ڈیتھ اسٹار لیزرہتھیار

ڈیتھ اسٹار لیزرہتھیار

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد سلمان


لیزر ٹیکنالوجی کے بغیر ہم آج کے جدید طرزِ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیزر وہ روشنی ہے، جو قدرتی طور پر ہماری کائنات میں وجود نہیں رکھتی۔ یکساں رفتار کے ساتھ حرکت کرنے والی اور یوں ایک دوسرے کو اور زیادہ طاقتور بنانے والی اِن لہروں کے بارے میں پیش گوئی تو آئن سٹائن نے بھی کی تھی لیکن ان کی باقاعدہ دریافت 64سال پہلے ہوئی۔پہلی مرتبہ لیزر شعاعوں کو سولہ مئی 1960ء کو امریکی انجینئر تھیوڈور میمن نے دنیا سے متعارف کروایا تھا۔
64 سال پہلے جب اِس ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا گیا تو بہت سے لوگوں نے اِسے کسی مسئلے کے حل کی بجائے الٹا اِسے ایک مسئلہ قرار دیا تھا۔ لیزر شعاعیں دھات کی موٹی تہوں کو کاٹنے اور کسی خلیے کے اندر تک جھانک کر ساری تفصیلات دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اِنہیں کاروں کے مختلف حصوں کو ویلڈنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ملانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فائبر گلاس کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک ڈیٹا پہنچا سکتی ہیں۔اِن شعاؤں کے بغیر نہ تو موبائل فونز کی بیٹریاں تیار کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں کیلئے ہارٹ پیس میکر بنایا جا سکتا ہے۔ اور تو اور، لیزر شعاعوں کے بغیر نہ تو سی ڈی کا وجود ہوتا اور نہ ہی ڈی وی ڈی کا۔ اِس قدر کامیابیوں کے باوجود انسان ابھی لیزر کے تمام تر امکانات سے واقف نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ا ِن شعاعوں پر تحقیق کا سلسلہ پوری دْنیا میں جاری ہے۔
حال ہی میں چین کے سائنسدانوں نے ایک حقیقی ''ڈیتھ اسٹار‘‘لیزر ہتھیار میں اہم پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ نیا ہائی پاور مائیکروویو ہتھیار کئی چھوٹی برقی مقناطیسی لہروں کو یکجا کر کے ایک بڑا لیزر بیم بناتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ''اسٹار وارز‘‘کی ڈیتھ اسٹار نے کئی چھوٹی شعاعوں کو یکجا کر کے ایک طاقتور شعاع سے سیاروں کو تباہ کیا تھا۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت ''ultra-high time precision synchronization‘‘ کے عمل میں ہے، جو شعاعوں کو آپس میں جوڑنے اور ایک ہی مقام پر مرکوز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق، چھوٹی لیزر شعاعوں کے درمیان وقت کی تفریق 170 پیکو سیکنڈز سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، یعنی سیکنڈ کے کھربوں حصوں کے برابر۔ محققین نے یہ کامیابی آپٹیکل فائبرز کی مدد سے حاصل کی۔ یہ عظیم ٹیکنالوجی کی ترقی جو آپٹیکل فائبرز کے استعمال سے ممکن ہوئی نے ہتھیار کے نظام کو فوجی تجربات میں کامیاب ہونے کی اجازت دی۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار امریکی جی پی ایس اور دیگر سیٹلائٹس کے سگنلز کو دبا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ شعاعوں کی مشترکہ طاقت انفرادی شعاعوں کی طاقت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
یہ ہتھیار خلا میں استعمال کیلئے بنائے گئے ہیں نہ کہ زمینی، بحری یا فضائی افعال کیلئے۔ چین لیزر ہتھیاروں پر طویل عرصے سے کام کر رہا ہے۔ پچھلے سال یہ انکشاف ہوا تھا کہ چینی حکومت ایک ''دماغی خلل ڈالنے والا‘‘ ہتھیار تیار کر رہی ہے۔ یہ پروگرام غیر ملکی ممالک کے فوجی اور حکومتی عہدیداروں کو ہدف بنانے کیلئے بنایا گیا تھا۔ سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ایسٹ ایشین انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو نے کہا کہ یہ ہتھیار ممالیہ کے دماغوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور حتیٰ کہ ان پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ چین نے چند سال قبل ایک پروٹو ٹائپ لیزر رائفل بھی تیار کی تھی جو نصف میل کی دوری سے ہدف کو جلا سکتی تھی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ایجادات اور اتفاقات

