وضو کے فوائد

وضو کے فوائد

اسپیشل فیچر

تحریر : مونالا محمد الیاس عطار قادری


ایک صاحِب کا بیان ہے ،میں نے بیلجیئم میں یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو اسلام کی دعوت دی اس نے سوال کیا، وضو میں کیا کیا سائنسی حکمتیں ہیں؟ میں لاجواب ہوگیا۔ اُس کو ایک عالم کے پاس لے گیا لیکن اُن کو بھی اِس کی معلومات نہ تھیں۔ یہاں تک کہ سائنسی معلومات رکھنے والے ایک شخص نے اُس کو وضو کی کافی خوبیاں بتائیں مگر گردن کے مَسح کی حکمت بتانے سے وہ بھی قاصِر رہا۔ وہ چلا گیا، کچھ عرصے کے بعد آیا اور کہنے لگا ہمارے پروفیسر نے دوران لیکچر بتایا ’’ اگر گردن کی پُشت اور اطراف پر روزانہ پانی کے چند قطرے لگادیئے جائیں تو ریڑھ کی ہڈّی اور حرام مغز کی خرابی سے پیدا ہونیوالے امراض سے تحفظ حاصل ہوجاتا ہے‘‘ ۔یہ سن کر وضو میں گردن کے مسح کی حکمت میری سمجھ میں آگئی لہٰذا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور وہ مسلمان ہوگیا۔مغربی ممالک میں مایوسی یعنی(DEPRESSION)کا مرض ترقی پر ہے،پاگل خانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، نفسیاتی امراض کے ماہرین کے یہاں مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ مغربی جرمنی کے ڈپلومہ ہولڈر ایک پاکستانی فزیو تھراپسٹ کا کہنا ہے، مغربی جرمنی میں ایک سیمینار ہوا جس کا موضوع تھا ’’مایوسی کا علاج ادویا ت کے علاوہ اور کن کن طریقوں سے ممکن ہے۔‘‘ ایک ڈاکٹر نے اپنے مقالے میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ’’ میں نے ڈپریشن کے چند مریضوں کے روزانہ پانچ بار منہ دھلائے کچھ عرصے بعد ان کی بیماری کم ہوگئی۔ پھر ایسے ہی مریضوں کے دوسرے گروپ کے روزانہ پانچ بار ہاتھ،منہ اور پائوں دھلوائے تو مرض میں بہت افاقہ ہوگیا۔ یہی ڈاکٹر اپنے مقالے کے آخر میں اعتراف کرتا ہے مسلما نو ں میں مایوسی کا مرض کم پایا جاتا ہے کیوں کہ وہ دن میں کئی مرتبہ ہاتھ، منہ اور پائوں دھوتے (یعنی وضو کرتے) ہیں۔‘‘ ایک ہارٹ اسپیشلسٹ کا بڑے وثوق کے ساتھ کہنا ہے، ہائی بلڈ پریشر کے مریض کو وضو کروائو پھر اس کا بلڈ پریشر چیک کرو لازماً کم ہوگا۔ ایک مسلمان ماہر نفسیات ڈاکٹر کا قول ہے ’’نفسیاتی امراض کا بہترین علاج وضو ہے۔‘‘ مغربی ماہرین نفسیاتی مریضوں کو وضو کی طرح روزانہ کئی بار بدن پر پانی لگواتے ہیں۔وضو میںجو ترتیب وار اعضاء دھوئے جاتے ہیں یہ بھی حکمت سے خالی نہیں۔ پہلے ہاتھوں کو پانی میں ڈالنے سے جسم کا اعصابی نظام مطلع ہوجاتا ہے اور پھر آہِستہ آہِستہ چہرے اور دماغ کی رگوں کی طرف اسکے اثرات پہنچتے ہیں۔ وضو میں پہلے ہاتھ دھونے،کلی کرنے، ناک میں پانی ڈالنے ، چہرہ اور دیگر اعضا ء دھونے کی ترتیب فالج کی روک تھام کیلئے مفید ہے، وضو میںمتعددسنتیں ہیں اور ہر سنّت مخزن حکمت ہے۔ مسواک ہی کو لے لیجئے! بچّہ بچّہ جانتا ہے کہ وضو میں مسواک کرنا سنّت ہے اور اس سنّت کی برکتوں کا کیا کہنا! ایک بیوپاری کا کہنا ہے ’’سوئٹزرلینڈ میں ایک نو مسلم سے میری ملاقات ہوئی، اس کو میں نے تحفۃً مسواک پیش کی، اُس نے خوش ہوکر اسے لیا اور چوم کر آنکھوں سے لگایا اور یکدم اُس کی آنکھوں سے آنسو چَھلک پڑے، اُس نے جیب سے ایک رومال نکالا اسے کھولا تو اس میں سے تقریباً دو اِنچ کا چھوٹا سا مسواک کا ٹکڑا برآمد ہوا۔ کہنے لگا جب میں نے اسلام قبول کیا تھا تو اس وقت مجھے یہ تحفہ دیا گیاتھا۔ میں بہت سنبھال سنبھا ل کر اِس کو استعمال کررہا تھا یہ ختم ہونے کو تھی ،مجھے تشویش تھی کہ اللہ نے کرم فرمایا اور آپ نے مجھے مسواک عنایت فرمادی۔ پھر اس نے بتایا کہ ایک عرصے سے میں دانتوں اور مسوڑھوں کی تکلیف سے دوچار تھا۔ ہمارے یہاں کے ڈینٹِسٹ سے ان کا علاج بن نہیں پڑرہا تھا۔ میں نے مسواک کا استعمال شروع کیا تھوڑے ہی دنوں میں مجھے افاقہ ہوگیا۔ میں ڈاکٹر کے پاس گیا تو وہ حیران رہ گیا اور پوچھنے لگا، میری دوا سے اتنی جلدی تمہارا مرض دور نہیں ہوسکتا سوچو کوئی اور وجہ ہوگی۔ میں نے جب ذہن پر زور دیا تو خیال آیا کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں اور یہ ساری برکت مسواک ہی کی ہے۔ جب میں نے ڈاکٹر کو مسواک دکھائی تو وہ حیرت سے دیکھتا ہی رہ گیا۔ مسواک میں بے شما دینی و دنیوی فوائد ہیں، اس میں متعدد کیمیاوی اجزاء ہیں جو دانتوں کو ہر طرح کی بیماری سے بچاتے ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خداکرم اﷲ وجہہ الکریم اور حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ کا فرمانِ عالیشان ہے ’’مسواک سے قوت حافظہ بڑھتی ، دردسر دور ہوتا اور سرکی رگوں کوسکون ملتا ہے، اس سے بلغم دور، نظر تیز، معدہ درست اور کھانا ہضم ہوتا ہے، عقل بڑھتی، بڑھا پا دیر میں آتا اور پیٹھ مضبوط ہوتی ہے۔