سنہرے بنگال کے آخری ایّام

سنہرے بنگال کے آخری ایّام

اسپیشل فیچر

تحریر : جاوید ہاشمی


اکتوبر 1971ء میں پنجاب یونیورسٹی یونین کو ایران یا مشرقی پاکستان میں سے کسی ایک جگہ دورہ کرنے کا اختیار دیا گیا۔ کچھ دوستوں کا خیال تھا ایران چلیں جہاں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی بادشاہت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن منا رہے تھے، اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کی بادشاہت اڑھائی دن کی مہمان ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ مشرقی پاکستان جاکر اپنے روٹھے ہوئے بھائیوں کو منانے کی کوشش کریں۔ پروفیسر وارث میر کی قیادت میں قافلہ دل روانہ ہوا۔ سری لنکا کا طویل چکر کاٹ کر جب ہم ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اترے تو ایک خوفناک خاموشی نے ہمارا استقبال کیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے حکام اور اساتذہ کرام موجود تھے۔ پژمردہ چہروں نے اپنے مہمانوں کو ڈھاکہ یونیورسٹی پہنچا دیا۔ ایئرپورٹ سے یونیورسٹی کے ہاسٹلز تک راستے میں ایک مہیب خاموشی تھی۔ بعد میں پتہ چلا مکتی باہنی نے اپنے ریڈیو پر ہمیں قتل کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے اور ہر ایک کے سر کی قیمت مقرر کر دی ہے۔ ہم نے ہمت نہ ہاری اور اپنا دورہ شروع کر دیا۔ ہم ان 15 دنوں میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے ملے، اخبارات کو انٹرویو دیے، ٹی وی مکالموں میں حصہ لیا۔ بیت المکرم میں جمعہ ادا کیا۔ پلٹن میدان میں میزبانوں کے ساتھ چائے پی۔ شیر بنگال اور خواجہ ناظم الدین کے مزاروں پر حاضری دی۔ محمد پور اور میرپور کے بہاری کیمپوں کا دورہ کیا۔ بہاری عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے کٹے ہوئے اعضاء دیکھے۔ ہماری ملاقات جنرل رائو فرمان اور جنرل اے کے نیازی سے ہوئی، البدر اور الشمس کے کمانڈروں سے بھی۔ چٹاگانگ کے کمشنر ایس کے جیلانی سے، فوج کے سپاہیوں اور کمانڈروں سے بھی۔ ہمیں بہت جلد احساس ہو گیا کہ ہم مفتوحہ علاقے میں ہیں اور یہ مغربی پاکستان کا آخری وفد ہے جو پاکستان کے پاسپورٹ پر یہاں آیا ہے۔ چار واقعات ایسے ہیں جو ہمیشہ یاد آتے ہیں۔ میں نے گاڑی سے اتر کر سائیکل رکشہ پر سفر شروع کیا اور دیکھا رکشہ ڈرائیور ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔ میں نے کہا میں رکشا کھینچوں گا اور وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے گا۔ وہ خوف زدہ ہو گیا اور کانپنے لگا، مگر انکار نہ کر سکا۔ میں چاہتا تھا کہ ڈھاکہ کے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہم انہی میں سے ہیں۔ تھوڑی دور جا کر اس نے بلند آواز سے کہا: رکشہ روکو، مجھے روزمرہ کی بنگالی آتی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تم ڈر کیوں رہے ہو؟ اس نے کہا یہ سائیکل رکشہ ہندو مہاجن کی ملکیت ہے، اگر اسے نقصان پہنچا تو میرے بچے بھوکے مر جائیں گے۔ مشرقی پاکستان کی ترقی کے نعرے کھوکھلے تھے، بنگالی معیشت پر ہندو کے اثرات کو سمجھنے کے لئے اب مجھے کسی دانشور، کسی کتاب کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم ڈھاکہ ٹیلی ویژن پر انٹرویو دینے گئے تو ہمارے لیے ٹی وی سٹیشن پر خصوصی انتظامات کیے گئے۔ گویا جیسے شہزادے اپنی رعایا کو دیکھنے آئے ہیں۔ انٹرویو دے کر باہر نکل رہے تھے کہ ڈی ایس پی فیاض شاہ ہمیں دفتر میں لے گئے اور حکم جاری کیا کہ ٹی وی کے معمول کے پروگرام کو روک کر نورجہاں کے گانے شروع کر دیئے جائیں ’’لاہور توں منڈے آئے نیں۔‘‘ پورا مشرقی پاکستان پنجابی گانے سن رہا تھا۔ کیا آج بھی موسیقی روح کی غذا تھی؟ہم ڈھاکہ کے نواح میں دریائے شتولاک کو کشتی سے عبور کرکے پٹ سن کے کارخانے پر تعینات ان پولیس اور فوج والوں سے ملنے گئے جن کا تعلق لاہور سے تھا۔ راستے میں ہم نے دیکھا گدھ اور کتنے ایک انسانی لاش کو بھنبھوڑ رہے تھے۔ میں نے ایک آفیسر سے پوچھا تو وہ ہنسا اور اس نے کہا: یہ ایک چالاک بنگالی تھا۔ ہمارے بیٹ مین نے کہا کہ کئی دن ہو گئے ہیں ہم نے کوئی بنگالی نہیں مارا۔ یہ شخص کشتی پر جا رہا تھا، ہم نے پکارا تو اس نے کشتی تیز کرکے بھاگنا چاہا، میں نے نشانہ لے کر گولی چلائی اور اس نے پانی میں غوطہ لگا دیا، بڑی مشکل سے اس کی ٹانگ پر گولی لگی تو یہ قابو آ گیا، خیر آپ اس قصے کو چھوڑیں، ہم کافی دیر سے کھانے پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ بنگالنیں بہت اچھا کھانا بناتی ہیں اور ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ جنرل فرمان علی نے کہا: آپ کو شفیق الاسلام کے ساتھ ان کے عزیزوں کے ہاں افسوس کے لیے جانا ہے کہ ایک المناک واقعہ ہوا ہے۔ شفیق الاسلام مسلم لیگی رہنما تھے۔ واقعہ کی جو تفصیلات انہوں نے ہمیں بتائیں وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی تھیں۔ فوجی ایکشن کے دوران کچھ جوان ایک گھر میں داخل ہوئے، جہاں خواتین جمع تھیں، خواتین پر حملہ کیا تو وہ قرآن اٹھا لائیں اور کہا: ہم آپ کی بہنیں ہیں اور آپ کی کامیابی اور سلامتی کے لیے اکٹھی ہو کر اجتماعی دعا مانگ رہی ہیں۔ حملہ آوروں نے کہا کہ ہم جس گھر میں جاتے ہیں یہی بہانہ بنایا جاتا ہے، ہمیں معلوم ہے آپ کا تعلق مکتی باہنی سے ہے۔ وہ واسطے دیتی رہیں، لیکن حملہ آوروں نے ان کی ایک نہ سنی۔ بعد میں حقیقت سامنے آئی اور محب وطن بنگالیوں نے شدید احتجاج کیا تو گورنر سمیت سب نے ان سے معذرت کی، صرف معذرت! اپنی مائوں اور بہنوں کے سامنے ہم شرم سے سر جھکائے کھڑے تھے۔ سفر کے آخری مرحلے میں ہم چٹاگانگ سے آگے کپتائی جھیل کے کنارے پہنچے ۔ ہمیں کہا گیا کہ فوراً ڈھاکہ پہنچیں، آپ کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ میں بضد تھا کہ ہمیں حسب پروگرام راجشاہی جانا چاہیے۔ حکام نے پروفیسر وارث میر کو اطلاع دی کہ راجشاہی کے وائس چانسلر راجشاہی سے بھاگ کر ڈھاکہ پہنچے ہیں، خطرہ مول نہ لینا چاہیے۔ میں نے کہا اگر ہماری لاشیں مغربی پاکستان جائیں گی تو انہیں احساس ہوگا کہ مشرقی پاکستان میں آگ اور خون کی ہولی جاری ہے۔ میرے ساتھیوں نے میری تجویز کو رد کر دیا اور واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ ہم چٹاگانگ گیریژن میں کھانا کھانے گئے۔ ایک کرنل نے پنجرے میں بند بلبل کی طرف اشارہ کرکے کہا: میں اس سے باتیں کرتا رہتا ہوں۔ میں نے کہا: کرنل صاحب: کیا آپ اس بلبل کو آزاد کر سکتے ہیں؟زندہ لاشہم مغربی پاکستان سے آنے والی آخری پروازو ں میں سے ایک پر سوار ہوئے۔ سنہرے بنگال کو کالے بادلوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ میں اپنے آپ کو زندہ لاش محسوس کر رہا تھا۔ میری روح سندر بن کے جنگلات شاہ جلال کے مزار اور بین المکرم کے میناروں کے گرد بھٹک رہی تھی۔ میں آج بھی بے روح زندگی گزار رہا ہوں۔ مجھے حبیب جالب کی نظم کے شعر یاد آ رہے تھے۔ محبت گولیوں سے بو رہے ہووطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہوگُماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہےیقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو1999ء میں میاں نوازشریف کی نمائندگی کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرنے گیا۔ مختلف ممالک کے وفود کو کارگل کی صورتحال پر پاکستان کے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے بنگلہ دیشی وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبدالصمد سے ملا۔ وہ شیخ مجیب کے قریبی ساتھی اور پرانے عوامی لیگی تھے۔ انہوں نے کہا کہ الگ ہو کر ہم دونوں ’’لائٹ ویٹ‘‘ ہو گئے۔ یہی بات مجھے عوامی لیگ کی وزیر ماحولیات ساجدہ سید نے پچھلے سال مالدیپ میں کانفرنس کے موقع پر کہی تھی۔ ڈاکٹر عبدالصمد سوالیہ انداز میں کہنے لگے، ہندوستان بین الاقوامی سیاست میں طاقتور بن کر ابھرا ہے۔ ہمیں نکال کر آپ نے کونسی ترقی کر لی ہے؟ پھر اچانک موضوع بدل کر کہنے لگے: آپ کی کرکٹ ٹیم انڈیا سے اتنی بری طرح کیوں ہاری؟ میں ساری رات روتا رہا ہوں، پھر ہم دونوں مل کر رو رہے تھے… انڈیا سے میچ ہارنے پر… ہمیں نہ اپنے سٹاف کی پرواہ تھی نہ اردگرد کے لوگوں کی…اسی رات ہم ٹوکیو روانہ ہو گئے۔ میں جہاز میں سو گیا، ٹوکیو پہنچ کر سیدھا ہوٹل گیا اور تیار ہو کر کانفرنس ہال پہنچا۔ ڈاکٹر عبدالصمد اس کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے۔ انہوں نے اجلاس چائے کے لیے ملتوی کیا اور مجھے اپنے کمرے میں بلا لیا، میں جونہی اندر داخل ہوا، انہوں نے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیا جائے۔ میرے بیٹھتے ہی اخبار میرے سامنے رکھ دیا جس میں لکھا تھا، ہندوستان نے کارگل میں سب سے بڑی اور آخری چوٹی ٹائیگر بھی پاکستان سے واپس چھین لی۔ میں نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا وہ پھر رو رہے تھے… ایک اور میچ ہارنے پر… مگر میرے آنسو خشک ہو چکے تھے… میں جانتا تھا اس میچ کی ناکامی کا طوق کس کے گلے میں پڑے گا۔ میں ان مقامات آہ و فغاں کے لیے اپنے آنسو بچا کر رکھنا چاہتا تھا۔ (جاوید ہاشمی کی کتاب’’ہاں میں باغی ہوں‘‘ سے ماخوذ، اسے ساگر پبلشرز نے اردو بازار لاہور سے چھاپا)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مصر کی قدیم یادگار کی بحالی

