نیلسن منڈیلا .....کال کوٹھری سے کرسی صدارت تک !

نیلسن منڈیلا .....کال کوٹھری سے کرسی صدارت تک !

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


''میں ایک مثالی جمہوریت اور آزاد معاشرے کا خواہش مند ہوں جس میں تمام لوگ ایک ساتھ امن سے زندگی بسر کر سکیں اور انہیں ایک جیسے مواقع میسر ہوں ۔یہ میرا مشن ہے جس کی تکمیل کے لئے میں زندہ ہوں لیکن اگر اس مشن کی تکمیل کے لئے مجھے زندگی کی قربانی بھی دینا پڑی تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا‘‘۔
یہ الفاظ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر اور ملک کو نسلی امتیاز سے پاک کرنے کی جدوجہد کی علامت سمجھے جانے والے رہنما نیلسن منڈیلا کے تھے ۔جو انہوں نے ''ریوونیا کورٹ ‘‘میں اپنے خلاف تشدد کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام کے ایک کیس میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہے ۔وہ معدودے چند ان لیڈروں میں شامل تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر ، ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا۔ 27سال کی مسلسل قید کے بعد نیلسن منڈیلا کو جب رہائی ملی تو انہوں نے اپنی جدو جہد کا آغاز وہیں سے کیا جہاں ستائیس سال پہلے وہ پابند سلاسل کر دئیے گئے تھے ۔ ایسے لیڈر کے بارے میں مزید کچھ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
ذاتی زندگی
نیلسن منڈیلا 1918 ء میں جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے تھیمبو نامی قبیلے میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی نام رولیہلا ہلا رکھا گیالیکن خاندان میں انہیں ''مادیبا ‘‘ کہا جاتا تھا، سکول میں انکے استاد نے ان کانام تبدیل کر کے انگریزی نام ''نیلسن‘‘ رکھ دیا ۔ یوں انہیں نیلسن منڈیلا کے نام سے شہرت ملی۔
نیلسن کے والد تھیمبو شاہی خاندان کے سربراہ کے مشیر تھے ۔ قبیلے کے سبھی لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ نو برس کی عمر میں والد وفات پا گئے ۔ تھیمبو قبیلے کے سربراہ نے نیلسن کی ذہانت بھانپتے ہوئے انہیں شاہی خاندان کے ایک اور مشیر کی سر پرستی میں دے دیا تاکہ انکی تربیت بہتر انداز میں ہو سکے ۔ انہوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور اپنے ساتھی اولیور تیمبو کے ساتھ مل کر 1952ء میں جوہانسبرگ میں ایک دفتر بنا کر باقاعدہ قانونی پریکٹس کا آغا ز کیا ۔ ان کی مدد سے بہت سے نادار لوگوں کو انصاف ملا ۔ساتھ ہی وہ '' افریقن نیشنل کونسل ‘‘میں شامل ہو کر نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں شامل ہو گئے ۔
نیلسن نے 1944ء میں جیل کے ایک پرانے ساتھی کی رشتے دار ایویلن نامی لڑکی سے پہلی شادی کی ۔ ایویلن ایک نرس تھی۔ان کے تین بچے تھے ۔لیکن نیلسن کی سیاسی مصروفیات نے رفتہ رفتہ انکی ازدواجی زندگی کو متاثر کرنا شروع کر دیاحتیٰ کہ ایک دفعہ ایویلن نے نیلسن کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اسے نظر انداز کئے رکھا تو وہ اس پر گرم پانی پھینک دے گی۔لیکن پھر 1957ء میں دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔ 1958ء میں نیلسن نے ایک خوبرو سماجی کارکن ونی میدیکیذ لا سے شادی کر لی۔ دونوں کا ملنا جلنا کئی سال پرانا تھا ۔شادی کے فوری بعد نیلسن کو روپوش ہونا پڑا ۔صدر بننے کے بعد نیلسن نے اپنی قید کے دوران سماجی خدمات کے بدلے میں اپنی بیگم ونی کو بھی کابینہ میں شامل کر لیا۔ جلد ہی ونی پر پارٹی فنڈز کے غلط استعمال کے الزامات زور پکڑتے گئے جس کے سبب نیلسن نے اسے1996ء میں طلاق دے دی۔ 1998ء میں اپنی 80ویں سالگرہ کے موقع پر موزمبیق کے سابق صدر کی بیوہ گریکا مشیل سے تیسری شادی کی۔ گریکا کے سابق شوہر 1996ء میں ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے ۔
