ایشیائے کوچک یورپ اور ایشیاء کا پل
موقع اور محل
ایشیائے کوچک یا اناطولیہ کو یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک پل کی حیثیت حاصل ہے۔ مغرب سے مشرق کی طرف آئیں تو سمندر کے راستے باآسانی یہاں پہنچ سکتے ہیں۔ اگر مشرق سے مغرب کی طرف جائیں تو خشکی کا راستہ بہترین ہے۔ اس کے جنوب میں طارس کا کوہستانی سلسلہ ہے۔ شمالی سمت میں بھی پہاڑوں کی اونچی اونچی دیواریں کھڑی ہیں، جنہیں عبور کرنا آسان نہیں، صرف دروں سے آ جا سکتے ہیں، جنہیں عام زبان میں سلیشیا کے دروازے کہتے ہیں۔ اس کے وسط میں سطح مرتفع ہے جس میں کپاڈوشیا، لائی کااونیا اور قرجیا واقع ہے۔یہاں کے اصل باشندے مخلوط نسل کے تھے، جن میں آرامیوں کے خصائص بھی موجود تھے اور ہٹیوں کے خصائص بھی، پھر وہ لوگ بھی یہاں آباد ہو گئے تھے جو بحیرۂ روم کی طرف سے آئے تھے۔
ہیٹی
ایشیائے کوچک میں سب سے پہلے ہٹیوں کی سلطنت کا سراغ ملتا ہے۔ ان کا مرکز ''ہتوشاش‘‘ تھا، جسے آج کل ''بوغازکوئی‘‘ کہتے ہیں۔ اس سلطنت کے دو دور مانے جاتے ہیں۔ ایک کو قدیم سلطنت کہتے ہیں اور دوسرے کو جدید۔ یہ اپنی وضع و ہیئت کے اعتبار سے جاگیردار امراء کی سلطنت تھی۔ قدیم دور میں امرا بادشاہ کا انتخاب کرتے اور اسے تاج پہناتے، جدید سلطنت میں بادشاہوں نے خاصا اختیار حاصل کر لیا اور حکومت موروثی بن گئی، تاہم جاگیرداریوں کا سلسلہ بدستور قائم رہا۔ ایک ضابطہ قانون بھی آخری دور میں مرتب کر لیا گیا تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرموں کی سزائیں بہت ہلکی تھیں، کھیتی باڑی کرنا اور ریوڑ پالنا لوگوں کے عام مشغلے تھے۔ دوسری قوموں کی طرح یہ لوگ بھی دیویوں اور دیوتائوں کی پوجا کرتے تھے۔ ان کی سب سے بڑی دیوی وہ تھی، جو سورج سے منسوب تھی۔
حکومت کی سرگزشت
قدیم سلطنت کا زمانہ 1750قبل مسیح سے 1430 قبل مسیح تک رہا، لیکن اس میں سے آخری ستر سال کے زمانے کے حالات ٹھیک معلوم نہیں۔ 1600ء قبل مسیح میں ایک ہٹی بادشاہ نے حلب پر قبضہ کر لیا تھا، نیز وہ بابل پر بھی حملہ آور ہوا تھا۔ اسی نے ہتوشاش کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔
جدید سلطنت کا آغاز 1430ء سے ہوا اور یہ 1200قبل مسیح تک جاری رہی۔2شبی لویو نہ محض اس عہد کا سب سے بڑا بادشاہ ہے، بلکہ ہٹیوں میں کسی کو بھی اس کی سی عظمت حاصل نہ ہوئی۔ اس نے پورے اناطولیہ کو از سر نو فتح کیا، اس کے علاوہ شام کے شمالی علاقوں کو بھی مسخر کر لیا۔ اس کا عہد حکومت 1390ء قبل مسیح سے 1350ء قبل مسیح تک جاری رہا۔ بعد ازاں ہٹیوں کے ایک بادشاہ نے مصر کے جابر فرعون رعمسیس ثانی کو نہر العاضی کے کنارے شکست دی۔ 1200 قبل مسیح میں بحیرۂ ایجہ سے مہاجروں کا سیل آ گیا اور ہٹیوں کی سلطنت ختم ہو گئی۔ یہی مہاجر تھے جنہوں نے ٹرائے آباد کیا۔ اس شہر کو ہومر کی رزمیہ نظم کے باعث عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔
فرجیا
اہل فرجیا مہاجروں کے اس سیل کے ساتھ تھریس سے ایشیائے کوچک پہنچے تھے، جو بارہویں صدی عیسوی میں آیا تھا۔ انہوں نے وسطی اناطولیہ پر قبضہ کر لیا۔ گورڈین ان کا دارالحکومت تھا۔ یہ سبیل کی پوجا کرتے تھے جو امومت کا نشان تھی۔ ایک گاڑی میں مادر کبیر کا بت بنا کر رکھا ہوا تھا۔ اس گاڑی کو گھوڑوں کی جگہ شیر لگائے گئے تھے۔1000قبل مسیح سے 700قبل مسیح تک فرجیا میں ایک مستقل سلطنت قائم رہی لیکن حالات معلوم نہیں۔ 696قبل مسیح میں یہ سلطنت حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہو گئی۔
لیڈیا
لیڈیا کا دارالحکومت سارڈس تھا جو ایشیا کوچک کے مغربی ساحل پر واقع تھا۔ یہ ریاست مشرق و مغرب کے درمیان ثقافت و تجارت کا ایک رابطہ بن گئی۔ اہل لیڈیا کی وجہ سے قدیم اٹلی کی تہذیب کو بہت فائدہ پہنچا۔ یہ لوگ بڑے تاجر اور اعلیٰ درجے کی تہذیب کو بہت فائدہ پہنچا۔ یہ لوگ بڑے تاجر اور اعلیٰ درجے کے دستکار تھے۔ سمجھا جاتا ہے کہ سکے سب سے پہلے انہی نے بنائے۔ ابتدائی زمانے میں انہی اسپ سواری کا بہت شوق تھا۔ یہاں سب سے پہلے 670قبل مسیح میں بادشاہ یک بنیاد پڑی۔ پھر یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا، جب سائرس نے یہ 547ق م میں لیڈیا کو فتح کر لیا۔ اس زمانے میں کروئی سس لیڈیا کا بادشاہ تھا۔ چنانچہ لیڈیا یا سکندر کی آمد تک ایرانیوں ہی کے قبضے میں تھا۔
یونانی حکومتیں
سکندر نے فرجیا کو فتح کرنے کے بعد اینٹی گونس کو وہاں کا گورنر بنا دیا تھا۔ سکندر کی وفات کے بعد اینٹی گونس نے ایشیائے کوچک کا بڑا علاقہ فتح کر لیا اور 306ق م میں اپنی بادشاہی کا اعلان کر دیا۔301قبل مسیح میں اس کے وفات پا جانے پر ایشیائے کوچک کے ساحلی علاقے سلوکیوں اور بطلیموسیوں کے درمیان تقسیم ہو گئے۔ پھر مختلف حکومتیں وہاں پیدا ہوئیں، جن کے حکمران یونانی تھے، مثلاً پرگیم، بتھینیا، کپاڈوشیا، پونٹس، اور گلاٹیا آخر میں رومیوں نے ان سب کو مسخر کر لیا۔
غلا م رسول مہر صحافی، سوانح نگار، مورخ، محقق، شارح، مترجم، شاعر اور سفر نگار تھے، نصف صدی پر محیط ادبی زندگی میں
درجنوں کتب تحریر کیں
ایک ہمہ جہت لکھاری اور درجنوں کتب کے مصنف ہیں، وہ
تھے، لکھاری اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں،ان کے مضامین ملک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں