کورونا وائرس کیسے حملہ آور ہوتا ہے؟

 کورونا وائرس کیسے حملہ آور ہوتا ہے؟

اسپیشل فیچر

تحریر : رضوان عطا


 

کثرت کے اعتبار سے وائرس کا مقابلہ کوئی دوسرا جاندار نہیں کر سکتا۔ وائرس کی تقریباً پانچ ہزار انواع اور کروڑوں اقسام ہیں۔ جہاں حیات ہے وہاں وائرس بھی ہیں۔ ان میں سے بعض انسانوں میں بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ 
وائرس اور ان کی پیدا کردہ بیماریوں کے ناموں میں فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایچ آئی وی وائرس ہے جس سے ایڈز پیدا ہوتی ہے۔ وائرس کے نام ان کی جینیاتی ساخت کی بنیاد پر رکھے جاتے ہیں جس سے ان کی تشخیص کے ٹیسٹ، ویکسین اور ادویات تیار کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
کووڈ19- نامی بیماری کو پیدا کرنے والے وائرس کو رسمی نام دیا جا چکا ہے۔ ابتدا میں اسے ''2019 نوول کوروناوائرس‘‘ کہا گیا۔ وائرس کا نام ''سویئر اکیوٹ ریسپی ریٹری سینڈروم کوروناوائرس 2‘‘ (سارس-کوو2- یا SARS-CoV-2) رکھا گیا ہے۔ 
اس وائرس کا سب سے پہلے پتا چین کے شہر ووہان میں لگا۔ انسانوں پر اس کا حملہ نیا ہے۔ اس کی جینوم ترتیب (sequenced genomes)کے تجزیے سے سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ وائرس گزشتہ برس نومبر یا دسمبر میں پہلی بار انسان میں داخل ہوا۔ چینی سائنس دانوں نے جنوری میں اس کے ''جینوم‘‘ کی تفصیلات معلوم کیں اور انہیں عالمی ادارہ صحت اور دیگر سائنس دانوں تک پہنچایا۔ 
ساخت کے اعتبار سے وائرس بہت سادہ ہوتے ہیں۔ ان میں تھوڑے سے جینز ہوتے ہیں اور اوپر خول ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے اگر 20 سیکنڈ تک ہاتھوں کو صابن اور پانی دونوں سے اچھی طرح دھویا جائے تو سارس-کوو2- کا یہ خول پھٹ جاتا ہے، یا وہ بہہ جاتا ہے۔ 
آخر سارس-کوو2- میں کون سی ایسی خاصیت ہے کہ یہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے اور دنیا کے 198 ممالک اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ آئیے اس کی ساخت اور اثرانداز ہونے کے طریقے کے بارے میں جانتے ہیں۔
اس وائرس کی تفصیل بتانے سے قبل یہ اقرار کر لینا چاہیے کہ تاحال اس وائرس پر انسانی علم محدود ہے۔ یہ ایک نیا وائرس ہے اور تقریباً ساڑھے تین ماہ قبل ہی سائنس دانوں کی اس وائرس سے شناسائی ہوئی ہے۔نیا ہونے کے باوجود اس کی کارگزاری نے اسے توجہ کا مرکز بنا دیا ہے، اس لیے جہاں اس کے بارے میں بہت کچھ معلوم نہیں وہیں خاصی معلومات میسر بھی ہیں۔
ایک سارس-کوو2 کی موٹائی 50 سے 200 نانومیٹر ہوتی ہے۔ ایک نانومیٹر ایک میٹر کا 10 کروڑواں حصہ ہوتا ہے۔ 
اس کی ساخت پروٹین کے چار ڈھانچوں پر مشتمل ہوتی ہے: ایس (سپائیک یا ابھار)، ای (انویلپ یا غلاف)، ایم (ممبرین یا چھلی)، این (نیوکلیوکیپسڈ)۔ این پروٹین میں آر این اے جینوم ہوتا ہے جبکہ ایس، ای، اور ایم پروٹین بیرونی سطح پر ہوتی ہیں۔ ابھری ہوئی پروٹین وائرس کو انسانی خلیے کی جھلی کے ساتھ چپکنے کے قابل بناتی ہے۔ 
جب سارس-کوو2 انسانی خلیے سے چپکتا ہے تو انسانی خلیے کے پروٹیز (پروٹین پاش) ابھار کی پروٹین کو توڑتے ہیں، جس کے بعد وائرس اپنا آر این اے انسانی خلیے میں داخل کر دیتا ہے۔ اس کے بعد انسانی خلیہ اس کی نقول پیدا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، جو مزید خلیوں میں انفیکشن پیدا کرتی ہیں۔ یہ سلسلہ چل پڑتا ہے۔ 
سارس-کوو2- جیسے وائرس کو کسی جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ باہر کی سطحوں مثلاً پلاسٹک، لوہا یا لکڑی پر یہ مخصوص عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں، یہ عرصہ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے بڑھے بغیربالآخر مرنا ہوتا ہے۔ زیادہ عرصہ زندہ رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ وائرس منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر وائرس کو ضرر پہنچ چکا ہو تو اس کے منتقل ہونے کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے۔ 