‘‘جب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مبارک گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے۔ سرکار نامدارؐنیند سے بیدار ہوتے تو مسواک کرتے ۔وضو میں سب سے پہلے ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کی حکمتیں ملا حظہ ہوں۔ مختلف چیزوں میں ہاتھ ڈالتے رہنے سے ہاتھوںمیں مختلف کیمیاوی اجزاء اور جراثیم لگ جاتے ہیں اگر سارا دن نہ دھوئے جائیں تو جلد ہی ہاتھ ان جِلدی امراض میں مبتلاہوسکتے ہیں:(1)ہاتھوںکے گرمی دانے ( 2) جلدی سوزش (3) ایگزیما (4) پھپھُوندی کی بیماریاں( 5) جِلد کی رنگت تبدیل ہوجاناوغیرہ۔ جب ہم ہاتھ دھوتے ہیں تو انگلیوں کے پَوروں سے شعاعیں (RAYS) نکل کر ایک ایسا حلقہ بناتی ہیں جس سے ہمارا اندرونی برقی نظام متحرک ہوجا تا ہے اور ایک حد تک برقی رَو ہمارے ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے اس سے ہمارے ہاتھوں میں حسن پیدا ہوجاتا ہے۔ پہلے ہاتھ دھولئے جاتے ہیں جس سے وہ جراثیم سے پاک ہوجاتے ہیں ورنہ یہ کُلّی کے ذریعے مُنہ میں اور پھر پیٹ میں جاکرمتعدد امراض کا باعِث بن سکتے ہیں۔ہوا کے ذریعے لاتعداد مہلک جراثیم نیز غذا کے اجزاء ہمارے منہ اور دانتوں میں لعاب کے ساتھ چِپک جاتے ہیں ۔ چنانچہ وضو میں مسواک اور کُلّیوںکے ذریعے منہ کی بہترین صفائی ہوجاتی ہے۔ اگر منہ کو صاف نہ کیا جائے تو ان امراض کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے:۔( 1) ایڈز کی ابتدائی علامات میں منہ کا پکنا بھی شامل ہے۔ (2) منہ کے کناروں کا پھٹنا (3) منہ اور ہونٹوں کی داد قوبا (MONILIASIS) (4) منہ میں پَھپُھوندی کی بیماریاں اور چھالے وغیرہ ۔ نیز روزہ نہ ہو تو کلّی کے ساتھ غرغرہ کرنا بھی سنّت ہے اور پابندی کے ساتھ غرغرے کرنے والا کوے (TONSIL) بڑھنے اور گلے کے بہت سارے امراض حتیّٰ کہ گلے کے کینسر سے محفوظ رہتا ہے۔پھیپھڑوں کو ایسی ہوا درکار ہوتی ہے جو جراثیم، دھوئیں اور گرد وغبا ر سے پاک ہو اور اس میں80 فیصد رطوبت یعنی تَری ہو اور جس کا درجۂ حرارت نوّے درجہ فارن ہائٹ سے زائد ہو۔ ایسی ہوا فراہم کرنے کیلئے اللہ نے ہمیں ناک کی نعمت سے نوازا ہے۔ ہوا کو مرطوب یعنی نم بنانے کیلئے ناک روزانہ تقریباً چوتھائی گیلن نمی پیدا کرتی ہے۔ صفائی اور دیگر سخت کام نتھنوں کے بال سر انجام دیتے ہیں۔ ناک کے اندر ایک خوردبین (MICROSCOPIC) جھاڑو ہے۔ اس جھاڑو میں غیر مرئی یعنی نظر نہ آنے والے رُوئیں ہوتے ہیں جو ہوا کے ذریعے داخل ہونے والے جراثیم کوہلاک کردیتے ہیں۔ نیز ان غیر مرئی رُؤوں کے ذمّے ایک اور دفاعی نظام بھی ہے جسے انگریزی میں IM U LYSOZ کہتے ہیں ، ناک اس کے ذریعے سے آنکھوں کو INFECTIONسے محفوظ رکھتی ہے۔ وضو کرنے والا ناک میں پانی چڑھاتا ہے جس سے جسم کے اس اہم ترین آلے ناک کی صفائی ہوجاتی ہے اور پانی کے اندر کام کرنے والی بَرقی رَو سے ناک کے اندرونی غیر مرئی رُؤوں کی کارکردگی کو تقویّت پہنچتی ہے اور مسلمان وضو کی برکت سے ناک کے بے شمار پیچیدہ امراض سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ دائمی نزلہ اور ناک کے زخم کے مریضوں کیلئے ناک کا غسل ( یعنی وضو کی طرح ناک میں پانی چڑھانا) بے حد مفید ہے ۔آج کل فضائوں میں دھوئیں وغیرہ کی آلودگیاں بڑھتی جارہی ہیں ۔ مختلف کیمیاوی مادے میل کچیل کی شکل میں آنکھوں اور چہرے وغیرہ پر جمتے رہتے ہیں۔ اگرچہرہ نہ دھویا جائے توچہرے اور آنکھیں کئی امراض سے دوچار ہو جائیں ایک یورپین ڈاکٹر نے ایک مقالہ لکھا جس کا نام تھا، آنکھ ، پانی، صحّت( EYE,WATER, HEALTH) اس میں اس نے اس بات پر زور دیا کہ ’’اپنی آنکھوں کو دن میں کئی بار دھوتے رہو ورنہ تمہیں خطرناک بیماریوں سے دوچار ہونا پڑیگا۔‘‘ چہرہ دھونے سے منہ پر کِیل نہیں نکلتے یا کم نکلتے ہیں۔ ماہرین حسن و صحّت اس بات پر متفق ہیں کہ ہر طرح کی کریم اور لوشن وغیرہ چہرے پر داغ چھوڑتے ہیں۔ چہرے کو خوبصورت بنانے کیلئے چہرے کو کئی بار دھونا لازمی ہے۔ ’’امریکن کونسل فاربیوٹی‘‘ کی سرکردہ ممبر ’’بیچر‘‘ نے کیا خوب انکشاف کیا ہے کہتی ہیں ’’مسلمانوں کو کسی قسم کے کیمیاوی لوشن کی حاجت نہیں وضوسے انکا چہرہ دُھل کر کئی بیماریوں سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔‘‘ محکمۂ ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے’’ چہرے کی الرجی سے بچنے کیلئے اس کو بار بار دھونا چاہئے‘‘۔ الحمداللہ! ایسا صرف وضو کے ذریعے ہی ممکن ہے۔وضو میںچہرہ دھونے سے چہرے کا مساج ہوجاتا، خون کا دوران چہرے کی طرف رواں ہوجاتا،میل کچیل بھی اتر جاتا اور چہرے کا حُسن دوبالا ہوجاتا ہے۔میں آنکھوں کے ایک ایسے مرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس میں آنکھوں کی رطوبتِ اَصلِیّہ یعنی اصلی تری کم یا ختم ہوجاتی اور مریض آہستہ آہستہ اندھا ہوجاتا ہے۔طبّی اصول کے مطابق اگر بھنوؤں کو وقتاً فوقتاً تر کیا جاتا رہے تو اس خوفناک مرض سے تحفظ حاصل ہوسکتا ہے۔ الحمداللہ! وضو کرنے والا منہ دھوتا ہے تو اس طرح اس کی بھنویں تر ہوتی رہتی ہیں۔ جو خوش نصیب اپنے چہرے پر داڑھی مبارک سجاتے ہیں وہ سُنیں ڈاکٹر پروفیسر جارج ایل کہتے ہیں’’ منہ دھونے سے داڑھی میں اُلجھے ہوئے جراثیم بہہ جاتے ہیں۔ جڑ تک پانی پہنچنے سے بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ خلال (کی سنّت ادا کرنے کی برکت) سے جوؤں کا خطرہ دور ہوتا ہے مزید داڑھی میں پانی کی تری کے ٹھہرائو سے گردن کے پَٹھّوں، تھائی رائیڈ گلینڈ اور گلے کے امراض سے حفاظت ہوتی ہے۔‘‘کُہنی پر تین بڑی رگیں ہیں جن کا تعلق دل،جگر اور دماغ سے ہے اور جسم کا یہ حصّہ عموماً ڈھکا رہتا ہے اگر اس کوپانی اور ہوا نہ لگے تو متعدد دماغی اور اعصابی امراض پیدا ہوسکتے ہیں۔ وضو میں کہنیوں سمیت ہاتھ دھونے سے دل،جگر اور دماغ کو تقویت پہنچتی ہے۔ مزید یہ کہ کہنیوں سمیت ہاتھ دھونے سے سینے کے اندر ذخیرہ شدہ روشنیوں سے براہ راست انسا ن کا تعلق قائم ہوجاتا ہے اور روشنیوں کا ہجوم ایک بہائو کی شکل اختیار کرلیتا ہے، اس عمل سے ہاتھوں کے عضلات یعنی کل پرزے مزید طاقتور ہوجاتے ہیں۔سراور گردن کے درمیان ’’حَبلُ الْوَرِید‘‘ یعنی شہ رگ واقع ہے اس کا تعلق ریڑھ کی ہڈّی اور حرام مغز اور جسم کے تمام تر جوڑوں سے ہے۔ جب وضو کرنے والا گردن کامسح کرتا ہے تو ہاتھوں کے ذریعے برقی رَونکل کر شہ رگ میں ذخیرہ ہوجاتی ہے اور ریڑھ کی ہڈّی سے ہوتی ہوئی جسم کے تمام اعصابی نظام میں پھیل جاتی ہے اور اس سے اعصابی نظام کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ مسح کرنے سے لُولگنے اور گردن توڑبخار سے بھی بچت ہوتی ہے۔پائوں سب سے زیادہ دھول آلود ہوتے ہیں۔ پہلے پہل INFECTION پائوں کی انگلیوں کے درمیانی حصّہ سے شروع ہوتا ہے۔ وضو میں پائوں دھونے سے گرد و غُبار اور جراثیم بہہ جاتے ہیں اور بچے کھچے جراثیم پائوں کی انگلیوں کے خلال سے نکل جاتے ہیں۔لہٰذا وضو میں سنّت کے مطابق پاؤں دھونے سے نیند کی کمی، دماغی خشکی‘ گھبراہٹ اور مایوسی (DEPRESSION) جیسے پریشان کن امراض دور ہوتے ہیں۔وضو کے طبّی فوائد سن کر آپ خوش تو ہوگئے ہوں گے مگر عرض کرتا چلوں کہ سائنسی تحقیقات بھی حتمی نہیں ہوتیں، بدلتی رہتی ہیں۔ ہاں اللہ و رسول ؐکے احکامات اٹل ہیں وہ نہیں بدلیں گے۔ ہمیں سنّتوں پر عمل طبّی فوائد پانے کیلئے نہیں صرف و صرف رضائے الٰہی کی خاطر کرنا چاہئے۔ اس لئے وضو کرنا کہ میرا بلڈ پریشر نارمل ہوجائے یا میں تازہ دم ہوجائوں گا یا ڈائٹنگ کیلئے روزہ رکھنا تاکہ بھوک کے فوائد حاصل ہوں۔ سفر مدینہ اسلئے کرنا کہ آب و ہوا بھی تبدیل ہوجائے گی اور گھر اور کاروباری جھنجھٹ سے بھی کچھ دن سکون ملے گا یا دینی مطالعہ اس لئے کرنا کہ میرا ٹائم پاس ہوجائے گا۔ اس طرح کی نیتوں سے اعمال بجالانے والوں کو ثواب کہاں سے ملے گا؟ اگر ہم عمل اللہ کو خوش کرنے کیلئے کریں گے تو ثواب بھی ملے گا اور ضِمناً اس کے فوائد بھی حاصل ہوجائیں گے۔ لہٰذا ظاہری اور باطنی آداب کوملحو ظ رکھتے ہوئے وضو بھی ہمیں اللہ کی رضا کیلئے ہی کرنا چاہئے۔یاد رکھئے! آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی سنّت سائنسی تحقیق کی محتاج نہیں اور ہمارا مقصود اتباع سائنس نہیں اتباع سنّت ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ جب یورپین ماہرین برسہا برس کی عرق ریزی کے بعدنتیجے کا دریچہ کھولتے ہیں تو انہیں سامنے مسکراتی نور برساتی سنّت مصطفو ی ؐ ہی نظر آتی ہے۔ دنیا میں لاکھ سیر و سیاحت کیجئے،جتنا چاہے عیش و عشرت کیجئے، مگر آپ کے دل کو حقیقی راحت میسر نہیں آئے گی، سکون قلب صرف و صرف یادخدا میں ملے گا، دل کا چین عشق سرورکونینؐ ہی میں حاصل ہوگا۔ دنیا و آخرت کی راحتیںسائنسی آلات ٹی وی ، وی سی آراور انٹرنیٹ کے روبرو نہیں اِتباع سنّت میں ہی نصیب ہوں گی۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
یادرفتگاں: دین دار بادشاہ: سلطان نورالدین زنگی

