یادرفتگاں: سہیل اصغر ایک بڑا فنکار

یادرفتگاں: سہیل اصغر ایک بڑا فنکار

اسپیشل فیچر

تحریر : اشفاق حسین


سہیل اصغر کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا تھا جو رائٹر کے لکھے سکرپٹ کے کردار میں رنگ بھرنے کیلئے اپنے پاس سے جو جزئیات شامل کرتے تھے ان کوششوں سے وہ کردار مزید نکھر جایا کرتا تھا۔15جون 1954ء کو ملتان میں پیدا ہونے والے سہیل اصغر 13نومبر 2021ء کواس دنیا سے رخصت ہوئے، آج ان کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے۔ انہیں بچھڑے تین سال بیت چکے ہیں مگر اپنے کرداروں کی بدولت وہ آج بھی زندہ ہیں۔ ان کے بولے ہوئے ڈائیلاگ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتے ہیں۔ خصوصاً ان کا ڈرامہ ''خواہش‘‘ کا ڈائیلاگ ''ایک روپا، ایک روپا‘‘ آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔
ایک روپے کے عوض لوگوں کوسرکس دکھانے والا یہ باصلاحیت فنکار اب کسی نئے رول میں نظر نہیں آ ئے گامگر جو کام وہ کر گیا اسے بھلانا کسی طور ممکن نہیں۔سہیل اصغر کے والدین توانہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن وہ بن فنکار گئے۔ایم اے انگریزی کرنا شروع کیا تو اس کے چار پیپرز کلیئر ہوگئے، 3 رہ گئے تھے۔ پھر ریڈیو میں آکر جب پیسے ملنا شروع ہوئے تو اِسی شعبے میں آگے بڑھتے چلے گئے۔
وہ کہا کرتے تھے ''میں نے 76ء میں ریڈیو پاکستان سے آغاز کیا۔ ساتھ ہی ساتھ تھیٹر کرتا تھا پھر 79ء میں مجھے ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل گئی تھی، پھر میں کزنز کے ساتھ مل کر بزنس کی طرف چلا گیا۔ دو تین برس اس میں لگے۔ اس کے بعد آخر میں مکمل طور پر ڈراموں ہی کی طرف آ گیا۔ 1988ء تک ملتان میں ریڈیو جوکی کے طور پر کام کرتے رہا‘‘۔
والدین نے اس شعبے میں آنے پر ان کی قطعی مخالفت نہیں کی ۔کہتے تھے، ''جب میرا ریڈیو پر پہلا پروگرام آن ایئر ہوا تو میرے والد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے تھے، وہ بہت آرٹسٹک ذہن کے آدمی تھے۔ وہ تو بلیک اینڈ وائٹ تصاویر پر کلر بھی خود ہی کرلیتے تھے‘‘
اس بعد سہیل اصغر نے تھیٹر کے ڈراموں میں اداکاری شروع کردی۔ ''تھیٹر کی طرف لانے والوں میں اپنے دوست شوکت کانام لینا چاہوں گا۔ میرا اس طرف آنے کا ارادہ نہیں تھا، میں تو ایم اے کی کلاسز لیتا تھا۔ شام کو ہم ساتھ بیٹھتے تھے ایک دِن اُس نے میرا راستہ روک لیا اور کہا کہ تم تھیٹر میں چل کر کام کرو۔ایک دِن تھیٹر پر کام کیا تو لوگوں کی داد ملنا شروع ہوگئی پھر میرا دِل بڑا ہوگیا۔ پھر اطہر شاہ خان جیدی کے بے شمار ڈرامے کئے، لوگوں نے بہت داد دی، میرے کام کو کافی سراہا گیا۔ میں نے ملتان میں رہتے ہوئے، منور سعید، عابد علی اور فردوس جمال کے ساتھ تھیٹر کیا۔ جب میں ملتان میں تھیٹر کرتا تھا تو لوگ مجھے کہتے تھے کہ یہ ہمارے ملتان کا قوی خان ہے اور یہ میرے لئے بہت فخر کی بات تھی۔ قوی خان اپنے دور کے ہر دوسرے ڈرامے اور فلموں میں چھائے رہے ۔
لاہور منتقل ہونے کی بات یوں بتاتے۔ ''اکثر لوگ کہتے تھے کہ تم لاہور آکر کام کرو لیکن مجھے ڈر لگتا تھا کیونکہ وہاں تو بڑے بڑے اداکار تھے۔ ایک دِن ایسا آیا کہ میں این او سی لے کر لاہور چلا گیا، وہاں مجھے مختلف پروڈیوسرز سے ملوایا گیا۔ مجھے کام ملنا شروع ہوگیا۔ وہیں نصرت ٹھاکر صاحب بھی ریڈیو ڈرامہ کرنے آتے تھے۔ اُن کے ساتھ ایک دو ڈرامے کئے پھر اُنہوں نے مجھے ٹی وی میں بلالیا وہاں میں نے کوئی آڈیشن نہیں دیا اور سیدھا ڈرامہ کرلیا۔ پھر ڈراموں میں کام چلتا چلا گیا۔ ‘‘
سہیل اصغرنے ان گنت ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کی ،وہ نصرت ٹھاکر اور یاور حیات کو اپنا استاد کہتے تھے۔ سرکاری ٹی وی پر وہ ہر دوسرے ڈرامے میں کاسٹ ہوتے تھے۔ ملتان چھوڑ کر لا ہور کے رہائشی بنے ۔ جب رفتہ رفتہ ڈرامہ ا نڈسٹری کراچی شفٹ ہوگئی تو کراچی کے رہائشی بن گئے، یہاں آکر انھوں نے اپنی فیملی کو بھی بلا لیا۔ وہ کہتے تھے! ''فنکار کہیں کا بھی ہو اور کہیں بھی رہتا ہو وہ اپنے فن کی بدولت جانا پہچانا جاتا ہے ‘‘۔سہیل اصغر کے بقول ابتدا میں ان کے سبھی ڈرامے اچھے تھے۔ البتہ ''پیاس‘‘،'' خواہش‘‘،'' چاند گرہن''،'' لاج ‘‘اور ''ملکہ عالیہ‘‘ با کمال ڈرامے تھے ۔جب ''پیاس‘‘ ڈرامہ مقبول ہوا توانہیں فلموں کی آفرز آنا شروع ہوگئی تھیں ۔ ''جنگجو گوریلے‘‘ ان کی پہلی فلم تھی، اس کے بعد ''اسلحہ‘‘ اور چند دیگر فلموں میں بھی کام کیا۔
فلموں ے متعلق وہ کہتے تھے ''میں نے بہت احتیاط سے مگر اچھے اداروں کی فلموں میں کام کرنا شروع کیا لیکن مجھے کافی مایوسی ہوئی کیونکہ جس دور میں ہم فلموں میں آئے وہ دور فلموں کیلئے اچھا نہیں تھا، وہ 90ء کا سلطان راہی کا دور تھا اور تمام فلموں میں ''کھڑاک‘‘ ہوتا تھا جبکہ ہم ریڈیو، ٹیلی ویژن، تھیٹر سے گزر کر آئے تھے، ہم یہی کوشش کرتے رہ گئے کہ فلموں میں حقیقت کا رنگ نظر آئے مگر ایسا نہ ہوسکا پھر اس دور کی فلمیں بھی مرنا شروع ہوگئیں ۔ ‘‘
2012 میں سہیل اصغر کو تمغۂ امتیازکیلئے نامزد کیا گیا لیکن انہوں نے وصول نہیں کیا۔اس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ اگر مجھے یہ اعزاز ملنا تھا تو 1992ء میں ''چاند گرہن‘‘ کے بعد مل جاتا۔ اب میں کسی فٹ پاتھ پر بھی بیٹھ جائوں یا چھوٹے سے لے کر بڑے بڑے ہوٹل تک چلا جائوں ہر جگہ لوگ مجھے اتنا پیار کرتے ہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، میرے لئے سب سے بڑاایوارڈ سرکاری ٹی وی کے تین ایوارڈ ہیں اور تین ایوارڈز بہت کم لوگوں کے پاس ہیں۔‘‘ سہیل اصغر کو1998میں 10 سالہ تقریب میں ' خواہش میں ' ایک روپا، ایک روپا‘‘ والے کردارپر پہلا ایوارڈ ملا تھا۔ دوسرا لاہور اسٹیشن کا ڈرامہ تھا ''کاجل‘‘ اس پر ملا اور تیسرا کراچی میں حیدر امام کا ڈرامہ تھا اس پر دیا گیا۔