جدو جہد آزادی
نیلسن منڈیلا کو دور جدید میں ایک قابل احترام لیڈر کی حیثیت سے جو شہرت اور مقام ملا ہے وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے ۔ انہوں نے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف جو طویل جدو جہد کی اس کا ثمر آج سب کو مل رہا ہے ۔نسل پرستی کے خلاف نیلسن منڈیلا نے اپنے دوست تیمبو کے ساتھ ملکر جو مہم شروع کی آگے چل کر وہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔1956ء میں منڈیلا پر اپنے 155 ساتھیوں سمیت غداری کا مقدمہ چلا جو چا ر سال بعد ختم ہو گیا۔1960ء میں افریقن نیشنل کونسل( اے این سی) کو کالعدم قرار دے دیا گیا جس کے سبب منڈیلا کو روپوش ہونا پڑا۔ لیکن نسل پرست حکومت کے خلاف مظاہروں میں شدت آتی گئی ۔ایک دن ستر کے قریب پرامن سیاہ فام مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تو یہ پر امن تحریک نے شدت پسندی کا راستہ اختیار کر لیا جس کی قیادت نیلسن منڈیلا کو کرنا پڑی ۔ چنانچہ منڈیلا کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر حکومت مخالف تحریک کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام لگا کر1964میں عمر قید کی سزا سنا کر پابند سلاسل کر دیا گیاتھا۔1980 میں منڈیلا کے دیرینہ ساتھی اولیور تیمبو نے منڈیلا کی رہائی کے لئے بین الاقوامی تحریک شروع کی۔ اس دباؤ کے نتیجے میں 1990میں جنوبی افریقہ کے صدر ایف ڈبلیو ڈی کلارک نے اے این سی پر عائد پابندی کو ختم کر تے ہوئے نیلسن منڈیلا کو رہا کر دیا۔ 1993ء میں انہیں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
1994ء میں انہیں جنوبی افریقہ کا پہلا سیاہ فام صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انتہائی کم عرصے میں ان کی سیاسی بصیرت کے چرچے دنیا بھر میں ہوئے ،انہوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفید فاموں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔سفید فام جنگ جو زولو قوم کو بھی دوستی کی دعوت دی۔ انہوں نے نہ صرف اپنے ملک میں امن کی بحالی کی کوششوں میں قائدانہ کردار ادا کیا بلکہ دنیا کے جس بھی کونے میں بد امنی دیکھی اس کے خلاف آواز بلند کرتے پائے گئے۔وہ دنیا کے ایک مدبر لیڈر کے طور پر بھی سامنے آئے اس کا اندازہ ان کو ملنے والی سو سے زائد اعزازی ڈگریوں سے ہوتا ہے ۔ صدارت چھوڑنے کے بعد نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے اعلی ترین سفیر بن کر ایک نئے روپ میں سامنے آئے۔انہوں نے ایچ آئی وی ایڈز کے خلاف مہم چلائی اور اپنے ملک کو 2010 کے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی دلوانے میں کامیاب ہوئے۔انہوں نے 2003 میں عراق امریکہ جنگ میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے مظالم دیکھے تو بش سینئر کو ایک خط لکھا کہ ''اپنے بیٹے کو ان مظالم سے روکو‘‘۔اس موقع پر انہوں نے مزید لکھا کہ ''میں ایسی طاقت کی مذمت کرتا ہوں جس کا صدر دور اندیشی کی صلاحیت سے عاری ہو ، جو صحیح طریقے سے سوچ بھی نہیں سکتااور دنیا کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے‘‘ ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
شکاری ایپس عالمی خطرہ قرار

