مال میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا، بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ ہی بلند فرماتا ہے‘‘۔

 اللہ کی رضا کو فراموش کر کے اپنی بڑائی، برتری اور شہرت کی خاطر ایسا کرنا ’’ریا‘‘ کہلاتا ہے۔ قرآن کریم نے کھلم کھلا صدقہ کرنے کی مذمت نہیں بلکہ تعریف فرمائی ہے۔ اس لیے خشک طبیعت دینی اسرار و رموز سے ناواقف لوگوں کے اس دھوکے کا شکار ہرگز نہ ہوں کہ کھلم کھلا صدقہ کرنے سے ثواب نہیں ملتا،یہ سراسر دھوکہ ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص علی الاعلان صدقہ کرتا ہے اور اس کی جائز مقاصد کے پیش نظر تشہیر بھی کرتا ہے تو یہ عمل ہرگز شریعت کے خلاف نہیں۔ہاںچپکے سے صدقہ دینا زیادہ فضیلت کا باعث ہے کیونکہ اس میں شیطان و نفس کے فریب یعنی ریا، دکھلاوا،عُجب، اور شہرت پسندی کا احتمال نہیں ہوتا۔ 

حضرت انس بن مالک ؓسے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے‘‘(سنن الترمذی : 664، شعب الایمان، 3 / 213، الرقم: 3351)

حضرت میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوںنے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ ! آپﷺ ہمیں صدقہ کے متعلق بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ثواب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے صدقہ کرتا ہے اس کے لئے یہ نار جہنم سے رکاوٹ ہے‘‘( المعجم الکبیر، 25 / 35، الرقم: 3449.

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فیض حمید کے خلاف فرد جرم پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی

پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر فردِ جرم عائد ہونا اور ان پر تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ رابطوں اور ملک کو انتشار کا شکار کرنے کے الزامات تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرنے جا رہے ہیں۔

مدارس بل،جے یو آئی پسپائی کیلئے کیوں تیار نہیں؟

حکومت کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود جمعیت علماء اسلام اور اس کے لیڈر مولانا فضل الرحمن مدارس کے حوالے سے منظور شدہ بل میں تبدیلی کیلئے مطمئن نہیں، اور موجودہ صورتحال میں یہ ایک بڑا ایشوبن چکا ہے۔

سرد موسم میں سیاسی گرما گرمی

ملک میں سردی آگئی مگر سیاسی درجہ حرارت میں کمی نہیں آئی۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد مارچ کی گرمی ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اسلام آباد کی طرف رُخ کرنے کا اعلان کردیا۔ ادھر سندھ میں ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ نے آگ پر ہانڈی چڑھا دی۔ پیپلز پارٹی نے بھی چولہے کی لو تیز کردی ہے۔

پی ٹی آئی،جے یو آئی اتحاد کی حقیقت

پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مابین رابطے ایک بار پھر بحال ہورہے ہیں ۔جمعیت علمائے اسلام (ف) دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل پر وفاق سے ناراض ہے ۔

بلوچستان کی ترقی کیلئے سیاسی تعاون

بلوچستان کی معاشی ترقی کیلئے حکومت کے صنعتی، تجارتی اور زرعی منصوبے عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ وفاقی وزیر تجارت جام کمال اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی ترقی کی یقین دہانیاں خوش آئند ہیں مگر ماضی کے تجربات شفافیت اور سنجیدہ عمل درآمد کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔

مطالبات منظور،احتجاج ختم

آزاد جموں و کشمیر میں حکومت نے ’’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘‘ کو واپس لے لیا جس کے بعد مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج بھی پر امن طریقے سے ختم ہو گیاہے۔