وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

تحریر : محمد اسلم میر


آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔

 درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صداقت حسین راجا نے تین ہائی کورٹ ججز، جسٹس عارف حسن، جسٹس شاہد بہار اور جسٹس اعجاز خان پر مشتمل لارجر بنچ تشکیل دے دیا۔ لار جر بنچ چوہدری انوارالحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے حوالے سے اس کیس کی سماعت 12 نومبر کو کرے گا۔ لارجر بنچ کی تشکیل سے قبل اس کیس کی ابتدائی سماعت کے دوران چیف جسٹس صداقت حسین راجا نے کہا تھا کہ درخواست گزار نے خود چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم منتخب کرنے کے لیے ووٹ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب ڈیڑھ سال قبل جب چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو (ن) لیگ آزاد جموں و کشمیر شاخ میں راجا فاروق حیدر واحد رکن قانون ساز اسمبلی تھے جنہوں نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر سب سے پہلے چوہدری انوار الحق کو قائد ایوان کے طور پر پیش کیا۔ یوں موجودہ وزیر اعظم کو بنانے کے لیے راجا فاروق حیدر نے (ن) لیگ کی طرف سے سب پہلے دستخط کئے۔

اس کیس کی سماعت کے دوران حکومتی وکیل پیش ہوا ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے عدالت کو کوئی تحریری جواب بھیجا گیا ہے۔ اس درخواست میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق پر یہ الزام بھی لگا یا گیا ہے کہ وہ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین کے تحت وزارت عظمیٰ کے منصب کے قابل نہیں ہیں۔درخواست گزار کا موقف ہے کہ چوہدری انوار الحق سپیکر قانون ساز اسمبلی کے عہدے سے استعفیٰ دیے بغیر وزیر اعظم منتخب ہو گئے تھے۔ عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ قانون ساز اسمبلی سیکرٹریٹ کو حکم جاری کرے کہ وہ اپریل 2023ء کو وزیر اعظم کے انتخاب کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے کر از سر نو وزیر اعظم کا انتخاب کرانے کے لیے انتظامات کروائے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ جسٹس صداقت حسین راجا نے کہا کہ وزیر اعظم کے انتخاب کو ڈیڑ ھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، درخواست گزار نے وزیر اعظم کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ بھی ڈالا تھا لیکن ڈیڑھ سال کا وقت گزرنے کے بعد آج پٹشنر کو کیسے لگا کہ وزیر اعظم کا انتخاب غیر آئینی ہے؟ جسٹس صداقت حسین راجا نے کہا کہ اس اہم قومی نوعیت کے کیس کو آئندہ لاجر بنچ سماعت کرئے گا۔

 وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے 2011ء میں شروع کئے گئے رٹھوعہ ہریام پل کی تعمیر کا رکا ہوا کام دوبارہ شروع کروا دیا ہے۔ تین کلو میٹر لمبا یہ پل منگلا ڈیم توسیعی منصوبے کا حصہ تھا۔ اس پل کی تعمیر کے لیے واپڈا ، آزاد جموں و کشمیر اور وفاقی حکومتوں کے درمیان با ضابطہ معاہدہ ہوا تھا۔ اس پل کا 80 فیصد کام پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے جبکہ اس کے ساتھ ملنے والی قریبی علاقوں کی چار سڑکیں بھی تعمیر ہو چکی ہیں۔ منگلا ڈیم کے وسط میں گہرے پانی کے اوپر سے گزرنے والے اس پل کے 160 میٹر حصے کی تعمیر میں تاخیر ہوتی رہی۔ اس پل کے تعمیر اتی کام کی بحالی کا کریڈٹ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو جاتا ہے۔ ان کی ذاتی کاوشوں سے یہ نامکمل تعمیراتی منصوبہ بارہ سال کے بعد دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ اس منصوبے سے ضلع کوٹلی اور میر پور کے گرد ونواح میں کئی علاقوں کے لوگوں کے سفر میں کمی واقع ہو گی۔ دوسری جانب اس پل کی تعمیر سے علاقے میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔میر پور کے نواحی علاقے اسلام گڑھ کے مقام پر رٹھوعہ گاؤں سے یہ پل شروع ہوکر منگلا ڈیم سے گزرتے ہوئے چکسواری کے قریب ہریام گاؤں میں ختم ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس پل کا نام رٹھوعہ ہریام پل رکھا گیا ہے۔ پل پر کل لاگت 10 ارب روپے آئے گی جو وفاقی حکومت ادا کرے گی۔ پل کا ورک آرڈر فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن(FWO) کو دے دیا گیا ہے۔ منگلا ڈیم میں پانی کی سطح کم ہونے کے ساتھ ہی اس اہم منصوبے پر کام شروع کر کے اسے مقررہ ڈیڈ لائن سے قبل مکمل کیا جائے گا۔ میر پور ڈویژن سے 10 لاکھ سے زائد لوگ برطانیہ سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ تارکین وطن کے لیے اس پل کی تعمیر ایک بڑی سہولت ہو گی۔ اس پل کی تعمیر سے جہاں چھوٹے لندن یعنی میرپور شہر کی اہمیت اور بڑھ جائے گی وہاں علاقے میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔

 وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی گزشتہ ڈیڑھ سال کی محنت بالخصوص گورننس کے حوالے سے جہاں رنگ لا رہی ہے وہاں وہ آزاد جموں کشمیر کے لوگوں کو اب تک صحت کارڈ کی سہولت دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر میں سالانہ صحت کارڈ پر کل چھ ارب روپے لاگت آئے گی جو وفاقی حکومت پی ایس ڈی پی سے جاری کرتی ہے۔ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق رٹھوعہ ہریام پل کی طرح آزاد جموں و کشمیر میں صحت کارڈ کے اجرا کو یقینی بنانے کے لیے بھی وفاق سے بات کریں۔ عام آدمی کے صحت سے جڑے مسائل کو حل کرنے اور اس کے لیے قومی صحت کارڈ کو بحال کروانے کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی ضرورت ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی30 سے 40 فیصد آبادی راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاقوں میں رہتی ہے۔ صحت کارڈکی سہولت سے ان سب لوگوں کا علاج راولپنڈی کے علاوہ ملک کے کسی بھی اچھے ہسپتال میں ہو سکے گا۔لہٰذا وزیر اعظم چوہدری انوار الحق صحت کارڈ کے حصول کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے عام لوگوں سے دعا ئیں لیں۔شعبہ صحت کو بہتر کرنے کے لیے موجودہ وزیر صحت آزاد جموں و کشمیر ڈاکٹر انصر ابدالی خاصا کام کر رہے ہیں۔ وزیر صحت کی کامیابی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انہوں آزاد جموں کشمیر کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے 147 نئے ڈاکٹروں کو بذریعہ پبلک سروس کمیشن بھرتی کیا ہے جبکہ گریڈ 18 کے 19 سپیشلسٹ ڈاکٹرز بھی تعینات کئے گئے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دوست وہ جو مشکل میں کام آئے!

کسی جنگل میں ایک درخت پر دو کبوتر نر اور مادہ رہتے تھے۔وہ دونوں ہنسی خوشی زندگی گزاررہے تھے،کچھ دن پہلے مادہ نے انڈے دئیے تھے اور اب وہ ان پر بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ چند دن تک ان میں سے بچے نکلنے والے تھے۔

قاضی صاحب کا فیصلہ

ایک گائوں میں ارمان نامی آدمی رہتاتھا اُس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ ایک دن اُس نے سوچا کہ وہ نوکری ڈھونڈنے شہر جائے گا۔ اُس کے پاس صرف تین اشرفیاں تھیں۔ وہ اپنے سفر پر نکل گیا۔

مجلس کے آداب

مجلس میں کسی بیٹھے ہوئے آدمی کو اُٹھا کراس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کریں یہ انتہائی بُری عادت ہے۔

سنہری حروف

٭… آپ کا پل پل بدلتا رویہ، آپ سے وابستہ لوگوں کو پل پل اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔

زرا مسکرائیے

ایک لڑکا روتا ہوا گھر آیا،ماں نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ استاد نے مارا ہے۔

پہلیلیاں

نازک نازک سی اِک گڑیاکاغذ کے سب کپڑے پہنےدھاگے کے سب زیور گہنےسیدھی جائے، مڑتی جائےپری نہیں، پر اڑتی جائے(پتنگ)