شکاری ایپس عالمی خطرہ قرار

موبائل ایپلی کیشنز (ایپس) نے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہماری روزمرہ کی زندگی کو آسان اور بہتر بنا دیا ہے۔ ان ایپس کی مدد سے ہم اپنے مختلف کاموں کو تیزی سے اور آسانی سے مکمل کر سکتے ہیں، چاہے وہ تفریح ہو، کام کاج ہو یا تعلیم۔ یہ ایپس موبائل فونز پر انسٹال کی جاتی ہیں اور مختلف ضروریات کے مطابق اپنی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ موبائل ایپس نے انسان کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ موبائل ایپس نے جہاں انسانی زندگیوں کو فائدہ پہنچایا ہے وہیں بہت سی ایپس ایسی بھی ہیں جنہوں نے انسانی زندگیوں کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ ماہرین نے ان ایپس کو "شکاری ایپس" کا نام دیا ہے ۔ "شکاری ایپس" وہ ایپلی کیشنز ہوتی ہیں جو صارفین کو دھوکہ دے کر ان کی حساس معلومات چوری کرتی ہیں یا انہیں مالی نقصان پہنچاتی ہیں۔ یہ ایپس عام طور پر جھوٹے وعدے جیسے فوری قرض یا کم شرح سود کے ساتھ صارفین کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں، اور بعد میں ان کا استحصال کرتی ہیں۔ یہ ایپس عام طور پر بڑی مہارت سے ڈیزائن کی جاتی ہیں تاکہ صارفین کو ان پر اعتماد ہو اور وہ انہیں اپنے اسمارٹ فونز میں ڈاون لوڈ کریں۔ "شکاری ایپس" کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صارفین کے مفاد میں نظر آتی ہیں، مگر دراصل ان کا مقصد مالی فائدہ اٹھانا یا معلومات کا غلط استعمال کرنا ہوتا ہے۔مالی فائدے کے وعدےشکاری ایپس موبائل صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے پر کشش دعوے کرتی ہیں۔ جیسا کہ فوری قرضوں، کم شرح سود یا دیگر مالی فائدوں کے جھوٹے وعدے کرتی ہیں۔ یہ وعدے اس قدر پرکشش ہوتے ہیں کہ صارفین ان ایپس کو ڈاون لوڈ کرنے میں ہچکچاتے نہیں ہیں۔حساس معلومات تک رسائی جب صارف ایپس کو اپنے اسمارٹ فونز میں انسٹال کرتا ہے، تو ایپ ان کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کرتی ہے جیسے بینک اکاو¿نٹ کی تفصیلات، کریڈٹ کارڈ کی معلومات، ذاتی شناختی دستاویزات، یا رابطہ نمبر وغیرہ۔اجازتوں کا غلط استعمال شکاری ایپس صارفین سے ایسی اجازتیں حاصل کرتی ہیں جو ان کےلئے غیر ضروری ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایپ کو کال لاگ، پیغامات یا دیگر حساس ڈیٹا تک رسائی کی اجازت دینا۔مقصد: ان ایپس کا مقصد صارف کی معلومات کو چوری کرنا، صارف کو غیر قانونی طریقوں سے قرضوں میں جکڑنا یا ان کی مالی حیثیت کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ ایپس صارفین کو غیر قانونی مالی معاہدوں میں پھنساتی ہیں۔غلط تجزیہ اور تاثراتشکاری ایپس عام طور پر مثبت ریویوز اور 5 سٹار کی درجہ بندی کے ساتھ آتی ہیں تاکہ صارفین کو ان پر اعتماد ہو۔ یہ تبصروں میں خود کو حقیقی اور قانونی ایپ کی طرح ظاہر کرتی ہیں۔سائبر سیکیورٹی کمپنی McAfee نے 15 نقصان دہ ایپس کی نشاندہی کی ہے جو کم از کم 80 لاکھ اینڈرائیڈ فونز پر ڈاون لوڈ کی گئی ہیں اور "شکاری قرض ایپس کے عالمی سطح پر نمایاں اضافے" کے بارے میں خبردار کیا ہے۔کمپنی کے مطابق لاکھوں افراد خطرے میں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اسمارٹ فونز پر خطرناک ایپلی کیشنز ڈاون لوڈ کی ہیں۔ McAfee نے ان ایپس کو "ایک عالمی خطرہ"قرار دیا ہے۔ ان میں سے کچھ ایپس گوگل پلے اسٹور سے ہٹا دی گئی ہیں، جبکہ دیگر کو ڈویلپرز نے صرف اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔سائبر سیکیورٹی فرم ESET نے گزشتہ سال اسپائی لون ایپس کے بارے میں ایک وارننگ جاری کی تھی، جن میں سے 17 ایپس گوگل پلے اسٹور میں چھپی ہوئی پائی گئی تھیں، اور اینڈرائیڈ صارفین کو ان ایپس کو حذف کرنے کی ترغیب دی تھی۔شکاری ایپس ایک عالمی سنگین خطرہ ہیں جو صارفین کی معلومات اور مالی حالت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ان سے بچاو کےلئے محتاط رہنا ضروری ہے اور ہمیشہ سیکیورٹی کے بہترین طریقوں پر عمل کرنا چاہیے۔