مصر کی قدیم یادگار کی بحالی

عظیم الجثہ مجسمے قدیم مصری فن تعمیر کی عکاسی کرتے ہیںمصر نے حال ہی میں اپنی قدیم تہذیب کی ایک نہایت اہم یادگار کی بحالی کا کام مکمل کیا ہے۔ یہ یادگار فرعون امنحوتپ (Amenhotep) سوم کے عظیم الجثہ مجسموں پر مشتمل ہے، جو ان کی شان و شوکت اور قدیم مصری فن تعمیر کی اعلیٰ مہارت کی عکاسی کرتے ہیں۔ صدیوں پر محیط مٹی اور موسمی اثرات کے بعد یہ مجسمے اب دوبارہ اپنی اصل صورت میں عوام کے سامنے پیش کیے گئے ہیں، جس سے نہ صرف مصر کی تاریخی وراثت زندہ ہوئی ہے بلکہ عالمی ثقافتی منظرنامے میں بھی اس کا مقام مستحکم ہوا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ بحالی منصوبہ نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ سیاحتی شعبے کو فروغ دینے اور قدیم مصر کے فن تعمیر کی یادگار کو محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔زلزلے سے متاثر ہونے کے تین ہزار سال سے زائد عرصہ بعد، مصر کے دو شاندار اور دلکش آثار قدیمہ کو دوبارہ خوبصورتی کے ساتھ بحال کر دیا گیا ہے۔ میمنون کے عظیم مجسمے دریائے نیل کے اس کنارے پر واقع ہیں جو قدیم شہر لقصور (Luxor) کے سامنے ہے، جو مصر کا تاریخی شہر ہے۔ یہ دونوں عظیم الجثہ مجسمے تقریباً 50 فٹ بلند ہیں اور یہ امنحوتپ سوم کی نمائندگی کرتے ہیں، جو قدیم مصر پر 1391 تا 1353 قبل مسیح تک حکمرانی کرنے والا طاقتور فرعون تھا۔چند روز قبل حکام نے ان مرمت شدہ مجسموں پر سے پردہ اٹھایا، جنہیں مصر کی تہذیب کی سب سے اہم یادگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ مجسمے دوبارہ بحال کر کے اپنی اصل جگہ پر نصب کیے گئے ہیں۔ امنحوتپ سوم کو قدیم مصر پوجا جاتا تھا اور وہ توت عنخ آمون کے دادا تھے۔آسٹریلیا کی فلنڈرز یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے ماہر مائیکل ہیبِچٹ (Michael Habicht)کے مطابق انہوں نے امن کو فروغ دیا اور اقتصادی خوشحالی کے عظیم دور میں زندگی گزاری۔ممکن ہے کہ وہ اپنے دور میں دنیا کے سب سے امیر افراد میں شامل ہوں‘‘۔میمنون کے عظیم مجسمے اصل میں 1350 قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ مجسمے بڑے پتھریلے بلاکس سے بنائے گئے، جو موجودہ قاہرہ کے قریب کانوں سے نکالے گئے اور تقریباً 420 میل کا طویل فاصلہ طے کر کے یہاں پہنچائے گئے۔دونوں مجسموں میں فرعون امنحو تپ سوم کو بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن کے ہاتھ رانوں پر رکھے ہیں، جبکہ ان کے چہرے مشرق کی سمت دریائے نیل اور طلوعِ آفتاب کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں۔ان کے سر پر دھاری دارشاہی تاج ہے جبکہ انہوں نے شاہی لباس پہن رکھا ہے، جو فرعون کی حکمرانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔فرعون کے پیروں کے پاس موجود دو چھوٹے مجسمے ان کی اہلیہ ملکہ تِیے کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ ان عظیم مجسموں پر یونانی اور لاطینی زبانوں میں کندہ ایک سو سے زائد تحریریں موجود ہیں۔تقریباً 1200 قبل مسیح میں ایک شدید زلزلے نے ان مجسموں کو نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں امنحوتپ سوم کا مندر بھی تباہ ہو گیا۔ زلزلے کے بعد یہ مجسمے ٹکڑوں میں بٹ گئے اور ان کے چبوترے بکھر گئے، جبکہ بعض پتھریلے حصے نکال کر لے جائے گئے۔ آثارِ قدیمہ کی وزارت کے مطابق ان کے کچھ بلاکس لقصور کے کرناک مندر میں دوبارہ استعمال کیے گئے، تاہم بعد میں ماہرین آثار قدیمہ نے انہیں واپس لا کر مجسموں کی ازسرِنو تعمیر کی۔یہ عظیم مجسمے شہر لقصور کیلئے غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں، جو قدیم مندروں اور آثارِ قدیمہ کی وجہ سے مشہور ہیں اور دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ بحالی اس کوشش کا بھی حصہ ہے کہ ''یہ دکھایا جا سکے کہ بادشاہ امنحوتپ سوم کا تدفینی مندر قدیم زمانے میں کیسا دکھائی دیتا تھا ‘‘، یہ بات محمد اسماعیل نے کہی جو سپریم کونسل آف اینٹی کوئٹیز کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ امنحوتپ سوم، جو قدیم مصر کے نمایاں ترین فرعونوں میں شمار ہوتے ہیں، نیو کنگڈم کے تقریباً 500 سالہ دور میں حکمران رہے، جو قدیم مصر کا سب سے خوشحال زمانہ سمجھا جاتا ہے۔یہ فرعون، جن کی ممی قاہرہ کے ایک عجائب گھر میں نمائش کیلئے رکھی ہوئی ہے کا دور امن، خوشحالی اور شان و شوکت کیلئے مشہور تھا۔ ڈاکٹر ہیبِچٹ (Habicht)کے مطابق غیر ملکی حکمرانوں کی سفارتی تحریروں میں ان سے تحفے کے طور پر سونا بھیجنے کی درخواستیں کی جاتی تھیں، یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ مصر میں سونا ریت کی طرح وافر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس قسم کے خطوط میں عام مبالغہ آرائی ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ بے پناہ دولت کی طرف اشارہ ضرور کرتی ہے۔ماہر تعلیم کے مطابق، یہ فرعون کسی حد تک عورتوں میں دلچسپی رکھنے والا بھی تھا، جس نے سیکڑوں غیر ملکی خواتین کو اپنے حرم میں شامل کرنے کیلئے مصر منگوایا۔انہوں نے کہاکہ بظاہر وہ خواتین میں بہت دلچسپی رکھتا تھا، اس نے سینکڑوں غیر ملکی خواتین اپنے گر دجمع کیں، بالکل اسی طرح جیسے بعض لوگ ڈاک ٹکٹ جمع کرتے ہیں۔امنحوتپ سوم کا دورِ حکومت عظیم تعمیرات کیلئے بھی جانا جاتا ہے، جن میں ان کا مندر بھی شامل ہے۔ جہاں میمنون کے عظیم مجسمے واقع ہیں۔اس کے علاوہ نوبیا میں واقع سولیب کا مندر بھی ان کی تعمیری عظمت کی ایک نمایاں مثال ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات 40 سے 50 برس کی عمر کے درمیان ہوئی، اور وہ اپنے جانشین (بیٹے امنحوتپ چہارم ) کیلئے ایک ایسی سلطنت چھوڑ گئے جو طاقت اور دولت کے عروج پر تھی۔