چند مقبول ڈرامے
چاند گرھن، آوازیں، منچلے کا سودا،
تیری میری لو سٹوری، آپ کی کنیز،
کیسی ہے دیوانگی، اوڑس پڑوس
خواہش،پیاس، آسمان، آگ
مشہور تکیہ کلام
''صدقے تھیواں، ہم آدمی ہیں ذرا وکھری ٹائپ کے‘‘ (ڈرامہ: آسمان)
''ایک روپا، ایک روپا‘‘ (ڈرامہ:خواہش)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
پستہ قد افراد

پستہ قد افراد

اوسط قد سے چھوٹا قد رکھنے والے افراد کو پستہ قد یا '' بونا‘‘ کہتے ہیں۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق چھوٹے قد کا تعلق کسی علاقے یا خطے کی آب و ہوا یا ماحول، خوراک اور موروثیت (جینز ) سے ہوتا ہے۔ لیکن ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ کچھ علاقوں میں '' کونڈرو پلاسیہ ‘‘ نامی ایک مخصوص بیماری کے باعث بھی لوگوں کے اعضاء اور قد چھوٹے رہ جاتے ہیں۔میڈیکل سائنس کے مطابق ''بونا پن‘‘ کی ایک سو سے زائد وجوہات سامنے آئی ہیں۔ پاکستان کے آئین کے مطابق 4 فٹ 10 انچ سے چھوٹے قد کے تمام بالغ افراد کو معذور تصور کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں انہیں باقاعدہ ایک سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جاتا ہے۔پوری دنیا میں سب سے زیادہ پستہ قد افراد جنوب مشرقی ایشیاء کے جزیرہ نما ملک مشرقی تیمور میں بستے ہیں۔ یہ جزیرہ نما ملک جو 11883 مربع میل رقبے پر مشتمل ہے دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔تیموری مردوں کا اوسط قد 5 فٹ 2.9انچ جبکہ وہاں کی خواتین کا اوسط قد 4 فٹ 11.5انچ ہوتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیاء کے کئی اور ممالک بھی پستہ قد رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں، جن میں فلپائن اور لاوس شامل ہیں۔2010ء کی ایک تحقیق کے مطابق مشرقی تیمور میں بسنے والے افراد دنیا میں سب سے زیادہ پستہ قد افراد ہیں۔1886ء میں یہاں کے باشندوں کا قد 5 فٹ سے زیادہ کبھی نہیں بڑھا تھا۔پھر 20 ویں صدی کے دوران پرتگال اور انڈونیشیاء کے آباد کار اس علاقے میں آئے تو رفتہ رفتہ اس علاقے کے افراد کی شکل و صورت اور قد و قامت میں تبدیلی کے واضح آثار نمودار ہونے لگے۔ یہاں تک کہ 1970ء کی دہائی میں تیموری باشندوں کے اوسط قد 5 فٹ 3 انچ تک دیکھے جانے لگے۔لیکن یہ عرصہ بہت دیر تک قائم نہ رہا۔یہاں خانہ جنگی کی وجہ سے ان کے ارتقا پر ان کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوئے تو ان کے اوسط قد 5 فٹ سے بھی کم ہونا شروع ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جزیرے کے اندر ان کی نقل و حرکت محدود ہو کر رہ گئی تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے تعلقات مختلف نسل کے لوگوں کے ساتھ قائم ہو گئے تھے۔پستہ قد اور بونے کتنے قدیمقدیم مصری ثقافت میں مزاروں اور درو دیوار پر بونوں اور پستہ قد افراد کی کنندہ تصاویر سے ان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں اہل مصر ''بونے خداوں‘‘ کی پوجا بھی کیا کرتے تھے۔ قدیم مصر میں 4500 قبل مسیح میں ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ ادب اور فلسفہ اخلاق میں بونوں اور دیگر معذور افراد کا احترام موجود تھا۔ آج سے کچھ سال پہلے معروف میگزین جنرل نیچر نے انکشاف کیا تھا کہ ، 2004ء میں آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ولونگو نگز کے پروفیسر ون ڈین برگ جو کہ شعبہ آثار قدیمہ سے وابستہ ہیں نے انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں فلوریس نامی ایک غار سے کچھ بونوں کی باقیات دریافت کی تھیں جن کے بارے خیال کیا جا رہا ہے کہ بونوں کی یہ باقیات جو ایک بالغ اور دو بچوں کے جبڑوں پر مشتمل تھیں لگ بھگ سات لاکھ سال قدیم ہیں۔