سوئی تو شہزادی بیدار ہوئی تو ملکہ

سوئی تو شہزادی بیدار ہوئی تو ملکہ

یہ20جون 1837ءکی ایک دم توڑتی ہوئی رات کا وقت ہے۔ ابھی سپیدہ سحر اچھی طرح نمودار نہیں ہوا تھا کہ اچانک خواب گاہ کے دروازے پر دستک ہوئی۔ پیغامبر نے کہا کہ شہزادی صاحبہ اٹھئے، شاہی محل میں تشریف لائیں، برطانیہ کا تاج و تخت آپ کا منتظر ہے۔ کیونکہ بادشاہ سلامت آپ کے چچا(ولیم چہارم) کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہو چکا ہے۔ شہزادی نے ہلکی سی غنودگی کی حالت میں شاہی فرمان سنا۔ منہ ہاتھ دھویا، شاہی لباس زیب تن کیا اور خادمہ کے ہمراہ بکنگھم پیلس کو چل دی۔شہزادی الیگزینڈرینا وکٹوریہ کو رات سوتے وقت کیا پتہ تھا کہ صبح جب آنکھ کھلے گی تو تاج برطانیہ اس کا منتظر ہوگا۔ وہ جب سوئی تو ایک شہزادی تھی لیکن جب صبح 6بجے بیدار ہوئی تو ایک ملکہ تھی۔ اسے کہتے ہیں "تقدیر کے کھیل نرالے"۔ اس طرح 18سال کی عمر میں ملکہ وکٹوریہ برطانیہ کی حکمران بن گئی۔ملکہ وکٹوریہ 24مئی 1819ءکو کنسنگٹن پیلس میں پیدا ہوئی۔ اس کا پیدائشی نام الیگزینڈرنیا وکٹوریہ تھا۔ رینا اس کا نک نیم تھا۔ ان کا والد پرنس ایڈورڈڈ یوک آف کینٹ، جارج سوم کا چوتھا بیٹا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ کی والدہ شہزادی ماریہ لوئیس جرمن نژاد خاتون تھی۔ ابھی وکٹوریہ کی عمر ایک سال ہی تھی کہ اس کا والد فوت ہو گیا۔ملکہ وکٹوریہ نے اپنی تعلیم کسی سکول یا کالج سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ محل میں ایک گورنس مقرر کر دی گئی تھی۔ ابتدائی تعلیم وکٹوریہ نے اسی سے حاصل کی۔ وکٹوریہ کو اپنی 18ویں سالگرہ منائے ابھی ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ جون 1837ءمیں وہ تاج و تحت برطانیہ کی وارث ٹھہری۔ تاج پوشی کی رسم ایک سال بعد ویسٹ منسٹرایبے میں جون 1838ءمیں ہوئی۔1936ءمیں وکٹوریہ کی سترہویں سالگرہ کے موقع پر وکٹوریہ کی البرٹ سے ملاقات ہوئی۔ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ وکٹوریہ البرٹ کو دیکھتے ہی اس پر فریفتہ ہو گئی۔ ملکہ وکٹوریہ نے البرٹ کو شادی کا پیغام دیا۔ البرٹ نے ملکہ وکٹوریہ کا پیغام بسر و چشم قبول کیا۔ شہزادہ البرٹ ملکہ وکٹوریہ کا فرسٹ کزن تھا۔10فروری 1840ءکو ملکہ وکٹوریہ اور پرنس البرٹ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اس وقت ملکہ وکٹوریہ کی عمر 21سال تھی۔ ان کی شادی کا کیک300پاﺅنڈ وزنی تھا۔ ملکہ وکٹوریہ اور پرنس البرٹ کے ہاں 9بچے (پانچ بیٹیاں، چار بیٹے)پیدا ہوئے۔پرنس البرٹ 14دسمبر1861ءکو نمونیہ سے فوت ہوا۔ اس وقت ملکہ کی عمر 42سال تھی۔ یعنی صرف 21برس وہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک رہے۔ جوانی میں ملکہ وکٹوریہ کا بیوہ ہو جانا کسی بھاری صدمے سے کم نہ تھا۔ اپنے خاوند کی وفات کے بعد ملکہ نے شاہی طمطراقی لباس کو خیر باد کہہ کر سیاہ لباس پہننا شروع کردیا۔ رعایا سے ایک طرح کٹ کے رہ گئیں۔ البتہ امور حکومت اپنے وقت پر انجام دیتیں۔ ملکہ وکٹوریہ نے ایک طویل عرصہ حکومت کی،ان کا دور حکومت 64سال (63سال 7ماہ 3دن) پر محیط تھا۔ملکہ وکٹوریہ نے برطانیہ سکاٹ لینڈ آئرلینڈ کے علاوہ نو آبادیات آسٹریلیا، کینیڈا، جنوبی افریقہ اور برصغیر انڈیا پر برمنگھم پیلس بیٹھے ہوئے حکمرانی کی۔ ملکہ وکٹوریہ یہ اپنی زندگی میں کبھی انڈیا نہیں گئی۔ حالانکہ اس نے قیصر ہند کا خطاب پایا۔ ملکہ کے دور حکومت میں اس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اگر ایک طرف غروب ہوتا تھا تو دوسری طرف طوع ہو رہا ہوتا تھا۔ کہاں آسٹریلیا اور کہاں جنوبی افریقہ، برطانیہ اور کینیڈا۔ملکہ ایک مسحور کن شخصیت کی مالکہ تھی۔ ملکہ وکٹوریہ نے عہد حکومت میں عنانِ اقتدار پر کبھی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دی۔ حالانکہ وہ ایک بیوہ خاتون تھیں اور ایک طرح گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ اس کے عہد حکومت میں ایک صنعتی انقلاب برپا ہوا۔ معاشی ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیسن، تعلیم اور تعمیرات میں بہت ترقی ہوئی۔ اس کے دور میں ایسے ایسے ماہر فن کار، سائنس دان اور سیاست دان پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے علم کا دنیا میں لوہا منوایا۔ ملکہ وکٹوریہ کے دور حکومت کو تاریخ میں Victorian Eraکہا جاتا ہے۔ ملکہ وکٹوریہ کا عہد ایک طرح کا تاریخ ساز عہد تھا۔ جا بجا سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں معرض وجود میں آئیں۔ملکہ وکٹوریہ کی زندگی میں اس پر آٹھ قاتلانہ حملہ ہوئے مگر وہ سب حملے ناکام ثابت ہوئے۔ آخر کار 22جنوری 1801ءکو ملکہ اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔

آج کا دن

آج کا دن

لاسارنو معاہدہ (Treaty of Locarno)1 دسمبر 1925ءکو"لاسارنو معاہدہ" پر لندن میں باضابطہ طور پر دستخط کئے گئے۔ یہ ایک اہم سیاسی اور سفارتی معاہدہ تھا جو اکتوبر 1925ءمیں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاسارنو میں طے پایاتھا۔ اس معاہدہ کے فریقین میں جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور بیلجیم شامل تھے۔ معاہدے کا مقصد پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ میں امن قائم کرنا اور مستقبل کے تنازعات کو روکنا تھا۔ جرمنی نے فرانس اور بیلجیم کے ساتھ اپنی مغربی سرحدوں کو تسلیم کیا اور ان پر حملہ نہ کرنے کا عہد کیا۔ یوگوسلاویہ: فضائی حادثہ یکم دسمبر1987ءکو یوگوسلاویہ ایئر لائنز کا ایک مسافر بردار طیارہ جزیرہ کورسیکا میں گر گیا جس میں178 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ پرواز معمول کے مطابق یوگو سلاویہ سے مغربی یورپ کے کسی شہر کی طرف روانہ تھی اور راستے میں کورسیکا کے قریب حادثے کا شکار ہو گئی۔یہ حادثہ یوگوسلاویہ کی تاریخ میں ایک افسوسناک واقعہ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، حادثے کی ایک بڑی وجہ خراب موسم تھی جبکہ حادثے کے بعد کی رپورٹ میں پائلٹ کی ممکنہ غلطی یا نیویگیشن کی خامیوں کو بھی زیر غور لایا گیا۔ پیرس میں جدید سینما کی تعمیر1906ءمیں پیرس میں دنیا کا پہلا جدیدسینما گھر کھولا گیا۔یہ سینما فلم بینی کےلئے مخصوص جدید عمارتوں میں سے ایک تھا۔ فرانس سینما کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ لومیئر برادران، جو سینما کے بانیوں میں شامل ہیں نے بھی فرانس میں فلمی صنعت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔پہلی کاراسمبلی لائن کا آغاز 1913ءمیں آج کے روز فورڈ موٹر کمپنی نے دنیا کی پہلی موٹر اسمبلی لائن متعارف کرائی۔ہنری فورڈ نے 1903ءمیں فورڈ موٹر کمپنی قائم کی تھی۔ یہ کمپنی جلد ہی آٹو موبائل انڈسٹری میں سب سے نمایاں ادارہ بن گئی۔ہنری فورڈ نے اسمبلی لائن کا تصور متعارف کرایا، جس کے ذریعے گاڑیاں بنانے کا عمل نہایت موثر اور تیز ہوا۔ اس تکنیک نے مزدوروں کی پیداواریت میں اضافہ کیا اور کاروں کی قیمت کو کم کر دیا۔ 