WORLD MEDITATION DAY:ذہنی دبائو کے دور میں مراقبہ کی اہمیت

WORLD MEDITATION DAY:ذہنی دبائو کے دور میں مراقبہ کی اہمیت

دنیا بھر میں آج ''مراقبہ کا عالمی دن‘‘ منایا جا رہا ہےہر سال 21 دسمبر کو دنیا بھر میں مراقبہ کاعالمی دن (world Meditation Day) منایا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس دن کے منانے کا مقصد انسانوں کو ذہنی سکون، باطنی توازن، روحانی ہم آہنگی اور پرامن طرزِ زندگی کی طرف راغب کرنا ہے۔ موجودہ دور میں جہاں مادّی ترقی نے زندگی کو تیز رفتار بنا دیا ہے، وہیں ذہنی دباؤ، بے چینی، اضطراب اور نفسیاتی مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں مراقبہ ایک ایسا مؤثر ذریعہ بن کر ابھرا ہے جو انسان کو خود سے جوڑتا اور اندرونی سکون عطا کرتا ہے۔مراقبہ دراصل توجہ، یکسوئی اور شعوری آگہی کی ایک قدیم مشق ہے جس کی جڑیں مختلف تہذیبوں اور مذاہب میں ملتی ہیں۔ بدھ مت، ہندو مت، تصوف، یوگا اور دیگر روحانی روایات میں مراقبہ کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ اس کی شکلیں اور طریقے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہی ہے، ذہن کو پرسکون کرنا، خیالات کی بے ترتیبی کو کم کرنا اور انسان کو حال سے جوڑنا۔اقوامِ متحدہ نے عالمی مراقبہ دن کے اعلان کے ذریعے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ذہنی صحت، عالمی امن اور سماجی ہم آہنگی ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ جب فرد ذہنی طور پر پرسکون اور متوازن ہو تو وہ نہ صرف بہتر فیصلے کرتا ہے بلکہ معاشرے میں برداشت، رواداری اور باہمی احترام کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اسی لیے مراقبہ کو صرف ایک ذاتی مشق نہیں بلکہ ایک اجتماعی فلاح کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔سائنسی تحقیق بھی مراقبہ کے فوائد کی تصدیق کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق باقاعدہ مراقبہ ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے، یادداشت اور توجہ میں اضافہ کرتا ہے، نیند کو بہتر بناتا ہے اور ڈپریشن و اینگزائٹی جیسے مسائل میں نمایاں کمی لاتا ہے۔ اس کے علاوہ مراقبہ دل کی صحت، بلڈ پریشر کے اعتدال اور قوتِ مدافعت میں بہتری کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے تعلیمی اداروں، دفاتر، ہسپتالوں حتیٰ کہ فوجی تربیتی مراکز میں بھی مراقبہ کو اپنایا جا رہا ہے۔عالمی مراقبہ دن کے موقع پر مختلف ممالک میں سیمینارز، ورکشاپس، اجتماعی مراقبہ نشستیں اور آگاہی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان تقریبات کا مقصد لوگوں کو مراقبہ کے سادہ طریقوں سے متعارف کروانا اور انہیں روزمرہ زندگی میں شامل کرنے کی ترغیب دینا ہوتا ہے۔ یہ دن اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ حقیقی خوشی اور سکون بیرونی وسائل میں نہیں بلکہ انسان کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عالمی مراقبہ دن کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جہاں معاشی دباؤ، سماجی مسائل اور عدمِ استحکام نے عوام کو ذہنی طور پر تھکا دیا ہے۔ اگر تعلیمی نصاب، دفتری ماحول اور معاشرتی سطح پر مراقبہ جیسی مثبت عادات کو فروغ دیا جائے تو نہ صرف انفرادی سطح پر بہتری آئے گی بلکہ مجموعی قومی مزاج بھی اعتدال اور برداشت کی طرف مائل ہو گا۔ تصوف اور روحانیت کی ہماری مقامی روایات بھی مراقبہ اور ذکر و فکر کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، جو ہمارے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے تنازعات، جنگوں اور نفرت انگیز رویّوں کے تناظر میں مراقبہ کا پیغام مزید اہم ہو جاتا ہے۔ جب افراد اپنے اندر امن پیدا کرتے ہیں تو وہ دوسروں کے ساتھ بھی امن کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اسی سوچ کو فروغ دینا چاہتی ہے کہ عالمی امن کا آغاز فرد کے دل و دماغ سے ہوتا ہے۔آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی مراقبہ دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری دعوت ہے۔ یہ دعوت ہے رک کر خود کو سننے کی، اپنی سانسوں کو محسوس کرنے کی اور زندگی کی دوڑ میں اپنے باطن کو نظرانداز نہ کرنے کی۔ اگر ہم روزانہ چند منٹ بھی مراقبہ کیلئے وقف کر لیں تو ہماری زندگی میں سکون، توازن اور مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ ایک پرسکون فرد ہی ایک پرامن معاشرے کی بنیاد رکھ سکتا ہے اور یہی عالمی مراقبہ دن کا اصل پیغام ہے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!بلقیس خانم:راگوں کی ملکہ (1948-2022ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!بلقیس خانم:راگوں کی ملکہ (1948-2022ء)

