یادرفتگاں: اے دل کسی کی یاد میں گلو کار سلیم رضا
پرسوز اور سحر انگیز آواز کے مالک گلوکار سلیم رضا کو مداحوں سے بچھڑے 41 برس بیت گئے، آج ان کی برسی منائی جا رہی ہے۔ ان کے گائے گیت آج بھی زبان زد عام ہیں۔ 50ء کی دہائی کے مقبول گلوکار سلیم رضا 1955ء سے 1971ء تک پاکستان کے فلمی افق پر اپنے مقبول گیتوں کے ذریعے چھائے رہے۔ سلیم رضا، پاکستان کی اردو فلموں کے پہلے عظیم گلوکار تھے جنھیں ایک ایسے وقت میں فلمی گائیکی پر اجارہ داری حاصل تھی جب پاکستان میں عنایت حسین بھٹی، مہدی حسن، احمدرشدی اور منیر حسین جیسے بڑے بڑے نام موجود تھے۔
ہندوستانی پنجاب کے شہر امرتسر کے عیسائی خاندان میں پیدا ہونے والے سلیم رضا کا پیدائشی نام ڈیاس نوئیل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور نام بدل کرکے سلیم رضا رکھ لیا۔ انہوں نے گلوکاری کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا جبکہ فلمی دنیا میں قدم 1955ء میں فلم ''نوکر‘‘ سے رکھا اور اسی سال ریلیز ہونیوالی فلم ''قاتل‘‘ کے گیتوں سے انہیں بے پناہ مقبولیت ملی۔
1957ء کا سال سلیم رضا کیلئے بہت خوش قسمت ثابت ہوااور انہوں نے بلندی کی طرف اڑان بھرنا شروع کی۔ ان کی پڑھی ہوئی نعت ''شاہ مدینہ، یثرب کے والی‘‘ پاکستان کی تاریخ کی سب سے مقبول ترین فلمی نعت ثابت ہوئی جسے جتنا بھی سنیں ، اتنا ہی لطف آتا ہے۔ یہ نعت موسیقار حسن لطیف نے فلم ''نوراسلام‘‘ کیلئے تیار کی تھی۔اسی سال فلم ''بیداری‘‘ کے ترانے ''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘ اور ''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘گا کر انھوں نے اپنے آل راؤنڈ ہونے کا ثبوت دیا تھا۔
1962ء کو سلیم رضا کے انتہائی عروج کا سال قرار دیا جاتا ہے ۔ اس برس ان کی 18 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں انھوں نے 31 گیت گائے تھے۔ اس سال انھوں نے فلم ''اولاد ‘‘کی مشہور زمانہ قوالی ''لا الہ الا اللہ، فرما دیا کملی والے نے‘‘ ریکارڈ کروائی تھی۔ یہ اپنے وقت کی سب سے مشہور فلمی قوالی تھی۔ اس سال فلم ''عذرا‘‘کا شاہکار گیت ''جان بہاراں، رشک چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن‘‘ بھی منظر عام پر آیاجسے ماسٹر عنایت حسین نے کمپوز کیا تھا۔
1963ء میں سلیم رضا کی فلموں کی تعداد 15تھی جن میں کل 32 گیت گائے تھے۔ اس سال کا سب سے سپرہٹ گیت ''اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘‘ تھا جو فلم ''اک تیرا سہارا‘‘ میں شامل تھا۔ اسی فلم میں یہ دوگانا ''بادلوں میں چھپ رہا ہے چاند کیوں‘‘بھی سپرہٹ تھا۔ دیگر گیتوں میں ''صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ (باجی) ،''آجا ، دل گبھرائے‘‘ (فانوس) ،''جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ (جب سے دیکھا ہے تمہیں)اور ''شام غم پھر آ گئی‘‘ (سیما) قابل ذکر تھے۔
انہوں نے سب سے زیادہ گیت موسیقارماسٹرعنایت حسین، رشید عطرے اور بابا چشتی کی دھنوں میں گائے۔ موسیقاروں نے سلیم رضا سے ہر طرح کے گیت گوانے کی کوشش کی تھی حالانکہ وہ ایک مخصوص آواز کے مالک تھے جو اردو فلموں میں سنجیدہ اور نیم کلاسیکل گیتوں کیلئے تو ایک بہترین آواز تھی لیکن ٹائٹل اور تھیم سانگز ، پنجابی فلموں ، اونچی سروں یا شوخ اور مزاحیہ گیتوں کیلئے موزوں نہ تھی۔اس وقت موسیقاروں کی مجبوری ہوتی تھی کہ کوئی اور انتخاب تھا بھی نہیں۔ ان کی آواز سنتوش اور درپن پربہت سوٹ کرتی تھی۔
ان کے گائے ہوئے گیتوں کی بدولت کئی فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔وہ المیہ گیت گانے میں مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے ملی نغموں کو بھی اپنی آواز دی، جوآج بھی لوگوں میں مقبول ہیں۔1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان لاہور سے جو پہلا ترانہ گونجا تھا وہ سلیم رضا اور ساتھیوں کا گایا ہوا تھا، جس کے بول ''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘ تھے۔
بطور گلوکار فلموں میں زوال کے بعد وہ کچھ عرصہ ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہے۔ اس دوران انہوں نے ایک فلم ''انداز‘‘ کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی لیکن وہ فلم مکمل ہونے کے باوجود کبھی ریلیز نہ ہو سکی۔70ء کی دہائی کے وسط میں وہ پاکستان کو خیرآباد کہہ کر کینیڈا چلے گئے، جہاں 1983ء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہیں۔
عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کا آغاز 25 نومبر 1960ء کو ہوا تھا جب ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹر یامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کردیا گیا تھا۔میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 ء سے عورتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کیخلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔
17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبرکو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔
عالمی دن منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو و جسمانی تشدد اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک میںبھی خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاسکتیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ضرور بنتی ہے۔پاکستان سمیت جنوبی ایشائی ممالک میں خواتین پر زیادہ گھریلو تشدد کیا جاتا ہے ۔
ایک رپورٹ میں پاکستان کو خواتین کیلئے بدترین ملک قراردیاگیا ہے جہاں غیرت کے نام پر عورتوں پر تشدد اور ان کا قتل، تیزاب سے حملوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے حالیہ برسوں میں قانون سازی بھی ہوئی ہے تاہم پاکستان میں خواتین کی بہبود اور ترقی کیلئے کام کرنے والے ادارے اسے کافی نہیں مانتے ۔ا ن کا کہناہے کہ ملک میں قانون کے نفاذ کا عمل کمزور ہے انتظامیہ عدلیہ اور پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور خواتین پر تشدد کے بارے میں حساسیت لانے سے ہی کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
خواتین پر تشدد کی بہت سی اقسام ہیں ۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، سکولوں میںہوتا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو تشدد ہے ۔ نوعمری کی شادیاں، کاروکاری،غیرت کے نام پر قتل بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ مارناپیٹنا،زخمی کرنا،درد پہنچانا، تیزاب پھینکنا، لفظوں سے چوٹ پہنچانا، ذہنی ٹارچر کرنا،عزتِ نفس اور خودداری سے کھیلنا، حقیر سمجھنا،دوسروں کے سامنے بے عزتی کرنا، آزادی سلب کرنا، ہتک آمیز الفاظ کا استعمال ، زیادتی کرنا،ہراساں کرنااورچھیڑ چھاڑ کرناوغیرہ شامل ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرگھنٹے میں دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان خواتین کیلئے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر روز 6 خواتین کو اغوا اور قتل، 4خواتین کے ساتھ زیادتی اور تین خواتین کی خودکشی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔پاکستان میں 2010ء اور 2011ء میں عورتوں کیلئے قانون سازی کی گئی جن میں ''کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون ‘‘قابل ذکر ہے۔ قانوں سازی کا فائدہ تب ہے، جب اس کا نفاذ ممکن بنایا جائے۔
خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں سب سے زیادہ خواتین پر تشدد کے7 ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ۔ خواتین کو اغوا کرنے کے1707کیس جبکہ زیادتی کے 1408 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
وطن عزیز میں خواتین کے بنیادی انسانی حقوق ہمیشہ سے نظر اندا زکیے جا تے رہے ہیں۔ اکثر دیہاتی اور قبائلی نظام میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے مثلاًونی ، کاروکاری، جبری مشقت، مار پیٹ، بچیوں کی مرضی کے خلاف شادی، وراثت سے محرومی،جہیز کی رسم،قرآن سے شادی اور 32 روپے حق مہر وغیرہ ان سب کا شریعت اسلامیہ، پاکستانی قانون سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