30نومبر: ’’ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے ‘‘

30نومبر: ’’ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے ‘‘

کمپیوٹر سکیورٹی جسے سائبر سکیورٹی یا آئی ٹی سکیورٹی بھی کہا جاتا ہے، وہ عمل ہے جس کے ذریعے کمپیوٹر سسٹمز، نیٹ ورکس اور ڈیٹا کو غیر مجاز رسائی، نقصان، یا چوری سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ جدید دور میں جہاں ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، کمپیوٹر سکیورٹی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کمپیوٹر سکیورٹی اس لیے ضروری ہے کہ یہ ہماری معلومات کو محفوظ رکھتی ہے، چاہے وہ ذاتی ہو یا پیشہ ورانہ۔ یہ ہیکرز، میلویئر، اور دیگر سائبر خطرات سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور مالی نقصانات اور قانونی پیچیدگیوں سے بچاتی ہے۔کمپیوٹرز سکیورٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہاس کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کیلئے ایک دن مختص ہے جو ''کمپیوٹرز کی حفاظت کے عالمی دن‘‘ یا ''کمپیوٹر سکیورٹی ڈے‘‘ کے عنوان سے ہر سال 30نومبرکو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد کمپیوٹر صارفین کو اپنے کمپیوٹرز میں موجود قیمتی ڈیٹا، پروگرامز اور ہارڈویئرکو وائرس اور دیگر خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے کے حوالے سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین کمپیوٹر صارفین کو کمپیوٹر سافٹ ویئر، کمپیوٹر ز سکیورٹی اور اس سے متعلقہ مفیدمعلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ دن منانے کا آغاز 1988ء سے ہوا تھا۔کمپیوٹر سکیورٹی کی اقسامکمپیوٹر سکیورٹی آج کے دور میں نہایت اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر ہمارا ذاتی اور پیشہ ورانہ ڈیٹا خطرے میں رہتا ہے۔کمپیوٹر سکیورٹی کئی اقسام پر مشتمل ہے، جن میں سے اہم درج ذیل ہیں۔نیٹ ورک سکیورٹی:یہ نیٹ ورک کو غیر مجاز رسائی اور حملوں سے بچانے کیلئے اقدامات کرتی ہے۔ اس میں فائر وال، اینٹی وائرس اور وی پی این شامل ہیں۔ڈیٹا سکیورٹی:یہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ڈیٹا محفوظ اور خفیہ رہے اور صرف مستند صارفین تک رسائی حاصل کر سکیں۔ایپلی کیشن سکیورٹی:سافٹ ویئر یا ایپلیکیشنز میں موجود کمزوریوں کو دور کرنا تاکہ ہیکرز ان کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔انفارمیشن سکیورٹی:معلومات کو غیر مجاز ترمیم، نقصان، یا چوری سے محفوظ رکھنا۔کلاؤڈ سکیورٹی:کلاؤڈ میں اسٹور کیے گئے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات، جیسے ڈیٹا انکرپشن اور کلاؤڈ سروس فراہم کرنے والے کی سکیورٹی پالیسیاں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کے اصولوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ایک محفوظ ڈیجیٹل دنیا کا قیام ممکن ہو سکے۔فائر وال کا استعمال کریں:ونڈوز میں فائر وال پہلے سے موجود اور خودکار طور پر فعال ہوتا ہے۔ یہ غیر مجاز رسائی کو روکنے میں مدد دیتا ہے اور آپ کے کمپیوٹر کی حفاظت کرتا ہے۔تمام سافٹ ویئر کو اپڈیٹ رکھیں: ونڈوز اپڈیٹ میں خودکار اپڈیٹس کو آن کریں تاکہ ونڈوز، مائیکروسافٹ آفس، اور دیگر مائیکروسافٹ ایپلی کیشنز اپڈیٹ رہیں۔غیر مائیکروسافٹ سافٹ ویئر کیلئے بھی خودکار اپڈیٹس کو آن کریں، خاص طور پر ویب براؤزرز، ایڈوب ایکروبیٹ ریڈر اور وہ ایپس جو آپ روزانہ استعمال کرتے ہیں۔اینٹی وائرس کا استعمال : اگر آپ ونڈوز استعمال کرتے ہیں، تو آپ کے ڈیوائس پر پہلے سے ہی ونڈوز سیکیورٹی یا ونڈوز ڈیفنڈر سیکیورٹی سینٹر موجود ہوتا ہے۔اسے اپڈیٹ اور فعال رکھیں تاکہ وائرس اور دیگر میلویئر سے حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔اگر آپ اپنے کمپیوٹر کو محفوظ رکھنا اور آن لائن خطرات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو درج ذیل اقدامات پر عمل کریں۔ مضبوط پاسورڈز:اپنے پاس ورڈز کو محفوظ اور محتاط طریقے سے منتخب کریں ۔الفاظ، حروف اور نمبروں کے امتزاج پر مبنی مضبوط پاسورڈز استعمال کریں اور انہیں باقاعدگی سے تبدیل کریں۔مشکوک لنکس:مشکوک لنکس پر کلک نہ کریں۔یہ ای میل، ٹویٹس، پوسٹس، آن لائن اشتہارات، یا پیغامات میں ظاہر ہو سکتے ہیں اور کبھی کبھی خود کو قابل اعتماد ذرائع کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ویب براؤزنگ میں محتاط رہیں: ایسی ویب سائٹس سے پرہیز کریں جو غیر قانونی مواد فراہم کرتی ہیں، کیونکہ ان میں اکثر میلویئر انسٹال کیا جاتا ہے یا ایسے ڈاؤن لوڈز پیش کیے جاتے ہیں جن میں میلویئر ہوتا ہے۔جدید براؤزرکا استعمال : جدید براؤزر استعمال کریں،جیسے مائیکرو سافٹ ایج، جو خطرناک ویب سائٹس کو بلاک کرنے اور آپ کے کمپیوٹر پر نقصان دہ کوڈ چلنے سے روکنے میں مدد دیتا ہے۔غیر قانونی مواد سے دور رہیں:فلمیں، موسیقی، کتابیں یا ایپلی کیشنز ایسی جگہوں سے اسٹریم یا ڈاؤن لوڈ نہ کریں جو قابل اعتماد نہ ہوں۔ ان میں میلویئر موجود ہو سکتا ہے۔USB کا استعمال: یا دیگر خارجی آلات استعمال نہ کریں جب تک کہ وہ آپ کے اپنے نہ ہوں۔ میلویئر اور وائرس سے بچنے کیلئے یقینی بنائیں کہ تمام خارجی آلات یا تو آپ کے اپنے ہوں یا قابل اعتماد ذرائع سے حاصل کیے گئے ہوں۔ 

