نورالدین ابو القاسم محمود ابن اماد دالدین ''زنگی سلطنت‘‘ کے بانی تھے۔نورالدین زنگی 11فروری 1118ء موصل عراق میں پیدا ہوئے،1146ء سے 1174ء تک 28 سال حکومت کی اور15مئی 1174ء کو 58برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ نورالدین زنگی نے مسیحوں سے اپنے دور حکومت میں بیت المقدس واپس لینے کیلئے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اِس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے گرد و نوح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا ۔ شروع میں نور الدین کا دارالحکومت حلب تھا، 549ہجری میں انہوں نے دمشق پر قبضہ کر کے اسے دارالحکومت قرار دے دیا ۔ انہوں نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملہ کرکے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں ایڈیسیا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کی عیسائیوں کی کوششو ں کو بھی ناکام بنا دیا۔ دوسری صلیبی جنگ میں فتح کی بدولت ہی مسلمان تیسری صلیبی جنگ میں کامیاب ہوکر بیت المقدس واپس لینے میں فتح یاب ہوئے ۔ اس زمانے میں مصر میں فاطمی حکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ہوگئی تھی اور مصر چونکہ فلسطین سے ملا ہوا تھا اس لئے عیسائی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ دیکھ کر نورالدین نے ایک فوج بھیج کر مصر پر بھی قبضہ کر لیا اور فاطمی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا ۔ سلطان نورالدین زنگی کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ روضہ رسول ﷺ کی حفاظت کی سعادت ہے ، یہ واقعہ مدینہ کی تاریخ کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے، سمہودی کے قول کے مطابق عیسائیوں نے یہ سازش 557ہجری میں مرتب کی۔ اس وقت شام کے باشاہ کا نام سلطان نورالدین زنگی تھا اور اس کے مشیر کا نام جمال الدین اصفہانی تھا ۔ایک رات نماز تہجد کے بعد سلطان نورالدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم ﷺ 2سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ ''مجھے ان کے شر سے بچائو ‘‘سلطان ہر بڑا کر اُٹھا، وضو کیا ، نفل ادا کئے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی ۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں ؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں۔یہ مشورہ سلطان کے مشیر جمال الدین اصفہانی نے دیا۔ اگلے روز سلطان نے 20مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ کیلئے کوچ کیا۔ سلطان نے روضہ رسولﷺ پر حاضری دی اور مسجد نبوی میں بیٹھ گئے ، اعلان کیا گیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں ، جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کریں گے ، لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتے گئے ۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اس ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا ''کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے ؟جواب اثبات میں تھا۔سلطان نے پھر پوچھا کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟ اس بار حاضرین نے کہا ، ''سوائے دو آمیوں کے ‘‘راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔ سلطان نے پوچھا وہ کون ہیں اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے ؟ بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم وصلوۃ کے پابند دو متقی باشندے ہیں، دن رات رسول کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجد جاتے ہیں،فیاض اور مہمان نواز ہیں ، کسی کا دیا نہیں لیتے ۔ سلطان نے کہا ''سبحان اللہ ‘‘اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کیلئے فوراً بلایا جائے، جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا ''الحمد اللہ ‘‘ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں ۔جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اِس نے حکم دیا کہ اِن دونوں کو فوراً پیش کیا جائے ، حکم کی فوری تعمیل ہوئی ، ایک جھلک ان کی شناخت کیلئے کافی تھی ، تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا تم کون ہو ؟ یہاں کیوں آئے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم مراکش کے رہنے والے ہیں حج کیلئے آئے تھے اور روضہ رسول ﷺ کے سائے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ سلطان نے سختی سے کہا ، کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے ؟ اب وہ چپ رہے ، سلطان نے حاضرین سے پوچھا، یہ کہاں رہ رہے ہیں ؟ بتا یا گیا کہ روضہ رسول کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہوگیا ۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا ، اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے ، اس مکان میں اس کی نظر فرش پر بچھی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی ، نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اُڑ گئیں ، سلطان نے چٹائی اُٹھائی، اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی ۔ سلطان نے گرج کر کہا کیا اب بھی سچ نہ بولو گے ؟ ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ اُنہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے حکمران نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر ، حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ روضہ مبارک تک پہنچ سکیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کیلئے اُنہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اُس کے بعد روضہ رسولﷺ کے نزدیک مکان کرائے پر لے کر رہنے لگ گئے۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے جس کا روخ روضہ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل پر تھی کہ رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی کہ جیسے زلزلہ آگیا ہو اور اب جبکہ ان کا کام پایا تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان ناجانے کیسے مدینہ پہنچ گئے۔ سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کیلئے اس غلام کو چنا گیا۔ سلطان نور الدین زندگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کر دیا جائے، روضہ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے ، اور اس کے گرد سیسا پلائی دیوار بنا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بد بخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ 558ہجری مطابق 1142ء کا ہے۔ سلطان نے روضہ مبارک کے قریب ایک چبوترہ بھی بنوایاتاکہ اس پر ان قبور کی حفاظت کیلئے ہر وقت پاسبان موجود رہیں، سلطان کی زندگی کا یہ ایک عظیم ترین کارنامہ ہے جو کہ تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا رہے گا۔ سلطان نور الدین زندگی 15مئی 1174ء کو 58برس کی عمر میں شام کے دارالحکومت دمشق میں وفات پاگئے ۔