ایجادات اور اتفاقات

انسانی زندگی کو آسان بنانے کے لیے سائنسی علم کو بروئے کار لاتے ہوئے ایجادات ایک منظم کاوش کا نتیجہ سمجھی جاتی ہیں ‘ مگر یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بہت سی ایجادات جنہوں نے نوع انسانی کو بہت فائدہ پہنچایا اور ان کی افادیت بدستور موجود ہے دراصل ایک اتفاق کے نتیجے میں وجود میں آئیں۔ آئیے ان ایجادات کے بارے جانتے ہیں جن کی دریافت اتفاقیہ ہوئی۔ مائیکروویو اونمائیکر و ویوز گرمی اور روشنی کی لہروں کی طرح شارٹ ریڈیو ویوز ہیں جو موشن کے ذریعہ کام کرتی ہیں اور خوراک کے مالیکیول میں موشن پید اکرتی ہیں جن کی وجہ سے فرکشن پیدا ہوتی ہے۔ فرکشن کی وجہ سے کھانے کے اندر گرمی پید ا ہوتی ہے جس سے کھانا گرم ہو جاتا ہے۔ 1946ء میں امریکہ میں Raytheon کمپنی کا ایک ملازمPercy Spencer لیبارٹری کے معا ئنہ کے دوران میگنا ٹرون کے سامنے آکر رکا جو مائیکرو ویوز پیدا کرتی ہیں۔میگنا ٹرون وہ پاور ٹیوب ہے جس سے ریڈار سیٹ چلتا ہے۔Percyکی جیب میں چا کلیٹ تھی جب اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ پگھل چکی تھی۔اس کو احساس ہو گیا کہ چاکلیٹ مائیکرو ویوز کی وجہ سے پگھلی ہے۔ چنانچہ Raytheonکمپنی نے اس کی سفارش پر 1947ء میں سب سے پہلا اوون 'ریڈار رینج‘ کے نام سے تیار کیا۔ 1953ء تک اوون کی قیمت تین ہزار ڈالر تھی اور یہ بڑے ریستورانوں اور بحری جہازوں میں استعمال ہوتا تھا۔ٹائپ رائٹر ٹائپ رائٹرمیں 1869ء میں امریکہ میں ایجادہوا۔ ٹائپ رائٹر کی ایجاد کا سہرا امریکہ کے دو افراد کے سر ہے۔ ایک Christopher Latham Sholes اور دوسرا Samuel W. Souléتھا جس نے پریکٹیکل ٹائپ رائٹر مشین شاپ میں بنا ئی تھی۔ Christopher Latham Sholes کے بنائے بورڈ پر انگلش کے حروف تہجی A-Z ترتیب دیے گئے تھے۔مگر اس ترتیب میں مسئلہ یہ تھاکہ ABCکی ترتیب سے اس کی کیز آپس میں اٹک جاتی تھیں۔اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ٹائپسٹ آہستہ آہستہ ٹائپ کرتا تھا۔مسٹر شولز نے اپنے ایک عزیز کو کی بورڈ دوبارہ ترتیب دینے کے لیے کہا۔یوں کہ حروف تہجی ایک دوسرے سے زیادہ قریب نہ ہوں۔نئی ترتیب میں حروف تہجی یوں بنتے ہیں QWERTYیہی ترتیب اب کمپیوٹرز میں بھی استعمال ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ لوگوں نے ٹا ئپ رائٹر کی مقبولیت کے پیش نظر ان حروف کی ترتیب ذہن نشین کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ مشہور امریکی مصنف اور ادیب مارک ٹوئین نے 1874ء میں ٹائپ رائٹر خریدا تھا۔ آرک ویلڈنگ امریکی پر وفیسر تھامپسن فلاڈلفیا شہر کے شہرہ آفاق فرینکلن انسٹی ٹیوٹ میں بجلی پر لیکچر دے رہا تھا۔لیکچر کے دوران ڈیمانسٹریشن کے دوران اس نے غلطی سے دوتاروں کو آپس میں ملایا تو وہ آپس میں جڑ گئیں۔ تھامپسن کے خیال میں ان تاروں کو جڑنا نہیں چاہیے تھا۔ اس نے ان کو الگ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ہوا یہ کہ بجلی کی وجہ سے حرارت پیدا ہوئی تھی اور یہ تاریں ویلڈ ہو گئی تھیں۔ تھامپسن نے یوں اتفاقی طور پر آرک ویلڈنگ کا نیا طریقہ دریافت کر لیا تھا۔انسولین 1923ء میں Frederick Banting اورJohn Macleod کو ذیا بیطس کے علاج کیلئے انسولین کی دریافت پر نوبیل انعام دیا گیا۔ لبلبے اور انسولین میں تعلق انہوں نے یورپ کے سائنسدانوں کے تعاون سے معلوم کیا تھا۔جرمن فزیشن Joseph von Mering اورOskar Minkowskiنے ایک صحت مند کتے کے جسم سے لبلبے کو الگ کیا تا کہ نظام ہضم میں اس کے کردار کا پتہ لگا یا جاسکے۔ لبلبہ الگ کرنے کے کئی روز بعد سائنسدانوںنے دیکھا کہ کتے کے پیشاب کے اوپر مکھیاں اڑ رہی تھیں۔ پیشاب کا ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں شو گر تھی جو ذیابیطس کی نشانی ہے۔ انہوں نے مزید ٹیسٹ کیے تو پتہ چلا کہ لبلبہ ایک چیز پیدا کرتا ہے جو انسانی جسم کے اندر شوگر کو کنٹرول کرتی ہے۔اس کے بعدکئی سائنسدانوں نے انسولین جو لبلبے سے پیدا ہوتی ہے الگ کرنے کی کوشش کی۔ آخر کار کینیڈین پروفیسر Banting اور Macleod نے پتہ لگا لیا کہ لبلبے سے پیدا ہونے والا مادہ انسولین ہے۔ ہیضہ ویکسین فرانس کا مشہور سا ئنسدان لوئی پا سچر انیسویں صدی کا معروف ترین انسان تسلیم کیا جاتا ہے۔1880ء میں اس نے فرانس کی چکن انڈسٹری کومرغیوں کے ہیضہ سے محفوظ کر لیا۔ پا سچر نے اس جراثیم کو لیبارٹری میں خود پیدا کیا جس سے ہیضہ کی بیماری ہوتی تھی۔اس نے یہ جراثیم ایک بوتل میں محفوظ کر لیے۔ ایک روز اس نے یہ جراثیم چند مرغیوں کو کھلا دیے۔ اس کا خیال تھا کہ بیمار ہو کرمر جائیں گی مگر ہوا یہ کہ مرغیاں کچھ عرصے بعد صحت یاب ہو گئیں۔اس طرح پاسچر نے محض اتفاقی طور پر یہ حقیقت دریافت کر لی کہ پرانے جراثیم دراصل اپنی ہیئت بدل چکے تھے اوران سے بیماری پید ا نہ ہوتی تھی۔پا سچر نے جلد ہی اس بات کا اندازہ لگا لیا کہ وہ بیکٹیریا جو انسانوں کو متاثر کرتا ہے اس کا اثر بھی ویسا ہی ہوگا؛ چنانچہ1881ء میں اس نے ہیضہ کی ویکسین تیار کر لی جس سے لاکھوں انسانوں کو فائدہ پہنچا۔کو نین بیماریوں کے علاج میں کونین یعنی سنکونا درخت کی چھال کے جوہر نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔اس دوا سے ملیریا بخار کا علاج کیا جاتا ہے جو مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔کہتے ہیں کونین کی دریافت1600ء کے لگ بھگ محض اتفاقی طور پر ہوئی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں ایک ہسپانوی سپاہی کو ملیریا کا سخت بخار ہوگیا اور اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔اس نے قریبی تالاب کا پانی پی لیا جس سے بخاراتر گیا۔ تالاب کے پانی کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہواکہ اس میں کڑواہٹ کی وجہ ایک درخت کی چھال تھی جو تالاب کے کنارے پر تھا۔اس سپا ہی نے محض حادثاتی طور پر یہ بات دریافت کر لی کہ سنکونادرخت کی چھال سے ملیریا کا علاج کیا جاسکتا ہے۔اس درخت کی چھال سے پاؤڈر بنا کر اس کی گولیاں تیار کی جانے لگیںجو ملیریا کا مؤثر علاج ہے۔ 