ان شواہد سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ بونے یا پستہ قد افراد انسانی ارتقائی عمل کے ساتھ ساتھ موجود رہے ہیں۔ پستہ قد افراد کو درپیش سماجی مسائل ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ معاشرتی المیہ ہے کہ پورے معاشرے میں اخلاقیات اور عزت و تکریم کے معیارات بدل چکے ہیں۔ ہماری ذہنی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ کسی فرد میں نشوؤنما کی معمولی سی کمی کی وجہ سے معاشرے میں ان کا جینا دوبھر کردیا جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ قد چھوٹا رہ جانے والے بچے یا اس کے والدین کا اس عمل میں کوئی قصور نہیں ہوتا بلکہ یہ سب مشیت ایزدی ہے۔نتیجتاً معمولی سے جسمانی نقص کی وجہ سے ایسے لوگوں کو تحقیر آمیز القابات سے مخاطب کیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ایسے متاثرہ شخص یا اشخاص کا معاشرے میں رہنا محال کر دیا جاتا ہے۔ جس کے سبب بیشتر افراد کو نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے دیکھا گیا ہے۔ حالانکہ ایسے افراد تو معاشرے میں زیادہ توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں۔ '' ہائیٹ ازم‘‘ کا بڑھتا رجحان چھوٹے قد کے باعث معاشرتی طعنہ زنی ، ناروا سلوک اور پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں مشکلات نے ''ہائیٹ ازم‘‘(یعنی قد بڑھانے کے جدید طریقے ) کی اصطلاح کو جنم دیا جس میں آپریشن کے ذریعے قد لمبا کرانے والوں کی دلچسپی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اب دنیا کے ایک درجن سے زیادہ ممالک میں ٹانگوں کو لمبا کرنے کی سرجری دستیاب ہے۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ، مہنگا اور لمبا طریقہ علاج ہے جس پر امریکہ میں 75 ہزار سے لے کر 2 لاکھ 80 ہزار ڈالر تک خرچ آتا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہر سال دنیا بھر میں سینکڑوں افراد چند انچ قد لمبا بنانے کیلئے اس تکلیف دہ اور لمبے طریقہ علاج کے عمل سے گزرتے ہیں۔اس طریقہ علاج کی شروعات سب سے پہلے ایک سوویت ڈاکٹر گیورل الیزا روف نے کی تھی۔اس آپریشن کے ذریعے پانچ انچ تک قد میں اضافہ ممکن ہے۔امریکہ ،جرمنی، جنوبی کوریا، برطانیہ، ترکی، سپین ، انڈیا، اٹلی اس علاج کیلئیئقابل ذکر ہیں۔دنیا کی پستہ ترین خاتون بھارت کے شہر ناگپور میں پیدا ہونے والی تیس سالہ جیوتی امیگی کو 2 فٹ 0.7انچ قد کے ساتھ دنیا کی پستہ ترین قد والی خاتون تصور کیا گیا ہے۔ جیوتی امیگی کو ہڈیوں کی نشوونما کا عارضہ لاحق ہے جو بازوں اور ٹانگوں کو متاثر کرتا ہے۔یاد رہے 16 دسمبر2011ء سے جیوتی امیگی نے دنیا کی سب سے پست قد خاتون کا ''گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ ‘‘ میں درج کروا رکھاہے۔اپنے چھوٹے قد کے باوجود جیوتی سوشل میڈیا کی مقبول ترین شخصیت ہیں۔ وہ امریکی ٹیلی وژن سیریز ''امریکن ہارر سٹوری : فریک شو‘‘ اور اطالوی ٹی وی شو '' لو شو ڈی ریکارڈ‘‘ میں بھی پرفارم کر چکی ہیں۔ دنیا کا پستہ ترین مرد ایران سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ افشین اسماعیل اس وقت تک 2 فٹ 1.6انچ قد کے ساتھ دنیا کے سب سے چھوٹے قد کے حامل شخص ہیں جو اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔اس ے پہلے یہ اعزاز کولمبیا کے ایڈورڈ نینو کے پاس تھاجن کا قد 2 فٹ 7 انچ تھا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ پیدائش کے وقت افشین کا وزن صرف 700 گرام تھا جبکہ اب ان کا وزن 6کلو گرام کے لگ بھگ ہے۔  

