یادرفتگاں: سہیل اصغر ایک بڑا فنکار
سہیل اصغر کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا تھا جو رائٹر کے لکھے سکرپٹ کے کردار میں رنگ بھرنے کیلئے اپنے پاس سے جو جزئیات شامل کرتے تھے ان کوششوں سے وہ کردار مزید نکھر جایا کرتا تھا۔15جون 1954ء کو ملتان میں پیدا ہونے والے سہیل اصغر 13نومبر 2021ء کواس دنیا سے رخصت ہوئے، آج ان کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے۔ انہیں بچھڑے تین سال بیت چکے ہیں مگر اپنے کرداروں کی بدولت وہ آج بھی زندہ ہیں۔ ان کے بولے ہوئے ڈائیلاگ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتے ہیں۔ خصوصاً ان کا ڈرامہ ''خواہش‘‘ کا ڈائیلاگ ''ایک روپا، ایک روپا‘‘ آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔
ایک روپے کے عوض لوگوں کوسرکس دکھانے والا یہ باصلاحیت فنکار اب کسی نئے رول میں نظر نہیں آ ئے گامگر جو کام وہ کر گیا اسے بھلانا کسی طور ممکن نہیں۔سہیل اصغر کے والدین توانہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن وہ بن فنکار گئے۔ایم اے انگریزی کرنا شروع کیا تو اس کے چار پیپرز کلیئر ہوگئے، 3 رہ گئے تھے۔ پھر ریڈیو میں آکر جب پیسے ملنا شروع ہوئے تو اِسی شعبے میں آگے بڑھتے چلے گئے۔
وہ کہا کرتے تھے ''میں نے 76ء میں ریڈیو پاکستان سے آغاز کیا۔ ساتھ ہی ساتھ تھیٹر کرتا تھا پھر 79ء میں مجھے ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل گئی تھی، پھر میں کزنز کے ساتھ مل کر بزنس کی طرف چلا گیا۔ دو تین برس اس میں لگے۔ اس کے بعد آخر میں مکمل طور پر ڈراموں ہی کی طرف آ گیا۔ 1988ء تک ملتان میں ریڈیو جوکی کے طور پر کام کرتے رہا‘‘۔
والدین نے اس شعبے میں آنے پر ان کی قطعی مخالفت نہیں کی ۔کہتے تھے، ''جب میرا ریڈیو پر پہلا پروگرام آن ایئر ہوا تو میرے والد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے تھے، وہ بہت آرٹسٹک ذہن کے آدمی تھے۔ وہ تو بلیک اینڈ وائٹ تصاویر پر کلر بھی خود ہی کرلیتے تھے‘‘
اس بعد سہیل اصغر نے تھیٹر کے ڈراموں میں اداکاری شروع کردی۔ ''تھیٹر کی طرف لانے والوں میں اپنے دوست شوکت کانام لینا چاہوں گا۔ میرا اس طرف آنے کا ارادہ نہیں تھا، میں تو ایم اے کی کلاسز لیتا تھا۔ شام کو ہم ساتھ بیٹھتے تھے ایک دِن اُس نے میرا راستہ روک لیا اور کہا کہ تم تھیٹر میں چل کر کام کرو۔ایک دِن تھیٹر پر کام کیا تو لوگوں کی داد ملنا شروع ہوگئی پھر میرا دِل بڑا ہوگیا۔ پھر اطہر شاہ خان جیدی کے بے شمار ڈرامے کئے، لوگوں نے بہت داد دی، میرے کام کو کافی سراہا گیا۔ میں نے ملتان میں رہتے ہوئے، منور سعید، عابد علی اور فردوس جمال کے ساتھ تھیٹر کیا۔ جب میں ملتان میں تھیٹر کرتا تھا تو لوگ مجھے کہتے تھے کہ یہ ہمارے ملتان کا قوی خان ہے اور یہ میرے لئے بہت فخر کی بات تھی۔ قوی خان اپنے دور کے ہر دوسرے ڈرامے اور فلموں میں چھائے رہے ۔
