حجرہ شاہ مقیم
اسپیشل فیچر
ضلع اوکاڑہ کا قدیم قصبہ۔ اس کی بنیاد یہاں کے مشہور صوفی بزرگ سیّد بہاول شیر گیلانی قادری نے ۹۵۳ ہجری میں رکھی تھی اور ابتداً اپنے رہنے کے لئے یہاں ایک حجرہ بنوایا۔ بعد ازاں ان کے پوتے سیّد محمد مقیم محکم الدین نے اس کی آباد کاری میں خصوصی دلچسپی لی چنانچہ انہی کے نام سے اس نے حجرہ شام مقیم کے طور پر شہرت پائی۔روایت مشہور ہے کہ حضرت بہاول شیرقلندر بغداد میں پیدا ہوئے اور اپنے والد بزرگوار سیّد محمود کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے۔ ابتدائی تعلیم انہی سے حاصل کی۔ آپ نے طویل عمر پائی اورزندگی کا بیشتر حصہ چِلوں، عبادت اور ریاضت میں گزارا۔ آپ کے متعلق یہ روایت منسوب کی جاتی ہے کہ مغل بادشاہ اکبر کے عہد میں شاہی فوجیں ’’بنگالہ‘‘ نامی کسی قلعہ پر حملہ آور ہوئیں۔ لاکھ کوشش کے قلعہ فتح نہ ہوتا تھا۔ اکبر سے کہا گیا کہ کسی بزرگ سے دُعا کروائی جائے۔ اس غرض سے اعلانِ عام ہوا۔ایک چرواہے نے اطلاع دی کہ کوہ دار جیلنگ کی غار کے نزدیک ایک بزرگ چِلہ کشی میں مصروف ہیں ۔ ان کو احتراماً دربار اکبری میں لایا گیا۔ اکبر نے ان سے قلعہ فتح کرنے کی دُعا کی درخواست کی۔ حضرت سیّد بہاول شیر نے فرمایا کہ قلعہ کے اندر ایک بزرگ مقیم ہیں اور ساتھ ہی ایک تعویذ دیا اور فرمایا کہ اسے تیر کے ساتھ باندھ کر قلعہ کے اندر پھینک دینا اور ساتھ ہی بلندآواز سے ’’دم میراں لعل بہاول شیر قلندر‘‘کا نعرہ لگانا قلعہ فتح ہو جائے گا۔ کہاجاتا ہے کہ آپ کے حکم کے مطابق جب ایسا کیا گیا تو ایک فقیراندر سے بھاگ نکلا ،جس کے بعد قلعہ جلد ہی فتح ہو گیا۔ کئی اور کرامات بھی آپ سے منسوب ہیں۔ حجرہ میں جس مقام پر آپ نے ریاضت فرمائی اس کے اندر حضرت شاہ ابو المعالی کے فرزند حضرت شاہ محمد مقیم محکم الدین کی پیدائش ہوئی تھی۔ آپ شہنشاہ جہانگیر کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔ بڑے ہوئے تو روحانی اشارے سے لاہور کی جانب روانہ ہوئے اور میانی صاحب کی ایک مسجد میں قیام فرمایا، جہاں حضرت شاہ جمال اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ان سے روحانی طور پر فیضیاب ہوئے۔ کئی کرامات آپ سے منسوب ہیں۔ آپ نے ۱۶۴۱ء میں وفات پائی اور اپنے حجرہ میںدفن ہوئے۔ پنجابی کے معروف صوفی شاعر میاں محمدبخش نے آپ کی مدح میں فارسی زبان میں کچھ قصائد لکھے ہیں۔ آپ کے مزار کی ہشت پہلو عمارت قابل دید ہے۔ قصبہ کے گرد ایک وسیع و عریض قبر ستان ہے۔ ان کے جانشینوں کے پاس حضرت بہاول شیر قلندر کے کچھ تبرکات بھی محفوظ ہیں۔ رواج کے مطابق ہر نیا سجادہ نشین اپنی دستار بندی کے موقع پر یہ تبرکات یعنی عمامہ،چوغہ، مطہر اور لکڑی کی کھڑائوں زیب تن کرتا ہے، جس کے بعد انہیں مقفل کر دیا جاتا ہے، پھر یہ تالا اس سجادہ نشین کی زندگی میںنہیںکھولا جاتا۔قصبہ حجرہ اس زمانے میں ایک بارونق اور تجارتی قصبہ تھا۔ اس کے گردو نواح میں تین نالے دریائے ستلج سے بہتے تھے۔ ایک نالہ خان واہ جس کو اکبر بادشاہ کے عہد میں نواب خانخاناں نے کھدوایا تھا۔ دوسرا نالہ سوہاگ نو اور تیسر ا نالہ سوہاگ کہنہ۔ پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے بعد یہاں کا سیّد خاندان ایک مرتبہ پھر با اثر ہوا۔ حجرہ کو تحصیل کا درجہ دے کر ضلع گوگیرہ میں شامل کیا گیا، پھر یہ ضلع منٹگمری (ساہیوال ) کا حصہ بنا اور اب یہ ضلع اوکاڑا میں شامل ہے۔ ۱۹۱۹ء کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق یہاں تھانہ ، ڈاکخانہ اور ریسٹ ہائوس موجودتھے۔ اب یہاں طلبا و طالبات کے ڈگری کالجز، ہائی سکول، ہسپتال، بنکوں کی شاخیں، دفتر بلدیہ، تجارتی بازار اور غلہ منڈی وغیرہ موجود ہیں۔ حضرت بہاول شیر اور حضرت شاہ محمد مقیم محکم الدین کے سالانہ عُرس کے موقع پر ایک بڑا میلہ لگتا ہے اور ہزاروں مریدین اس میں شرکت کرتے ہیں۔ مین بازار، پرانا بازار، حویلی روڈ، منڈی احمد آباد روڈ، خیر گڑھ روڈ اور غلہ منڈی یہاں کے اہم تجارتی مراکز جبکہ نئی آبادی، شاہ میر محلہ، محلہ مقصود عالم، چونیاں روڈ، محلہ پراچاں، محلہ سیّداں اور امداد کالونی رہائشی علاقے ہیں۔ ڈاکٹر شفقت قاضی یہاں کے اُردو اور پنجابی کے شاعر اور نثر نگار ہیں۔ ۱۹۷۴ء میں آپ نے انجمن اربابِ ذوق حجرہ کی بنیاد رکھی اور پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ نوائے شوق، آئینہ احساس، نین بسیرے، تکھیاں سولاں، نقش مقسوم، نوری لاٹاں، کاسہء گل اور تلیاں ہیٹھ انگارے آپ کی تصانیف ہیں۔حجرہ شاہ مقیم کی آبادی ۱۹۷۲ء میں ۱۶۶۲۹، ۱۹۸۱ء میں ۲۴۰۱۲ اور ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے مطابق ۴۷۴۱۵ نفوس پر مشتمل تھی۔ اب اس کی آبادی ۶۰ ہزار کے قریب ہے۔(پروفیسراسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