عرب اور برِصغیر کے علمی تعلقات
اسپیشل فیچر
عرب اور برصغیر کے علمی تعلقات کا اندازہ حسب ذیل قدیم مستند کتابوں اور ان کے مصنفین سے ہوتا ہے۔ جاحظ: 255 ھ میں جاحظ نے وفات پائی، بصرہ کا رہنے والا تھا، عربی زبان کا مشہور انشاپرداز، فلاسفر اور متکلم تھا، اس کی بے شمار چھوٹی بڑی کتابیں ہیں جن میں سے کتاب البیان و التبین، التیبین، کتاب الحیوان، رسائل جن میں فرضی مناظرے ہیں ، مطبوعہ صورت میں ہیں۔ جاحظ کی کتاب البیان میں ہندوستان (برصغیر پاک و ہند)کے اصول بلاغت پر ایک صفحہ ہے اور رسائل میں سے ایک میں ہندوستان کی خوبیاں درج ہیں۔ یعقوبی: اس کا نام احمد بن یعقوب بن جعفر ہے، عباسی سلطنت میں یہ دفتر انشا کا افسر تھا، اس نے ہندوستان اور دوسرے ممالک کی سیروسیاحت کی تھی۔ یہ پہلا مسلمان مؤرخ تھا جس نے تمام دنیا کی قوموں کی تاریخ عربی میں لکھی۔ 287ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کی دو کتابیں چھیی ہیں، ایک تاریخ دو جلدوں میں اور دوسری جغرافیہ۔ تعجب ہے کہ اس نے جغرافیہ میں ہندوستان کا حال نہیں لکھا مگر تاریخ کی پہلی جلد میں اس نے سب سے پہلی دفعہ ان کتابوں کا حال لکھا ہے جن کا ہندوستان کی زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوا۔ محمد بن اسحاق معروف بہ ابن ندیم:یہ 377ھ میں موجود تھا، بغداد کا رہنے والا تھا۔ اس نے ان تمام کتابوں کے نام اور احوال لکھے ہیں جو اس کے زمانہ تک کسی علم و فن میں عربی میں لکھی گئیں یا کسی دوسری زبان سے ترجمہ ہوئیں۔ اس میں ہندوستان کا بھی حصہ ہے یہ کتاب جرمن فاضل فلوگل کے اہتمام سے لیپزگ میں 1871ء میں شائع ہوئی۔ ابوریحان البیرونی: اس نے کتاب الہند کے نام سے پوری کتاب ہی ہندوستان کے علوم و فنون پر لکھی ہے۔ قاضی صاعد اندلسی:یہ اسپین کا باشندہ تھا۔ اس کی کتاب کا نام طبقات الامم ہے۔ 462ھ میں وفات پائی۔ اس نے اپنے عہد تک کی تمام متمدن قوموں کے ان علوم و فنون کی تاریخ لکھی ہے جو عربی کے ذریعہ سے اس تک پہنچے۔ ابن ابی اصیبعہ موفق الدین: اپنے زمانہ کا مشہور حکیم و طبیب تھا۔ اس کادادا سلطان صلاح الدین کا طبیب تھا۔ 590ھ سے 668ھ تک اس کا زمانہ ہے۔ اس نے عیون الانبا فی طبقات الاطبا کے نام سے دنیا کی تمام متمدن قوموں کے مشہور طبیبوں کی سوانح عمریاں لکھی ہیں۔ دوسری جلد میں ہندوستان کا بھی ایک باب ہے۔ علامہ شبلی نعمانی: انہوں نے تراجم کے عنوان سے ایک مبسوط خطبہ محمدن ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ میں دیا تھا جو رسائل کے ضمن میں چھپ چکا ہے۔ اس میں تفصیل کے ساتھ ان کتابوں کا ذکر تھا جو یونانی، فارسی، عبرانی، سریانی وغیرہ زبانوں سے عربوں میں ترجمہ ہوئیں۔ اسی ضمن میں ایک مختصر بیان ان کتابوں کے متعلق بھی ہے جو سنسکرت سے عربی اور فارسی میں ترجمہ ہوئیں مگر اس وقت تک چونکہ بعض پرانی کتابیں طبع نہیںہوئی تھیں اور بعض ناقص تحقیقات کی تکمیل نہیںہوئی تھی، اس لیے خطبہ کا یہ حصہ ناتمام سا تھا۔