انٹرنیٹ،فائروال اور وی پی این
کون نہیں جانتا کہ انٹر نیٹ کا استعمال دور حاضر میں ایک طالب علم سے لے کر معمولی بزنس مین، صنعتکار غرض کہ ہر شعبہ ہائے زندگی کی ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔آپ کی یاداشت کو تازہ کرتے چلیں کہ ''کمپیوٹر سائنس‘‘ نے باقاعدہ طور پر 1950ء کے آس پاس خودآپ کو نئے علوم کی فہرست میں شامل کرا لیا تھا، جبکہ 1989ء کے آخر میں سوئٹزرلینڈ کے ایک برطانوی کمپیوٹر سائنس دان ٹم برنرزلی کی تحقیق کے نتیجے میں ورلڈ وائیڈ ویب نے ہائپر ٹیکسٹ دستاویزات کو انفارمیشن سسٹم سے جوڑ دیا تھا ۔جس کے نتیجے میں 1990ء کی دہائی کے وسط میں انٹر نیٹ نے تجارت، ثقافت، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ ہائے علوم میں انقلابی اثرات مرتب کرنا شروع کر دئیے تھے۔ جس میں ای میل ، فوری پیغام رسانی، وائس اوور ، انٹرنیٹ پروٹوکول، ٹیلی فون کالز ، ویڈیو کالز ، ورلڈ وائیڈ ویب ، سوشل نیٹ ورکنگ اور آن لائن شاپنگ جیسی سہولیات نے انٹر نیٹ کی اہمیت کو انسانی روزمرہ زندگی کا اتنا عادی بنا دیا کہ کسی بھی تکنیکی خرابی یا انٹر نیٹ کی روانی میں معمولی سی کمی بھی انسانی معمولات زندگی کو معطل کر کے رکھ دیتی ہے۔
پاکستان میں انٹر نیٹ تک عام صارفین کی دسترس 1993ء کے آس پاس شروع ہوئی تھی۔ اس وقت یہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ''یو این ڈی پی‘‘ کی معاونت سے ایک پراجیکٹ کے طور پر متعارف ہوا تھا جسے ''سسٹینیبل ڈویلپمنٹ نیٹ ورکنگ پروگرام‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔
ابتدا میں صرف چند بڑی کارپوریشنز، بنکوں، اہم سرکاری دفاتر کو ہی اس تک رسائی دی گئی۔ بعد ازاں 1995 میں ''ڈیجی کام‘‘ نامی ایک نجی کمپنی نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے اپنی ڈائل اپ انٹرنیٹ سروس کا آغاز کیا، جس کی سپیڈ محظ 64 کے بی پی ایس تھی۔ پھر اسی سال پاکستانی قومی ادارے ''پی ٹی سی ایل‘‘ نے بھی اپنی ایک ذیلی کمپنی '' پاک نیٹ‘‘ کے ذریعے ڈائل اپ سروس کا آغاز کیا تھا۔
مارچ 2000ء میں پاکستان میں پہلی مرتبہ انٹر نیٹ ٹریفک کو ''بیک بون ‘‘یعنی مرکزی کنیکشن لنک کے ذریعے جوڑ دیا گیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر سیٹلائٹ سے فائبر پر منتقل ہونے کا زیر سمندر کیبل بچھانے کا منصوبہ تھا۔اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے سیٹلائٹ کے مقابلے میں ڈیٹا برق رفتاری سے فوری طرف پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا تھا۔ بنیادی طور پر پاکستان میں تیز ترین انٹرنیٹ کی تاریخ کا یہ ایک انقلابی قدم تھا۔
اچانک کیا ہوا ؟
حالیہ چند مہینوں سے اچانک انٹر نیٹ سروس کی بعض علاقوں میں بندش جبکہ متعدد علاقوں میں اس کی سست رفتاری کی شکایات نے پورے ملک میں معمولات زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر متعلقہ ادارے اس کی اصل وجوہات کا تعین کرنے میں ابھی تک خاموش ہیں تاہم بعض سرکاری حکام غیر مبہم انداز میں اسے قومی سلامتی معاملات سے جوڑتے ہیںجبکہ کچھ حکومتی ارکان نجی محفلوں میں برملا کہتے دیکھے گئے ہیں کہ '' سوشل میڈیا ایک ایسا شتر بے مہار ہے جسے لگام دینا وقت کی ضرورت ہے۔
یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ انٹرنیٹ کی بندش یا سست رفتاری کا مسئلہ پاکستان میں پہلی دفعہ پیش نہیں آرہا بلکہ مختلف مواقع پر اس کی بندش ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ ایسا اکثر سکیورٹی خدشات کے دوران ہوتا ہے جیسے محرم الحرام یا اسی طرح کے دیگر حساس ایام کے دوران۔ اسی طرح فروری میں حالیہ انتخابات کے دوران بھی سکیورٹی وجوہات کے پیش نظر ٹوئٹر ، جسے اب''ایکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے پر ملک بھر میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
لیکن اس مرتبہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور وٹس ایپ کے استعمال میں حکومتی سطح پر مداخلت کی وجہ سے اندرونی بالخصوص بیرون ملک کمپنیوں کے ساتھ پاکستان میں بیٹھ کر کام کرنے والے انفرادی اور کلائنٹس کے ساتھ مل کر فری لانسنگ کرنے والوں کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور اس کی بندش کے سبب لوگوں نے متعدد ''چور راستے‘‘ تلاش کرنا شروع کئے تو ملک بھر میں ''وی پی این ‘‘ انٹرنیٹ کی سست رفتاری کو دور کرنے والا ایک اہم ذریعہ بن کر سامنے آیا۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سال مارچ میں وی پی این سروسز مہیا کرنے والی سوئس کمپنی ''پروٹون‘‘ کے اس بیان سے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے اندر وی پی این کے استعمال میں 600گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وی پی این سروسز مہیا کرنے والی دوسری کمپنیوں کا موقف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