یادرفتگاں: دین دار بادشاہ: سلطان نورالدین زنگی

نورالدین ابو القاسم محمود ابن اماد دالدین ''زنگی سلطنت‘‘ کے بانی تھے۔نورالدین زنگی 11فروری 1118ء موصل عراق میں پیدا ہوئے،1146ء سے 1174ء تک 28 سال حکومت کی اور15مئی 1174ء کو 58برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ نورالدین زنگی نے مسیحوں سے اپنے دور حکومت میں بیت المقدس واپس لینے کیلئے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اِس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے گرد و نوح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا ۔ شروع میں نور الدین کا دارالحکومت حلب تھا، 549ہجری میں انہوں نے دمشق پر قبضہ کر کے اسے دارالحکومت قرار دے دیا ۔ انہوں نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملہ کرکے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں ایڈیسیا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کی عیسائیوں کی کوششو ں کو بھی ناکام بنا دیا۔ دوسری صلیبی جنگ میں فتح کی بدولت ہی مسلمان تیسری صلیبی جنگ میں کامیاب ہوکر بیت المقدس واپس لینے میں فتح یاب ہوئے ۔ اس زمانے میں مصر میں فاطمی حکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ہوگئی تھی اور مصر چونکہ فلسطین سے ملا ہوا تھا اس لئے عیسائی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ دیکھ کر نورالدین نے ایک فوج بھیج کر مصر پر بھی قبضہ کر لیا اور فاطمی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا ۔ سلطان نورالدین زنگی کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ روضہ رسول ﷺ کی حفاظت کی سعادت ہے ، یہ واقعہ مدینہ کی تاریخ کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے، سمہودی کے قول کے مطابق عیسائیوں نے یہ سازش 557ہجری میں مرتب کی۔ اس وقت شام کے باشاہ کا نام سلطان نورالدین زنگی تھا اور اس کے مشیر کا نام جمال الدین اصفہانی تھا ۔ایک رات نماز تہجد کے بعد سلطان نورالدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم ﷺ 2سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ ''مجھے ان کے شر سے بچائو ‘‘سلطان ہر بڑا کر اُٹھا، وضو کیا ، نفل ادا کئے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی ۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں ؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں۔یہ مشورہ سلطان کے مشیر جمال الدین اصفہانی نے دیا۔ اگلے روز سلطان نے 20مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ کیلئے کوچ کیا۔ سلطان نے روضہ رسولﷺ پر حاضری دی اور مسجد نبوی میں بیٹھ گئے ، اعلان کیا گیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں ، جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کریں گے ، لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتے گئے ۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اس ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا ''کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے ؟جواب اثبات میں تھا۔سلطان نے پھر پوچھا کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟ اس بار حاضرین نے کہا ، ''سوائے دو آمیوں کے ‘‘راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔ سلطان نے پوچھا وہ کون ہیں اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے ؟ بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم وصلوۃ کے پابند دو متقی باشندے ہیں، دن رات رسول کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجد جاتے ہیں،فیاض اور مہمان نواز ہیں ، کسی کا دیا نہیں لیتے ۔ سلطان نے کہا ''سبحان اللہ ‘‘اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کیلئے فوراً بلایا جائے، جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا ''الحمد اللہ ‘‘ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں ۔جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اِس نے حکم دیا کہ اِن دونوں کو فوراً پیش کیا جائے ، حکم کی فوری تعمیل ہوئی ، ایک جھلک ان کی شناخت کیلئے کافی تھی ، تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا تم کون ہو ؟ یہاں کیوں آئے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم مراکش کے رہنے والے ہیں حج کیلئے آئے تھے اور روضہ رسول ﷺ کے سائے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ سلطان نے سختی سے کہا ، کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے ؟ اب وہ چپ رہے ، سلطان نے حاضرین سے پوچھا، یہ کہاں رہ رہے ہیں ؟ بتا یا گیا کہ روضہ رسول کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہوگیا ۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا ، اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے ، اس مکان میں اس کی نظر فرش پر بچھی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی ، نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اُڑ گئیں ، سلطان نے چٹائی اُٹھائی، اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی ۔ سلطان نے گرج کر کہا کیا اب بھی سچ نہ بولو گے ؟ ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ اُنہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے حکمران نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر ، حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ روضہ مبارک تک پہنچ سکیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کیلئے اُنہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اُس کے بعد روضہ رسولﷺ کے نزدیک مکان کرائے پر لے کر رہنے لگ گئے۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے جس کا روخ روضہ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل پر تھی کہ رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی کہ جیسے زلزلہ آگیا ہو اور اب جبکہ ان کا کام پایا تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان ناجانے کیسے مدینہ پہنچ گئے۔ سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کیلئے اس غلام کو چنا گیا۔ سلطان نور الدین زندگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کر دیا جائے، روضہ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے ، اور اس کے گرد سیسا پلائی دیوار بنا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بد بخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ 558ہجری مطابق 1142ء کا ہے۔ سلطان نے روضہ مبارک کے قریب ایک چبوترہ بھی بنوایاتاکہ اس پر ان قبور کی حفاظت کیلئے ہر وقت پاسبان موجود رہیں، سلطان کی زندگی کا یہ ایک عظیم ترین کارنامہ ہے جو کہ تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا رہے گا۔ سلطان نور الدین زندگی 15مئی 1174ء کو 58برس کی عمر میں شام کے دارالحکومت دمشق میں وفات پاگئے ۔ 