لاہور منتقل ہونے کی بات یوں بتاتے۔ ''اکثر لوگ کہتے تھے کہ تم لاہور آکر کام کرو لیکن مجھے ڈر لگتا تھا کیونکہ وہاں تو بڑے بڑے اداکار تھے۔ ایک دِن ایسا آیا کہ میں این او سی لے کر لاہور چلا گیا، وہاں مجھے مختلف پروڈیوسرز سے ملوایا گیا۔ مجھے کام ملنا شروع ہوگیا۔ وہیں نصرت ٹھاکر صاحب بھی ریڈیو ڈرامہ کرنے آتے تھے۔ اُن کے ساتھ ایک دو ڈرامے کئے پھر اُنہوں نے مجھے ٹی وی میں بلالیا وہاں میں نے کوئی آڈیشن نہیں دیا اور سیدھا ڈرامہ کرلیا۔ پھر ڈراموں میں کام چلتا چلا گیا۔ ‘‘
سہیل اصغرنے ان گنت ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کی ،وہ نصرت ٹھاکر اور یاور حیات کو اپنا استاد کہتے تھے۔ سرکاری ٹی وی پر وہ ہر دوسرے ڈرامے میں کاسٹ ہوتے تھے۔ ملتان چھوڑ کر لا ہور کے رہائشی بنے ۔ جب رفتہ رفتہ ڈرامہ ا نڈسٹری کراچی شفٹ ہوگئی تو کراچی کے رہائشی بن گئے، یہاں آکر انھوں نے اپنی فیملی کو بھی بلا لیا۔ وہ کہتے تھے! ''فنکار کہیں کا بھی ہو اور کہیں بھی رہتا ہو وہ اپنے فن کی بدولت جانا پہچانا جاتا ہے ‘‘۔سہیل اصغر کے بقول ابتدا میں ان کے سبھی ڈرامے اچھے تھے۔ البتہ ''پیاس‘‘،'' خواہش‘‘،'' چاند گرہن''،'' لاج ‘‘اور ''ملکہ عالیہ‘‘ با کمال ڈرامے تھے ۔جب ''پیاس‘‘ ڈرامہ مقبول ہوا توانہیں فلموں کی آفرز آنا شروع ہوگئی تھیں ۔ ''جنگجو گوریلے‘‘ ان کی پہلی فلم تھی، اس کے بعد ''اسلحہ‘‘ اور چند دیگر فلموں میں بھی کام کیا۔
فلموں ے متعلق وہ کہتے تھے ''میں نے بہت احتیاط سے مگر اچھے اداروں کی فلموں میں کام کرنا شروع کیا لیکن مجھے کافی مایوسی ہوئی کیونکہ جس دور میں ہم فلموں میں آئے وہ دور فلموں کیلئے اچھا نہیں تھا، وہ 90ء کا سلطان راہی کا دور تھا اور تمام فلموں میں ''کھڑاک‘‘ ہوتا تھا جبکہ ہم ریڈیو، ٹیلی ویژن، تھیٹر سے گزر کر آئے تھے، ہم یہی کوشش کرتے رہ گئے کہ فلموں میں حقیقت کا رنگ نظر آئے مگر ایسا نہ ہوسکا پھر اس دور کی فلمیں بھی مرنا شروع ہوگئیں ۔ ‘‘
2012 میں سہیل اصغر کو تمغۂ امتیازکیلئے نامزد کیا گیا لیکن انہوں نے وصول نہیں کیا۔اس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ اگر مجھے یہ اعزاز ملنا تھا تو 1992ء میں ''چاند گرہن‘‘ کے بعد مل جاتا۔ اب میں کسی فٹ پاتھ پر بھی بیٹھ جائوں یا چھوٹے سے لے کر بڑے بڑے ہوٹل تک چلا جائوں ہر جگہ لوگ مجھے اتنا پیار کرتے ہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، میرے لئے سب سے بڑاایوارڈ سرکاری ٹی وی کے تین ایوارڈ ہیں اور تین ایوارڈز بہت کم لوگوں کے پاس ہیں۔‘‘ سہیل اصغر کو1998میں 10 سالہ تقریب میں ' خواہش میں ' ایک روپا، ایک روپا‘‘ والے کردارپر پہلا ایوارڈ ملا تھا۔ دوسرا لاہور اسٹیشن کا ڈرامہ تھا ''کاجل‘‘ اس پر ملا اور تیسرا کراچی میں حیدر امام کا ڈرامہ تھا اس پر دیا گیا۔
چند مقبول ڈرامے
چاند گرھن، آوازیں، منچلے کا سودا،
تیری میری لو سٹوری، آپ کی کنیز،
کیسی ہے دیوانگی، اوڑس پڑوس
خواہش،پیاس، آسمان، آگ
مشہور تکیہ کلام
''صدقے تھیواں، ہم آدمی ہیں ذرا وکھری ٹائپ کے‘‘ (ڈرامہ: آسمان)
''ایک روپا، ایک روپا‘‘ (ڈرامہ:خواہش)