لفظ جیل کے ساتھ ہی ذہن میںناپسندیدہ اور گھٹن والی جگہ کا تاثر ذہن میں آتا ہے۔ آج ہم جن دو متضاد جیلوں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں ان میں سے ایک کو دنیا کی خوفناک ترین اور خطرناک ترین قراردیا جاتا ہے جبکہ دوسری ایسی جیل ہے جو ایک پرتعیش جیل کی شہرت رکھتی ہے۔ خطرناک ترین جیل ایل سلواڈور، وسطی امریکہ کا سب سے چھوٹا اور سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے۔یہ بحرالکاہل کے ساحل پر گوئٹے مالا اور ہنڈوراس کے درمیان خلیج فونسیکا پر واقع ہے۔ 65لاکھ آبادی کا حامل یہ ملک ان ممالک میں شامل ہے جہاں جرائم (قتل وغارت ،منشیات سمگلنگ ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ) کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے دو عشرے پہلے یہاں قتل عمد کی شرح 41فیصد یعنی ایک لاکھ افراد تھی۔جن میں 60 فیصد قتل جرائم پیشہ گروہوں نے کئے تھے ۔چھوٹے موٹے جرائم پیشہ گروہوں کو چھوڑ کر اس ملک میں رفتہ رفتہ دو بڑے جرائم پیشہ حریف گروہوں یعنی ''مارا سلواٹروچا‘‘ (MS-13)اور '' بیریو18‘‘کو جرائم کی دنیا کے ''بے تاج بادشاہ‘‘ کہا جانے لگا ، جن کا نعرہ تھا '' دیکھو ، سنو مگر منہ بند رکھو‘‘۔ان دونوں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے ایل سلواڈور میں گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشتگردی اور خون ریزی کا بازار گرم تھا۔ ایل سلواڈور کے صدر بوکیلے ہیں جو حال ہی میں اس وجہ سے بھاری اکثریت سے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں ،جن کا انتخابی نعرہ ہی ملک سے ان گینگز کا فوری خاتمہ تھا۔ چنانچہ صدر بوکیلے نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسی جیل تعمیر کرائی جس پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ یہاں تو ''چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی‘‘۔اس جیل کی سخت سکیورٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کے بہت بڑے ایک میڈیا گروپ کے نمائندوں کو طویل انتظار کے بعد بالآخر صدر بوکیلے کی خصوصی اجازت کے بعد کڑی نگرانی میں اس جیل کے دورے کی اجازت ان شرائط پر دی گئی کہ نہ تو وہ کسی قیدی سے ہم کلام ہوں گے اور نہ ہی کسی قیدی سے آنکھ ملانے کی کوشش کریں گے۔ عام حالات میں اس جیل کے قیدیوں کو نہ تو اپنے ساتھیوں سے بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی نظریں اوپر اٹھانے کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس جیل کو دنیا کی ''ظالم ترین جیل ‘‘ کی شناخت بھی حاصل ہے۔یہاں جیل کے سیل سے باہر نکالنے کے دوران قیدیوں کے پائوں میں لوہے کے کڑے ڈال دئیے جاتے ہیں جن سے وہ گھٹنوں کے بل چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ''سینٹر فار دی کنفائنمنٹ آف ٹیررازم‘‘ (سیکوٹ) نامی یہ میگا جیل، ایل سلوا ڈور کے دارالحکومت شان سلواڈور سے بجانب جنوب مشرق 74 کلومیٹر دور ایک ویران اور بیاباں علاقے میں واقع ہے۔گزشتہ سال جنوری میں صدر بوکیلے نے ہی اس جیل کا افتتاح کیا تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا تھا '' یہ جیل ایل سلواڈور کے خطرناک گینگز کیخلاف جنگ کی علامت ہے‘‘۔ پہلے مرحلے میں یہاں 2ہزارخطرناک ترین قیدیوں کو منتقل کیا گیا۔ 456 کنال پر مشتمل یہ جیل 8 بلاکوں پر مشتمل ہے۔ ہر بلاک میں 32 قید خانے ہیں جہاں مجموعی طور پر 40ہزارقیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔جنہیں 24 گھنٹے بلا تعطل جدید ترین کیمروں اور اسلحہ سے لیس تازہ دم سکیورٹی اہلکاروں کی زیر نگرانی رکھا جاتا ہے۔ جیل کے اندر داخل ہونے کیلئے جدید سکیننگ سسٹم کے علاوہ ایک وسیع سکیورٹی نیٹ ورک سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی سخت سکیورٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے ''تشدد کی روک تھام‘‘سے متعلق اقوم متحدہ کی ذیلی کمیٹی کے ایک سابق رکن مسٹرمیگوئل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ رہے تھے کہ یہ جیل کنکریٹ اور فولاد کا ایک ایسا گڑھا ہے جو سزائے موت کے بغیر لوگوں کو مارنے کی کوشش ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جیل کے گرد دو باڑیں بھی ہیں جن پر نصب تاروں میں ہائی وولٹیج بجلی گزرتی ہے۔