سماجی ویورز بڑے بڑے گھونسلے بنانے والا پرندہ

سماجی ویورز بڑے بڑے گھونسلے بنانے والا پرندہ

قدرت نے روئے زمین پر اشرف المخلوقات کے علاوہ بہت سے دیگر جاندار پیداکر رکھے ہیں جن میں طرح طرح کے جنگلی جانور ، زمین کے اوپر اور اندررینگنے والے حشرات جن کی تعداد انسانوں کئی گنازیادہ ہے۔ اس کے علاوہ پرندوں کی کئی اقسام بھی ہوائوں میں اڑتی نظر آتی ہے۔ آج ہم یہاں بات کریں گے پرندوں کی کرہ ارض پر پرندوں کی لاتعداد اقسام موجود ہیں۔ مختلف قسم کے پرندو ں کا رہن سہن ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔ کئی پرندے درختوں پر گھونسلے بناتے ہیں کئی چٹانوں میں اپنے مسکن بنا کر زندگی بسر کرتے ہیں گو کہ قدرت کے کرشموں سے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت اور عظمت پر یقین اور پختہ ہوجاتا ہے۔عام طور پر، پرندے گھونسلا بنانے والے سب سے زیادہ ہنر مند ہوتے ہیں، حالانکہ پرندے کی تمام اقسام گھونسلے نہیں بناتے، کچھ اپنے انڈے براہ راست چٹان کے کناروں یا مٹی پر ڈالتے ہیں، پرندوں کے بنائے گئے گھونسلے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے اور شکار کے خطرات کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ کچھ پرندے ایسے بھی ہے جو براہ راست اپنے بچوں کی پرورش نہیں کرتے، اپنے بچوں کو گلنے والے پودوں کے ٹیلے میں سینکتے ہیں۔ پرندوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو اپنے انڈوں کو گرم رکھنے کیلئے جیوتھرمل گرمی سے گرم ہونے والی آتش فشاں ریت کا استعمال کرتی ہے۔ گھونسلے بنانے والے پرندوں میں بہت سے پرندے شامل ہیں۔ زیادہ تر پرندوں کے گھونسلے درختوں کی شاخوں کے درمیان ہوتے ہیں ان گھونسلوں میں زیادہ تر مٹی، ٹہنیاں پتے اور پنکھوں کا استعمال کرتے ہوئے کپ کی شکل کے گھونسلے بناتے ہیں۔ کچھ پرندے، جیسے فلیمنگو اور سوئفٹ، اپنے گھونسلے جوڑنے کیلئے تھوک کا استعمال کرتے ہیں۔کچھ پرندوں کا گھونسلہ مکمل طور پر کیچڑ اور فضلے پر مشتمل ہوتا ہے،اور سورج کی تپش سے گھونسلے کا ڈھانچہ مضبوط ہو جاتا ہے۔کچھ پرندے اپنے گھونسلے کی جگہوں کو ڈھانپنے کیلئے پتوں کو ایک ساتھ سلائی کرتے ہیں۔ان پرندوں میں سے ایک پرندہ ایسا بھی ہے کہ جو درختوں کی شاخوں پر اس خوبصورتی اورمہارت سے اپنا گھونسلا بناتا ہے کہ تیز آندھی بھی اس گھونسلے کو نقصان نہیں پہنچاتی اور یہی نہیں وہ اپنے گھونسلے میں روشنی کیلئے جگنو کا استعمال بھی کرتا ہے۔ انہیں پرندوں میںبالڈ ایگلز ایک ایسا پرندہ ہے جس نے فلوریڈا کے علاقے میں ایک گھونسلہ بنایا جس کی گہرائی 6 میٹر اور چوڑائی 2.9 میٹر تھی اور اس کا وزن 2 ہزار 722 کلو گرام تھا۔آج تک روئے زمین پر کسی نے پرندے کا اتنا بڑا گھونسلہ نہیںدیکھا۔بے شک قدرت کے ایسے کرشمے انسانی عقل وشعور کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی جنوبی افریقہ میں پایا جانے والا ایک پرندہ جسے ملنسار ویور ز کہا جاتا ہے ۔ ملنسار ویورکے بارے میں سب سے پہلے 1790ء میں تجزیہ کیا گیا۔یہ پرندہ 5.5 انچ کا ہوتا ہے اور اس کا وزن ایک سے سوا اونس کے درمیان ہوتا ہے۔یہ پرندہ جنوبی افریقہ کے شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ملنسار ویورز تمام پرندوں سے منفردایسا گھونسلہ بناتا ہے جس میں لکڑیوں کے بڑے بڑے ٹکڑے اور خشک گھاس استعمال کی جاتی ہے اور یہ گھونسلا اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں 400 سے 500 کے قریب پرندے رہ سکتے ہیں اور اس بڑے گھونسلے کے اندر مختلف چیمبر بنے ہوتے ہیں جیساکہ ایک بڑی حویلی میں مختلف رہائشی کمرے ہوں۔ گھونسلے کا داخلی راستہ نچلے حصہ میں ہوتا ہے جو ایک راہ داری میں جاتا ہے اسی راہ داری سے گزر کر پرندے اپنے اپنے چیمبرز میں جاتے ہیں۔ ان بڑے گھونسلوں کو ملنسار بنکرز یا نوآبادیاتی گھونسلے بھی کہا جاتا ہے۔ ان ملنسار بنکرز کے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے کا بھی مکمل انتظام رکھا جاتا ہے تا کہ زیادہ گرمی اور زیادہ سردی اثر انداز نہ ہو سکے۔ سماجی ویورزاپنے گھونسلے درختوں اور دیگر اونچی جگہوں جیسے بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبوں پر بناتے ہیں یہ پرندہ مختلف جگہوں سے ٹہنیاں اکٹھی کر تے ہیں اور گھونسلے کو ٹہنی سے ٹہنی جوڑ بناتے ہیں۔ ان بڑے گھونسلوں کے اندر الگ کمرے ہوتے ہیں جنہیں مختلف پرندوں کے پنکھوں اور نرم گھاس کے استعمال سے آرام دہ بنایا جاتا ہے۔ ایک انفرادی گھونسلے کا وزن 2ہزار پاؤنڈ تک ہوسکتا ہے اور اس میں 100 سے زیادہ چیمبر ہوتے ہیں۔ گھونسلے کے داخلی راستے تقریباً 250 ملی میٹر لمبے اور 76 ملی میٹر چوڑے بنائے گئے ہیں اور ان پر تیز دھار لاٹھیاں لگائی گئی ہیں تاکہ سانپوں سمیت شکاریوں کے داخلے کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ گھونسلے بہت مضبوط ہوتے ہیں ۔ بجلی کے کھمبوں پر بنائے گئے گھونسلے گرمیوں میں آگ اور برسات کے موسم میں شارٹ سرکٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ اور کئی مرتبہ بارشوں کے باعث گھونسلے میں اس قدر پانی میں بھر جاتا ہے کہ درخت یا کھمبا گر جاتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

افغانستان سے سویت افواج کی واپسی1988ء میں آج کے روز سوویت افواج آٹھ سال سے زیادہ عرصہ لڑنے کے بعد افغانستان سے واپس گئیں۔ ایک لاکھ 15ہزار فوجیوں کی مرحلہ وار واپسی شروع ہوئی۔''سوویت افغان جنگ‘‘ 1979ء سے 1989ء تک جاری رہی۔ غیر ملکی طاقتوں کی شمولیت نے اس جنگ کو امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک پراکسی جنگ بنا دیاتھا۔ پہلی ائیر میلپہلی ائیر میل فلائٹ جس کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے پوسٹ آفس ڈیپارٹمنٹ نے سویلین فلائٹ کے عملے کے ساتھ چلایا۔ اس فلائٹ نے 15 اگست 1918ء کو ٹیک آف کیا۔ ائیر میل کی یہ فلائٹ نیویارک سے واشنگٹن کیلئے طے شدہ تھی لیکن سفر کے دوران اس کا ایک سٹاپ فیلیڈیلفیا میں بھی تھا۔یہ فلائٹ15مئی کو پہلی ائیر میل لے کر واشنگٹن ڈی سی پہنچی۔برطانیہ کا ہائیڈروجن بم کا تجربہآپریشن گریپل 1957ء سے 1958ء میں بحرالکاہل میں گلبرٹ اور ایلیس جزائر میں مالڈن جزیرہ اور کریتیماتی میں ابتدائی ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کے چار برطانوی جوہری ہتھیاروں کے تجربات کا ایک مجموعہ تھا۔ اس پروگرام کے دوران نو جوہری دھماکے کئے گئے۔15مئی 1957ء کو برطانیہ نے پہلے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔عراق بم دھماکے2013ء میں 15مئی سے21مئی تک عراق کے وسطی اور شمالی حصوں میں بہت خوفناک دھماکوں اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔کچھ واقعات جنوب اور مغرب کے قصبوں میں بھی پیش آئے۔ ان حملوں میں کم از کم 449افراد ہلاک اور تقریباً 732 شدید زخمی ہوئے۔انہیں عراق کی تاریخ کے بدترین واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ٹوریون میں قتل عام 15مئی1911ء کو ٹوریون میں قتل عام ہوا۔جس میں فرانسسکو کی انقلابی افواج نے 300 سے زائد ایشیائی باشندوں کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر کینٹونیز میکسیکن اور کچھ جاپانی میکسیکن تھے۔ کینٹونیز کے گھروں اور دکانوں کو لوٹ کر تباہ کر دیا گیا۔قتل عام کی تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ نسل پرستی کا ایک عمل تھا۔   