٭... 25 دسمبر 1948ء کو لاہور کے ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ٭...وہ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔٭... کلاسیکی موسیقی میں ان کے استاد محمد شریف تھے۔٭...1964ء میں ریڈیو پاکستان کا رخ کیا، ابتدا میں کورس میں گایا۔٭...سولو پرفارمنس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ''تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔پی ٹی وی پر پنجابی گیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ٭...65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔٭...فلم انڈسٹری میں آمد موسیقار خلیل احمد کی وجہ سے ہوئی ، جن کی فلم ''تصویر‘‘ کیلئے اْنھوں نے گانا ''بلما اناڑی‘‘ ریکارڈ کروایا، جو سینسر کی نظر ہو گیا۔٭...موسیقار خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ بھی کام کیا۔٭...70ء کی دہائی میں کراچی شفٹ ہو گئیں۔جہاں جلد ہی پی ٹی وی سے جڑ گئیں، مشہور زمانہ گیت ''انوکھا لاڈلہ‘‘ وہیں ریکارڈ کروایا۔ پروڈیوسر امیر امام کے پروگرام ''سرگم‘‘ میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا۔٭... 1980ء میں ستار نواز استاد رئیس خان سے شادی کے بعد بھارت چلی گئیں۔٭...1986ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان واپس آئیں اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔٭...معروف موسیقار محسن رضا ان کے بھی ہیں۔٭... 21دسمبر2022ء کو ان کا انتقال ہوا۔مقبول غزلیں٭...وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا(پروین شاکر)٭...کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں( عبید اللہ علیم)٭...مت سمجھو ہم نے بھلا دیا٭...انوکھا لاڈلہ

