مکلی کا قبرستان
اسپیشل فیچر
سندھ کا ہر خطہ تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا گہوارہ رہا ہے سندھ کی سرزمین میں لاکھوں بزرگان دین یا ولی اللہ، اولیاء کرام، صوفی، سادھو، شاعر، ادیب، عالم اور دانشور ابدی نیند سو رہے ہیں۔ تاریخ کے ثبوت ہمیں مقبروں، مزاروں اور دوسرے بے شمار پھیلے ہوئے کھنڈرات کی صورت میں ملتے ہیں۔ جسے دیکھتے ہی ماضی کا شاندار عکس ذہن میں ابھر آتا ہے ایسے عام آثار دیکھنے والوں کے لیے عبرت کا مقام بھی ہیں۔ ایسے ہی تاریخی آثاروں میں سندھ کی قدیم تاریخ کا لازوال شہرہ آفاق قبرستان مکلی بھی ہے جو دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے دنیا میں مسلمانوں کے اس سب سے بڑے قبرستان میں لاکھوں قبریں اور مقبرے عہد پارینہ کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا خاموش شہر مکلی کے چھ مربع میل سے زائد رقبہ پر محیط ہے اس سے ماضی کی چار سو سال پرانی ایک عظیم تہذیب وابستہ ہے۔ مکلی محض ایک قبرستان نہیں بلکہ اپنے عہد کا جیتا جاگتا تاریخی ہنرمندی کا ثبوت ہے قبروں اور مقبروں کی عمدہ نقش نگاری، بے مثال خطاطی اور اعلیٰ کندہ کاری اپنی مثال آپ ہے مکلی قبرستان کی ہر قبر اور ہر مقبرہ جاذب نظر اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس قبرستان میں اندازاً چار لاکھ سے زائد قبریں موجود ہیں۔ ان میں ایک لاکھ سے زائد اولیاء کرام 33 بادشاہ اور 17 گورنر مدفون ہیں۔ یہاں پر جو پہلی قبر تعمیر ہوئی وہ ایک عورت کی تھی اور وہ علاقے میں مکلی کے نام سے معروف تھی۔ وہ کون تھی۔ کس طبقہ سے تعلق رکھتی تھی کس سماجی رتبے کی حامل تھی اس بارے میں تاریخ بالکل خاموش ہے۔ اس قبرستان میں موجود مقابر مسلمانوں کے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں اور انہیں ایرانی، ترکی اور ہندوستانی فن تعمیر کا شاہکار کہا جا سکتا ہے۔ یہ یاد گار اینٹوں، پتھر اور ٹائلوں سے بنائی گئی ہیں۔ سطح پر عموماً سرخ رنگ کی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں اور ٹائلیں زیادہ تر سفید اور نیلے رنگ کے ہلکے گہرے شیڈز میں استعمال کی گئی ہیں۔ یہاں موجود ایک مقبرے کی تعمیر میں ایک لاکھ اسی ہزار ٹائلیں استعما کی گئی ہیں جن میں ہر ایک کا ڈیزائن سے جداگانہ اور منفرد ہے اگر قبروں اور مقابر کی ترتیب کے لحاظ سے دیکھیں تو شمال سے جنوب کی طرف ان یاد گاروں کے تین بنیادی گروپ ملیں گے۔ ایک گروپ مغل دور کی یاد گار ہے جس میں جانی بیگ، باقی بیگ، ازبک، طغرل بیگ، عزا خان، جان بابا، شرفاء خان اور نواب عامر خان کے خاندان کی قبریں شامل ہیں۔ دوسرے گروپ کا تعلق ترخان اور ارغون سے ہے جس میں عزاء خان، ترخان اہنسابائی، سلطان ابراہیم، میر سلمان اور دوسرے لوگوں کی قبریں شامل ہیں۔ تیسرے گروپ میں سمہ دور کی مشہور شخصیات کی آرام گاہیں ہیں جن میں جام نظام الدین، مبارک خان، ملک راجیال اور دیگر بہت سے افراد شامل ہیں اس کے علاوہ مرزا طغرل بیگ اور جان بیگ کا چھتر شاہی قابل دید ہے۔ مکلی کے قبرستان کے بارے میں دوسری روایت معروف سندھی مورخ حسام الدین راشدی نے بیان کی ہے کہ ایک بار کسی بزرگ نے مکلی پہاڑی پر رات بھر قیام کیا۔ رات خواب میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی تجلی دکھائی صبح جب وہ بیدار ہوئے تو بے اختیار پکار اٹھے۔’’ہذا مکرلی‘‘ جس کے بعد اسے مکلی کے نام سے پکارا جانے لگا۔ بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق بعدازاں اس بزرگ نے یہاں کے بادشاہ کو یہ جگہ آباد کرنے کا مشورہ دیا جس کے بعد یہاں پر قبرستان بنا دیا گیا۔ اس قبرستان کی اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں دن یا رات کے کسی بھی حصے میں ویرانی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت رونق کا سا سماں ہوتا ہے۔ یورپین سیاحوں نے ٹھٹھہ کے اس قبرستان کی خوبصورتی اور دلکشی سے متاثر ہو کر اسے ایلڈ راڈو کا نام دیا ہے جس کا مطلب خوابوں کی ایک ایسی دنیا ہے جو خزانوں سے مالا مال ہے لیکن وہاں لالچ حرص اور طمع نہیں ہے۔ اب تو مقامی لوگ بھی اپنے مردوں کو مکلی کے قبرستان میں دفناتے ہیں جس کے لیے انتظامیہ سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔ قبرستان اپنی وسعت اور پراسرار فضا کے باعث ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ مقبروں کی تعمیر کے لیے پتھر یا گھٹی رنگ کی پختہ اینٹیں استعمال کی گئی ہیں۔ اینٹیں اس قدر عمدہ ہیں کہ ضرب لگنے پر بجتی ہیں اور ٹوٹنے کی حالت میں شیشے کی طرح چمکتی نظر آتی ہیں۔ اینٹوں کی دیواریں منقش روغنی ٹائلوں سے مزین ہیں جو ایران سے سندھ کے قدیم ثقافتی تعلقات کی مظہر ہیں۔ ان کے نقش و نگار سے معلوم ہوتا ہے کہ ادائے سنگ پر زرکاری کی گئی ہے۔ازنقش و نگار درو دیوار شکستہآثار پدیداست ضادید عجم دا(شیخ نوید اسلم کی کتاب ’’پاکستان کے آثارِ قدیمہ سے ماخوذ)٭…٭…٭