کورونا وائرس کے بارے میں یہ باتیں ضرور جانیں
دنیا بھر کے ممالک کورونا وائرس کی وبا سے نپٹنے کے جتن کر رہے ہیں۔ 30 مارچ تک کووڈ19- سے تقریباً 34 ہزار افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ یہ بیماری انتہائی متعدی ہے اور کورونا وائرس سے پھیلتی ہے۔ سات لاکھ سے زائد افراد کے کووڈ19- کے ٹیسٹ مثبت آ چکے ہیں۔
کورونا وائرس کیا ہے؟
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کورونا وائرس وائرسوں کا ایک خاندان ہے جو عام زکام سے لے کر ''سوئیرریسپی ریٹری سینڈروم (سارس)‘‘ اور ''مڈل ایسٹ ریسپی ریٹری سینڈروم‘‘ (ایم ای آر ایس) جیسے زیادہ شدید امراض پیدا کرتا ہے۔ یہ وائرس بنیادی طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئے۔ مثال کے طور پر سارس ''سیویٹ بلی‘‘ سے انسانوں میں منتقل ہوا جبکہ ایم ای آر ایس اونٹوں کی ایک قسم سے انسانوں میں آیا۔ جانوروں میں بہت سے کورونا وائرس ایسے ہیں جن کے بارے میں جانا جا چکا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک انسانوں کو انفیکٹ نہیں کیا۔ کورونا وائرس کا نام لاطینی لفظ کورونا سے آیا ہے جس کے معنی تاج یا ہالہ ہیں۔ الیکٹرون مائیکروسکوپ کے نیچے انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ سورج کے گرد ہالہ بنا ہے۔ نوول کورونا وائرس کو چینی حکام نے سات جنوری کو شناخت کر لیا تھا اور اس کے بعد اسے ''سارس-کوو2-‘‘کا نام دیا گیا اور ایک ایسی نئی قسم (سٹین) قرار دیا گیا جسے انسانوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس وائرس کے بارے میں بہت کم معلوم ہے، البتہ انسان سے انسان میں اس کی منتقلی طے شدہ ہے۔
علامات کیا ہیں؟
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس کی علامات میں بخار، کھانسی، تیز سانس اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔ اگر مرض شدت اختیار کر جائے تو اس سے نمونیہ ہو سکتا ہے اور مختلف اعضا ناکارہ ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ موت واقع ہو جاتی ہے۔ موجودہ اندازوں کے مطابق علامات ظاہر ہونے سے قبل کا دورانیہ ایک سے 14 دن کے درمیان ہے۔ انفیکٹ ہونے والے زیادہ تر افراد کو پانچ سے چھ دنوں میں علامات ظاہر ہو جاتی ہیں۔ البتہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انفیکٹ ہونے والے مریضوں کو بالکل علامات ظاہر نہ ہوں اور وائرس ان کے جسمانی نظام میں موجود ہو۔
یہ کتنا ہلاکت خیزہے؟
تقریباً 34 ہزار اموات کے ساتھ اس سے مرنے والوں کی تعداد 2002-2003ء میں سارس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ سارس کی وبا بھی چین سے پھوٹی تھی۔
سارس سے انفیکٹ ہونے والوں میں مرنے کی شرح 9 فیصد تھی۔ اس سے دنیا بھر میں 800 کے قریب اور چین میں300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ایم ای آر ایس اتنا نہیں پھیلا لیکن یہ زیادہ مہلک تھا اور اس کا شکار ہونے والے ایک تہائی ہلاک ہو جاتے تھے۔ اگرچہ نیا کورونا وائرس سارس سے زیادہ لوگوں میں پھیل چکا ہے لیکن اس سے ہلاکتوں کا تناسب خاصا کم ہے اور عالمی ادارۂ صحت کے مطابق یہ تقریباً 3.4 فیصد ہے۔
کیس کہاں رپورٹ ہوئے؟