سیون اسٹریم لیک اور جڑواں جھیلیں

سیون اسٹریم لیک اور جڑواں جھیلیں

منی مرگ سے نکل کر ایک بار پھر ڈومیل تک پہنچ جانا دراصل میری ذاتی خواہش تھی ، جس کا احترام میرے ساتھیوں پر واجب نہ تھا۔منی مرگ کی ایک اجلی صبح میں جیپ ڈرائیور کے ساتھ ایک بار پھر ڈومیل کی طرف نکل آیا۔ گزری شام جو ندی ہمارے راستے کی رکاوٹ بنی تھی ، اب چپ چاپ بہتی جاتی تھی۔ برف پگھلنے سے پہلے ہم نے یہ ندی عبور کی اور رینبو جھیل کی قربت میں آ گئے۔ میرے تمام ہم سفر منی مرگ کے ریسٹ ہاوس میں ابھی سوئے ہوئے تھے اور میں رات کے وقت سنائی ہوئی کہانی کا کردار بن کر نکل آیا۔ رینبو جھیل سے آگے سیون اسٹریم لیک تھی جس میں سات چشمے یوں گرتے تھے جیسے کوئی اپنی ذات کسی محبوب پر فدا کر دے ، ہمیشہ کے لئے اپنی ہستی مٹا دے۔ مگر یہ ابھی صرف کہانی تھی اور اس سات چشموں والی جھیل تک پہنچنے کے لئے میں ڈومیل میں تھا۔ رینبو جھیل کے ساتھ بہتے نالے پر ہم نے سات گھنٹے سفر کرنا تھا اور پھر دو جڑواں جھیلوں تک پہنچنا تھا۔ میں تھکنے والا نہ تھا کہ ڈومیل سے واپس لوٹ جانا میرے سیاحتی عقیدے کی خلاف ورزی تھا۔منی مرگ سے نکلے ہوئے دو گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ ہم ایک ایسی وادی میں آ گئے جہاں بلند درختوں کے عقب میں وسیع لینڈ اسکیپ تھا۔ چھوٹے چھوٹے چشمے تھے اور موسم میں نرم دھوپ کا سایہ تھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے جیپ ڈرائیور نے کہا کہ ہم نیرو کی جڑواں جھیلوں تک پہنچ گئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ نیرو کی جڑواں جھیلیں مکمل طور پر ان چھوئی اور کنواری جھیلیں تھیں جہاں تک انسان بہت کم پہنچتا تھا۔ صاف اور مقدس جھیلوں میں جو پانی تھے وہ کرسٹل واٹر تھے۔ برف کا تازہ عرق ان جھیلوں کا رزق بنتا تھا۔ خوبصورت جھیل میں تین خصوصیات ہوتی ہیں ، ایک یہ کہ وہ زندہ جھیل ہوتی ہے جس میں پانی داخل ہو رہا ہو اور ساتھ ساتھ اخراج بھی ہو رہا ہو۔ دوسری خصوصیت یہ کہ وہ اپنے اطراف میں بلند حصار رکھتی ہے۔ تیسرا خاصا اس کا شفاف پانی ہوتا ہے۔ ان جھیلوں میں تینوں نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ ان جھیلوں سے آگے ایک اور حیرت کا جہان ہمارا منتظر تھا۔صرف دو گھنٹے کی مسافت پر غلام سر کی دو اور جڑواں جھیلیں ہماری منتظر تھیں۔ ضلع بانڈی پورہ میں واقع یہ جھیلیں بھی حسن فطرت میں آپ اپنی مثال تھیں۔ رینبو جھیل وادی ڈومیل سے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر دو اور جڑواں جھیلیں ہیں جنہیں آر ، بی کی جھیلیں کہا جاتا ہے۔ آر ، بی جھیلوں کے ارد گرد زعفرانی گھاس کا ڈھلوان فرش بچھا ہے۔ رینبو لیک کے پاس ہی دل نما جھیل بھی حسن کا منبع ہے۔ کئی جڑواں جھیلیں اور ان دیکھی وادیاں دیکھ کر جب منی مرگ پہنچے تو رات کا دوسرا پہر ڈھل چکا تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور تارے اتنے قریب تھے کہ آسمان پر نہیں ہمارے سروں کے اوپر چمکتے محسوس ہوتے تھے۔منی مرگ کے پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاوس میں میرے بچے میرے ہی منتظر تھے۔ میرے ذہن میں سیون اسٹریم جھیل اور کئی جڑواں جھیلوں کے حسن کا جادو تھا جو آنکھوں میں خمار بن کر ہر دیکھنے والے کے سامنے مجھے مشکوک کرتا تھا۔ میں اسی خمار کی وجہ سے گنگ تھا کہ بولنے کی سکت ہی نہ تھی۔ منی مرگ میں یہ رات ہماری آخری شب بسری تھی۔ ہونے والی صبح ہم نے برزل عبور کر کے استور پہنچنا تھا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