ذیابیطس ایشیائی باشندوں کیلئے زیادہ خطرہ کیوں ہے؟

ذیابیطس ایشیائی باشندوں کیلئے زیادہ خطرہ کیوں ہے؟

''دی لانسیٹ‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک تازہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 82 کروڑ بالغ افراد ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہیں۔ 1990 ء سے 2022ء کے دوران دنیا بھر 63 کروڑ افراد اس مرض کا شکار ہوئے۔جنوبی ایشیاکے لوگوں میں ذیابیطس کا امکان یورپی باشندوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے اور ان میں یہ بیماری یورپی باشندوں کی نسبت 10 سال پہلے ظاہر ہو سکتی ہے۔ ''نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اس کا ایک سبب موروثیت کو قرار دیا گیا ہے۔علاوہ ازیںپراسیس شدہ گوشت کا زیادہ استعمال ‘ فضائی آلودگی میں موجود PM2.5 ذرات بھی ذیابیطس کے خطرے میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔دنیا میں ذیابیطس کے شکار ملکوں میں سے چار ایشیا میںہیں۔ بھارت میں ذیابیطس کے21 کروڑ 20 لاکھ مریض ہیں‘ چین میں 14کروڑ، پاکستان میں تین کروڑ 30 لاکھ اور جاپان میں ایک کروڑ 10 مریض موجود ہیں۔ جزیرہ نارو میں دنیا میں سب سے زیادہ ذیابیطس کے مریض ہیں۔ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیائی باشندوں کے خون میں شوگر کی سطح نسبتاً بلند رہتی ہے جس کے نتیجے میں دل، گردے اور جگر کے امراض پیدا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ٹائپ ون ذیابیطس انسانی جسم میں موجود بیٹا سیلز پر حملہ کرتی ہے جس سے جسم میں انسولین کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس کے سبب شوگر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ذیابیطس کے کل کیسز میں سے تقریباً 96 فیصد ٹائپ ٹو ذیابیطس کے کیسز ہوتے ہیں۔ غیر صحت مندانہ خوراک، موٹاپا اور بڑھتی عمر کے ساتھ اس مرض کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ تاہم جینیات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جرمن ویب سائٹ ڈی ڈبلیو نے اپنی ایک رپورٹ میںامریکی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کی کلینیکل سائنسدان الکا کنایا کے حوالے سے بتایا تھا کہ جینیاتی عوامل کے باعث جنوبی ایشیائی افراد میں ذیابیطس کی بیماری کا آغاز تیزی سے ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص پری ڈائبیٹک (جب بلڈ شوگر بہت زیادہ ہو لیکن ذیابیطس کے رینج میں نہیں) ہو تو وہ جلدی ذیابیطس کا شکار ہو سکتا ہے۔ نتیجتاً ایسے افراد کے پاس اس مرض کے شروع ہونے سے پہلے اسے روکنے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔سائنسی جریدے ''نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جینیاتی عوامل کی وجہ سے جنوبی ایشیائی افراد یورپی ممالک کے افراد کے مقابلے میں جلد ذیابیطس کا شکار ہو جاتے ہیں۔جنوبی ایشیائی افراد میں کچھ خاص جینیاتی خصوصیات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے چربی جسم کے ان حصوں میں جمع ہو جاتی ہے جو ان کی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر رانوں یا بازوؤں کے گرد، جگر اور اندرونی اعضا کے قریب ۔ ان عوامل کے باعث ان افراد کے لیے ٹائپ ٹو ذیابیطس کی دوا بھی بہت زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔طبی ماہرین کے مطابق اگرچہ جینیاتی خصوصیات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن طرز زندگی میں معمولی تبدیلیوں کے ذریعے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے فضا میں موجود پی ایم 2.5 کے آلودہ ذرات ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے نصف کیسز میں موٹاپا ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ مقدار میں پراسیسڈ گوشت ( جس میں نمک، چکنائی اور دیگر مضر اجزاشامل ہوں) کا استعمال بھی ذیابیطس کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے 2006ء میں خبر دار کیا تھا کہ آئندہ بیس سالوں میں ایشیا میں ذیابیطس کے کیس 90 فیصد تک بڑھ جائیں گے اور یہ بیماری اور اس سے ہونے والے مسائل اکیسویں صدی میں صحت کے حوالے سے سب سے بڑا بحران کھڑا کریں گے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