آج کا دن

آج کا دن

پہلا باسکٹ بال میچ 21 دسمبر 1891ء کو امریکی ماہرِ تعلیم جیمز نائس سمتھ نے باسکٹ بال کے کھیل کا پہلا باضابطہ میچ منعقد کروایا۔ نائس سمتھ نے یہ کھیل سردیوں میں طلبہ کو جسمانی طور پر متحرک رکھنے کیلئے ایجاد کیا تھا۔ ابتدا میں کھیل میں فٹ بال استعمال ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ قواعد میں تبدیلیاں آئیں اور آج یہ دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں شامل ہو چکا ہے۔اپالو 8 خلائی مشناپالو 8 ناسا کا تاریخی اور انقلابی خلائی مشن تھا جو 21 دسمبر 1968ء کو لانچ کیا گیا۔ یہ پہلا انسانی خلائی مشن تھا جس نے زمین کے مدار سے باہر نکل کر چاند کے گرد گردش کی اور اس دوران زمین کے طلوع ہونے والی مشہور تصویر ''ارتھ رائز‘‘ لی گئی۔ اپالو 8 کی کامیابی نے بعد میں اپالو 11 کے ذریعے انسان کے چاند پر قدم رکھنے کی راہ ہموار کی اور خلائی تحقیق کی تاریخ میں ایک سنہری باب رقم کیا۔ سانتا ماریا قتل عامچلی کی فوج نے 21 دسمبر1907ء کو کان کنوں کا قتل عام کیا۔رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2ہزار سے بھی زیادہ تھی۔قتل عام کا مقام ڈمنگو سانتا ماریا سکول تھا جہاں دوردراز علاقوں سے آئے ہزاروں کان کن ایک ہفتے سے ٹھہرے ہوئے تھے۔اس قتل عام کے نتیجے میں نہ صرف ہڑتال ٹوٹ گئی بلکہ مزدوروں کی تحریک ایک دہائی سے زائد عرصے تک معطل رہی۔پین ایم فلائٹ103حادثہ21دسمبر1988ء کو فرینکفرٹ سے نیویارک جانے والی پرواز ''پین ایم فلائٹ 103‘‘ میں اس وقت بم دھماکہ ہوا جب جہاز سکاٹ لینڈ کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ جہاز میں سوار 243مسافر اور عملے کے 16 افرادسمیت 11افراد زمین پر بھی ہلاک ہوئے۔کل 270ہلاکتوں کے ساتھ یہ اُس وقت برطانیہ کا سب سے مہلک دہشت گردحملہ تھا۔نیپال ،برطانیہ معاہدہنیپال اور برطانیہ کے درمیان پہلے معاہدے پر دستخط21دسمبر1923ء کو سنگھار دربار میں کئے گئے۔یہ معاہدہ برطانیہ کا پہلا باضابطہ اعتراف تھا کہ نیپال ایک آزاد ملک کے طور پر اپنی خارجہ پالیسی کو کسی بھی طرح سے چلانے کا حق رکھتا ہے۔ اس معاہدے کو سفارتکاری کی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا۔ معاہدہ 1925ء میں لیگ آف نیشنز میں بھی درج کیا گیا۔ اینٹونوو این225 کی پروازاینٹونوو این 225 ایک سٹریٹجک ائیرلفٹ کارگو ہوائی جہازجسے سوویت یونین میں اینٹونوو ڈیزائن بیورو نے ڈیزائن اور تیار کیا تھا۔یہ اصل میں 1980ء کی دہائی کے دوران اینٹونو و این124ائیر لفٹر کے ایک وسیع مشق کیلئے تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد فضا میں ہونے والی نقل و حمل پر نظر رکھنا تھا۔21دسمبر1988ء کو اینٹونوواین225نے اپنی پہلی پرواز کی۔اسے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی جہاز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی رفتار سے انسان ایک دوسرے سے دور بھی ہوتا جا رہا ہے۔ مفادات، تعصبات اور خود غرضی نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت، بے حسی اور ناانصافی فروغ پا رہی ہے۔ ایسے پُرآشوب دور میں انسانی یکجہتی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انسانی یکجہتی وہ احساس ہے جو انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حوصلہ دیتا ہے اور معاشرے میں امن، برداشت اور باہمی احترام کی فضا قائم کرتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو بکھرتی ہوئی انسانیت کو ایک مضبوط رشتے میں پرو سکتی ہے اور دنیا کو ایک بہتر اور محفوظ مقام بنا سکتی ہے۔انسانی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرے، مشکلات میں ساتھ دے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی بھلائی کیلئے کام کرے۔ یہ تصور ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب مضبوط افراد کمزوروںکا سہارا بنیں اور خوشحال اقوام پسماندہ معاشروں کیلئے تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہر سال 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے انسانوں میں باہمی ہمدردی، تعاون، مساوات اور مشترکہ ذمہ داری کے شعور کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن دسمبر 2002ء سے منایا جا رہا ہے، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی فنڈ قائم کیا۔ یہ فنڈ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کو فنڈ دینے کیلئے فروری 2003ء میں قائم کیا گیا تھا ، جس نے غربت کے خاتمے کیلئے کام کیا۔ 22 دسمبر 2005ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی کے طور پر یکجہتی کی نشاندہی کی۔اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق یکجہتی ان بنیادی اقدار میں سے ایک ہے جو صحت مند بین الاقوامی تعلقات کیلئے ضروری ہے۔ اس طرح، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی یقین دہانی کرائی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجہتی کی ثقافت اور مشترکہ جذبے کو فروغ دینا ضروری ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عالمی یوم یکجہتی ایک ایسا دن ہے جو حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدوں کو یاد دلا نے اور ان کا احترام کرنے کی حوصلہ افزائی کراتا ہے۔ انسانی یکجہتی کا عالمی دن ایک ایسا دن ہے جو غربت کے خاتمے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی عوام کے درپیش مسائل کا مل کر مقابلہ کے اور ان مسائل کیخلاف اقدامات اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔آج کی دنیا جنگوں، غربت، بھوک، ماحولیاتی تبدیلی، مہاجرین کے بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں انسانی یکجہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ عالمی وبائیں ہوں یا قدرتی آفات، یہ حقیقت بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ اگر قومیں مل کر کام کریں تو بڑے سے بڑا بحران بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا تاکہ دنیا بھر میں تعاون اور اشتراکِ عمل کو فروغ دیا جا سکے۔دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے ۔اسلام انسانی یکجہتی کا سب سے مضبوط درس دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا انسانوں کے درمیان بھائی چارے، عدل، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمام انسان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ تعلیمات ہمیں عملی طور پر انسانی یکجہتی اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔پاکستانی معاشرہ فطری طور پر ہمدردی اور ایثار کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے یا کسی قومی سانحے کے موقع پر عوام کا ایک دوسرے کیلئے کھڑا ہونا انسانی یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جذبہ صرف ہنگامی حالات تک محدود نہ رہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی انصاف، برداشت اور تعاون کی صورت میں نظر آئے۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری پیغام ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا کو پرامن، محفوظ اور خوشحال بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کیلئے جینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک انسان انسان کا درد نہیں سمجھے گا، ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہیں گے۔ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اختلافات کے باوجود متحد رہیں اور ایک بہتر عالمی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر و فساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائواور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا‘‘انسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے عملی تقاضےانسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ:٭...غربت اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔٭...تعلیم اور صحت کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔٭...نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی شعور اجاگر کیا جائے۔٭...انسان دوستی اور خدمت خلق کو قومی و سماجی اقدار کا حصہ بنایا جائے۔  