سارس-کوو2- وائرس کے جس خاندان سے تعلق رکھتا ہے اس کے سات ارکان انسانوں کو بیمار کرتے ہیں۔ ان میں سے چار اوسی43، ایچ کے یو1، این ایل63 اور 229ای انسانوں کو زیادہ تنگ نہیں کرتے ہیں۔ یہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے انسانوں میں عام زکام جیسی علامات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ 
دیگر دو بہت خطرناک ہیں کیونکہ ان سے شدید علامات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ دو ہیں ایم ای آر ایس اور سارس (SARS)۔ ساتواں رکن وہ ہے جس نے آج دنیا بھر کے انسانوں کو ذہنی، جسمانی اور معاشی عذاب میں ڈالا ہوا ہے۔ 
سارس-کوو2- کی شکل و صورت پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایسی گیند کی طرح لگتے ہیں جن پر میخوں کی طرح کے ابھار ہیں۔ اس وائرس کی ''کامیابی‘‘ میں اس کی ساخت کا عمل دخل بھی ہے۔ ان ابھاروں میں یہ خاصیت ہے کہ یہ ایک طرح کی پروٹین (لحمیے) کو شناخت کر لیتے ہیں اور اس سے چپک جاتے ہیں۔ یہ پروٹین اے سی ای2 کہلاتی ہے اور انسان کے پھیپھڑوں، دل، گردوں اور آنتوں کے خلیوں کی بیرونی سطح پر پائی جاتی ہے۔ سارس-کوو2- کے ابھار اے سی ای2 سے بہت مضبوطی سے چپک یا جڑ جاتے ہیں۔ یہ مضبوطی جتنی زیادہ ہو گی، وائرس کے انفیکشن پھیلانے کا امکان اتنا بڑھ جائے گا۔ 
وائرس کا ہر ابھار ایک دوسرے سے منسلک دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان حصوں کے الگ ہونے پر ہی یہ ابھار سرگرم ہوکر وائرس کا آر این اے انسانی خلیے میں داخل کرتے ہیں۔ سارس وائرس، جو کورونا وائرس خاندان کا ایک وائرس ہے، اس میں دو حصے مشکل سے الگ ہوتے ہیں لیکن سارس-کوو2- میں یہ کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔ انہیں ایک انزائم (خامرہ) بآسانی الگ کر دیتا ہے جسے فورین کہتے ہیں۔ انسانی خلیے فورین بناتے ہیں اور سارس-کوو2- اسے استعمال میں لاتے ہوئے اپنا کام کر دکھاتا ہے۔ 
سارس-کوو2- دہرا وار کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ انسانوں کے نظام تنفس کو متاثر کرنے والے بیشتر وائرس بالائی یا اندرونی میں سے کسی ایک حصے کو نشانہ بناتے ہیں۔ عام وائرس نظام تنفس کے بالائی حصے میں انفیکشن آسانی سے پھیلا سکتے ہیں، جیسا کہ کئی بار نزلہ ہونے پر ناک بہتی ہے، گلے میں سوزش ہوتی ہے اور بس۔ دوسری لفظوں میں علامات شدید نہیں ہوتیں۔ نظام تنفس کی اندرونی انفیکشن مشکل سے ہوتی ہے۔ سارس-کوو2- بالائی اور اندرونی دونوں انفیکشنز کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا سبب شاید انسانی خلیوں میں پائے جانے والے عنصر فورین کو استعمال کرنے کی صلاحیت ہے اسی لیے ہی یہ کسی ایک فرد میں علامات کے نمودار ہونے اور نظام کے اندرونی حصوں میں داخل ہونے سے قبل ہی دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے۔ 
انسانوں اور جانوروں میں بیماریاں پھیلانے والے وائرس عموماً الگ ہوتے ہیں۔ جانوروں کے وائرس میں بعض تبدیلیاں انہیں انسانوں میں پھیلنے کے قابل بنا دیتی ہیں۔ کورونا وائرس خاندان کا خمیر جانوروں کے وائرس سے اٹھا ہے۔
سارس-کوو2- سے بہت زیادہ ملتا جلتا ایک وائرس چمگادڑوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی لیے خیال ہے کیا جاتا کہ یہ وائرس بھی چمگادڑوں میں پیدا ہوا اور انسانوں میں منتقل ہوا۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ چمگادڑ سے یہ کسی دوسری نوع میں منتقل ہوا۔ مثال کے طور پر پینگولین میں بھی ایک طرح کا کورونا وائرس پایا جاتا ہے لیکن اس کے ابھاروں میں اے سی ای2 کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ چمگادڑ سے وائرس کسی دوسرے جانور، مثلاً پینگولین میں گیا ہو اور وہاں دو طرح کے وائرس کا انضمام ہوا ہواور نئے وائرس میں اے سی ای2 کو شناخت کرنے کی استعداد پیدا ہو گئی ہو۔ جب سارس-کوو2- پیدا ہوا تو اس میں یہ استعداد موجود تھی، لہٰذا یہ انسانوں میں پھیلتا چلا گیا۔ 