پہلا نوبیل انعام10دسمبر 1901ء کو سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں پہلی دفعہ 5کیٹیگریز میں نوبیل ایوارڈ دیا گیا۔سائنس دانوں ولہیلم رونٹگین، جیکبس وان ٹی ہوف اور جرمن مائیکرو بیالوجسٹ ایمیل وان بیہرنگ، ادبیات میں فرانسیسی شاعر سلی پرڈ ہوم، ریڈ کراس کے بانی سویڈش ہنری ڈونانٹ اور امن لیگ کے بانی فرانسز فریڈرک پیسی نے ایوارڈ حاصل کیا۔ نوبیل انعامات کی مالی اعانت اس فنڈ سے کی جاتی ہے جو بارود اور دیگر اعلیٰ دھماکہ خیز مواد کے سویڈش موجد الفریڈ نوبیل کی موت کے بعد بنایا گیا تھا۔ اپنی وصیت میں نوبیل نے ہدایت کی تھی کہ اس کی دولت کا بڑا حصہ ایک فنڈ میں رکھا جائے اور اس رقم پر حاصل ہونے والے انٹرسٹ سے سالانہ انعامات کی شکل میں ان لوگوں میں تقسیم کیا جائے جنہوں نے پچھلے سال کے دوران بنی نوع انسان کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا ہو۔ پیرس معاہدہریاستہائے متحدہ امریکہ اور سلطنت سپین کے درمیان10دسمبر1898ء کو ایک امن معاہدہ طے پایا، جسے1898ء کا پیرس معاہدہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس معاہدے کے مطابق امریکہ اور ہسپانیہ کی جنگ کا اختتام ہوا۔معاہدے کے مطابق سپین نے خودمختاری کے تمام دعوے ترک کر دئیے اور ان علاقوں سے دستبردار ہو گیا جن پر قبضے کا دعویٰ کر رہا تھا۔دستبردار ہونے والے جزائر میں پورٹوریکو اور دیر علاقے شامل تھے جو اب ویسٹ انڈیز میں سپین کے زیر انتظام موجو د ہیں۔ ماریاناس یا لاڈرونس میں گوام کے جزیرے، جزیرہ نما کے طور پر جانا جاتا ہے۔ معاہدے کی توثیق کے دستاویزات کا 11 اپریل 1899ء کو تبادلہ ہوا۔جنوبی افریقی آئین1996ء میں آج کے روز جنوبی افریقہ کے صدر نے ملک کے نئے آئین کی منظوری دی۔ جس کے تحت وہاں سفید فام لوگوں کی اجاراداری ختم ہوئی۔ یہ آئین جنوبی افریقہ کا سپریم قانون ہے جو جمہوریت کے وجود کیلئے قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔اسے صدر نیلسن منڈیلا نے 18 دسمبر 1996 کو نافذ کیا۔ یہ اپنے شہریوں کے حقوق اور فرائض کا تعین کرتا ہے، اور حکومت کے ڈھانچے کی وضاحت کرتا ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی قانون 10 دسمبر 1949ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے عالمی منشورکی توثیق کی۔ اسے عالمی سطح پر انسانی حقوق کا پہلا اعلان تعبیر کیا جاتا اور اقوامِ متحدہ کی ابتدائی بڑی کامیابیوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔عموماً اس دن اعلیٰ سطحی سیاسی کانفرنسوں اور جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور تقریبات کے ذریعے انسانی حقوق سے متعلقہ مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر 10 دسمبر ہی کو انسانی حقوق کے میدان میں اقوامِ متحدہ کا انعام اور نوبل امن انعام بھی دیا جاتا ہے۔ 