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

٭... یکم جنوری 1948ء کو وادی ہنزہ میں پیدا ہوئے، گوجرانوالہ میں پلے بڑھے،اصل نام فخر الدین حیدر راٹھورتھا۔٭...گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف اے کرنے کے بعد ٹی اینڈ ٹی میں ملازم ہوئے۔ اداکاری کے میدان میں داخل ہونے سے قبل پہلوانی بھی کی۔٭... فنی کریئر کا آغاز تھیڑ سے کیا اور بعدازاں انہوں نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ہر قسم کے کردار کو بخوبی نبھایا تاہم ہیجڑے، بوڑھے اور مجذوب شخص کے کرداروں پر انہیں دسترس تھی۔ ٭... کریئرکے پہلے ٹی وی ڈرامہ ''آپ بیتی‘‘ میں عبدالشکور کریک کا کردار نبھایا اور ''پاکستانی کوجک‘‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔دوسرا کھیل ''لازوال‘‘ بھی بہت مقبول ہوا، جس میں ان کا ڈائیلاگ''میں کھویا کھائوںگا‘‘ زبان زدعام ہوا۔٭...ان کے شہرہ آفاق ڈرامہ ''بشیرا ان ٹربل‘‘کوپاکستان کے پہلے سپرہٹ کمرشل ڈرامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیگر مشہور ٹی وی ڈراموں میں ''شب دیگ‘‘، ''سونا چاندی‘‘، ''ریزہ‘‘ اور'' ایندھن‘‘ شامل تھے۔٭...فخری احمد نے فلموں میں بھی لازوال اداکاری کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں بطور کریکٹر ایکٹر اور ولن جلوہ ہوئے۔ یاد گار فلموں میں '' مس قلو پطرہ‘‘،'' مہربانی‘‘ اور ''شکرا‘‘شامل ہیں۔ ٭...اپنے کریئر میں سب سے زیادہ تھیڑ میں خدمات پیش کیں، ان کے کریڈٹ میں پانچ سو کے قریب ڈرامے ہیں۔ جن میں ''کتکتاڑیاں، سلوک سوکناں دا، تماشا ہائوس، گھر گھر بشیرا، بول نی گڈو، نہ چھیڑ ملنگا نوں، گنجے فرشتے، سسرال چلو، چاندنی راتیں، منڈا آیا سسرال، منڈا پٹواری دا، منڈا آیا ولائتوں، ٹبر ویلیاں دا، ساڈی وی سنو، کمبل نہیں چھڈدا‘‘ شامل ہیں۔٭...انہیں ان کے جونیئر اور سینئر ''تایا‘‘ کہا کرتے تھے اور یوں وہ لاہور کے ثقافتی حلقوں میں تایا فخری احمد کے نام سے مشہور ہوئے۔٭... 20دسمبر 1995ء کو تماثیل تھیڑ میں ڈرامہ ''جنم جنم کی میلی چادر‘‘ میں پرفارم کرتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ عالم جاودانی کو سدھار گئے۔