یہ وائرس مختلف افراد پر مختلف طرح سے اثرات کیوں مرتب کرتا ہے؟ یہ امر ایک حد تک معمہ ہے۔ اکثریت کو شدید علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر چین میں 80 فیصد کو شدید علامات ظاہر نہ ہوئیں۔ مغربی ممالک میں یہ شرح کچھ کم ہے اور وہاں نسبتاً زیادہ افراد کو ہسپتال داخل ہونا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں یہ شرح 90 فیصد بتائی جا رہی ہے۔ غالباً بہت سے عوامل کارفرما ہیں جیسا کہ عمر، صحت، جینز اور وائرس میں ہونے والی تبدیلی۔ 
میسر معلومات کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ جسم میں داخلے کے بعد یہ اے سی ای2 والے خلیوں پر حملہ کرتے ہیں جو ہماری نظام تنفس کی سطحوں پر بھی ہوتے ہیں۔ مرنے والے خلیے نالیوں کے ذریعے مزید گہرائی میں چلے جاتے ہیں۔ انفیکشن کے بڑھنے سے پھیپھڑے مردہ خلیوں اور مائع سے بھر جاتے ہیں۔ اس سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ 
نظام مدافعت کے ردعمل پر سوزش اور بخار ہو جاتا ہے۔ لیکن بعض صورتوں میں نظام مدافعت بے قابو ہو جاتا ہے۔ نظام مدافعت کی کارروائی کے دوران خون کی رگیں کھل جاتی ہیں تاکہ انفیکشن والے مقام تک مدافعتی خلیے پہنچ سکیں۔ زیادہ گڑ بڑ تب ہوتی ہے جب رگیں کچھ زیادہ ہی کھل جاتی ہیں، اس سے پھیپھڑوں میں مزید مائع اکٹھا ہونے لگتا ہے۔ طب کی زبان میں نظام مدافعت کے حد سے بڑھے ہوئے ردعمل کو سیٹوکین سٹارم کہتے ہیں۔ اس ردعمل میں انسان کا نظام مدافعت نہ صرف شدید ردعمل ظاہر کرتا ہے بلکہ غلط مقام پر حملہ کر سکتا ہے، یعنی وہ اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے بجائے دوسرے حصوں کو نشانہ بناتا ہے جس کے سبب وہاںبیکٹیریا کی انفیکشن ہو جاتی ہے اور پھیپھڑوں کے علاوہ دیگر اعضا متاثر ہونے لگتے ہیں۔ یہ عمل ان لوگوں میں ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو پہلے سے ایک یا ایک سے زیادہ امراض کا شکار ہوں یا جن کی قوت مدافعت کم ہو۔ بوڑھے افراد کی قوت مدافعت میں کمی عمر کا تقاضا ہوتی ہے۔ 
اب تک کی تحقیق کے مطابق سائنس دانوں کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ وائرس فضا میں چند گھنٹے اور بیرونی سطح پرچند دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تھوک اور ناک کے مواد کے قطروں یا چھینٹوں کے ساتھ بلاواسطہ یا کسی بیرونی سطح کے کے ذریعے بالواسطہ منتقل ہوتا ہے۔ 
یہ وائرس سٹین لس سٹیل اور پلاسٹک پر زیادہ روز زندہ رہ سکتا ہے۔ کاغذ اور کارڈ بورڈ پر اس کی زندگی ایک دن ہوتی ہے۔ لہٰذا عام سطحوں سے اس کا خاتمہ اہمیت کا حامل ہے، تاکہ وہاں سے انسان میں داخل ہونے کا امکان نہ رہے۔ خوش قسمتی سے عام استعمال کی بعض اشیا بیرونی سطحوں پر اس کے خلاف مؤثر ہیں۔ ان میں ایک بلیچ کا اہم عنصر سوڈیم ہائیپر کلورائٹ ہے جو وائرس کا قاتل ہے۔ بلیچ اس پروٹین کو تباہ کر دیتی ہے جسے آر این اے یا ریبونیوکلائی ایسڈ کہتے ہیں۔ سرجیکل سپرٹ اس وائرس کو 30 سیکنڈ میں مار ڈالتا ہے۔ یہ بھی وائرس کے آر این اے پر حملہ آور ہوتا ہے۔ 
ووہان کے شروعاتی وائرس اور اب امریکا میں پھیلے ہوئے وائرس میں چار سے 10 جینیاتی فرق پائے گئے ہیں۔ یہ فرق زیادہ تصور نہیں ہوتے۔ وائرس نئے حالات میں خود کو بدلتے ہیں لیکن تاحال سارس-کوو2- اپنے اندر کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لایا۔ وائرس میں تبدیلی اس وقت ہوتی ہے جب اس پر دباؤ ہو، جیسا کہ اسے پھیلاؤ میں مشکلات کا سامنا ہو۔ چونکہ وائرس کو اپنی کارروائی میں مشکل پیش نہیں آ رہی اس لیے اس کی ساخت مستحکم ہے۔ اسے اپنی کارکردگی زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ ویکسین بننے کی صورت میں اس سے نمٹنا مشکل نہیں رہے گا اور ایک ہی ویکسین دنیا بھر میں مؤثر ہو گی۔ جب تک ویکسین یا علاج دریافت نہیں ہوتا ہمیں تمام تر احتیاطی تدابیر اپنانا ہوں گی۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مصر کی قدیم یادگار کی بحالی

