غزوہ احد حق و باطل کا اہم ترین معرکہ
اسپیشل فیچر
مدینہ منورہ کے شمال میں تین میل کے فاصلہ پرایک پہاڑہے جسے اُحدکہتے ہیں ۔یہ پہاڑ شرقاً غرباًپھیلاہواہے ۔کوہ احدکے دامن میں مسلمان اورکفارکے درمیان ایک جنگ ہوئی جوتاریخ اسلام میں غزوہ احدکے نام سے مشہورہے ۔غزوہ بدرمیں مشرکین مکہ کومسلمانوں کے ہاتھوں سخت نقصان پہنچاتھا۔ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تھے اورپورے عرب میں ان کی رسوائی ہوئی تھی۔جذبہ انتقام سے ہرشخص کا سینہ لبریزتھاہجرت کاتیسراسال تھا۔ مکہ کے کافرجنگ بدر کی شکست کابدلہ لینے کیلئے پورے ایک سال سے تیاریوں میں تھے۔ مشرکین نے چندے اکٹھے کئے اور وہ مال جوابوسفیان بن حرب شام سے لایاتھامسلمانوں کیخلاف جنگ کرنے کیلئے وقف کردیا۔3 ہزار کا بھاری لشکرترتیب دیاگیا۔ لشکرکے ساتھ 3 ہزار اونٹ اور200گھوڑے بھی تھے ،اس لشکرکاسپہ سالار ابوسفیان تھا۔ حضرت عباسؓ مکہ میں تھے جونہی کفارکا لشکر مدینہ پرحملے کیلئے روانہ ہواحضرت عباسؓ نے ایک قاصدکے ذریعے آپؐ ؐکواطلاع دی۔مشرکین ابوسفیان کی بیوی ہندہ کی سرکردگی میں عورتوں کوبھی ساتھ لے آئے تھے کہ وہ میدان ِجنگ میں مردوں کوغیرت دلاتی رہیں۔ کافروں کے لشکر نے اُحد کے مقام پرجومدینہ سے شمال کی طرف 3میل پرایک پہاڑہے ڈیرہ ڈال دیا۔ انہوں نے آتے ہی ہرے بھرے کھیت اجاڑدئیے اور چراگاہیں اپنے قبضے میں کرلیں۔ نبی کریم ؐؐکی رائے تھی کہ مدینہ کے اندررہ کرہی مقابلہ کیاجائے لیکن کچھ جانثاروں نے شہرسے باہرنکل کرمیدان میں جنگ کرنیکامشورہ دیا۔ رسولؐ اللہ نے صحابہؓ کامشورہ قبول فرمایا ،آپ ؐایک ہزار کا لشکر لیکر3 ہجری شوال المکرم کے مہینہ جمعۃ المبارک کے دن نمازعصرکے بعدمدینہ سے روانہ ہوئے تھوڑی دورگئے تھے کہ منافقوں کے سردارعبداللہ بن اُبیّ نے حسبِ معمول اس موقع پر غداری کی اپنے 300ساتھیوں کے ساتھ مدینہ واپس ہوگیا۔ یہ شخص مدینہ کابادشاہ بننے کے خواب دیکھ رہاتھالیکن اسلام کی وجہ سے اسکی ساری امیدوں پرپانی پھرگیا،اس وجہ سے یہ ہمیشہ منافقت کرتا رہتا تھا۔ اب مسلمان لشکرکی تعداد صرف 700رہ گئی ۔ ہرطرف سے خطرہ ہی خطرہ تھا،دشمن کی طاقت بہت زیادہ تھی لیکن مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔آقاؐآگے بڑھے اوراُحدپہاڑکی گھاٹی کے قریب اترنے کاحکم دیا، لشکراسلام کو مختلف حصوں میں تقسیم کیااوراُحدپہاڑکو پیچھے رکھ کر صفیں درست کیں۔لشکراسلام کی پشت کی طرف ایک درّہ تھاجہاں سے حملے کاخطرہ تھا۔ آپ ؐنے حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی کمان میں 50 تیراندازوں کواس درّہ پرمقرر فرمایا اورتاکیدفرمائی کہ کچھ بھی ہوجائے اس درّے کونہ چھوڑنا۔