بائیو فیول، کیا فوسل فیول کا متبادل بن سکتا ہے ؟

بائیو فیول، کیا فوسل فیول کا متبادل بن سکتا ہے ؟

کسی بھی حیاتیاتی مادے سے بنائے گئے ایندھن کو '' بائیو ڈیزل‘‘ بائیو فیول یا حیاتیاتی ایندھن کہا جاتا ہے۔آسان الفاظ میں حیاتیاتی ایندھن کی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ لکڑی ،حیاتیاتی ایندھن کی ابتدائی شکل تھی۔ جبکہ معدنی طور پر حاصل کئے گئے ایندھن ، جیسے تیل ، گیس اور کوئلے کو معدنی ایندھن یا " فوسل فیول " کہا جاتا ہے۔ بائیو فیول کیا ہے ؟ بائیو فیول ، فوسل فیول یعنی پٹرول اور اس سے متعلق توانائی کے دیگر ذرائع کا سب سے اہم متبادل ہے۔چقندر ، گندم ، مکئی ، جوار ، گنا اور جانوروں کی چربی وغیرہ بائیو فیول کے بڑے خام مال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ توانائی کا یہ ذریعہ عام طور پر ڈیزل کے متبادل یا ڈیزل کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عمومی طور پر نقل و حمل کے شعبوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی یہ مختلف گھریلو آلات میں استعمال ہوتا ہے۔ ایندھن کا یہ ذریعہ ماحول دوست اسلئے کہلاتا ہے کہ یہ گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔اسکے علاوہ زمین سے نکلنے والا ایندھن اب بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بائیو ایندھن کا استعمال اب رفتہ رفتہ دنیا بھر میں بڑھ رہا ہے۔بلکہ اب تو ہوائی جہازوں میں بھی بائیو فیول کے استعمال کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ فوسل فیول کی حوصلہ شکنی بلکہ ممکنہ حد تک اس سے جان چھڑانے کی عالمی تحریک زور پکڑتی جارہی ہے۔ فوسل فیول سے جان چھڑانا کیوں ضروری ؟ آخر اسکی وجہ کیا وجہ ہے ؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے گھر کی بنیادی استعمال کی مشینری جو بجلی سے چلتی ہے اور وہ سواری جو ہمیں گھر سے کوسوں دور تک لے کر جاتی ہے اور وہ مکان اور بلند و بالا عمارتیں جہاں ہمارے دن کا بیشتر وقت گزرتا ہے وہ سب اسٹیل اور سیمنٹ بنانے کے اس صنعتی عمل ہی سے تو ہو گزرے ہیں ، جن میں تیل ، کوئلے اور گیس کے استعمال کا بنیادی کردار رہا ہوتا ہے۔ جبکہ یہی تین بنیادی عناصر جو فوسل فیول کہلاتے ہیں ہماری 80 فیصد توانائی کا بنیادی ماحصل ہیں۔ لیکن ان کے بڑھتے استعمال نے دنیا کے ماحولیاتی نظام کو یوں غیر مستحکم کر ڈالا ہے کہ فوسل فیول کے جلنے سے خارج ہونے والی گرین ہاوس گیسیں کرہ ارض کے درجہء￿ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انفرادی کاوشوں سے قطع نظر گزشتہ کئی سالوں سے اب عالمی برادری ہر سال نومبر میں باقاعدگی سے کسی ایک ملک میں اس عزم کی تجدید کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوتی ہے کہ ، جس قدر جلد ممکن ہو فوسل فیول سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ رواں سال بھی نومبر میں یہ اجلاس ، جسے ''کوپ 29‘‘ کہا گیا تھا آذر بائیجان کے شہر باکو میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں مشترکہ طور پر ایک مرتبہ پھر اس امر کا اعادہ کیا گیا ہے کہ ، 2035 تک ترقی پذیر ممالک کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کیلئے 300ارب ڈالرز جمع کر کے موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والے چیلنجز سے نمٹنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں ۔ دوسری جانب دنیا بھر کے سائنس دان ''معاہدہ پیرس‘‘ پر عمل کی سست روی پر فکر مند ہیں ،جس کے مطابق عالمی برادری کو 2030ء تک فوسل فیول کے استعمال میں 43 فیصد تک کمی لانا ہے۔ جس سے کرہ ارض کے درجہ حرارت کے اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے ہدف کے عمل کو یقینی بنانا ہے۔ فوسل فیول سے چھٹکارا کس حد تک ممکن ؟ایک کینیڈین سائنس دان ، واسلو سمیل کے بقول ''ہمارا معاشرہ فوسل فیول سے بنا ایک معاشرہ ہے‘‘۔فوسل فیول کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی میں اس حد تک رچ بس گیا ہے کہ میرے خیال کے مطابق اس سے جلدی چھٹکارا ممکن نظر نہیں آتا ‘‘۔ اپنے اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے سمیل کہتے ہیں کہ جس ایندھن سے آپ چھٹکارا حاصل کرنے کا سوچ رہے ہیں اسی ایندھن سے سالانہ ایک ارب ٹن سٹیل ، چار ارب ٹن سیمنٹ اور چار ارب ٹن مائع ایندھن بنتا ہے۔ذرہ ایک لمحہ کے لئے چشم تصور سے سوچئے کہ یہ سب کچھ کس حد تک اور کیسے ممکن ہے ؟۔آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔ ساتھ ہی یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ فوسل فیول ہماری زندگیوں میں داخل کیسے ہوا ؟ 19ویں صدی میں کوئلے ،تیل اور گیس کے استعمال سے صنعتی انقلاب آیا تو معاشی پیداوار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔تبدیلی کا عمل یہیں سے شروع ہوا جب گھوڑوں کی جگہ سٹیم انجن اور پھر اس کی جگہ فیول انجن نے لے لی۔وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کا استعمال بڑھتا چلا گیا۔سائنس دان توانائی کی بڑھتی ضروریات کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شکار کرنے والے ہمارے آباو اجداد سالانہ 10 گیگا جولز توانائی استعمال کرتے تھے جبکہ اب ایک اکیلا امریکی اس سے 50 گنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار کو اور آبادی کے پہاڑ کو ذہن میں لائیے اور انصاف سے بتائیے کہ انرجی کے اس سمندر کو سمیٹنا کس حد تک ممکن ہے ؟۔ ہمیں حقیقت پسندی سے سوچتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چائیے کہ اس وقت بھی عالمی طور پر 50 فیصد بجلی تیل ، گیس اور کوئلے سے بنائی جا رہی ہے جبکہ بجلی، توانائی کے عالمی استعمال کا صرف پانچ فیصد ہے۔ سولر اور ونڈ کا عالمی سپلائی میں محض دو فیصد حصہ ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فوسل فیول کے بڑھتے استعمال کی قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقلی نہ ہونے کی بڑی وجہ دنیا کے پاور سٹیشن ،سٹیل ورکس، سیمنٹ پلانٹ ، فرٹیلائزر پلانٹ ، گلاس فیکٹریوں کے علاوہ گاڑیوں اور جہازوں پر انحصار میں اضافہ ہے۔فوسل فیول کے استعمال کے خلاف بلاشبہ ہمارے پاس بہت مضبوط اور مدلل جواز تو موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ ان عملی اقدامات کو بروئے کار لانے کا ہے، جن کیلئے جدید ٹیکنالوجی، مالی وسائل کا دستیاب ہونا اور توانائی منتقلی کے مربوط نظام کا فعال ہونا ہے۔اس سے بڑھ کر تیل پیدا کرنے والے ممالک کی آمادگی کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا جن کی معیشت کا دارومدار ہی تیل پر ہے۔اگرچہ اس وقت بھی عالمی طور پر توانائی کی 80 فیصد ضروریات فوسل فیول ہی کے ذریعے پوری کی جارہی ہیں لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی دوڑ میں قابل تجدید توانائی ذرائع کا استعمال بھی متواتر بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی شمسی توانائی کی قیمتیں عالمی منڈی میں تیزی سے نیچے آ رہی ہیں۔ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ عشرے کے مقابلے میں اس عشرے کے دوران شمسی توانائی کی قیمتیں 90 فیصد جبکہ ونڈ پاور ٹربائن سے حاصل کردہ توانائی کی قیمتوں میں 70 فیصد کے قریب کمی نوٹ کی گئی ہے۔ سروے رپورٹس''انٹرنیشنل انرجی ایجنسی‘‘ ( IEA ) کی رپورٹ کے مطابق 2030ء تک توانائی کی عالمی سپلائی میں فوسل فیول کا حصہ 80 فیصد سے کم ہو کر 73 فیصد تک آجائے گا۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے ایک سروے کے مطابق دنیا کی 63 بڑی معاشی طاقتیں ، عالمی سطح پر ہونے والی مضر صحت گیسوں کے 90 فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں جبکہ ان میں سے کوئی بھی ملک موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کیلئے اپنا کردار اد نہیں کررہا۔ اسی رپورٹ میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی تھی کہ ، فوسل فیول سے مرحلہ وار چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بڑی معیشتوں کے حامل ممالک کو کلیدی کردار ادا کر کے اس کارخیر میں حصہ ڈالنا ہو گا ورنہ فوسل فیول سے چھٹکارا ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔  