16 مارچ سے چین کی نسبت بیرونی دنیا میں زیادہ کیسز رجسٹر ہونے لگے ۔ اس سے یہ عالمی وبا کی صورت اختیار کر گیا۔ وائرس چین سے پوری دنیا میں پھیل گیا جس کے بعد عالمی ادارۂ صحت نے کووڈ19- کو عالمی وبا قرار دے دیا۔ چین سے غیرمنسلک افراد میں بھی اس کی منتقلی ہونے لگی۔
پھیلنے سے روکنے کے لیے کیا کیا گیا ہے؟
دنیا بھر کے سائنس دان کوئی ویکسین بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہوں نے خبردار کیا ہے 2021ء سے قبل اس کی وسیع پیمانے پر تقسیم شاید ممکن نہ ہو۔ اسی دوران، بہت سے ممالک نے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے ہیں تاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے، ان میں ملکی سطح کا لاک ڈاؤن، اجتماعات پر پابندی، سکولوں، ریسٹورنٹ، سپورٹس کلبز کی بندش اور گھر سے بیٹھ کر کام کرنے کی اجازت شامل ہیں۔
بین الاقوامی ائیرلائنز کی اڑانوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ بعض ملکوں نے غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے، اور بہت سوں نے بیرون ملک سے اپنے شہریوں کو بلا لیا ہے۔
وائرس کہاں پیدا ہوا؟
شعبہ صحت سے منسلک چینی حکام ابھی تک وائرس کا ماخذتلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ سے آیا ہے۔ چین کے شہر ووہان میں جنگلی جانوروں کی غیرقانونی تجارت ہوتی ہے۔
سات فروری کو چینی محققین نے کہا کہ وائرس جانوروں کی انفیکٹڈ انواع سے غیرقانونی طور پر ٹریفک ہونے والے پینگولین کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔ ایشیا میں غذا اور ادویہ کے لیے پینگولین کی مانگ ہے۔ سائنس دانوں نے چمگادڑوں یا سانپوں کو وائرس کا ممکنہ ذریعہ بتایا ہے۔
کیا یہ عالمی ایمرجنسی ہے؟
جی ہاں، 30 جنوری کو عالمی ادارۂ صحت نے کہا کہ یہ عالمی ایمرجنسی ہے۔ 11 مارچ کو مزید خبردار کر دیا گیا جب اس بحران کو عالمی وبا قرار دے دیا گیا۔ صحت کے عالمی الرٹ کا مطلب ہے کہ دنیا بھر کے ممالک عالمی ادارۂ صحت کی گائیڈ لائنز کے مطابق ردعمل ظاہر کریں۔ 2005ء سے صحت کی پانچ عالمی ایمرجنسیوں کا اعلان ہو چکا ہے۔ 2009ء میں سوائن فلو، 2014ء میں پولیو، 2014ء میں ایبولا، 2016ء میں زیکا اور 2019ء میں پھر ایبولا۔
کیا سگریٹ نوشوں کو کورونا وائرس
سے زیادہ خطرہ ہے؟
یورپی یونین ایجنسی فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق کورونا وائرس کی انفیکشن سے سگریٹ نوشوں میںصحت کے سنجیدہ مسائل پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ یورپین سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کے مطابق سگریٹ نوش ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی حالت کے کووڈ19- سے بگڑنے کا سب سے زیادہ خدشہ ہوتا ہے۔
سگریٹ نوشوں کو اس مرض سے سانس کے مسائل پیش آتے ہیں۔ سنٹر نے کہا ہے کہ جن افراد کو زیادہ خطرہ ہے ان میں مرض کی جلد تشخیص کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک اطلاع کے مطابق چینی ڈاکٹروں نے کورونا وائرس سے متاثر 99 افراد کے جائزے کے بعد پایا کہ معمر افراد سے بھی زیادہ سگریٹ نوشوں کو ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے۔
(ترجمہ: رضوان عطا) بشکریہ ''الجزیرہ‘‘