شکست سے بھی سیکھاجاسکتا ہے

اسپیشل فیچر
الگ الگ فارمیٹ کے لئے ٹیمیں بنانے کا شوشا تباہ کن ثابت ہوگا، مصباح کو ورلڈ کپ تک ون ڈے کپتان رہنا چاہیے ***********ایشیا کپ نہ جیتنے کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں نے ثابت کر دیا کہ انہیں عالمی کرکٹ میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا*********** ایشیا کپ کا ٹورنامنٹ تمام ہوا۔ اس ٹورنامنٹ میں اگرچہ پاکستانی ٹیم فائنل نہیں جیت سکی،مگر بہرحال ان کی کارکردگی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ سری لنکا کی ٹیم یہ ٹورنامنٹ جیتنے کی مستحق تھی، اس نے تینوں شعبوں میں پاکستان سے اچھی کارکردگی دکھائی بلکہ اس ٹورنامنٹ کی ہر ٹیم سے بہت بہتر۔ ہر ٹورنامنٹ کی طرح اس میں بھی پاکستانی ٹیم کے لئے پلس مائنس موجود ہیں، کچھ مثبت چیزیں ظاہر ہوئی ہیں تو خاصی کمزوریاں بھی واضح ہوگئیں۔ ٹیم مینجمنٹ اور کرکٹ بورڈ کو ان تمام چیزوں کا جائزہ لینا ہوگا اور جلداز جلد بہتری لانی ہوگی، خوش قسمتی سے ہمارے پاس ابھی کچھ وقت ہے۔ چند دنوں بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہونے والا ہے،تاہم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے تقاضے قدرے مختلف ہیں ۔ اصل چیلنج ہمارے سامنے چار پانچ ماہ بعد آئے گا، جب عرب امارات میں آسٹریلوی ٹیم سے ٹاکرا ہوگا اور اس سے زیادہ بڑاا ور سخت چیلنج آسٹریلیا، نیوزی لینڈ میں کھیلے جانیوالاورلڈ کپ ہوگا۔ سب سے کمزورچیز اس ٹورنامنٹ میں سامنے آئی، وہ ہماری بائولنگ لائن ہے۔ ایک عرصے سے یہ تاثر عام تھاکہ پاکستان کی بائولنگ مضبوط ہے اور اسی کے ذریعے ہم میچز جیتتے ہیں۔افسوس کہ یہ اب ماضی کا قصہ ہوگیا۔ موجودہ پاکستانی بائولنگ اٹیک میں وہ قوت، تیزی اور ضرب لگانے کی صلاحیت نہیں ،جو ہمارے ماضی کے بائولروں کا خاصہ تھی۔ اگر سعید اجمل غیرمعمولی کارکردگی نہ دکھائیں تو بائولنگ مزید ایکسپوز ہوجائے۔ ہمارے سپنر پھر بھی نسبتاً بہتر ہیں، شاہد آفریدی بریک تھرو دینے کے ماہر ہیں ، سپن کے لئے موزوں وکٹ پر انہیں کھیلنا آسان نہیں ہوتا، اسی طرح محمد حفیظ بھی اکثر اوقات اپنی نپی تلی بائولنگ سے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ ہمارا فاسٹ بائولنگ اٹیک البتہ خاصا مایوس کن ہے۔ بیٹنگ کے لئے موزوں وکٹوں پر تو وہ بالکل ہی غیر موثر ثابت ہوتے ہیں۔ عمر گل اپنا پرائم ٹائم گزار چکے ہیں، اب وہ سہیل تنویر کی طرح اوسط سے کم درجے کے بائولر بن گئے ہیں۔ مخالف بلے بازوں کی غلطی سے کوئی وکٹ مل جائے تو الگ بات ہے ، ورنہ وہ انہیں تنگ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ وہ اتنی سادہ سی بات بھی نہیں جانتے کہ ان کی سپیڈ اب کم ہوچکی ہے اور شارٹ پچ کرانے سے خود ان کی پٹائی ہوگی۔ عمر گل کی اب ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ جنید خان نے بھی اپنے مداحین کو مایوس ہی کیا ہے، ان میں عمدہ کارکردگی دکھانے کی صلاحیت ہے، مگر انہوں نے شائد یہ طے کر رکھا ہے کہ سال میں ایک دو بار ہی میچ وننگ پرفارمنس دی جائے اور باقی میچوں میں اوسط درجے کی بائولنگ کرائی جائے۔ بلاول بھٹی نوجوان فاسٹ بائولر ہیں، ان کے پاس سپیڈ ہے ،مگر انہیں ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنا دماغ اور مہارت استعمال کئے بغیر پرفارم نہیں کیا جاسکتا،اگر محنت نہ کی تووہ ٹیم سے مستقل بنیادوں پر آئوٹ ہوجائیں گے۔ انور علی باصلاحیت کھلاڑی ہیں، مگر انہیں بھی سمجھنا ہوگا کہ صرف بطور آل رائونڈر ان کی جگہ نہیں بن سکتی، انہیں دس اوورز کرانے اور وکٹیں لینے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی۔محمد طلحہ بھی اس ٹورنامنٹ میں کچھ غیرمعمولی کارکردکی نہیں دکھا پائے،اس کی ایک وجہ تو سلو پچز بھی ہیں، مگر فاسٹ بائولرز کو ہرپچ کے حساب سے بائولنگ کرنی سیکھنا چاہیے۔ ڈیتھ اوورز میں پاکستان کے پاس کوئی موثر بائولر نہیں رہا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا حل نکالنا ہوگا۔ سری لنکا کو اکیلے مالنگا نے دو تین اہم میچ جتوائے۔ ہمارے بائولرز لگتا ہے آخری اوورز میں یارکر کرانا بھول چکے ہیں، وہ شارٹ بالز کراتے اور مسلسل چوکے چھکے کھاتے ہیں۔ بائولنگ کوچ محمد اکرم کی صلاحیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان پیدا ہوچکا ہے۔ ان کی افادیت نظر نہیں آرہی۔ افسوس کی بات ہے کہ وقار یونس جیسا بائولر بنگلہ دیشی بائولروں کو سکھائے اور پاکستان اپنے قابل فخر فرزند سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اگر پاکستان نے ٹاپ تھری ٹیموں میں آنا ہے تو اچھے فاسٹ بائولر تلاش کرنے اور انہیں مواقع دینے ہوں گے۔ ہمارا ٹاپ آرڈر اس ٹورنامنٹ میں ایک بار پھر نہیں چل سکا۔ اوپنر کا مسئلہ دوبارہ سامنے آگیا۔ شرجیل خان کو تواتر کے ساتھ مواقع دئیے جا رہے ہیں، مگر محسوس ہوتا ہے کہ تکنیکی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ ان میں ٹمپرامنٹ کا بھی ایشو ہے۔ فائنل میں صہیب مقصود کو ڈراپ کر کے انہیں موقعہ دیا گیا اور انہوں نے غیرذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کیا۔ ایک کلب لیول کا اوپنر بھی ایسی غلطی نہیں کرے گا۔جب وہ مالنگا جیسے بائولر کو پانچ گیندوں میں دو چوکے مار چکے ہیں تو پھر ایک اورجارحانہ شاٹ کھیل کر وکٹ گنوانے کی کیا تک تھی؟ انہیں قطعی اندازہ نہیں تھا کہ یہ میچ کس قدر اہم ہے اور اچھا سٹارٹ ٹیم کی ضرورت ہے۔ جارحانہ کھیلنا ان کا نیچرل انداز ہے تو اپنی تکنیک بھی بہتر کریں، صرف خواہشات سے آدمی کرس گیل یا میکولم نہیں بن سکتا۔ احمد شہزاد نہایت باصلاحیت کھلاڑی ہیں، وہ اچھا کھیلتے بھی رہے ،مگر انہیں اپنی یکسوئی کو مزید بہتر کرنا ہوگا۔ محمد حفیظ کے حوالے سے ہمیں ایک بات اب واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ وہ ٹیسٹ فارمیٹ میں تو بالکل ہی مس فٹ ہیں،جبکہ ون ڈے فارمیٹ میں بھی وہ ٹاپ آرڈر پر کھیلنے کے قابل نہیں۔ موصوف کی تکنیک انتہائی کمزور ہے، وہ اکثر شاٹس کھڑے کھڑے پیر ہلائے بغیر کھیلتے ہیں، ذرا سا گیند سوئنگ ہو تو وہ سلپ میں کیچ تھما کر رخصت ہوجاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ عرب امارات جیسی سلو بیٹنگ پچز پر رنز کر لیتے ہیں،مگر پاکستان نے ہمیشہ یہیں تو نہیں کھیلنا۔ اگلا ورلڈ کپ آسٹریلیا میں ہے اوروہاں پروفیسر حفیظ کا جو حال بنے گا، وہ ابھی سے ہر ایک کو معلوم ہے۔ وہ اچھے فیلڈر اور اچھے پارٹ ٹائم بائولر ہیں، چھٹے بائولر کے طور پر ان کی جگہ بنتی ہے، مگر انہیں پانچویں یا چھٹے نمبر پر آنا چاہیے۔ مصباح الحق اگرچہ ٹورنامنٹ میں دو بار رن آئوٹ ہوئے بلکہ کرائے گئے ،مگر انہوں نے اپنی افادیت ثابت کی۔ فائنل میں وہ اگر وکٹ پر ٹھیر کر فواد عالم کے ساتھ اچھی پارٹنر شپ نہ بناتے تو ٹیم کا حال انڈر نائنٹین ورلڈ کپ کے فائنل جیسا ہوجانا تھا، جہاں پاکستانی ٹیم ڈیڑھ سو سے کم میں آئوٹ ہوگئی۔ مصباح کو اب نمبر تین کے لئے کوئی اچھا بلے باز ڈھونڈنا ہوگا۔ صہیب مقصود اس کے لئے فٹ ہیں کہ ان کی تکنیک اچھی ہے، آسٹریلیاکی پچوں پر وہ کامیاب ہوسکتے ہیں، انہیں اپنے ٹمپرامنٹ پر قابو پانا اور وکٹ پرٹھیرنا سیکھنا ہوگا۔ مصباح کو نمبر چار ہی پر کھیلنا چاہیے۔فواد عالم کے آنے سے مڈل آرڈر میں لیفٹ ہینڈڈ بلے باز کی کمی پوری ہوگئی۔ فواد نے بڑی محنت سے پرفارم کیا۔ ان کی تکنیک میں خاصی کمزوریاں تھیں، تین چار سال فرسٹ کلاس کھیل کر انہوں نے کچھ حد تک ان پر قابو پالیا ،مگر انہیں ابھی اچھی کوچنگ کی ضرورت ہے۔وہ شفل زیادہ کرتے ہیں، کسی تیز پچ پر اچھے فاسٹ بائولر کے سامنے یہ پریشان کن ثابت ہوگا، مچل جانسن، سٹین یا جیمز اینڈرسن جیسے فاسٹ بائولرز کو کھیلنے کے لئے انہیں اپنی تکنیک پر مزید کام کرنا ہوگا۔ فواد کی مضبوطی ان کا ٹمپرامنٹ اور سنگل ڈبل رنز لینے کی صلاحیت ہے، وہ وکٹ پر ٹھیر سکتے ہیں، پاکستان کو ایسے بلے بازوں کی ضرورت ہے۔ عمر اکمل نے عمدہ کارکردگی دکھائی، وکٹ کیپر کم بلے باز کا رول ان کے لئے انتہائی فٹ ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد کئی ماہ کا وقفہ ہے، اس دوران انہیں اپنی کیپنگ بہتر کرنی چاہیے، راشد لطیف جیسے کھلاڑی سے انہیں ٹپس لینے چاہئیں۔ عمر اکمل کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دونوں ذمہ داریاں انہیں ہی اٹھانی ہیں، جیسے راہول ڈریوڈ جیسے عظیم بلے باز نے اپنی ٹیم کے لئے برسوں ایسا کیا، یا ڈی ویلیئرزایسا کر رہے ہیں۔