’’Bootes Void‘‘ کائنات کا ایک پرسرار گوشہ

’’Bootes Void‘‘ کائنات کا ایک پرسرار گوشہ

کائنات کی وسعتوں میں جھانکنے کا سفر ہمیشہ سے انسان کیلئے حیرت، تجسس اور جستجو کا باعث رہا ہے۔ ستاروں، سیاروں اور کہکشاں سے بھری یہ کائنات بظاہر ایک مسلسل کہانی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے، لیکن اس داستان میں کچھ ایسے گوشے بھی ہیں جو حیرت کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک گوشہ، جسے ہم ''Bootes Void ‘‘کے نام سے جانتے ہیں، سائنس کی دنیا کا ایک عجیب و غریب راز ہے۔ یہ علاقہ جو زمین سے تقریبا سات سو ملین نوری سال کی دوری پر واقع ہے، کہکشاں سے محروم ایک پراسرار خلا ہے۔کائنات میں ستاروں اور سیاروں کی کوئی کمی نہیں۔ ہر رات آسمان پر چمکتے ستارے اور دور سے جھلملاتی کہکشائیں ہمیں یہ یقین دلاتی ہیں کہ یہ کائنات بے حد آباد اور روشنیوں سے مزین ہے۔ لیکن یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ اس وسیع و عریض خلا میں کچھ ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ ''Bootes Void ‘‘اسی حیرت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ یہ علاقہ جسے ''دی گریٹ وائیڈ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔1981ء میں پہلی بار سائنس دانوں کے مشاہدے میں آیا۔ ناسا کے ماہر فلکیات سر رابرٹ کرشنر نے اس علاقے کو دریافت کیا، جو زمین سے تقریباً 70 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ خلا اس قدر وسیع ہے کہ اگر ہم ایک ایسے فرضی خلائی جہاز کا تصور کریں جو ایک سیکنڈ میں پاکستان سے امریکہ تک کا فاصلہ طے کر سکے، تو اس جہاز کو ''Bootes Void ‘‘کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے کیلئے تقریبا 300 کھرب سال کا وقت لگے گا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پورے علاقے میں کہکشائیں نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ کائنات کی ساخت اور اس کے پھیلائو کے موجودہ سائنسی نظریات کے مطابق یہاں کم از کم دس سے بارہ ہزار کہکشائیں ہونی چاہئیں تھیں۔یہ خالی علاقہ اتنا تاریک ہے کہ روشنی کی کوئی کرن یہاں نظر نہیں آتی۔ روشنی کی موجودگی کیلئے کسی ٹھوس جسم کا ہونا ضروری ہے، لیکن یہاں کوئی ستارہ، سیارہ یا کہکشاں موجود نہیں۔ اس لیے یہ خلا مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم بغیر سینسرز کے پچاس ہزار خلائی گاڑیاں اس علاقے میں چھوڑ دیں، تو وہ کھربوں سال تک سفر کرتی رہیں گی اور کسی چیز سے نہیں ٹکرائیں گی، کیونکہ یہاں کچھ بھی موجود نہیں۔سائنس دانوں کے مطابق'' بگ بینگ‘‘ کے بعد کائنات کا پھیلائو یکساں تھا اور مادہ ہر طرف برابر تقسیم ہوا۔ اس تقسیم کی بنیاد پر ستارے، سیارے اور کہکشائیں وجود میں آئیں لیکن ''Bootes Void ‘‘میں مادے کی اس تقسیم کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ علاقہ سائنس دانوں کیلئے ایک ایسا معمہ ہے جس کا حل ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا۔ماہرین فلکیات کے مطابق، کائنات میں اور بھی خالی علاقے موجود ہیں لیکن ''Bootes Void‘‘اپنی وسعت اور خالی پن کی وجہ سے سب سے منفرد ہے۔ اس علاقے کو ''بووٹس کنسٹی لیشن‘‘ کے نام پر یہ نام دیا گیا، کیونکہ یہ اس صورت فلکی کے قریب واقع ہے۔یہ حیرت کی بات ہے کہ جہاں پوری کائنات کہکشاں سے بھری ہوئی ہے، وہیں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جو مکمل طور پر خالی اور غیر آباد ہے۔ یہ بات نہ صرف فلکیات کے ماہرین بلکہ عام انسانوں کیلئے بھی انتہائی دلچسپ اور حیران کن ہے۔ اس خلا کی موجودگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کائنات کے راز کتنے پیچیدہ اور وسیع ہیں۔''Bootes Void ‘‘کا معمہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ ہمارے کائناتی نظریات کو چیلنج کرتا ہے۔ اگر مادہ ہر طرف یکساں تقسیم ہوا تھا، تو پھر یہ خلا کیسے وجود میں آیا؟ کیا یہ ابتدائی کائنات کی کسی غیر معمولی سرگرمی کا نتیجہ ہے، یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے؟ یہ سوالات نہ صرف سائنس دانوں کیلئے چیلنج ہیں بلکہ انسان کے علم و تجسس کو مزید آگے بڑھانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ کائنات کی اس خالی جگہ کو سمجھنا شاید ہمیں بگ بینگ اور کائنات کی ابتدا کے بارے میں مزید معلومات فراہم کر سکے۔''Bootes Void‘‘کی دریافت نے سائنس دانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا کائنات واقعی اتنی یکساں ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں؟ یا پھر اس میں ایسے اور بھی خالی گوشے موجود ہیں جو ابھی ہماری نظروں سے اوجھل ہیں؟ یہ تمام سوالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کائنات کے بارے میں ہماری معلومات ابھی نامکمل ہیں، اور ابھی بہت کچھ دریافت ہونا باقی ہے۔کائنات کا یہ پراسرار خلا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ علم کی جستجو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ہر دریافت ایک نئے سوال کو جنم دیتی ہے اور ہر سوال ایک نئی جستجو کا آغاز کرتا ہے۔ ''Bootes Void‘‘ کائنات کی ان گنت داستانوں میں سے ایک ہے، جو ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ یہ کائنات اپنے اندر کتنے راز چھپائے ہوئے ہے۔ شاید یہی راز انسان کو تلاش، تحقیق اور علم کی نئی منزلوں کی طرف لے جاتے ہیں۔یہ خلا، جسے دیکھنے کیلئے ہمیں جدید ترین دوربینوں کی ضرورت ہے، ایک یاد دہانی ہے کہ انسان جتنا بھی ترقی کر لے، کائنات کی وسعتوں کو مکمل طور پر سمجھنا اب بھی ممکن نہیں۔ یہ پراسرار گوشہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ شاید کائنات میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو ہماری عقل و فہم سے باہر ہیں اور یہی بات کائنات کو اتنا دلکش اور حیران کن بناتی ہے۔ کائنات کا یہ خالی گوشہ''Bootes Void‘‘ ایک ایسا راز ہے جو نہ صرف فلکیات کے ماہرین بلکہ ہر اس شخص کیلئے حیرت اور تجسس کا باعث ہے جو کائنات کی وسعتوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ شاید مستقبل میں ہم اس راز کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں، لیکن فی الحال یہ خلا ہمارے لیے کائنات کے ان گنت عجائبات میں سے ایک ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہپاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف پر متعدد مرتبہ قاتلانہ حملے کئے گئے۔ 14 دسمبر 2003ء پرویز مشرف ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔ان پر یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ اپنے سکیورٹی قافلے کے ہمراہ راولپنڈی کا ایک پل عبور کر رہے تھے۔ پرویز مشرف کا قافلہ گزرنے کے کچھ ہی دیر بعد پل پر ایک زور دار بم دھماکہ ہوا۔ان کے چار سالہ دور میں یہ ان پر تیسرا قاتلانہ حملہ تھا۔ 25 دسمبر 2003ء کو بھی سابق صدر کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔ اس حملے میں ان کی گاڑی کو شدید نقصان پہنچا لیکن ان کا محافظ قافلہ انہیں بچانے میں کامیاب رہا۔بوسنیا اور ہرزیگوینا میں امن معاہدہبوسنیا اور ہرزیگوینا میں امن کیلئے جنرل فریم ورک معاہدہ کیا گیا، جسے ''ڈیٹن معاہدہ‘‘ یا ''ڈیٹن ایکارڈ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ امن معاہدہ تھا جو 14دسمبر 1995ء کو طے پایا۔ اس معاہدے نے ساڑھے تین سالہ طویل بوسنیا کی جنگ کا خاتمہ کیا۔ 21دسمبر1995ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اوہائیو ڈیٹن کے قریب رائٹ پیٹرسن ائیر فورس بیس پر طے شدہ اس معاہدے پر دستخط کئے گئے۔معاہدے کے مطابق دونو ں فریقین نے امن پر اتفاق کیا اور جنگ کو فوری طور پر روک دیا گیا۔تاریخ میں اس معاہد ے کو اہمیت اس لئے بھی حاصل ہے کہ اس نے ایک طویل جنگ کا اختتام کیا۔چاند پر آخری انسان14دسمبر1972ء کو یوجین اینڈریو نامی امریکی خلاباز نے چاند پر قدم رکھا۔ یوجین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ چاند پر قدم رکھنے والے آخری انسان تھے۔ ان کے بعد کسی انسان نے آج تک دوبارہ چاند پر قدم نہیں رکھا۔''اپالو17‘‘مشن کے دوران یوجین چاند پر چلنے والے گیارہویں انسان تھے۔انہیں ''The Last Man on Moon‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یوجین نے تین مرتبہ چاند کا سفر کیا،پہلی مرتبہ جون 1966ء کو جیمنی 9Aمیں بطور پائلٹ،دوسری مرتبہ1969ء کو اپالو10کے ماڈیول پائلٹ کے طو ر پر اور تیسری مرتبہ1972ء کو اپالو17 میں بطور کمانڈر۔سینڈی ہک ایلیمنٹری سکول فائرنگ14دسمبر2012ء کو نیو ٹاؤن، کنیکٹیکٹ، ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سینڈی ہک سکول میں انتہائی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔20سالہ ایڈم لانزانے فائرنگ کر کے 26افرا د کو ہلاک کر دیا۔ہلاک ہونے والوں میں 20 بچے شامل تھے جن کی عمریں 6 سے 7 سال کے درمیان تھیں۔حملے کے دن سکول جانے سے قبل لانزا نے نیو ٹاؤن میں اپنی ماں کو گولی مار کر ہلاک کردیاتھا۔26افراد کو ہلاک کرنے کے بعد جیسے ہی پولیس سکول پہنچی لانزا نے سر میں گولی مار کر خودکشی کر لی۔کنیکٹیکٹ سٹیٹ اٹارنی کے دفتر کی طرف سے نومبر 2013ء کی جاری کردہ ایک رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لانزا نے یہ حملہ اکیلے ہی کیا لیکن رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ لانزا کے ایسا کرنے کی اصل وجہ کیا تھی۔

