لورالائی کا سفر...!
اسپیشل فیچر
کچھ ہی دیر بعد لورالائی پہنچ چکے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف ٹرک ہی ٹرک کھڑے تھے جن کے نقش و نگار کو دیکھ کر یہ ٹرک کم آرٹ گیلری زیادہ لگ رہے تھے۔ ان میں سے اکثر پر کوئلہ لدا ہوا تھا۔ جو پنجاب کو سپلائی کیا جانا تھا۔ لورالائی میں کوئلہ کی فروخت کا کاروبار تو عام ہے اور ہم نے سُن رکھا تھا کہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا ہی ہوتا ہے۔ مگر یہاں لورا لائی کی سڑک پر آتے جاتے جو چند بندے ہمیں نظر آئے تھے وہ نہ کالے تھے نہ سانولے ، اچھے خاصے چِٹے گورے یا پھر سُرخ تھے۔!صبح کے طویل سفر کی تھکا وٹ اور مسلسل سردی نے لورالائی میں ایک کپ چائے پینے پر مجبور کر دیا تھا۔ گاڑی ایک ہوٹل کے سامنے روک دی گئی۔ چائے اور قہوہ پہلے سے ہی تیا ر تھا۔پورے وفد نے ہوٹل کی کرسیوں پر قبضہ جما لیا۔ قریشی ، عمر بلوچ ، ظفر اللہ اور میں ایک میز کے چاروں طرف پڑی کرسیوں پر جا بیٹھے۔ ہمارے بیٹھتے ہی چائے کی چار پیالیاں ہمارے سامنے رکھ دی گئیں۔ قریشی کا چہرہ تھکاوٹ سے خاصا مُرجھا یا لگ رہا تھا۔ مگر جب چائے آئی اور دو تین گھونٹ اس نے اپنے اندر اُنڈیلے تو اس کے چہرے کی رونق لوٹ آئی اور وہ پھر سے چہکنے لگا۔ بولا! \'\'جنت میں چائے کے دو اجزا ء تو ہوں گے یعنی دودھ اور مِٹھاس کے لیے شہد ، لیکن چائے کی پتی نہ ہوتی جس کا کہیں ذکر نہیں ملتا ۔ پتہ نہیں چائے کی دریافت سے پہلے لوگ کیسے ہوں گے۔ خدا ہمارے چینی دوستوں کو اجرِ عظیم دے کہ انہوں نے دنیا کو چائے سے متعارف کرایا۔ تم دیکھ لینا یہ قوم اور زیادہ ترقی کرے گی۔ غور کرو تو معلوم ہو گا کہ انسان کی ترقی میں چائے کا بہت حصہ ہے۔ انگلستان میں صنعتی انقلاب اسی وجہ سے آیا تھا ۔\"صنعتی انقلاب ، چائے کی وجہ سے ، وہ کیسے ؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا!\"یہ تم جانتے ہو کہ صنعتی انقلاب میں سب سے زیادہ حصہ بھاپ سے چلنے والے انجن کا ہے۔\"\"درست ہے\"میں نے کہا !اب بتاؤ اسٹیم یا بھاپ سے چلنے والا انجن کیسے بنا؟میں نے وضاحت کی \"موجد نے چولہے پر رکھی کیتلی کا ڈھکن بھاپ کے زور سے ہلتے دیکھا اور اسی اصول پر د خانی انجن بنا ڈالا ۔\"کہنے لگا \"کیتلی چولہے پر کیو ں رکھی؟ ظاہر ہے کہ موجد اس وقت چائے بنا رہا ہو گا۔ دیکھا تم نے ، اگر مُوجد چائے کا عادی نہ ہوتا تو ہم ہنوز بیل گاڑیوں ہی پر سفر کررہے ہوتے۔\"تم اپنی چائے والی تھیوری اپنے پاس رکھو ۔ مجھے تو تھکاوٹ ہے اور سردی لگ رہی ہے اور مجھے تو بس اتنا معلوم ہے کہ اس وقت ان دونو ںکا علاج یہی چائے ہے__!\"قریشی یکے بعد دیگر ے دو تین پیالیاں چائے کی سُرک گیا۔ اتنے میں باقی لوگ بھی چائے سے فارغ ہو کر بس میں آ بیٹھے تھے__لورالائی سے نکل کر ہمارا سفر پھر شروع ہو گیا۔ ہماری منزل کوئٹہ تھی جو ابھی بھی 200کلومیٹر دُو ر تھا۔ بارش نے بھی رُکنے کا نام نہ لیا۔ اس لئے جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ہمارا سفر اور زیادہ پُر خطر مگر ایڈونچرس ہوتا گیا کئی جگہوں پر بس نے سلپ کیا اور ہماری حالت غیر ہوئی ۔ کلمے اور درُود شریف کے وِرد کام آئے۔ ساتھ ساتھ سیاستدانوں کو کوسنے بھی دئیے کہ اتنا اہم راستہ جو پنجاب کو بلوچستان سے ملاتا ہے اسقدر بُری حالت میں ہوگا؟ یہ ہمارے تصور میں بھی نہ تھا۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ سڑکیں بھی تو یکجہتی کی علامت ہوتی ہیں۔ ایک صوبے کو دوسرے صوبے سے ملاتی ہیں۔ مگر ان کی حالت گندے سیاسی نظریات کی طرح خراب تھی_!( سفرنامہ پاکستان ’’کچھ سفر بھولتے نہیں‘‘ سے مقتبس)