2عظیم مسلم سائنسدان حکیم یحییٰ منصور  اور حجاج بن یوسف مَطر

2عظیم مسلم سائنسدان حکیم یحییٰ منصور اور حجاج بن یوسف مَطر

حکیم یحییٰ منصور ہیئت داں اور منجم تھا اور دربار میں اسی حیثیت سے وہ باریاب ہوا۔حکیم یحییٰ منصور صدگاہ شماسہ کا منتظم تھا۔ مامون الرشید کے دور میں دو رصد گاہیں تعمیر ہوئیں۔ شماسہ کی رصد گاہ اور ملک شام میں دمشق کی رصد گاہ اور ایک ماہرین کی جماعت تحقیق کے کاموں پر مقرر کر دی گئی تھیں۔ حکیم یحییٰ منصور اس جماعت کا صدر اور منتظم تھا۔ چند نئی نئی دریافتیں ہوئیں، اور قدر دانوں نے اس کی قدر کی۔ابتدائی زندگی تعلیم و تربیتمامون الرشید کے دربار میں اسے یہی حیثیت حاصل تھی۔ حکیم یحییٰ منصور ایک پڑھے لکھے خاندان کا چشم و چراغ تھا اس کے والد علم ہیئت کے ماہر تھے، علم منجم کا تعلق علم ہیئت سے ہے، اس لئے ہیئت داں نجومی بھی ہوتا ہے۔ اس دور میں بھی عوام کو حلم نجوم سے بڑی دلچسپی تھی۔ عوام چاند تاروں کے اثرات کے قائل تھے۔اس دور میں عام لوگ یہ سمجھتے تھے کہ دنیا میں جو کچھ واقعات پیش آتے ہیں، سب چاند ستاروں کے اثرات کے تحت عمل میں آتے ہیں۔ نجومی چاند تاروں کو دیکھ کر آئندہ پیش آنے والی باتیں بتا دیتے تھے۔ اس علم کو علم نجوم، علم جوتش یا انگریزی میں (Astrology) کہتے ہیں۔اس دور میں لوگ اس علم نجوم کو بڑے شوق سے سیکھتے تھے۔حکیم یحییٰ منصور نے علم نجوم میں کمال پیدا کیا چونکہ اپنے فن کا ماہر تھا، دربار میں عزت کی جگہ مل گئی۔ مامامون الرشید بہت مانتا تھا۔علمی خدمات اور کارنامےسائنس کی دنیا میں مامون الرشید کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے ایک عظیم رصد گاہ بغداد میں شماسہ کے مقام پر تعمیر کرائی اور دوسری رسد گاہ ملک شام میں دمشق کے قریب قاسیون کے بلند اور سطح میدان میں تعمیر کرائی۔اس تعمیر میں باکمال ہیئت دانوں کی ایک جماعت مقرر تھی جو سب نگرانی کرتے تھے ان میں حکیم یحییٰ منصور بھی تھا۔ بغداد کی رسدگاہ دو برس میں کام کرنے لگی، ہر قسم کے آلات مثلاً اصطرلاب وغیرہ نصب تھے۔ ماہرین کی جماعت میں حکیم یحییٰ منصوربھی تھا۔قاسیون (دمشق) کی رسد گاہ جب تیار ہو گئی تو حکیم یحییٰ منصور کا تقرر صدر کی حیثیت سے وہاں ہو گیا۔ حکیم یحییٰ منصور اور ماہرین کی جماعت نے وہاں فلکیاں کا مطالعہ اور مشاہدہ شروع کردیا۔حکیم یحییٰ منصور نے چاند اور بعض دیگر سیاروں کے متعلق چند نئی نئی دریافتیں کیں، ستاروں کے متعلق زیچ سب سے پہلے تیار کی۔ جس کا نام زیچ مامونی رکھا۔ یہ زیچ فلکیات سے متًعلق پہلی کتاب ہے۔حکیم یحییٰ منصور علم ریاضی کا بھی ماہر تھا، اس نے علم ہندسہ میں کئی نئے اصول مرتب کئے۔ بیت الحکمۃ( سائنس اکاڈیمی) کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ یحییٰ منصور بیت الحکمۃ بھی معزز ممبر تھا۔حجاج بن یوسف بن مطرحجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ میں کمال رکھتا تھا۔ اس نے دو بڑے کام کئے۔ مقدمات اقلیدس کے نام سے ایک جامع کتاب علم ریاضی میں مرتب کی۔ دوسرا کام اس کا قدیم دور کی مشہور کتاب المجسطی کو اصلاح اور نظرثانی کے بعد (ایڈٹ کرکے) مرتب کیا۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتحجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ کا ماہر تھا۔ اس فن میں اس نے کمال پیدا کیا۔ حجاج بن یوسف دیہات کا باشندہ تھا، والدین تو کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن حجاج نے اپنے شوق اور اپنی محنت سے اچھی تعلیم حاصل کی، پھر دیہات کے تنگ دائرے سے نکل کر 786ء میں بغداد آ گیا اور یہیں بس گیا۔حجاج نے بغداد کے علمی ماحول سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور بغداد کی علمی صحبتوں سے مستفید ہو کر اپنی قابلیت اور استعداد میں اچھا اضافہ کر لیا۔ حجاج نے ہارون الرشید اور مامون الرشید دونوں کا روشن دور دیکھا تھا، مگر وہ خاموش علمی کام کرتا رہا۔علمی خدمات اور کارنامے:حجاج ایک بلند پایہ ریاضی دان تھا۔ اس نے دو بنیادی کام کئے، ایک تو علم ہندسہ یعنی جو میٹری کا کام تھا اور دوسرا علم ہیئت سے متعلق تھا۔ اس نے ان دونوں علوم کو نئے ڈھنگ سے فروغ دیا۔ جومیٹری میں اس نے نئے نئے انکشاف کئے اور اپنا ایک حلقہ بنا لیا۔ اس وقت علم ہندسہ میں اس کا کوئی ہمسر نہ تھا۔علم ہندسہ میں ایک جامع کتاب ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے اس ریاضی دان نے مرتب کی۔ یہ ریاضی دانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔دوسرا کارنامہ اس کا علم ہیئت سے متعلق ہے۔ قدیم زمانے کی مشہور کتاب '' المحسبعیٰ‘‘ کو اصلاح اور تصحیح کے ساتھ نئی ترتیب سے اس نے مرتب کیا اور اس علم کو نئے انداز سے فروغ دیا۔ اہل یورپ نے حجاج کی دونوں کتابوں سے فائدہ اٹھایا۔   