پہاڑوں کو خراج تحسین

پہاڑوں کو خراج تحسین

ہمارے سیارے کے ماحولیاتی نظام اور انسانی معاشرت میں پہاڑوں کے اہمیت بارے آگاہی بڑھانے کے لیے ہر سال 11 دسمبر کو پہاڑوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2003ء میں اس دن کو پہاڑوں کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے، پہاڑوں کی بہتری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اجاگر کرنے اوردنیا بھر میں پہاڑی ماحولیات میں مثبت تبدیلی کی کوششوں سے منسوب کیا تھا۔ یہ دن ہر سال ایک نئے تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس سال کا تھیم ہے:Mountain solutions for a sustainable future یعنی پہاڑ پائیدار مستقبل کا حل ہیں۔ پہاڑ براہ راست یا بالواسطہ طور پر ہماری زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑ زمین کی سطح کے ایک چوتھائی سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور دنیا کی آبادی کے 12 فیصد کا مسکن ہیں جبکہ بنی نوح انسان کے لیے تازہ پانی کا نصف سے زائد پہاڑوں ہی سے ملتا ہے، اور دنیا کی خوراک کا 80 فیصد فراہم کرنے والے پودوں کی 20 انواع میں سے چھ پہاڑوں سے آتی ہیں۔پہاڑ حیاتیاتی تنوع کا بیش قیمت خزانہ ہیں۔اگرچہ دنیا کے صرف 27 فیصد حصے پر پہاڑ ہیں لیکن اپنے حجم کے مقابلے میں یہ حیاتیاتی تنوع میں کہیں زیادہ کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم بین الحکومتی ماحولیاتی تبدیلی کے پینل (IPCC) کے مطابق پہاڑوں میں پائی جانے والے منفرد پودوں اور جانوروں کی اقسام میں سے 84 فیصد معدوم ہونے کے خطرے سے دوچارہیں۔پہاڑ دنیا کی قدرتی خوبصورتی کا اہم حصہ ہیں اور ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہوا کے بہاؤ کو متاثر کرتے ہیں، بارش کے پیٹرن کو منظم کرتے ہیں اور جانوروں اور پودوں کی انواع کا مسکن فراہم کرتے ہیں۔ پہاڑ مختلف اقتصادی سرگرمیوں جیسا کہ سیاحت، کان کنی، زراعت اور پانی کی فراہمی میں بھی خصوصی طور پر مددگار ہیں ۔آج کے دور میں بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی آلودگی اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پہاڑوں کے ایکو سسٹم خطرے میں ہیں۔ ان کی حفاظت اور تحفظ ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کی خوبصورتی اور فوائد سے مستفید ہو سکیں۔پاکستان کیلئے یہ امر قابلِ فخر ہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور 9ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان میں ہیں۔ عالمی سطح پر ہر سال پانچ کروڑ سیاح پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں جس سے 90 ارب ڈالر تک کا ریونیو حاصل ہوتا ہے تاہم اس کی قیمت پہاڑی علاقوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ پیسفک (UNESCP) کی رپورٹ ''پاکستان میں پہاڑی سیاحت کے ماحولیاتی اثرات‘‘ کے مطابق کوہ ہندو کش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں آلودگی کی سطح درمیانی جبکہ ہمالیہ میں بلند ہے۔دنیا کی 9 ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کو جانے و الے تین راستو ں میں سے کنشوفر رُوٹ پرکوہ پیماؤں کے استعمال میں رہنے والی اشیا، پلاسٹک بیگز، پیک فوڈ کی باقیات اور شیٹس وغیرہ کی سطح بہت بلند جبکہ روپال روٹ پر یہ آلودگی مزید زیاد ہ ہے۔ گلوبل وارمنگ بھی پہاڑی سیاحت کی صنعت کو متاثر کررہی ہے۔ جنگلات کا کٹاؤ بھی پہاڑوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو جنگلات کی کٹائی میں آنے والی تیزی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض پہاڑی علاقوں میں جنگلات کا اوسط فاصلہ دو کلومیٹر تک بڑھ چکا ہے جو 10سال پہلے ڈیڑھ کلومیٹر تھا۔ انٹرنیشنل جرنل آف ایگریکلچر اینڈ بائیولوجی کی ایک تحقیق کے مطابق خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ پہاڑی جنگلات والے دو اضلاع (نوشہرہ اور سوات) کے دیہاتوں میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اوسطاً آٹھ میں سے چھ دیہات میں بجلی اور ایل پی جی ہونے کے باوجود ان کے مہنگا ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے کیلئے ان کا کم استعمال کرتی ہے اور 73 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ علاقے میں گھروں کی تعمیر اور مرمت میں جنگلات کی لکڑی کا استعمال بہت زیادہ ہے۔40فیصد افراد کا خیال ہے کہ مقامی آبادی کی جانب سے لکڑی کے غیر قانو نی کٹاؤ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ 79 فیصد افراد جنگلات کے غیر قانونی کٹاؤکا ذمہ دار محکمہ جنگلات کو تصور کرتے ہیں۔جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے گلیشیئر پگھلنے کی شرح میں اضافہ ہورہاہے جو نیچے کی جانب پانی کے بہاؤ اور مقدار کو متاثر کر رہا ہے۔پاکستان میں مجموعی طور پر سات ہزار کے قریب گلشیئرز ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں برف کے ان تودوں کے پگھلنے کا عمل تیز تر ہو رہا ہے۔ پگھلتے گلیشئرز اچانک ٹوٹ جائیں تو پہاڑوں سے نیچے آتے پانی کا بہاؤ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ جو کچھ راستے میں آتا ہے بہہ جاتا ہے۔گلگت بلتستان کے علاقے میں درجنوں گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے ہزاروں جھیلیں وجود میں آ چکی ہیں اور ان میں سے بہت سی جھیلیں ایسی ہیں جو سیلاب کا باعث بنتی رہتی ہیں۔اہم معلومات٭اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2003ء میں پہاڑوں کی اہمیت پر اس دن کو منسوب کیا تھا۔٭پہاڑ زمین کی ایک چوتھائی سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔٭بنی نوح انسان کیلئے تازہ پانی کا نصف سے زائد پہاڑوں سے ملتا ہے۔٭پہاڑ دنیا کے 27 فیصد حصہ پر ہیں۔٭دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K-2 اور نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے زائد بلند5 چوٹیاں پاکستان میں ہیں۔ 