مصر کی قدیم یادگار کی بحالی

عظیم الجثہ مجسمے قدیم مصری فن تعمیر کی عکاسی کرتے ہیںمصر نے حال ہی میں اپنی قدیم تہذیب کی ایک نہایت اہم یادگار کی بحالی کا کام مکمل کیا ہے۔ یہ یادگار فرعون امنحوتپ (Amenhotep) سوم کے عظیم الجثہ مجسموں پر مشتمل ہے، جو ان کی شان و شوکت اور قدیم مصری فن تعمیر کی اعلیٰ مہارت کی عکاسی کرتے ہیں۔ صدیوں پر محیط مٹی اور موسمی اثرات کے بعد یہ مجسمے اب دوبارہ اپنی اصل صورت میں عوام کے سامنے پیش کیے گئے ہیں، جس سے نہ صرف مصر کی تاریخی وراثت زندہ ہوئی ہے بلکہ عالمی ثقافتی منظرنامے میں بھی اس کا مقام مستحکم ہوا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ بحالی منصوبہ نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ سیاحتی شعبے کو فروغ دینے اور قدیم مصر کے فن تعمیر کی یادگار کو محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔زلزلے سے متاثر ہونے کے تین ہزار سال سے زائد عرصہ بعد، مصر کے دو شاندار اور دلکش آثار قدیمہ کو دوبارہ خوبصورتی کے ساتھ بحال کر دیا گیا ہے۔ میمنون کے عظیم مجسمے دریائے نیل کے اس کنارے پر واقع ہیں جو قدیم شہر لقصور (Luxor) کے سامنے ہے، جو مصر کا تاریخی شہر ہے۔ یہ دونوں عظیم الجثہ مجسمے تقریباً 50 فٹ بلند ہیں اور یہ امنحوتپ سوم کی نمائندگی کرتے ہیں، جو قدیم مصر پر 1391 تا 1353 قبل مسیح تک حکمرانی کرنے والا طاقتور فرعون تھا۔چند روز قبل حکام نے ان مرمت شدہ مجسموں پر سے پردہ اٹھایا، جنہیں مصر کی تہذیب کی سب سے اہم یادگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ مجسمے دوبارہ بحال کر کے اپنی اصل جگہ پر نصب کیے گئے ہیں۔ امنحوتپ سوم کو قدیم مصر پوجا جاتا تھا اور وہ توت عنخ آمون کے دادا تھے۔آسٹریلیا کی فلنڈرز یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے ماہر مائیکل ہیبِچٹ (Michael Habicht)کے مطابق انہوں نے امن کو فروغ دیا اور اقتصادی خوشحالی کے عظیم دور میں زندگی گزاری۔ممکن ہے کہ وہ اپنے دور میں دنیا کے سب سے امیر افراد میں شامل ہوں‘‘۔میمنون کے عظیم مجسمے اصل میں 1350 قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ مجسمے بڑے پتھریلے بلاکس سے بنائے گئے، جو موجودہ قاہرہ کے قریب کانوں سے نکالے گئے اور تقریباً 420 میل کا طویل فاصلہ طے کر کے یہاں پہنچائے گئے۔دونوں مجسموں میں فرعون امنحو تپ سوم کو بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن کے ہاتھ رانوں پر رکھے ہیں، جبکہ ان کے چہرے مشرق کی سمت دریائے نیل اور طلوعِ آفتاب کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں۔ان کے سر پر دھاری دارشاہی تاج ہے جبکہ انہوں نے شاہی لباس پہن رکھا ہے، جو فرعون کی حکمرانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔فرعون کے پیروں کے پاس موجود دو چھوٹے مجسمے ان کی اہلیہ ملکہ تِیے کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ ان عظیم مجسموں پر یونانی اور لاطینی زبانوں میں کندہ ایک سو سے زائد تحریریں موجود ہیں۔تقریباً 1200 قبل مسیح میں ایک شدید زلزلے نے ان مجسموں کو نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں امنحوتپ سوم کا مندر بھی تباہ ہو گیا۔ زلزلے کے بعد یہ مجسمے ٹکڑوں میں بٹ گئے اور ان کے چبوترے بکھر گئے، جبکہ بعض پتھریلے حصے نکال کر لے جائے گئے۔ آثارِ قدیمہ کی وزارت کے مطابق ان کے کچھ بلاکس لقصور کے کرناک مندر میں دوبارہ استعمال کیے گئے، تاہم بعد میں ماہرین آثار قدیمہ نے انہیں واپس لا کر مجسموں کی ازسرِنو تعمیر کی۔یہ عظیم مجسمے شہر لقصور کیلئے غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں، جو قدیم مندروں اور آثارِ قدیمہ کی وجہ سے مشہور ہیں اور دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ بحالی اس کوشش کا بھی حصہ ہے کہ ''یہ دکھایا جا سکے کہ بادشاہ امنحوتپ سوم کا تدفینی مندر قدیم زمانے میں کیسا دکھائی دیتا تھا ‘‘، یہ بات محمد اسماعیل نے کہی جو سپریم کونسل آف اینٹی کوئٹیز کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ امنحوتپ سوم، جو قدیم مصر کے نمایاں ترین فرعونوں میں شمار ہوتے ہیں، نیو کنگڈم کے تقریباً 500 سالہ دور میں حکمران رہے، جو قدیم مصر کا سب سے خوشحال زمانہ سمجھا جاتا ہے۔یہ فرعون، جن کی ممی قاہرہ کے ایک عجائب گھر میں نمائش کیلئے رکھی ہوئی ہے کا دور امن، خوشحالی اور شان و شوکت کیلئے مشہور تھا۔ ڈاکٹر ہیبِچٹ (Habicht)کے مطابق غیر ملکی حکمرانوں کی سفارتی تحریروں میں ان سے تحفے کے طور پر سونا بھیجنے کی درخواستیں کی جاتی تھیں، یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ مصر میں سونا ریت کی طرح وافر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس قسم کے خطوط میں عام مبالغہ آرائی ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ بے پناہ دولت کی طرف اشارہ ضرور کرتی ہے۔ماہر تعلیم کے مطابق، یہ فرعون کسی حد تک عورتوں میں دلچسپی رکھنے والا بھی تھا، جس نے سیکڑوں غیر ملکی خواتین کو اپنے حرم میں شامل کرنے کیلئے مصر منگوایا۔انہوں نے کہاکہ بظاہر وہ خواتین میں بہت دلچسپی رکھتا تھا، اس نے سینکڑوں غیر ملکی خواتین اپنے گر دجمع کیں، بالکل اسی طرح جیسے بعض لوگ ڈاک ٹکٹ جمع کرتے ہیں۔امنحوتپ سوم کا دورِ حکومت عظیم تعمیرات کیلئے بھی جانا جاتا ہے، جن میں ان کا مندر بھی شامل ہے۔ جہاں میمنون کے عظیم مجسمے واقع ہیں۔اس کے علاوہ نوبیا میں واقع سولیب کا مندر بھی ان کی تعمیری عظمت کی ایک نمایاں مثال ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات 40 سے 50 برس کی عمر کے درمیان ہوئی، اور وہ اپنے جانشین (بیٹے امنحوتپ چہارم ) کیلئے ایک ایسی سلطنت چھوڑ گئے جو طاقت اور دولت کے عروج پر تھی۔

WORLD MEDITATION DAY:ذہنی دبائو کے دور میں مراقبہ کی اہمیت

WORLD MEDITATION DAY:ذہنی دبائو کے دور میں مراقبہ کی اہمیت

دنیا بھر میں آج ''مراقبہ کا عالمی دن‘‘ منایا جا رہا ہےہر سال 21 دسمبر کو دنیا بھر میں مراقبہ کاعالمی دن (world Meditation Day) منایا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس دن کے منانے کا مقصد انسانوں کو ذہنی سکون، باطنی توازن، روحانی ہم آہنگی اور پرامن طرزِ زندگی کی طرف راغب کرنا ہے۔ موجودہ دور میں جہاں مادّی ترقی نے زندگی کو تیز رفتار بنا دیا ہے، وہیں ذہنی دباؤ، بے چینی، اضطراب اور نفسیاتی مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں مراقبہ ایک ایسا مؤثر ذریعہ بن کر ابھرا ہے جو انسان کو خود سے جوڑتا اور اندرونی سکون عطا کرتا ہے۔مراقبہ دراصل توجہ، یکسوئی اور شعوری آگہی کی ایک قدیم مشق ہے جس کی جڑیں مختلف تہذیبوں اور مذاہب میں ملتی ہیں۔ بدھ مت، ہندو مت، تصوف، یوگا اور دیگر روحانی روایات میں مراقبہ کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ اس کی شکلیں اور طریقے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہی ہے، ذہن کو پرسکون کرنا، خیالات کی بے ترتیبی کو کم کرنا اور انسان کو حال سے جوڑنا۔اقوامِ متحدہ نے عالمی مراقبہ دن کے اعلان کے ذریعے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ذہنی صحت، عالمی امن اور سماجی ہم آہنگی ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ جب فرد ذہنی طور پر پرسکون اور متوازن ہو تو وہ نہ صرف بہتر فیصلے کرتا ہے بلکہ معاشرے میں برداشت، رواداری اور باہمی احترام کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اسی لیے مراقبہ کو صرف ایک ذاتی مشق نہیں بلکہ ایک اجتماعی فلاح کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔سائنسی تحقیق بھی مراقبہ کے فوائد کی تصدیق کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق باقاعدہ مراقبہ ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے، یادداشت اور توجہ میں اضافہ کرتا ہے، نیند کو بہتر بناتا ہے اور ڈپریشن و اینگزائٹی جیسے مسائل میں نمایاں کمی لاتا ہے۔ اس کے علاوہ مراقبہ دل کی صحت، بلڈ پریشر کے اعتدال اور قوتِ مدافعت میں بہتری کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے تعلیمی اداروں، دفاتر، ہسپتالوں حتیٰ کہ فوجی تربیتی مراکز میں بھی مراقبہ کو اپنایا جا رہا ہے۔عالمی مراقبہ دن کے موقع پر مختلف ممالک میں سیمینارز، ورکشاپس، اجتماعی مراقبہ نشستیں اور آگاہی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان تقریبات کا مقصد لوگوں کو مراقبہ کے سادہ طریقوں سے متعارف کروانا اور انہیں روزمرہ زندگی میں شامل کرنے کی ترغیب دینا ہوتا ہے۔ یہ دن اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ حقیقی خوشی اور سکون بیرونی وسائل میں نہیں بلکہ انسان کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عالمی مراقبہ دن کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جہاں معاشی دباؤ، سماجی مسائل اور عدمِ استحکام نے عوام کو ذہنی طور پر تھکا دیا ہے۔ اگر تعلیمی نصاب، دفتری ماحول اور معاشرتی سطح پر مراقبہ جیسی مثبت عادات کو فروغ دیا جائے تو نہ صرف انفرادی سطح پر بہتری آئے گی بلکہ مجموعی قومی مزاج بھی اعتدال اور برداشت کی طرف مائل ہو گا۔ تصوف اور روحانیت کی ہماری مقامی روایات بھی مراقبہ اور ذکر و فکر کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، جو ہمارے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے تنازعات، جنگوں اور نفرت انگیز رویّوں کے تناظر میں مراقبہ کا پیغام مزید اہم ہو جاتا ہے۔ جب افراد اپنے اندر امن پیدا کرتے ہیں تو وہ دوسروں کے ساتھ بھی امن کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اسی سوچ کو فروغ دینا چاہتی ہے کہ عالمی امن کا آغاز فرد کے دل و دماغ سے ہوتا ہے۔آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی مراقبہ دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری دعوت ہے۔ یہ دعوت ہے رک کر خود کو سننے کی، اپنی سانسوں کو محسوس کرنے کی اور زندگی کی دوڑ میں اپنے باطن کو نظرانداز نہ کرنے کی۔ اگر ہم روزانہ چند منٹ بھی مراقبہ کیلئے وقف کر لیں تو ہماری زندگی میں سکون، توازن اور مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ ایک پرسکون فرد ہی ایک پرامن معاشرے کی بنیاد رکھ سکتا ہے اور یہی عالمی مراقبہ دن کا اصل پیغام ہے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!بلقیس خانم:راگوں کی ملکہ (1948-2022ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!بلقیس خانم:راگوں کی ملکہ (1948-2022ء)

٭... 25 دسمبر 1948ء کو لاہور کے ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ٭...وہ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔٭... کلاسیکی موسیقی میں ان کے استاد محمد شریف تھے۔٭...1964ء میں ریڈیو پاکستان کا رخ کیا، ابتدا میں کورس میں گایا۔٭...سولو پرفارمنس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ''تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔پی ٹی وی پر پنجابی گیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ٭...65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔٭...فلم انڈسٹری میں آمد موسیقار خلیل احمد کی وجہ سے ہوئی ، جن کی فلم ''تصویر‘‘ کیلئے اْنھوں نے گانا ''بلما اناڑی‘‘ ریکارڈ کروایا، جو سینسر کی نظر ہو گیا۔٭...موسیقار خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ بھی کام کیا۔٭...70ء کی دہائی میں کراچی شفٹ ہو گئیں۔جہاں جلد ہی پی ٹی وی سے جڑ گئیں، مشہور زمانہ گیت ''انوکھا لاڈلہ‘‘ وہیں ریکارڈ کروایا۔ پروڈیوسر امیر امام کے پروگرام ''سرگم‘‘ میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا۔٭... 1980ء میں ستار نواز استاد رئیس خان سے شادی کے بعد بھارت چلی گئیں۔٭...1986ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان واپس آئیں اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔٭...معروف موسیقار محسن رضا ان کے بھی ہیں۔٭... 21دسمبر2022ء کو ان کا انتقال ہوا۔مقبول غزلیں٭...وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا(پروین شاکر)٭...کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں( عبید اللہ علیم)٭...مت سمجھو ہم نے بھلا دیا٭...انوکھا لاڈلہ