یہ سب کچھ شعائر اسلامی کے سراسر خلاف ہے بلکہ اسلام میں تو عورتوں کو اتنے حقوق دیئے گئے ہیں کہ کوئی اور مذہب ،معاشرہ پیش نہیں کر سکتا۔ مثلاًجنت ماں کے قدموں کے نیچے ،بیوی شوہر کا اور شوہر بیوی کا لباس قرار دیا، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیوی کے متعلق فرمایا کہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘(النسا:19)۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہواور میں ،تم میں سے سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہوں‘‘ (الترمذی:1828)۔ کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہے اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں (الترمذی: 1161) ۔
بہرحال آہستہ آہستہ عورتیں بااختیار ہورہی ہیں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے ، بلکہ وہ نمایا ں پوزیشنز حاصل کر رہی ہیں۔ دوسری طرف دیہی علاقوں میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔والدین میں بھی شعور آ رہا ہے وہ اپنی بچیوں کے اچھے مستقبل کیلئے ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں ۔اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اندھیرا چھٹ رہا ہے ۔
خواتین والے باکس میں ایرر ہے اس کو سب سے آخر میں ٹچ کیجئے گا
٭...''لا الہ الا اللہ ، فرما دیا کملی والے نے‘‘(فلم اولاد)
٭...''شاہ مدینہ ‘‘(فلم ''نور اسلام‘‘،1957ء)
ترانے
٭...''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘( بیداری)
٭...''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘( بیداری)
جنگی ترانہ(1965ء)
٭...''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘
٭...''اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام‘‘
1959ء میں سلیم رضا کے حصے میں 13 فلمیں آئی تھیں جن میں ان کے کل 34 گیت تھے جو ایک سال میں سب سے زیادہ گیتوں کا ریکارڈ تھا۔ اس سال کی فلم ''آج کل‘‘ میں انھوں نے سات گیت گائے تھے لیکن کوئی ایک بھی مقبول نہیں تھا۔ فلم ''شمع ‘‘ میں بھی ان کے پانچ گیت تھے جن میں سے گیت ''اے نازنین ، تجھ سا حسین ، ہم نے کہیں دیکھا نہیں‘‘بڑا مقبول ہوا تھا۔ فلم ''نغمہ دل‘‘ کا گیت ''تیر پہ تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کس کا ہے‘‘اور فلم ''ناگن‘‘ کا گیت ''پل پل رنگ بدلتا میلہ‘‘ بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔
مقبول قوالی و نعت
٭...''لا الہ الا اللہ ، فرما دیا کملی والے نے‘‘(فلم اولاد)
٭...''شاہ مدینہ ‘‘(فلم ''نور اسلام‘‘،1957ء)
ترانے
٭...''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘( بیداری)
٭...''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘( بیداری)
جنگی ترانہ(1965ء)
٭...''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘
٭...''اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام‘‘
مشہور فلمی نغمات
٭...یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں (سات لاکھ)،
٭... زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ(ہم سفر)،
٭... جاں بہاراں رشک چمن (عذرا)،
٭...کہیں دو دل جو مل جاتے (سہیلی)،
٭...حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں (پائل کی جھنکار)،
٭...یہ ناز، یہ انداز، یہ جادو ،یہ نگاہیں (گلفام)،
٭... تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم (جب سے دیکھا ہے تمہیں)،
٭...میرے دل کی انجمن میں (قیدی) ؎
٭...گول گپے والا آیا(مہتاب)
1959ء: سب سے زیادہ گیت گانے کا ریکارڈ
1959ء میں سلیم رضا کے حصے میں 13 فلمیں آئی تھیں جن میں ان کے کل 34 گیت تھے جو ایک سال میں سب سے زیادہ گیتوں کا ریکارڈ تھا۔ اس سال کی فلم ''آج کل‘‘ میں انھوں نے سات گیت گائے تھے لیکن کوئی ایک بھی مقبول نہیں تھا۔ فلم ''شمع ‘‘ میں بھی ان کے پانچ گیت تھے جن میں سے گیت ''اے نازنین ، تجھ سا حسین ، ہم نے کہیں دیکھا نہیں‘‘بڑا مقبول ہوا تھا۔ فلم ''نغمہ دل‘‘ کا گیت ''تیر پہ تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کس کا ہے‘‘اور فلم ''ناگن‘‘ کا گیت ''پل پل رنگ بدلتا میلہ‘‘ بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