ملتان کے تاریخی مقامات

ملتان کے تاریخی مقامات

فن تعمیر ثقافتی و تہذیبی روایت کے علاوہ معاشرتی ترقی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ خطے میں موجود تاریخی عمارات تاریخی کلچر کی مظہر ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ زندہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت سے پہچانی جاتی ہیں اور جو قومیں اس کی حفاظت نہیں کرتیں، انہیں زوال پذیر ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ ملتان ضلع لودھراں سے 75 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود پاکستان کے صوبہ پنجاب کا قدیم شہر ہے، اپنی تہذیبی، تاریخی اور مذہبی اہمیت کی بنا پر ہمیشہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس شہر کو "اولیاء￿ کا شہر" کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کئی معروف صوفیائے کرام کے مزارات موجود ہیں۔ ملتان کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اور یہاں کے تاریخی مقامات میں فن تعمیر، ثقافت اور روحانی ورثے کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ملتان کی وجہ شہرت تو کئی ہیں لیکن مزارات کی وجہ سے اسے زیادہ شہرت حاصل ہے جہاں پاکستان بھر سے زائرین حاضر ہوتے ہیں۔ ملتان کی تاریخ کا آغاز کم از کم پانچ ہزار سال پہلے ہوا۔ قدیم تہذیبوں میں اسے "مالیستان" کے نام سے جانا جاتا تھا اور اسے بدھ مت اور ہندو مت کے مذہبی مراکز میں شمار کیا جاتا تھا۔ بعد میں یہ اسلامی تہذیب کا اہم مرکز بن گیا، جب صوفیائے کرام نے یہاں قدم رکھا اور اسلام کی تبلیغ کی۔پاکستان کے شہروں میں ملتان کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ اولین دور میں اور سب سے زیادہ عرصے تک برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت کا مرکز رہا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں محمد بن قاسم نے سندھ کے جو علاقے فتح کیے ان میں ملتان بھی شامل تھا لیکن ملتان اس سے بھی پہلے ہندوستان کا رخ کرنے والے بزرگان دین اور صوفیائے کرام کا ایک اہم پڑاؤ بن چکا تھا۔ فتح ملتان کے بعد اس طرف آنے والے صوفیاء کی تعداد میں اور بھی اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ نے مستقل قیام کے لیے ملتان کو منتخب کیا اور کچھ عارضی قیام کے بعد ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ملتان کو مذہبی اور سیاسی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ کسی زمانے میں ملتان کے بارے میں شاید یہ درست ہو کہ چہار چیز است تحفہ ملتان۔ گرد، گرما، گدا، گورستان لیکن آج یہ پاکستان کے زرخیز ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے اور ایک بارونق صنعتی شہر کی حیثیت سے تیزی کے ساتھ اپنے مراحل طے کر رہا ہے۔ملتان کے مشہور تاریخی مقامات درج ذیل ہیں۔ شاہ رکن عالم کا مزارشاہ رکن عالم کا مزار ملتان کا سب سے معروف تاریخی مقام ہے۔ یہ عظیم صوفی بزرگ حضرت شاہ رکن الدین عالم کا مدفن ہے جو سلسلہ سہروردیہ کے مشہور ولی تھے۔ مزار کا فن تعمیر اسلامی طرز کا شاہکار ہے۔ اس کے گنبد کو دنیا کے سب سے بڑے گنبدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مزار پر سنگ مرمر اور سرخ اینٹوں کا استعمال کیا گیا ہے جو اسے منفرد بناتا ہے۔ حضرت بہاء الدین زکریا کا مزارحضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کا مزار بھی ملتان کے تاریخی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ صوفی بزرگ اسلامی تعلیمات اور تصوف کے فروغ کے لیے مشہور ہیں۔ مزار کا طرز تعمیر قدیم اسلامی طرز کو ظاہر کرتا ہے اور یہاں روحانی سکون کے متلاشی لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں۔قلعہ ملتانقلعہ ملتان، جسے "قلعہ قاسم" بھی کہا جاتا ہے، تاریخی قلعہ ہے جو کبھی ملتان کی دفاعی ضرورتوں کو پورا کرتا تھا۔ یہ قلعہ دریائے چناب کے قریب ایک بلند مقام پر واقع ہے اور اس کا شمار قدیم ترین قلعوں میں ہوتا ہے۔ قلعہ کا اندرونی حصہ وقت کے ساتھ ختم ہو گیا، لیکن اس کے آثار اب بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یہاں سے شہر کا خوبصورت منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ملتان کے بازارملتان کے بازار حسین آگاہی کو بھی تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ یہ بازار نہ صرف خریداری کے لیے مشہور ہے بلکہ یہاں کی روایتی اشیاء اور دستکاری سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ثقافتی ورثہملتان جتنا قدیم شہر ہے، اتنی ہی پرانی اس کی ثقافت ہے۔ ملتانی کھسہ، ملتانی چادر، ملتانی چپل، سوہن حلوہ، ہاتھ سے بنے ہوئے برتن اور خوب صورت اجرکیں، ٹوپیاں غرض ہر طرح کی اشیا اس بازار میں مل جاتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بازار قریبی علاقوں لودھراں، بہاولپور ، مظفرگڑھ کوٹ ادو کے علاقوں کے لیے معاشی ہب کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہاں سے دور دراز علاقوں کے دکاندار یہاں پر اشیاء خریدنے آتے ہیں اور اپنے علاقوں میں جا کر مناسب دام میں فروخت کرنے کے بعد اپنے روزگار کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ ملتان اپنے تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافتی ورثے کی بنا پر بھی مشہور ہے۔ یہاں کے روایتی کھانے ملتانی سوہن حلوہ، ملک بھر میں مشہور ہے۔ یہاں کے کاریگر ہاتھ سے بنی ہوئی اشیاء￿ ، جیسے شیشے کا کام اور کشیدہ کاری، اپنی مثال آپ ہیں۔ ادیبوں کا شہرملتان شہر کو ادیبوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے مشہور ادبا اور شاعروں کا تعلق اس شہر سے ہے۔ ادیبوں اور شعرا کی محفلیں ہر شام شہر میں چند سال پہلے قائم کیے گئے ملتان ٹی ہاؤس میں منعقد ہوتی ہیں۔ ملتان ٹی ہاؤس میں ملتان کے تمام ادیبوں اور شعراء￿ کی تصاویر آویزاں اور تصانیف رکھی گئی ہیں۔ وہیں، علم و ادب سے چاہ رکھنے والے اور عام لوگ بھی یہاں بیٹھ کر چائے کی پیالیوں کے دور چلا رہے ہوتے ہیں۔ملتان کے تاریخی مقامات پاکستان بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ یہ مقامات تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کے ثقافتی اور روحانی تشخص کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مقامات کی دیکھ بھال اور ترقی کے لیے مزید اقدامات کرے تاکہ سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ ملتان کے تاریخی مقامات ماضی کی عظمت اور تہذیب کی نشانی ہیں۔ یہ مقامات سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں بلکہ اپنے شاندار ماضی کی یاد بھی دلاتے ہیں۔ ملتان کی سیر ہر شخص کو زندگی میں ایک بار ضرور کرنی چاہیے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