یادرفتگاں: فاروق قیصر : فن و ادب کا روشن ستارہ

یادرفتگاں: فاروق قیصر : فن و ادب کا روشن ستارہ

31 اکتوبر 1945ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے فاروق قیصر 14مئی 2021ء کواسلام آباد میں فوت ہوئے ، آج ان کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے۔وہ ایک مزاح نگار اور فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ مصنف، کالم نگار، کارٹونسٹ، پروڈیوسر، سکرپٹ رائٹر، شاعر، صداکار اور استاد بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر ایک متاثر کن انسان تھے۔اگر یہ کہا جائے کہ معروف کریکٹر ''انکل سرگم‘‘ کے تخلیق کار فاروق قیصر فن و ادب کی دنیا کاایک روشن ستارہ تھے اور ان کی شخصیت سے بے پناہ کرنیں پھوٹتی تھیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ماسی مصیبتے، بونگا بخیل، ہیگا، رولا اور شرمیلا جیسے یادگار کردار بھی ان کی تخلیق تھے۔ لاہور میں پیدا ہوئے مگر پرورش پاکستان کے مختلف شہروں میں پائی۔ جس کی وجہ والد کی سرکاری نوکری تھی ۔ فاروق قیصر کا تعلیمی سفر بھی مختلف شہروں میں تکمیل تک پہنچا، یعنی میٹرک پشاور سے، ایف اے کوئٹہ سے اور ٹیکسٹائل ڈیزاننگ میں گریجویشن نیشنل کالج آف فائن آرٹس لاہور سے کیا ۔فائن آرٹس میں ماسٹرز انہوں نے رومانیہ سے کیاجبکہ 1999ء میں کیلیفورنیا امریکہ سے ماس کمیونی کیشن میں بھی ماسٹرز کیا ہے۔ان کا شمار پاکستان کے معروف مزاح نگاروں میں ہوتا تھا، جنہوں نے کپڑے کے بنے ہوئے پتلوں کے ذریعے مزاح پیش کیا اور پھر کارٹون کے ذریعے بھی اس فن کی آبیاری کی۔ انہیں ٹی وی پرفیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے پروگرام ''اکڑ بکڑ‘‘ سے متعارف کروایا تھا۔ مشہور پروگرام ''کلیاں ‘‘ ان کی پہچان بنا،جس میں انکل سرگم کے کردار نے انہیں شہرت کے بام عروج پر پہنچادیا۔ یہ شو ویسے تو بچوں کیلئے تھا لیکن اس میں موجود ہلکا پھلکا طنز و مزاح بڑوں کی بھی توجہ حاصل کیے رکھتا۔ انکل سرگم اور ماسی مصیبتے کے علاوہ ہیگا، رولا اور شرمیلا جیسے پتلی تماشا کے کرداروں نے بھی مقبولیت حاصل کی۔تمام کرداروں کی ڈیزائننگ ان کی اپنی تھی اور انکل سرگم کا وائس اوور بھی وہ خود کرتے تھے۔ ان کا پروگرام ''کلیاں‘‘ 1976ء میں، ''ڈاک ٹائم‘‘ 1993ء میں، ''سرگم سرگم‘‘ 1995ء میں ،''سیاسی کلیاں‘‘ 2010ء میں اور ''سرگم بیک ہوم‘‘ 2016ء میںنشر ہوا۔فاروق قیصر علم و ادب کی دنیا کا ایک ایسا نام ہیں، جنہوںنے '' پتلیوں ‘‘ سے وہ باتیں کہلوا دیں جو انسان حکمرانوں اور اداروںکے سامنے بیان کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا تھا۔انہوں نے سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں سرکاری ٹی وی کے ذریعے سے محکمانہ خرابیوں، بدعنوانیوں اور نااہلیوں کو اس خوبصورتی سے بے نقاب کیا کہ سبھی عش عش کر اٹھے۔ فاروق قیصر عوامی مسائل کو طنزومزاح سے بیان کرنے کے ماہر تھے۔ انہوں نے اپنے کرداروں سے معاشرے کو اس کا اصل چہرہ دکھایا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ''فرد ہر بات کہہ سکتا ہے بس کہنے کا ڈھنگ آنا چاہئے‘‘۔ وہ وژنری آدمی تھے، پینتالیس سال پہلے جو کچھ کہہ دیا،حالات آج بھی ویسے ہی ہیں۔ پپٹ شوز کے ذریعے انہوں طنز کے نشتر ہی نہیں برسائے بلکہ بچوں اور بڑوں کو ہنسنا سکھایا اور بھلائی کا ناقابل فراموش پیغام دیا۔فاروق قیصر کے کریڈٹ پر ایک اور بہت شاندار تخلیقی اقدام ہے جس نے پاکستان میں مزاح بالخصوص ٹیلی وژن پر مزاح کو ایک نیا رجحان عطا کیا اور وہ تھا مزاحیہ صدا کاری کا، جس میں وہ انگریزی فلموں پر پنجابی فلموں کے انداز کی پنجابی زبان میں ڈبنگ کرتے تھے۔ ''حشر نشر‘‘ کے نام سے پیش کیے جانے والے پروگرام نے پاکستان میں ایک نیا رخ دیا جس سے متاثر ہوکر اس شعبے میں بہت کام ہوا بلکہ آج تک مختلف انگریزی فلموں اور کلپس پر مزاحیہ ڈبنگ کا کام جاری ہے۔ پاکستان میں اس کام کے خالق فاروق قیصر ہی تھے۔فاروق قیصر نے زندگی میں بہت سارے کام کیے، وہ پاکستان اور انڈیا میں یونیسیکو کے منصوبوں سے جڑے رہے۔ انہوں نے دیہی علاقوں میں صحت و صفائی، تعلیم اور فنون کی آگاہی کیلئے عملی طور پر خدمات فراہم کیں۔ وہ لوک ورثہ کے سابق بورڈ آف گورنر بھی رہے۔ ان کی ٹیلی وژن کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں وابستگی رہی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس اور فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین سمیت کئی جامعات سے بھی جز وقتی منسلک رہے۔ کئی اخبارات کیلئے مستقل طور پر کالم نویسی کرنے کے ساتھ حالات حاضرہ پر کارٹون بھی تخلیق کیے۔ انہوں نے 40 ڈرامے اور بے شمار نغمات بھی لکھے۔ ان کی تحریروں پر مبنی 4 کتابیں بھی شائع ہوئیں، جن میں ''ہور پوچھو‘‘،''کالم گلوچ‘‘،''میٹھے کریلے‘‘ اور ''میرے پیاے اللہ میاں‘‘ شامل ہیں۔ لازوال شخصیت کے حامل فاروق قیصر کی بہترین خدمات اور کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے انہیں ''تمغہ امتیاز ‘‘اور'' تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔پاکستان میں پتلی تماشا کے بانی سمجھے جانے والے فاروق قیصر کو 2021ء میں عید الفطرکے دوسرے روزپڑنے والا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور یوں وہ موت کی آغوش میں چلے گئے۔انہوں نے 75 برس کی عمر پائی۔فاروق قیصر کی زندگی اور ان کے فن کے بارے میں ہم جتنی بات کریں، کم ہے۔ 50 برسوں پر پھیلے ان کے فنی منظرنامے پر جگہ جگہ ہمارا بچپن بکھرا پڑا ہے، فنون لطیفہ کیلئے فاروق قیصر کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ 

