مکلی شہرِ خاموشاں
اسپیشل فیچر
مکلی تقریباً 50فٹ بلند ایک پہاڑی اور اس کے اطراف کے علاقے کے نام ہے جو ٹھٹھہ شہر سے مغربی طرف ہے ۔12 میل لمبی اس پہاڑی پردنیا کا سب سے بڑا قبرستان واقع ہے۔ ٹھٹھہ شہر سے کراچی جانے والی نیشنل ہائی وے اس پہاڑی کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے ۔جنوبی حصہ میں حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، مخدوم ابو القاسم نقشبندی، مخدوم آدم نقشبندی کے مزارات ہیں جبکہ شمالی حصہ میں شہنشاہ مکلی سید عبداللہ شاہ صحابی، حضرت شاہ مراد شیرازی، شیخ جیئہ چراغ مکلی اور شکر الٰہی سادات کے مزارات ہیں، اس پہاڑی کا نام مکلی کیسے پڑا؟ اس کے متعلق تحفۃالکرام کے مصنف میر علی شیر قانع ٹھٹھوی نے تحریر کیا ہے۔’’ ایک بزرگ حج کے ارادے سے جا رہے تھے کہ ایک شب انہیں اس پہاڑی پر رات بسر کرنے کا اتفاق ہوا رات کو خواب میں خداوند قدوس کے انوارو تجلیات کا غیر معمولی مشاہدہ ہوا جس کے باعث چونک اٹھے اس وقت ان کی زبان پر عربی جملہ جاری تھا جس کے معنی ہیں ’یہ میرے لیے مکہ ہے‘‘ یہ الفاظ صبح تک ان کی زبان پر جاری رہے اس واقعہ کو اتنی شہرت ملی کہ پہاڑی کا نام مکتلی پڑ گیا پھر کثرت استعمال کی وجہ سے حرف ’’تا‘‘ گرِ گیا اور مکلی رہ گیا اور آج اسی نام سے مشہور و معروف ہے ایک دوسری روایت کے مطابق اس نام ’’مکلی‘‘ کی ایک پاک دامن خدا رسیدہ خاتون تھی ۔میر غلام شیر قانع ٹھٹھوی کے اجداد شاہ بیگ ارغون کے عہد 1520-21 ء میں شیراز سے سندھ آئے اور ٹھٹھہ میں آباد ہوئے، اُن کے والد کا نام میر عزت اللہ تھا علی شیر قانع نقشبندی سلسلے میں شیخ عبدالاحد سے بیت ہوئے۔ اُن کے والد بھی مخدوم ابوالقاسم نقشبندی کے مرید تھے۔ قانع 1727-28 میں میاں نور محمد کلہوڑی کے دور حکومت میں ٹھٹھہ میں پیدا ہوئے اور ٹھٹھہ ہی میں تعلیم پائی۔ وہ تمام علوم متداولہ معقول و منقول کے عالم تھے۔ وہ اپنے وقت کے عالم، فاضل، ادیب، شاعر، نثر نگار محقق، مورخ تذکرہ نگار اور وسیع النظر انسان اور صوفی تھے اُن کی 43 تصانیف کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ میرعلی شیر قانع کے اسلاف کا ذکر اہل علم بزرگوں میں کیا جاتا ہے مگر خود قانع وسیع النظر اور وسیع المشرب مسلمان تھے۔ ایک جانب اہل بیت کے ذکر اور غم سے متعلق ان کی تصانیف ’’اعلان غم‘‘ ، ’’مختار نامہ‘‘ اور زبدۃ المناقب ان سے اُن کی عقیدت و صحبت کی آئینہ دار ہے تو دوسری طرف وہ صحابہ کرامؓ اور اولیاء عظام ؒ کے بھی اتنے ہی محب دکھائی دیتے ہیں۔ آپ نے اپنے مشہور تذکرے معیار سالکان طریقت، میں بارہ اماموں اور اہل بیت کے ذکر کے پہلو بہ پہلو صحابہ کرامؓ اور صوفیائے عظام ؒ کا تذکرہ بھی اسی عقیدت و صحبت سے کیا ہے۔ معیار سالکان طریقت، کا ایک قلمی نسخہ برٹش میوزیم لندن میں محفوظ ہے۔ مصنف کا اصل نسخہ دستیاب نہیں اس لیے اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ میر علی شیر قانع نے 64 سال کی عمر میں رحلت فرمائی اور مکلی کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ مکلی کے اس پہاڑی سلسلے پر لاکھوں اولیاء اکرام، شہداء اور شاہان سلف کے مزارات ہیں۔