یونیسف کا قیام 11دسمبر1946ء کویونیسف کا قیام عمل میں آیا۔یہ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں بچوں کو انسانی حقوق اور ترقی کیلئے فنڈز فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یہ ''بین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ یہ اداراہ دنیا کے 192ممالک میں کام کر رہا ہے جو اسے سماجی بہبود کیلئے کام کرنے والے اداروں میں سب سے زیادہ مقبول بناتا ہے۔ یونیسف کی سرگرمیوں میں حفاظتی ٹیکوں کی فراہمی، بیماریوں سے بچاؤ، ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں اور ماؤں کے علاج کا انتظام، بچوں میں غذائیت کی کمی کو دور کرنا، صفائی ستھرائی کو بہتر بنانا، تعلیم کو فروغ دینا اور آفات کے دوران ہنگامی امداد فراہم کرنا شامل ہے۔ایڈورڈ ہشتم کی دستبرداری 1936ء میں آج کے روز برطانوی سلطنت میں اس وقت ایک آئینی بحران پیدا ہوا، جب بادشاہ ایڈورڈ ہشتم نے ایک امریکی سوشلسٹ والیس سمپسن سے شادی کرنے کا اعلان کیا۔ والیس سمپسن اپنے پہلے شوہر سے طلاق لے چکی تھیں اور دوسرے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھیں۔ برطانوی حکومتوں اور برطانوی دولت مشترکہ کی حکومتوں نے بادشاہ کے اس فیصلے کی شدید مخالف کی۔ تمام مخالفتوں کے باوجود بادشاہ نے سمپسن سے شادی کی اور اسے اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔ایڈورڈ اور سمپسن35برس تک (ایڈورڈ کی وفات تک) ایک ساتھ رہے۔اپالو 17کا آخری مشن 11دسمبر 1972ء کو اپالو پروگرام کا آخری مشن ''اپالو 17‘‘ اپنے سفر پر روانہ ہوا۔اس مشن کا مقصد چاند کی سطح اور ماحول کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول ممکن بنانا تھا۔ ''اپالو17‘‘ کے کمانڈر کو ایک حیاتیاتی تجربے کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں، جس میں چاند پر پانچ چوہوں کو لے جایا گیا۔ ماہرین کی جانب سے آتش فشاں پہاڑوں کی موجودگی کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے۔ایل موزوٹ قتل عام ایل موزوٹ کا قتل عام 11دسمبر 1981ء کو ایل سلواڈور کے ایل موزوٹ گاؤں کے اندر اور اس کے گرد و نواح میں کیا گیا۔اس قتل عام میں سلواڈور کی فوج نے خانہ جنگی کے دوران 800سے زائد شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس قتل عام کا فیصلہ فوج اور گوریلا جنگجوئوں کے درمیاں جھڑپوں کے بعد کیا گیا۔سلوا ڈور آرمی کی ایک مخصوص بٹالین کواس تباہی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔دسمبر 2011ء میں ایل سلواڈور کی حکومت نے اس قتل عام کیلئے معافی بھی مانگی۔انڈیا ناریا ستہائے متحدہ امریکہ میں شامل ہوا انڈیانا ریاستہائے متحدہ امریکہ کا رقبے کے لحاظ سے 38 واں سب سے بڑا اور 50 ریاستوں میں سے 17 واں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر انڈیاناپولس ہے۔ انڈیانا کو 11 دسمبر 1816 کو ریاستہائے متحدہ میں 19ویں ریاست کے طور پر داخل کیا گیا تھا۔