سید جمال الدین افغانی اور آمریت
اسپیشل فیچر
سیّد جمال الدین افغانی ۱۸۳۸ء میں افغانستان کے ایک گاؤں اسد آباد میں پیدا ہوئے تھے (بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسد آباد ہی میں پیدا ہوئے تھے، لیکن یہ گاؤں ایران کے صوبے ہمدان میں واقع ہے)۔وہ عام طورپر افغانی کے نام سے مشہور ہیں، لیکن ایران میں اسدآبادی کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے بعض اوقات خود کو ’’الحسینی‘‘ یا استنبولی بھی لکھا۔ بعض ایرانی مصنّفین کے نزدیک وہ اہل تشیع تھے۔ چونکہ وہ مسلمانوں کی اکثریت کو، جو سنیوں پر مشتمل تھی، متحد کرنے کے لیے کوشاں تھے، اس لیے انھوں نے کبھی اپنا ذاتی عقیدہ ظاہر نہیں کیا۔ سیّد جمال الدین نے کچھ عرصہ امیردوست محمد خان اور ان کے جانشینوں کی خدمت کی۔ افغانستان کے حکمرانوں کی خدمت کے دوران انھوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی بھی زیارت کی۔ ۱۸۶۹ء میں انھوں نے یہ ملازمت ترک کردی۔ افغانستان کو خیرباد کہا۔ ہندوستان آئے۔ یہاں سے قاہرہ گئے۔ وہاں ایک دو ماہ کے قیام کے دوران میں اسلامی اتحاد کی ضرورت و اہمیت پر لیکچر دیے۔ قاہرہ سے قسطنطنیہ گئے اور ۱۸۷۱ء میں قاہرہ واپس آگئے۔ مصر میں ان کی سرگرمیاں، خاص طور پر وہاں کی قومی تحریک کے لیے ان کی عملی حمایت سے انگریز حکام مشکوک ہوگئے۔ انھوں نے سیّد جمال الدین کو ۱۸۷۹ء میں مصر سے نکال دیا۔ تب وہ ہندوستان آگئے اور حیدرآباد دکن میں اقامت اختیار کی۔۱۸۸۲ء میں مصر کے قوم پرستوں نے، جو خدیو کی مطلق العنانی کی بجائے آئینی حکومت کا مطالبہ کررہے تھے، اور جس کے نتیجے میں مصر کے اندرونی معاملات میں برطانیہ مداخلت بے جا کررہا تھا، عرابی پاشا کی قیادت میں بغاوت کردی۔ بغاوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۸۸۲ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کرلیا۔ جمال الدین نے چونکہ مصر کی قوم پرستانہ تحریک کی حمایت کی تھی، اور اِسی بنا پر ہندوستان میں برطانوی حکومت نے انھیں ایک لحاظ سے نظر بند کررکھا تھا، ۱۸۸۲ء میں مصر پر قبضے کے بعد انھیں بھی آزادی ملی۔ تب وہ لندن چلے گئے۔ وہاں سے کچھ عرصے کے بعد پیرس چلے گئے، جہاں اْنھوں نے تین سال قیام کیا۔ وہاں سے ایک ہفت روزہ العروۃ الوثقی جاری کیا۔ ۱۸۸۵ء میں دوبارہ لندن گئے۔ وہاں سے ماسکو (اور بعدازاں سینٹ پیٹرز برگ) پہنچے۔ وہاں اپنے چار سالہ قیام کے دوران انھوں نے زار کے روس میں مسلمانوں کے لیے رعایتیں حاصل کیں۔ تاہم وہ ۱۸۸۹ء تک وہاں ٹھہرے۔ ایران کے شاہ ناصرالدین نے انھیں واپس ایران آنے پر آمادہ کرلیا، جس سے وہ میونخ میں ملے تھے۔ لیکن چونکہ وہ آئینی تحریک کے حامی اور شاہ پرستی کے خلاف تھے، اس لیے ۱۸۹۰ء میں انھیں ایران سے بھی نکال دیا گیا۔ وہ ۱۸۹۱ء میں لندن پہنچے اور اسی سال قسطنطنیہ واپس آگئے۔ سلطان عبدالحمید نے جمال الدین کا شاہانہ استقبال کیا۔ سلطان کا خیال تھا کہ اس کی مطلق العنانی اور آمریت کے قیام و استحکام میں افغانی بطور آلہ کار مددگار ثابت ہوں گے، لیکن سلطان کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ افغانی نے اس کی مدد کرنے کی بجائے، الٹا ترکی میں آئینی تحریک کی تائید و حمایت کی۔ ۹مارچ ۱۸۹۷ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انھیں سلطان عبدالحمید کی ہدایت کے مطابق زہر دلوایا گیا تھا۔ براؤن لکھتا ہے: ’’اِس غیر معمولی شخص نے اپنے کسی بھی ہم عصر کے مقابلے میں اسلامی مشرق کے حالات و واقعات کا دھارا بدلنے میں، کم از کم بیس برسوں کے عرصے میں، نمایاں خدمات انجام دیں‘‘ افغانی نے مصر میں قومی انقلاب برپا کرنے کی تحریک میں حصہ لیا۔ ایران میں آئین پسندی کی تحریک ان کی ترغیب و تشویق پر منظم کی گئی۔ ترکی میں آئین پسندی کی تحریک کو ان کی تائید و حمایت حاصل رہی۔ علاوہ ازیں انھوں نے یورپی استعمار کے خطرے کے خلاف اسلام کے تحفظ کے لیے مسلم ریاستوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے سنی اور شیعہ کے درمیان حائل خلیج پاٹنے کے لیے جدوجہد کی۔ جمال الدین افغانی نے خلافتِ عثمانیہ کے بارے میں اس تنازعے میں حصہ نہیں لیا کہ عثمانیوں کا قریشی نسب سے متعلق نہ ہونے کے باعث منصبِ خلافت پر بھی کوئی حق نہیں۔ اس متنازعہ صورت حال کو انھوں نے حقیقت پسندانہ اور عملی نقطۂ نظر سے دیکھا۔ ان کا خیال تھا کہ قائم شدہ خلافت کے تحت مسلمانانِ عالم کا اتحاد ایک مذہبی و سیاسی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض روایت پسند علما اور اعتدال پسند لوگ ان کی حمایت کرتے تھے۔ تاہم وہ تبلیغ اِس بات کی کرتے تھے کہ سلطان/ خلیفہ سے وفاداری مشروط ہونی چاہیے۔ مشروط سے ان کی مراد یہ تھی کہ خلافت کو ’’آئینی‘‘ ہونا چاہیے اور یہ ان کا نیا ’’اجتہاد‘‘ تھا۔ مسلم حکمران ابھی ماضی میں جی رہے تھے، جبکہ زمانہ بدل گیا تھا۔ وہ مطلق العنان تھے۔ جابر و آمر تھے۔ نااہل اور ناقابل تھے، اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر رعایا کے مفادات کو قربان کرسکتے تھے۔