اس کے علاوہ ایسے 19 واچ ٹاورز بھی اس جیل کے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں جن پر 24 گھنٹے اسلحہ بردار محافظ اسلحہ تانے نظر آتے ہیں۔ اس قید خانے میں ہر قیدی کیلئے کتنی جگہ دی گئی ہے ؟ برطانوی میڈیا گروپ کے نمائندے کے مطابق حکام اس سوال کا جواب دینے پر خاموش تھے۔تاہم نمائندے نے جیل کے تعمیراتی نقشے سے اندازہ لگایا ہے کہ ہر قیدی کے حصے میں فقط 0.58 مربع میٹر جگہ آتی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے معیار کے مطابق، اس طرح کے مشترکہ قید خانوں میں ہر قیدی کو کم از کم 3.4 مربع میٹر جگہ مہیا کرنا لازم ہوتا ہے۔ یہاں پر قیدیوں کو دھات کے بنے چار منزلہ بیڈ پر سلایا جاتا ہے جس پر کسی قسم کا گدا یا چادر نہیں ہوتی۔قیدیوں کے سیل فولادی جالیوں سے بنے ہوئے ہیں جن پر محافظ اسلحہ تانے چوبیس گھنٹے نظر رکھے ہوتے ہیں تاکہ کوئی قیدی ان سے جھول نہ جائے۔انہیں کھانے کیلئے چاول، دالیں ، پاستا یا ابلا انڈہ دیا جاتا ہے۔انہیں یہ سب کچھ بغیر چمچ یا کانٹا کے کھانا ہوتا ہے کیونکہ دھاتی اشیاء جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔ ایل سلواڈور میں سارا سال موسم گرم اور حبس والا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود قید خانے میں نہ تو کوئی کھڑکی اور نہ ہی کوئی پنکھا۔ہر سیل میں قیدیوں کیلئے دو بیت الخلاء بغیر کسی پردے کے مہیا کئے گئے ہیں۔پرتعیش سہولتوں والی جیل : جیلوں بارے عام طور پر سننے میں آتاہے کہ کسی گروہ نے اپنے ساتھی چھڑانے کیلئے جیل پر حملہ کر دیا۔ آپ کو یہ سن کر یقینا حیرت ہو گی کہ وینزویلا ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک جرائم پیشہ گروہ سے جیل کا قبضہ چھڑانے کیلئے حکومت کو فوج کے 11ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔یہ صرف ایک جیل نہیں بلکہ جیل کے اندر ایک شہر تھا جہاں قیدیوں کے اہلخانہ اور عزیز و اقارب بھی رہتے تھے۔'' ٹوکورون‘‘ نامی ملک کی سب بڑی یہ جیل ، وینزویلا کے شمال میں کارکاس کے جنوب مغرب میں لگ بھگ 140 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ جس پر کئی سالوں تک وینزویلا کے سب سے طاقتور جرائم پیشہ گروہ ''ٹیرن ڈی آرگوا‘‘کا قبضہ رہا ہے۔ جرائم کی دنیا میں اس جیل کو ٹیرن ڈی آرگوا کا '' ہیڈ آفس‘‘ بھی تصور کیا جاتا تھا۔جہاں سے اس تنظیم کے سربراہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے نیٹ ورک کے اہلکاروں کو ہدایات دیا کرتے تھے۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس جیل کے اندر پہنچ کر یہ تصور ختم ہو جاتا ہے کہ آپ کسی جیل کے اندر ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں چھ گھنٹے کے میگا آپریشن کے بعد حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اس جیل کا قبضہ حاصل کر لیا ہے۔جو تفصیلات سامنے آئیں ان کے مطابق، اس جیل میں جرائم پیشہ گروہ ''ٹیرن ڈی آرگوا‘‘ کاسرغنہ ہیکٹر گیریرو فلورس قتل اور منشیات سمگلنگ کے جرم میں 17 سال کی قید کاٹ رہا تھا۔ ملک کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق اس جیل میں عملاً جرم کا راج تھا۔ آپریشن کے دوران جیل سے باہر نکلنے والی سرنگوں کا سراغ بھی ملا ہے۔یہ گروہ اتنا طاقتور تھا کہ جیل کے اندر باہر آزادانہ نقل و حرکت ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔مقامی میڈیا نے اس جیل بارے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ '' یہ وہ جگہ ہے جہاں سے یہاں قید اس گینگ کے سرغنہ ، چلی ، پیرو ،ایکواڈور اور کولمبیا میں موجود اپنے ساتھیوں کو ہدایات دیتے تھے۔ اس گینگ کے ارکان جیل کے اندر باہر ایسے گھومتے تھے جیسے ایک آزاد شخص پھرتا ہے۔ اس جیل میں کسی بھی ہوٹل کی طرح پرتعیش سہولیات موجود تھیں، جن میں سوئمنگ پول ، نائٹ کلب ، ایک چھوٹا سا چڑیا گھر اور اشیاء خور ونوش کی متعدد دکانیں شامل ہیں۔اس کامیاب آپریشن کے بعد وینیزویلا کے صدر نکولس مادورو نے سیکیورٹی اہلکاروں کو مبارک دی اور کہا کہ اب ہمیں وینیزویلا کو مکمل طور پر جرائم سے پاک ملک کی شناخت دلانا ہوگی۔