تنبس سے انخلاء30نومبر1971ء کو برطانوی افواج کے ابوموسیٰ اور تنبس کے جزائر سے انخلاء کے فوراً بعد شاہی ایرانی بحریہ نے آبنائے ہرمز میں واقع ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔یہ جزائر خلیج فارس اور خلیج عمان کے درمیان موجود ہیں۔ ایران کی شاہی ریاست نے جزائر کے دونوں جانب خودمختاری کا دعویٰ کیا تھا۔ امارات راس الخیمہ نے بڑے اور چھوٹے تبنوں کا دعویٰ کیا اور امارات شارجہ نے ابوموسیٰ پر دعویٰ کیا۔ایران کی جانب سے جزائر پر قبضے کے بعد شارجہ اور راس الخیمہ نے نوتشکیل شدہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ الحاق کر لیا۔اس الحاق کی وجہ سے ان علاقوں پر متحدہ عرب امارات کا بھی وعویٰ قائم ہو گیا۔تاسافارونگا کی جنگتاسا فارونگا کی لڑائی جسے بعض جگہ ''پرساؤجزیرے‘‘ کی چھوٹی جنگ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اور جاپانی تاریخ میں یہ ''لونگا پوائنٹ کی جنگ‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔یہ ایک بحری جنگ تھی جس کا آغاز 30نومبر1942ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ اور امپیریل جاپان کی بحریہ کے درمیان ہوا۔یہ لڑائی گواڈل کینال پر تسافارونگا علاقے کے قریب آئرن باٹم ساؤنڈ میں ہوئی۔جنگ میں، ریئر ایڈمرل کارلٹن ایچ رائٹ کی کمان میں پانچ کروزر اور چار ڈسٹرائرز پر مشتمل امریکی فورس نے گواڈل کنال پر اپنی افواج کو خوراک پہنچانے کی کوشش کرنے والے آٹھ جاپانی تباہ کن جہازوں کو روکے رکھا جس کی وجہ سے جاپان کو اس جنگ میں کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔سرمائی جنگسرمائی جنگ جسے پہلی سوویت فنش جنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سوویت یونین اور فن لینڈ کے درمیاں ہونے والی ایک زبردست جنگ تھی۔ جنگ کا آغاز 30نومبر 1939ء کو فن لینڈ پر سوویت یونین کے حملے سے ہوا اور دوسری عالمی جنگ کے تین ماہ بعد ماسکو امن معاہدے کے ساتھ اس لڑائی کا اختتام ہوا۔ جدید اسلحہ، ٹینک اور اعلیٰ فوجی قیادت ہونے کے باوجود سوویت یونین کو اس جنگ میں بہت زیادہ نقصان پہنچا۔لیگ آف نیشنز نے اس حملے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سوویت یونین کو تنظیم سے بے دخل کر دیا۔کرسٹل پیلس میں آتشزدگی30نومبر1936ء کی شام سر ہنری بکلینڈ اپنی بیٹی کرسٹل کے ساتھ ٹہل رہے تھے، جس کا نام عمارت کے نام پر رکھا گیا تھا ۔ اسی دوران انہوں نے عمارت کے اندر سے روشنی آتی ہوئی دیکھی ،جب سر ہنری عمارت کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے دوملازمین کو دفتر میںلگی آگ سے لڑتے ہوئے دیکھا جو خواتین کے کمرے میں ایک دھماکے سے شروع ہوئی تھی۔صورتحال دیکھتے ہوئے فوراً فائر بریگیڈ کو بلایا گیا لیکن آگ بجھانے والے89انجن اور400سے زائد فائر مین مل کر بھی اس آگ پر قابو پانے میں ناکام رہے۔چند ہی گھنٹو ں میں پورا کرسٹل محل تباہ ہو گیا۔