سنگا کارا اس عمر میں وکٹ کیپنگ کر سکتے ہیں تو عمر اکمل تو ان سے بہت چھوٹے اور ابھی نوجوان ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ ویسے شاہد آفریدی کا رہا، انہوں نے اپنی کرشمہ ساز بیٹنگ سے سب کو محظوظ کیا اور خاصے عرصے کے لئے اپنی جگہ مستحکم کر لی۔ آفریدی کوچاہیے کہ وہ اب صرف اپنے کھیل پر توجہ دیں اور باقاعدہ اعلان کر دیں کہ مجھے کپتانی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کے دوست ،خصوصاً میڈیا میں موجود ایک لابی بظاہر ان کے حق میں مگر حقیقتاً ان کو نقصان پہنچانے والی تحریک چلاتی ہے۔ جیسے ہی وہ کسی میچ میں اچھی کارکردگی دکھائیں، فوراً ہی ان کے دوست مہم چلانے لگتے ہیں کہ تینوں فارمیٹس کے لئے الگ الگ ٹیمیں بنائی جائیں۔ اس مطالبے کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ مصباح کو ون ڈے کپتانی سے ہٹایا جائے اور آفریدی کو کپتان بنایا جائے۔ مصباح نے اپنی کپتانی کو ثابت کیا ہے، وہ تسلسل سے رنز کر رہے ہیں، ٹیم کوا نہوں نے متحد کر دیا ہے، ان پر دفاعی کپتان کا الزام ہے ،مگر معین خان کے کوچ ہونے سے ٹیم کے مزاج میں خود بخود جارحیت آجائے گی۔ مصباح کو ون ڈے ٹیم کی کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ قومی ٹیم کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ آفریدی کو اپنی تمام تر توجہ کھیل پر لگانی چاہیے، انہیں قدرت نے کسی بھی کپتان سے زیادہ شہرت اور مقبولیت دے رکھی ہے، اپنے معیار کو برقرار رکھنا ہی ان کے لئے اصل چیلنج ہونا چاہیے۔ پاکستانی فیلڈنگ ہمیشہ کی طرح اس ٹورنامنٹ میں بھی ناقص رہی۔ نئے فیلڈنگ کوچ سے اتنا جلد کسی کرشمے کی توقع نہیں کرنی چاہیے، مگر پاکستان کو ورلڈ کپ کی تیاریوں میں سب سے زیادہ اہمیت فیلڈنگ کو دینی چاہیے۔ پاکستانی ٹیم کا ایک بڑا مثبت پہلو اس ٹورنامنٹ میں ایک بار پھر واضح ہوا ہے، وہ ہے فائیٹ بیک کرنے کی صلاحیت۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیم نے کئی میچز میں فائیٹ بیک کیا، دو ہارے ہوئے میچز جیتے اور فائنل کے سوا ہر میچ میںمخالف ٹیم کو ٹف ٹائم دیا۔ ٹیم کی لوئر مڈل آرڈر نے بھی دبائو میں رنز کئے، افغانستان کے خلاف میچ میں عمر اکمل نے شاندار سنچری بنائی ، فائنل میں مصباح، فواد عالم اور عمر اکمل نے اچھا پرفارم کیا اور فائٹنگ ٹوٹل دیا۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں شاہد آفریدی نے کرشمہ کر دکھایا، مگر بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں احمد شہزاد اور فواد عالم نے بھی اپنا پورا حصہ ڈالا۔ سری لنکا کے خلاف پہلے میچ میں ٹیم نے آخر تک فائٹ کی۔ یہ وہ چیز ہے جو پاکستانی ٹیم میں پہلے زیادہ نظر نہیں آتی تھی۔ اس کا کریڈٹ ٹیم،کپتان اور کوچ کو دینا چاہیے۔ ٭…٭…٭