نو بخت اور فضل بن نوبخت
ابوجعفر منصور خلیفہ عباسی کو عمارات سے دلچسپی تھی۔ اس نے بغداد کو ایک نئے پلان کے مطابق نئے سرے سے تعمیر کرانا چاہا۔ انجینئروں کی ایک جماعت اس سلسلے میں مقرر کی گئی۔ نو بخت اور فضل بن نو بخت یا باپ اور بیٹے اس کام کے لئے نگراں تھے۔ یہ دونوں باکمال سول انجینئر تھے اور ان میں نظم و ضبط کی بھی صلاحیت اور قابلیت تھی۔ شاہی دربار کی خاص عمارت کاگنبد زمیںسے دو سو چالیس فٹ بلند تھا اور اوپر ایک سوار کا مجسمہ تھا۔ فضل بن نو بخت نے اس فن کی تعمیر اپنے والدسے حاصل کی تھی اور اپنی صلاحیتوں سے بہت سے کام کئے۔
اسی دور میں کتب خانہ بھی قائم ہوا۔ فضل بن نوبخت نے کتابیں جمع کر کے ان کی فہرست تیار کی ۔ دنیا کا یہ پہلا باقاعدہ شاہی کتب خانہ تھا جو حکومت وقت نے تعمیر کرایا اور اخراجات برداشت کئے۔ ہارون رشید کے عہد میں بغداد علم وفن کا مرکز بن گیا۔
ابتدائی زندگی تعلیم و تربیت
نو بخت بغداد معمار ہے۔ اسی ہوشیار انجینئر نے عمارت کا پلان بنایا اور تعمیرات میں نمایاں حصہ لیا۔ عراق میں بنو عباس کی حکومت مستحکم ہوچکی تھی۔ اس اہم اور بڑے کام کے لئے تجربہ کار ہوشیار انجینئروں کی ضرورت تھی۔ نو بخت نے اس کام کو نہایت عمدگی سے انجام دیا۔
نو بخت نہایت ذہن، بلا صلاحیت اور محنتی نوجوان تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت معمولی مدارس میں حاصل کر کے مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ علم ہئیت اور دیگر علوم میں مہارت پیدا کی۔ نو بخت کو انجینئرنگ سے دلچسپی تھی۔ اس نے عمارتوں کے پلان بنانے اور تعمیر کے فن میں کمال پیدا کیا۔ خلیفہ جعفر منصور کو متعدد انجینئروں کی ضرورت تھی۔ ان میں نوبخت بھی منتخب کیا گیا۔
کام اور کارنامے
نوبخت بہت ہوشیار سول انجینئر اور پیمائش کرنے ولا( Surveyer) تھا۔ مکمل شہری آبادی پلاننگ میں اسے بڑی مہارت حاصل تھی۔ غورو فکر کے بعد بادشاہ کی خواہش کے مطابق شہر بغداد کی منصوبہ بندی کی اور پورانقشہ تیار کیا۔ کہتے ہیں کہ شاہی دربار کی گنبد نما عمارت زمیں سے کوئی دو سو چالیس فٹ بلند تھی۔ وسیع و عریض اس عمارت کے اونچے اور شاندار گنبدپر ایک شہسوار کا مجسمہ نصب تھا۔ یہ مجسمہ دھات کاتھا،شاہی محلات ، باغات اور دیگر عماراتیں ایک گل دستے کی باہم مناسبت سے بنی ہوئی تھیں۔نوبخت اور اس کے معاون انجینئروں نے بغداد کی پلاننگ میں اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا اور اس میں شک نہیںکہ اس وقت کی دنیا میں یہ انوکھا تخیل تھااوری یہی بغداد آئندہ الف لیلہ کی کی کہانیوں کا مرکز بنا۔
فضل بن نو بخت
فضل قابل باپ کا ہونہار بیٹھا تھا۔ تعلیم اپنے قابل باپ سے حاصل کی اورمطالعہ میں مصروف ہوگیا۔ وہ جلد ہی علم ہئیت میں یکتائے روز گار بن گیا اور شہر کی تعمیر میں اپنے والد کے ساتھ کام کرنے لگا۔ وہ علم ہئیت میں بھی اپنے والد کی مدد کرتا اور مشاہد افلاک میںساتھ رہتا۔
علمی خدمات اور کارنامے
فضل علم ہلیت کا ماہر تھا، اس نے کئی علم اور فنی کتابوں کے ترجمے بھی کئے۔ اسے کتابوں سے خاص انس تھا۔ اکثر کتابوں کو تلاش کر کے لاتا اور ان کو اپنے کتب خانے میں بڑے ڈھنگ سے ترتیب کے ساتھ رکھتا تھا۔ بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ ہارون رشید کا عہد تھا، اسے کتابوں سے خاص دلچسپی تھی، شاہی کتب خانے کی ابتدا ہو چکی تھی، بادشاہ نے فضل کو شاہی کتب خانے کا مہتمم اورنگران مقرر کیا۔ فضل نے شاہی کتب خانے میں کتابوں کو ترتیب سے رکھا، رجسٹر بنایا اور کتابوں کی فہرست بنائی یہ اس دور کا عظیم کتب خانہ بن گیا اور یہ دنیا کا پہلا کتب خانہ تھا۔