وی پی این کیا ہے؟
بنیادی طور پر وی پی این ''ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک‘‘ کا مخفف ہے جو عام طور پر انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال یا راز داری کو ئقینی بنانے کیلئے ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ استعمال کرنے والے کی شناخت اور مقام کو بھی خفیہ رکھتا ہے۔ اس طرح اس کے استعمال کرنے والے ایسی ویب سائٹس تک بھی رسائی کو ممکن بنا لیتے ہیں جن پر کسی ملک میں پابندی ہوتی ہے۔
اس کا سب سے زیادہ فائدہ پرائیویٹ انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کو اس طرح ہوتا ہے کہ جہاں مختلف سائبرحملوں کا سامنا ہو سکتا ہے وی پی این کے استعمال سے ہر قسم کے خطروں سے نجات مل جاتی ہے۔اسکے ساتھ ساتھ وی پی این کے استعمال سے ایسی ویب سائٹس کے مواد تک رسائی ہو جاتی ہے جو عام طور پر ممکن نہیں ہوتی۔
وی پی این کے استعمال میں اس وقت اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا جب رواں برس فروری میں پاکستان میں انٹرنیٹ پر پابندی اور ایکس تک رسائی محدود کر دی گئی۔ اس بارے حکومتی موقف میں ایکس پر پابندی کو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا ۔
مزید براں چونکہ ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے اور ایکس چونکہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے جس کیلئے ملکی سلامتی کے تناظر میں یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ البتہ پی ٹی اے کے سربراہ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کے پاس وی پی این کو رجسٹرڈ کرنے کے علاوہ اب کوئی اور راستہ نہیں ہے۔اس کے تحت ایسی پالیسی وضع کی جارہی ہے جس کے تحت صرف رجسٹرڈ وی پی این کمپنیاں ہی پاکستان میں کام کر سکیں گی۔
مسئلہ اتنا آسان نہیں !
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی یا غیر رجسٹرڈ شدہ وی پی این پر پابندی رازداری کے حق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔یہ شہریوں کی معلومات تک رسائی اور آزادی رائے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
وزارت داخلہ نے رواں سال جولائی میں انٹرنیٹ کی بندش بارے سندھ ہائی کورٹ میں جو رپورٹ جمع کرائی اس کے مطابق ایکس کو ملکی سالمیت کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے، ایکس چونکہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے جسے متعدد بار تنبیہ کی گئی کہ وہ قانون پر عمل کرے ۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا کی آزادی نے بذریعہ انٹرنیٹ پاکستان جیسے ملک کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف انٹر نیٹ کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی میں جزو لاینفک کی صورت اختیار کر گیا ہے ، وہیں دوسری طرف یہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 19 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ملکی معیشت میں آئی ٹی برآمدات 25 ارب ڈالر سالانہ پر پہنچ چکی ہیں۔چنانچہ اسی تناظر میں پی ٹی اے کے چیئرمین کو سینیٹ کہ قائمہ کمیٹی میں برملا یہ اعتراف کرنا پڑا کہ آئی ٹی کی صنعت وی پی این کے بغیر نہیں چل سکتی۔
اب حکومت کے تمام متعلقہ اداروں اور آئی ٹی ماہرین کو مل کر اس مسئلے کا قابل قبول حل نکالنا چاہئے۔
فائر وال ایک حربہ
حکومت نے جہاں انٹرنیٹ کے''منہ زور گھوڑے‘‘کو قابو میں لانے کیلئے وی پی این اور دیگر حربے استعمال کئے ہیں وہیں خیال کیا جاتا ہے کہ' انٹر نیٹ فائر وال‘‘ بھی ایک حربے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
فائر وال بنیادی طور پر کسی بھی ملک کے مرکزی انٹر نیٹ گیٹ وے پرلگایا جانے والا ایک طرح کا ''سیفٹی والو‘‘ ہے جہاں سے انٹرنیٹ ، اپ اور ڈاؤن لنک کیا جاتا ہے۔اس نظام کی تنصیب کا بنیادی مقصد انٹر نیٹ ٹریفک کی فلٹریشن اور نگرانی ہوتا ہے۔