 چھیمبہ :  تاریخی سرائے

چھیمبہ : تاریخی سرائے

قدیم ادوار سے ہی ہماری سرزمین کئی شاہراہوں پر سے گزرنے والے جنگجوئوں، فاتحین اور بادشاہوں کی گزر گاہ رہی ہے۔ راجپوتانہ تا بنگال کو افغانستان کی سر بلند سرزمین کو ملانے والے راستے کو چوتھی صدی قبل مسیح کی دستاویزات کے مطابق جی ٹی روڈ (جرنیلی سڑک) کا نام دیا گیا تھا۔ مختلف قصبوں اور شہروں کو باہم ملانے والی شاہرات قدیم دور میں بہت اہمیت کی حامل رہیں۔صدیوں سے موجود رہنے والی اس طرح کی قدیمی شاہ راہ(موجودہ جدید شکل میں لاہور، ملتان ہائی وےN-5)کی اہمیت مغلوں کے دور میں بہت بڑھ گئی۔ جب مغل سلطنت امن کی بہاریں دیکھ رہی تھی اسی دور میں شمال میں واقع لاہور، مغلوں کے متبادل دارالحکومت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور ملتان نسبتاً دارالحکومت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور ملتان نسبتاً امیر صوبے اور تجارتی مرکز کے طور پر سامنے آیا۔ مغلوں کے تیسرے فرماں روا، اکبر اعظم کے دور میں تجارت کے مقاصد، جنگی مہمات، شاہی دوروں کو سہولت بخشنے کیلئے اس قدیمی لاہور، ملتان کے درمیان واقع جرنیلی سڑک کو خصوصی توجہ کا مستحق گردانا گیا۔ ان شاہراہوں کے نظام کے گھوڑے، پیادے، سکیورٹی کا انتظام کے ساتھ ساتھ یہاں لاتعداد نئی ''کاروان سرائے‘‘ تعمیر کی گئی جہاں پرانی سائیں موسمی یا جنگی حالات کی وجہ سے عدم وجود سے دوچار تھیں۔اس دور میں ان سرائوں کا باہم فاصلہ، طے کئے جانے والے سفر کے مطابق رکھا جاتا تھا جو عموماً25تا 30کلو میٹر( اس دور میں طے ہونے والا روزانہ فاصلہ) ہوتا تھا۔ لاہور کے اندرون (مرکز حکومت) سے نکلتے تو پہلا پڑائو ملتان جانے والی جرنیلی سڑک پر ضلع قصور کے تاریخی قصبے ہنجروال میں سرائے کی صورت میں ہوتا تھا۔ ہنجروال کی یہ سرائے امتداد زمانہ کے ہاتھوں کب کی وجود کھو چکی ہے۔سیاحوں اور ماہرین آثاریات کی نظروں سے ذرا اوجھل، بغیر منصوبے کے تعمیر ہونے والے دیہات گھروں اور زرعی زمینوں میں گھری''سرائے چھیمبہ‘‘ کی آثاریات ہنجروال سے مزید 30 کلو میٹر دور N-5پر ''سراں‘‘ کے سٹاپ کے مغرب میں تقریباً ایک کلو میٹر دور قدیم جرنیلی سڑک کی نشانی کے طور پر آج بھی موجود ہے۔ قارئین کیلئے یہ امر باعث دلچسپی ہو گا کہ ''سرائے چھیمبہ‘‘، '' سرائے ہنجروال‘‘، '' سرائے مغل‘ جیسی سرائیں اٹک قلعہ سے منسلک ''بیگم کی سرائے‘‘ ٹیکسلا راولپنڈی کے درمیان ''سرائے خربوزہ‘‘ راولپنڈی کے مشرق میں ''سرائے روات‘‘ روہتاس قلعہ کے عین باہر ''راجو پنڈ‘‘ نامی جگہیں قلعہ بند حالت میں آج بھی سیاہ راتوں کے درمیان قزاقوں اور مقامی دیہاتی لٹیروں سے بچائو کیلئے دروازے بند کر کے محفوظ ہو جانے والے شاہی کاروانوں کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ دور حقیقت اس خطہ میں یہ کوئی انوکھی تعمیراتی حیرت گاہ نہ تھی بلکہ وسطی ایشیا، ایران اور ہندو پاک میں تعمیر ہونے والی اسی طرح کی سرائوں سے مشابہہ، موٹی، بڑی دیواروں اور مشرق اور مغرب کی جانب مرکزی دروازوں، قلعہ نما بلندی اختیار کئے ہوئے کئی تعمیرات موجود ہیں۔حد بندی کے طور پر کام آنے والی موٹی، بیرونی دیواروں کے اندر کی طرف گنبد نما چھتوں والے اندھیرے لیکن ٹھنڈے، بڑے بڑے کمروں کے لمبے سلسلے میں مسافروں کے کاروان، شاہی مصاحب ، سامان لانے لے جانے والے ایک یا دو دن کیلئے آرام کرنے اور تازہ دم ہونے کیلئے یہاں ٹھہرا کرتے تھے۔ ان کے جانور( گھوڑے اور گدھے اور ہاتھی) سرائوں کے کونے پر واقع وسیع اصطبل میں ٹھہرا دیئے جاتے تھے۔مشرق اور مغربی سمتوں میں تعمیر شدہ محراب نما وسیع اور بلند دروازے اکبر کے دور کے تعمیر شدہ ہیں۔ مغربی دروازہ پر قبضہ ہو چکا ہے اور یہ رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے جبکہ مشرقی دروازہ آنے اور جانے کیلئے مستعمل ہے۔ چند سال قبل تک دروازہ کے عالی شان مضبوط لکڑی سے تعمیر پٹ( کواڑ) موجود تھے، لیکن بعد ازاں جب پختہ گلیاں اور سولنگ لگاتے ہوئے گلیوں کو اونچا کیا گیا تو یہ نہ کھل سکنے کی وجہ سے اتار کر غائب کر دیئے گئے۔سرائے کے شمالاً جنوباً چند(کل چار عدد) چوکور عمارت کی پسلی پر ایستادہ گنبد وسطی ایشیا اور افغانستان (ثمر قن اور ہرات) دو دروازوں پر اور دو چھتوں پر کی مختلف مساجد اور مزارات پر تعمیر گنبدوں سے ہو بہو مشابہت رکھتے ہوئے ان کی یاد دلاتے ہیں۔ ان گنبد میں سے کسی ایک پر بھی نیلی ٹائیلون کے نشانات موجود نہیں ہیں جو کسی زمانے میں ان کا خاصہ تھے۔سرائے چھیمبہ کا ہر کونہ ہشت پہلو محافظی پوسٹ لئے ہوئے ہے، جس سے یہاں کا دفاعی نظام نکھر کر سامنے آتا ہے۔ مسافروں کے جانور جس طویل سلسلہ وار عمارت میں ٹھہرائے یا باندھے جاتے تھے، وہ آج کل جدید طرز کی گلیوں پر مشتمل عمارات میں گھری ہوئی ہے۔ بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ موجود کمرے مقامی راجپوت آبادی کے زیر استعمال ہیں، کیونکہ سرما میں گرم اور گرما میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔جدھر نگاہ دوڑائیں سرائے میں مزید کمروں کا اضافہ کرنے کیلئے کی گئی لاتعداد تبدیلیاں اور بہتریاں نظر آتی ہیں۔ حتیٰ کہ دو سال قبل چھتوں پر نئے کمرے تعمیر کرنے کیلئے ثمر قند ہرات اور بخارا کے مشابہ مینار تک گرا دیئے گئے۔ مغلوں کے زمانے کی اینٹیں، چوناآج بھی گرائے گئے میناروں کی جگہ پر پڑے ملتے ہیں۔مقامی آبادی کو اس جگہ کی تاریخی اہمیت کا نہ تو اندازہ ہے نہ ہی اس سے انہیں کوئی سروکار، وہ صرف بڑھتی آبادی اور شہری سہولیات میں اضافہ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ریل گاڑی اور لاری، موٹرکار وغیرہ کی ایجاد کے بعد پیدل، گھوڑوں یا ہاتھیوں پر سفر تو متروک ہوا ہی اور سرائوں کی اہمیت اور ضرورت میں بتدریج کمی آتی گئی۔ تقسیم ہندو پاکستان کے بعد مہاجرین کی اس علاقہ میں ہجرت کے بعد لوگوں نے اس سرائے پر ذاتی رہائش گاہوں کے طور پر اپنے ڈیرے جما لئے جو آج تک جاری ہیں۔ 1580ء میں تعمیر شدہ یہ سرائے ''زیر حفاظت آثار قدیمہ‘‘ تو ہے لیکن مسلسل بڑھتی آبادی، بے ضابطہ شہر سازی، کرنال اور روہتک سے آنے والے راجپوت مہاجرین کی آباد کاری اور یہاں کی ثقافت، تاریخ سے چشم پوشی جیسے امور کی وجہ سے یہ برائے نام ہی ''محفوظ‘‘ ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