آج کا دن

آج کا دن

پہلا باسکٹ بال میچ 21 دسمبر 1891ء کو امریکی ماہرِ تعلیم جیمز نائس سمتھ نے باسکٹ بال کے کھیل کا پہلا باضابطہ میچ منعقد کروایا۔ نائس سمتھ نے یہ کھیل سردیوں میں طلبہ کو جسمانی طور پر متحرک رکھنے کیلئے ایجاد کیا تھا۔ ابتدا میں کھیل میں فٹ بال استعمال ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ قواعد میں تبدیلیاں آئیں اور آج یہ دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں شامل ہو چکا ہے۔اپالو 8 خلائی مشناپالو 8 ناسا کا تاریخی اور انقلابی خلائی مشن تھا جو 21 دسمبر 1968ء کو لانچ کیا گیا۔ یہ پہلا انسانی خلائی مشن تھا جس نے زمین کے مدار سے باہر نکل کر چاند کے گرد گردش کی اور اس دوران زمین کے طلوع ہونے والی مشہور تصویر ''ارتھ رائز‘‘ لی گئی۔ اپالو 8 کی کامیابی نے بعد میں اپالو 11 کے ذریعے انسان کے چاند پر قدم رکھنے کی راہ ہموار کی اور خلائی تحقیق کی تاریخ میں ایک سنہری باب رقم کیا۔ سانتا ماریا قتل عامچلی کی فوج نے 21 دسمبر1907ء کو کان کنوں کا قتل عام کیا۔رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2ہزار سے بھی زیادہ تھی۔قتل عام کا مقام ڈمنگو سانتا ماریا سکول تھا جہاں دوردراز علاقوں سے آئے ہزاروں کان کن ایک ہفتے سے ٹھہرے ہوئے تھے۔اس قتل عام کے نتیجے میں نہ صرف ہڑتال ٹوٹ گئی بلکہ مزدوروں کی تحریک ایک دہائی سے زائد عرصے تک معطل رہی۔پین ایم فلائٹ103حادثہ21دسمبر1988ء کو فرینکفرٹ سے نیویارک جانے والی پرواز ''پین ایم فلائٹ 103‘‘ میں اس وقت بم دھماکہ ہوا جب جہاز سکاٹ لینڈ کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ جہاز میں سوار 243مسافر اور عملے کے 16 افرادسمیت 11افراد زمین پر بھی ہلاک ہوئے۔کل 270ہلاکتوں کے ساتھ یہ اُس وقت برطانیہ کا سب سے مہلک دہشت گردحملہ تھا۔نیپال ،برطانیہ معاہدہنیپال اور برطانیہ کے درمیان پہلے معاہدے پر دستخط21دسمبر1923ء کو سنگھار دربار میں کئے گئے۔یہ معاہدہ برطانیہ کا پہلا باضابطہ اعتراف تھا کہ نیپال ایک آزاد ملک کے طور پر اپنی خارجہ پالیسی کو کسی بھی طرح سے چلانے کا حق رکھتا ہے۔ اس معاہدے کو سفارتکاری کی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا۔ معاہدہ 1925ء میں لیگ آف نیشنز میں بھی درج کیا گیا۔ اینٹونوو این225 کی پروازاینٹونوو این 225 ایک سٹریٹجک ائیرلفٹ کارگو ہوائی جہازجسے سوویت یونین میں اینٹونوو ڈیزائن بیورو نے ڈیزائن اور تیار کیا تھا۔یہ اصل میں 1980ء کی دہائی کے دوران اینٹونو و این124ائیر لفٹر کے ایک وسیع مشق کیلئے تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد فضا میں ہونے والی نقل و حمل پر نظر رکھنا تھا۔21دسمبر1988ء کو اینٹونوواین225نے اپنی پہلی پرواز کی۔اسے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی جہاز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی رفتار سے انسان ایک دوسرے سے دور بھی ہوتا جا رہا ہے۔ مفادات، تعصبات اور خود غرضی نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت، بے حسی اور ناانصافی فروغ پا رہی ہے۔ ایسے پُرآشوب دور میں انسانی یکجہتی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انسانی یکجہتی وہ احساس ہے جو انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حوصلہ دیتا ہے اور معاشرے میں امن، برداشت اور باہمی احترام کی فضا قائم کرتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو بکھرتی ہوئی انسانیت کو ایک مضبوط رشتے میں پرو سکتی ہے اور دنیا کو ایک بہتر اور محفوظ مقام بنا سکتی ہے۔انسانی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرے، مشکلات میں ساتھ دے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی بھلائی کیلئے کام کرے۔ یہ تصور ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب مضبوط افراد کمزوروںکا سہارا بنیں اور خوشحال اقوام پسماندہ معاشروں کیلئے تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہر سال 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے انسانوں میں باہمی ہمدردی، تعاون، مساوات اور مشترکہ ذمہ داری کے شعور کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن دسمبر 2002ء سے منایا جا رہا ہے، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی فنڈ قائم کیا۔ یہ فنڈ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کو فنڈ دینے کیلئے فروری 2003ء میں قائم کیا گیا تھا ، جس نے غربت کے خاتمے کیلئے کام کیا۔ 22 دسمبر 2005ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی کے طور پر یکجہتی کی نشاندہی کی۔اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق یکجہتی ان بنیادی اقدار میں سے ایک ہے جو صحت مند بین الاقوامی تعلقات کیلئے ضروری ہے۔ اس طرح، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی یقین دہانی کرائی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجہتی کی ثقافت اور مشترکہ جذبے کو فروغ دینا ضروری ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عالمی یوم یکجہتی ایک ایسا دن ہے جو حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدوں کو یاد دلا نے اور ان کا احترام کرنے کی حوصلہ افزائی کراتا ہے۔ انسانی یکجہتی کا عالمی دن ایک ایسا دن ہے جو غربت کے خاتمے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی عوام کے درپیش مسائل کا مل کر مقابلہ کے اور ان مسائل کیخلاف اقدامات اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔آج کی دنیا جنگوں، غربت، بھوک، ماحولیاتی تبدیلی، مہاجرین کے بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں انسانی یکجہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ عالمی وبائیں ہوں یا قدرتی آفات، یہ حقیقت بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ اگر قومیں مل کر کام کریں تو بڑے سے بڑا بحران بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا تاکہ دنیا بھر میں تعاون اور اشتراکِ عمل کو فروغ دیا جا سکے۔دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے ۔اسلام انسانی یکجہتی کا سب سے مضبوط درس دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا انسانوں کے درمیان بھائی چارے، عدل، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمام انسان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ تعلیمات ہمیں عملی طور پر انسانی یکجہتی اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔پاکستانی معاشرہ فطری طور پر ہمدردی اور ایثار کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے یا کسی قومی سانحے کے موقع پر عوام کا ایک دوسرے کیلئے کھڑا ہونا انسانی یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جذبہ صرف ہنگامی حالات تک محدود نہ رہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی انصاف، برداشت اور تعاون کی صورت میں نظر آئے۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری پیغام ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا کو پرامن، محفوظ اور خوشحال بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کیلئے جینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک انسان انسان کا درد نہیں سمجھے گا، ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہیں گے۔ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اختلافات کے باوجود متحد رہیں اور ایک بہتر عالمی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر و فساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائواور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا‘‘انسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے عملی تقاضےانسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ:٭...غربت اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔٭...تعلیم اور صحت کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔٭...نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی شعور اجاگر کیا جائے۔٭...انسان دوستی اور خدمت خلق کو قومی و سماجی اقدار کا حصہ بنایا جائے۔  