اُحدکی جنگ میں بھی کافروں نے پہل کی۔ کافروں کے لشکرکے عَلم بردارطلحہ نے آگے بڑھ کرمسلمانوں کو للکارا اسکے جواب میں سیدناعلی المرتضٰی ؓ میدان میں اترے اوراسے زمین پرگراکرقتل کردیااسکے بعد اسکا بیٹانکلاجسے حضرت حمزہؓ نے قتل کردیا۔حضرت حمزہؓ ،حضرت علی ؓ اورحضرت ابودجانہ انصاریؓ دونوں ہاتھوں میں تلوارلیے دشمن کی لاشوں کے ڈھیرلگاتے رہے مسلمانوں کاجواب اس قدرسخت تھاکہ کافرمیدان جنگ سے بھاگ نکلے وہ مسلمان تیراندازجنہیں آقاؐنے تاکیدفرمائی تھی کہ کسی حال میں بھی درہ نہ چھوڑیں اس خیال سے کہ اب فتح ہوچکی ہے ، اپنی جگہ چھوڑی دی اورمال غنیمت سمیٹنے لگے ۔ درّے پراب صرف 10آدمی رہ گئے تھے۔ ادھرخالدبن ولیدجوابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے200آدمیوں کادستہ لیکردرّہ کی طرف لوٹ آئے اور حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کوساتھیوں سمیت شہید کر کے لشکر ِاسلام پراچانک حملہ کردیا،جنگ کانقشہ ہی پلٹ گیا،کافرفتح مندنظرآنے لگے ۔ کافروں نے یہ افواہ پھیلادی کہ (معاذاللہ )محمدؐ! شہید ہوگئے ہیں، اس سے مسلمانوں کا لشکر بکھر گیا۔کفارنے پتھرپھینکے ،تیربرسائے آپؐ کی پیشانی اوربازوزخمی ہوگئے اورآپ ؐکے دودانت مبارک بھی شہیدہوئے ۔ بعض صحابہؓ نے آپ ؐسے عرض کی کہ یارسول ؐاللہ ان مشرکین کیلئے بددعافرمائیں ۔ آپ ؐنے فرمایا’’میں لعنت کرنے کیلئے نبی نہیں بنایا گیا مجھے تواللہ کی طرف بلانے والااورسراپارحمت بنایاگیاہے ۔ اے اللہ!میری قوم کوہدایت فرماکیونکہ وہ مجھے نہیں جانتی ۔‘‘حضرت عائشہؓ ،حضرت اُمِّ سُلیمؓ،حضرت اُمِّ عمارہؓ انصاری اوردیگرمسلمان خواتین پانی بھر کر لاتیں اورزخمیوں کوپلاتی تھیں۔اس جنگ میں 70 صحابہؓ شہیدہوئے۔جن میں آپ ؐکے پیارے چچا سیدالشہداء حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلبؓ بھی شامل تھے ، مشرکین سب سے زیادہ آپؓ کے خون کے پیاسے تھے۔آپؓ کی شہادت پر کفار کی عورتوں نے خوشی ومسرت کے ترانے گائے۔ کافروں نے آپؓ کے کان ،ناک اور دیگر اعضاء کاٹ لیے یہاں تک کہ شکم چاک کرکے جگرنکالااورابوسفیان کی بیوی ہندہ نے اُسے چباڈالا۔لڑائی کے اختتام پرآپؐ ؐاورصحابہ کرام ؓ دوسرے شہیدصحابہؓ کی لاشیں تلاش کر کے ان کی تجہیزوتکفین کاانتظام فرمارہے تھے کہ حضرت حمزہ ؓ کواس حالت میں دیکھا۔حضور ؐ کونہایت صدمہ ہو۔آپ ؐ نے ایک چادرسے ان کوڈھانپ دیا،آپ ؐنے فرمایا’’اے اللہ حمزہ کے کسی جزوکوجہنم میں داخل ہونے نہ دینا۔