چیچک کی ویکسین کی ایجاد 14 مئی 1796ء کو برطانوی طبیب و سائنسدان ایڈورڈ جینرنے چیچک کے مرض کیلئے ویکسین ایجاد کی۔ایڈورڈ جینرکو ویکسین کابانی تصور کیا جاتا ہے ، ان کی بنائی ہوئی چیچک کی ویکسین دنیا کی پہلی ویکسین کہلاتی ہے۔چیچک ایک ایسی بیماری تھی جو ویریولا وائرس کی وجہ سے ہوتی تھی ۔اس کے آخری کیس کی تشخیص 1977 ء میں ہوئی تھی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 1980ء میں اس بیماری کے عالمی خاتمے کی تصدیق کی تھی۔امریکی خلائی مشن ''سکائی لیب‘‘ کی روانگی 1973ء میں آج کے روز امریکہ نے اپنا پہلا خلائی اسٹیشن ''سکائی لیب‘‘ روانہ کیا۔یہ مشن 24ہفتوں پر مشتمل تھا جو مئی 1973ء سے فروری 1974ء تک جاری رہا۔اس دوران تین خلائی مشن ''سکائی لیب2‘‘، ''سکائی لیب 3‘‘ اور ''سکائی لیب 4‘‘ سر انجام دیئے گئے جن کا مقصد شمسی نظام اور زمین کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں تجربات کرنا تھا۔پرتگال میں بغاوت14مئی1915ء میں برتگال میں ایک فوجی بغاوت ہوئی جس کی قیادت الوارو ڈی کاسترو اور جنرل سا کارڈوسونے کی۔اس بغاوت کا آغاز لزبن سے ہواجس کا واحد مقصد اس وقت کے حکمران جنرل پیمینٹاڈی کاسترو کی آمریت سے نجات حاصل کرنا تھا۔اس بغاوت کی قیادت کرنے والے رہنماؤں نے واضح کر دیا تھا کہ ہم کسی کو بھی غیر ضروری نقصان نہیں پہنچائیں گے ، جنرل کاسترو سے اقتدار چھین کرتحریک کا اختتام کر دیں گے۔ روٹر ڈیم پر حملہدوسری عالمی جنگ کے دوران نیدرلینڈز پر جرمن حملے کے دوران روٹرڈیم کو نازی افواج نے شدید فضائی بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس کا مقصد شہر میں لڑنے والے جرمن فوجیوں کی مدد کرنا، ڈچ مزاحمت کو توڑنا اور ڈچ فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا تھا۔ بمباری 10 مئی کو شروع ہوئی اور 14 مئی کو تاریخی شہر کے مرکز کی تباہی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔اس بمباری کو روٹرڈیم بلٹز بھی کہا جاتا ہے، جس میں تقریباً 1150 لوگ مارے گئے۔امریکی خانہ جنگی''جیکسن جنگ‘‘ یعنی امریکی خانہ جنگی کے دوران14مئی1863ء کو وکسبرگ مہم کے ایک حصے کے طور پر جیکسن اور مسیسیپی کے درمیان لڑی گئی۔ ریاست مسیسیپی میں داخل ہونے کے بعد، یونین آرمی نے اپنی فورس کو اندرون ملک منتقل کر دیا تاکہ مسیسیپی کے سٹریٹجک شہر وِکسبرگ پر حملہ کیا جا سکے۔ شہر پر قبضہ کرنے کے بعد، یونین فوجیوں نے اقتصادی اور فوجی بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا اور شہریوں کے گھروں کو بھی لوٹ لیا۔