’’ فائبر‘‘ کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں

’’ فائبر‘‘ کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں

فائبر یا ریشہ دار غذائیں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جس سے انسان نہ صرف بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ اس کے جسم کی بڑھوتری کیلئے بھی یہ ضروری ہوتی ہیں ۔ مختلف کھیلوں سے وابستہ ایتھلیٹس کیلئے فائبر کا استعمال تو لازمی ہے ، اس کے بغیر ان کے ریفلیکسزکی حرکات میں وہ پھرتی نہیں رہتی جو کہ ہونی چاہیے ۔فائبر کیا ہے ؟ فائبر کا نام آتے ہی ایک عام انسان کے ذہن میں خیا ل آتا ہے کہ آخر یہ ہے کیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک کاربوہائیڈریٹ کی قسم ہے جو جسم کو توانائی بہم پہنچاتی ہے ۔ اگرچہ جسم فائبر کو بطور ایندھن کافی مقدار میں استعمال نہیں کرتا لیکن یہ جسم کو صحت مند رکھنے کیلئے اہم کردار ادا کرتا ہے ۔فائبر کن غذائوں میں پایا جاتا ہے فائبر پھلوں، سبزیوں، پھلیوں اور اناج میں پایا جاتاہے ۔ دور جدید میں کئی غذائوں سے فائبر کو جدا کردیا جاتا ہے اور اس کا مقصد اس خوراک تادیر محفوظ رکھ کر اس کا استعمال بڑھانا ہے جبکہ فائبر کی موجودگی میں وہ غذا زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہ سکتی۔ آٹے سے فائبر کو نکال کر اسے میدہ بنادیا جاتا ، اب ہم اپنی آنے والی نسل کو میدہ کھلا کر جوان کررہے ہیں اور انہیں مختلف بیماریوں کی طرف دکھیل رہے ہیں ۔ بعض اوقات جوس بناتے وقت ہم فائبر کو ضائع کردیتے ہیں اور صرف اس کا پانی نکال لیتے ہیں پھل کو ویسے ہی کھانا زیادہ بہتر ہے۔ فائبر کن بیماریوں کو روکتا ہے فائبر کا استعمال بہت سی بیماریوں کو روکتا ہے ۔جن میں سب سے پہلے دل کی بیماری آتی ہے کیونکہ فائبر آپ کا کولیسٹرول لیول کم کرتا ہے ۔ زیادہ وزن والوں کیلئے بھی خوشخبری ہے کہ وہ ریشہ دار غذائوں کا استعمال بڑھا دیں کیونکہ فائبر کی موجودگی غذا کی رفتار کو آہستہ کردیتی ہے اورمعدہ میں نظام انہضام کو آرام دیتی ہے ۔ اس سے ہمیں بھوک بھی دیر سے لگتی ہے ۔ فائبر سے بھرپور غذائوں میں کیلوریز کی تعداد بھی کم ہوتی ہے۔ فائبر کا استعمال ذیابیطس سے بھی روکتا ہے کیونکہ یہ خون میں بلڈ شوگر کی مقدار کو کم کرتاہے۔ فائبر نظام انہضام کو بہتر کرکے خوراک کو جزو بدن بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ روزانہ فائبر کی کتنی مقدار کھانی چاہیے ؟ویسے تو ہر شخص کی توانائی کی ضروریات کے مطابق فائبر کی مقدار مختلف ہوسکتی ہے اور ہر شخص کو اپنے نیوٹریشنسٹ سے مشورے کے بعد اس کا استعمال کرنا چاہیے ، خصوصا جب وہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتو مشورے کے بعد ہی استعمال بہتر ہوتا ہے ۔ لیکن ماہرین غذایت نے ایک نارمل شخص کیلئے ایک دن میں فائبر کی مقدار38 گرام مقرر کی ہے جبکہ ایک خاتون کیلئے یہ مقدار 25گرام مقرر کی ہے ۔ فائبر کی مقدار بڑھانے کا طریقہویسے تو پھلیوں اور اناج میں پھلوں اور سبزیوں کی نسبت زیادہ فائبر ہوتا ہے لیکن کچھ طریقے ایسے بھی ہیں کہ کچھ مکسچر بناکر آپ فائبرکی مقدار کو بڑھا سکتے ہیں جیسے پھلیوں کو سلاد یا سوپ کے ساتھ مکس کرکے کھانے سے فائبر کی مقدار بڑھ جاتی ہے ۔ دلیہ کو فروٹس جیسے بلوبیریز کے ساتھ کھانے سے بھی ریشہ دار غذا میں اضافہ ہوجاتا ہے اور آپ اپنے آپ کو صحت مند محسوس کرتے ہیں ۔ اس طرح کے مکسچر کھلاڑیوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوتے ہیں ۔ صبح کا ناشتہ فائبر سے بھرپور کرنے کے بعد جب کوئی کھلاڑی میدان میں اترتا ہے تو اس دن اس کی کارکردی دیکھنے والی ہوتی ہے ، وہ کھلاڑی چاہے لان ٹینس کا ہو تیراکی کا ہو یا فٹبال کا ہو تھکاوٹ محسوس نہیں کرے گا۔