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

٭... یکم جنوری 1948ء کو وادی ہنزہ میں پیدا ہوئے، گوجرانوالہ میں پلے بڑھے،اصل نام فخر الدین حیدر راٹھورتھا۔٭...گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف اے کرنے کے بعد ٹی اینڈ ٹی میں ملازم ہوئے۔ اداکاری کے میدان میں داخل ہونے سے قبل پہلوانی بھی کی۔٭... فنی کریئر کا آغاز تھیڑ سے کیا اور بعدازاں انہوں نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ہر قسم کے کردار کو بخوبی نبھایا تاہم ہیجڑے، بوڑھے اور مجذوب شخص کے کرداروں پر انہیں دسترس تھی۔ ٭... کریئرکے پہلے ٹی وی ڈرامہ ''آپ بیتی‘‘ میں عبدالشکور کریک کا کردار نبھایا اور ''پاکستانی کوجک‘‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔دوسرا کھیل ''لازوال‘‘ بھی بہت مقبول ہوا، جس میں ان کا ڈائیلاگ''میں کھویا کھائوںگا‘‘ زبان زدعام ہوا۔٭...ان کے شہرہ آفاق ڈرامہ ''بشیرا ان ٹربل‘‘کوپاکستان کے پہلے سپرہٹ کمرشل ڈرامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیگر مشہور ٹی وی ڈراموں میں ''شب دیگ‘‘، ''سونا چاندی‘‘، ''ریزہ‘‘ اور'' ایندھن‘‘ شامل تھے۔٭...فخری احمد نے فلموں میں بھی لازوال اداکاری کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں بطور کریکٹر ایکٹر اور ولن جلوہ ہوئے۔ یاد گار فلموں میں '' مس قلو پطرہ‘‘،'' مہربانی‘‘ اور ''شکرا‘‘شامل ہیں۔ ٭...اپنے کریئر میں سب سے زیادہ تھیڑ میں خدمات پیش کیں، ان کے کریڈٹ میں پانچ سو کے قریب ڈرامے ہیں۔ جن میں ''کتکتاڑیاں، سلوک سوکناں دا، تماشا ہائوس، گھر گھر بشیرا، بول نی گڈو، نہ چھیڑ ملنگا نوں، گنجے فرشتے، سسرال چلو، چاندنی راتیں، منڈا آیا سسرال، منڈا پٹواری دا، منڈا آیا ولائتوں، ٹبر ویلیاں دا، ساڈی وی سنو، کمبل نہیں چھڈدا‘‘ شامل ہیں۔٭...انہیں ان کے جونیئر اور سینئر ''تایا‘‘ کہا کرتے تھے اور یوں وہ لاہور کے ثقافتی حلقوں میں تایا فخری احمد کے نام سے مشہور ہوئے۔٭... 20دسمبر 1995ء کو تماثیل تھیڑ میں ڈرامہ ''جنم جنم کی میلی چادر‘‘ میں پرفارم کرتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ عالم جاودانی کو سدھار گئے۔