‘‘اتنے میں سیدالشہداء حضرت حمزہؓ کی حقیقی بہن حضرت صفیہؓ تشریف لائیں تاکہ اپنے بھائی کودیکھیں۔ آقا ؐنے اس خیال سے کہ وہ ایسے ظلم کوبرداشت نہ کرسکیں گی اورتحمل مشکل ہوگاان کے صاحبزادے حضرت زبیرؓ سے فرمایااپنی والدہ کودیکھنے سے منع کروانہوں نے والدہ کو حضور ؐ کا پیغام پہنچایا۔ حضرت صفیہ ؓنے کہامیں نے یہ سناہے کہ میرے بھائی کے کان اورناک کاٹ دئیے گئے ہیں۔ ہم اس پرراضی ہیں میں اللہ سے ثواب کی نیت رکھتی ہوں اورانشاء اللہ صبرکروں گی۔ ایک انصاری خاتون گھرسے آپؐ کے بارے میں معلوم کرنے نکلی۔ لوگوں نے اسے بتایاکہ اسکابھائی شہیدہوگیاہے، اس نے کہاکہ رسولؐ اللہ توسلامت ہیں ؟پھراسے اسکے بیٹے کی شہادت کی خبردی گئی،اس نے پھروہی سوال کیاکہ رسولؐ اللہ توخیریت سے ہیں ؟پھر اسے اسکے شوہرکی موت کی خبرسنائی گئی توبھی اس نے رسولؐ اللہ کے متعلق دریافت کیالوگوں نے کہاآقاؐاللہ کے فضل وکرم سے خیریت سے ہیں اس نے کہامجھے دکھائوجب دورسے آپؐ کاچہرہ دیکھ لیاتوبے اختیارکہہ اٹھی ’’آقاؐکے ہوتے ہوئے ہرایک مصیبت برداشت ہوسکتی ہے۔‘‘قریش کے واپس جانے کے بعدمسلمان بھی مدینہ لوٹ آئے ۔اس وقت مدینہ میں کہرام بپاتھا۔ہرگھرسے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔آقاؐکادل بھرآیاکہ سب کیلئے رویاجارہاہے لیکن آپ ؐکے چچاحضرت حمزہ ؓکوکوئی رونے والانہیں انصارنے اپنی عورتوں کوحضرت حمزہؓ کاسوگ منانے کیلئے بھیجالیکن آپ ؐنے شکریہ کے ساتھ واپس کردیا ۔(مسنداحمدبن حنبل جلد3صفحہ184)غزوہ احددراصل ایک فیصلہ کن جنگ نہ تھی جانی اعتبارسے ضرورمسلمانوں کوکفارکے مقابلہ میں زیادہ نقصان اٹھاناپڑاکیونکہ 22کفارکے مقابلے میں 70صحابہؓ شہیدہوئے ۔مگرکفارکویہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ مدینہ پرحملہ کرکے اس پرقبضہ کرتے ۔اس جنگ میں مسلمانوں کویہ سبق مل گیاکہ رسولؐ اللہ کی اطاعت نہ کرنے سے تائیدغیبی بھی ان کاساتھ چھوڑدیتی ہے اوروہ اپنی دنیوی زندگی میں بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔آج بھی مسلمانوں کے زوال کاواحدسبب اللہ اوراس کے رسول ؐکے احکامات پرعمل نہ کرنا ہے ۔ اللہ پاک ہم سب کو آقاؐکے اسوہ حسنہ پرچلنے اوراسکے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے ہمارے تمام وہ گناہ جوہم نے اعلانیہ یاچُھپ کرکئے سب کومعاف فرمائے،بروزقیامت اپنے محبوبؐ کی شفاعت نصیب فرمائے،مسلمان کوآپس میں اتفاق واتحادنصیب فرمائے،پاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے،آقاؐکے غلاموں کوہرجہان میں کامیابی عطافرمائے اوردشمنانِ اسلام کونیست ونابودفرمائے۔آمین ٭…٭…٭