شاہ جہانی تخت وتاج کے وارث عالمگیر کا جلوس
عالمگیر نے شجاع اور داراشکوہ کو آخری بار شکست دی تو اس نے اپنے کو شاہ جہانی تخت و تاج کا وارث سمجھا، اس لئے وہ اپنی جنگی مہم سے دہلی واپس آیا تو باضابطہ تخت نشینی کی رسم ادا کی، اس موقع پر وہ دہلی میں داخل ہونے سے پہلے دہلی کے نواح خضر آباد میں ٹھہرا، نجومیوں نے دہلی کے اندر داخل ہونے کیلئے جو نیک ساعت مقرر کی تھی، اسی وقت پہلے نفیری، طنبورے، نقارے، برنجی، ڈھول اور شہنائی بجانے والے داخل ہوئے۔
اس کے بعد ہاتھیوں کی قطاری بڑھیں، ان پر طلائی اور نقرئی جھولیں پڑی تھیں۔ یہ جھولیں مخمل اور زربفت کی تھیں جن میں قیمتی آب دار موتی ٹکے ہوئے تھے، ہاتھی کے دونوں طرف زریں گھنٹے لٹک رہے تھے، جن کی آواز فضا میں گونج رہی تھی، ان کے پائوں میں نقرئی زنجیریں تھیں، جن کی جھنکار دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ ہر ایک ہاتھی پر شاہی پرچم لہرا رہا تھا، پھر سواروں کا دستہ بڑھا، ان کے گھوڑوں کی پیٹھ پر نقرئی و طلائی زین، ارتک اور گجم وغیرہ تھے، ان کی لگاموں میں جواہرات لگے ہوئے تھے۔
ان سواروں کے پیچھے ہتھنیوں اور سانڈنیوں کی صفیں تھیں۔ ان کے بعد پیدل فوجیوں کی ایک کثیر تعداد تھی جن کے ہاتھوں میں ننگی شمشیریں چمک رہی تھیں، ان کے پیچھے امرا تھے اور ان کے بعد ایک بلند ترین قامت ہاتھی تھا، اس پر سخت رکھا تھا اور اسی پر ابو المظفر محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر بادشاہ غازی جلوہ افزوز تھا، اس کے دائیں بائیں اور پیچھے مسلح فوجیں صف بستہ اور آراستہ ہو کر آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہی تھیں۔
ہاتھیوں کی پیٹھ پر سے چاندی اور سونے مجمع پر پھینکے جا رہے تھے، یہ شاہی جلوس بازار سے ہو کر لال قلعہ کے لاہوری دروازہ تک پہنچا جہاں سب لوگ پاپیادہ ہو گئے اورنگزیب دیوان عام میں جا کر بیٹھا پھر دیوان خاص آیا، دونوں دیوان آراستہ ہو کر فردوس نظر اور جنت گاہ بنے ہوئے تھے، اس وقت تک تیموری سلطنت ایشیا کی متمول ترین سلطنت بن چکی تھی، اس لئے زینت و آرائش کا جتنا سامان ممکن ہو سکتا تھا دونوں دیوان میں نظر آ رہے تھے۔ دیوان عام کے ستونوں اور چھتوں کو ایران اور گجرات کے مغرق کم خواب، مخمل زربفت اور مشجر سے آراستہ کیا گیا تھا۔ محرابوں میں طلائی زنجیروں کے ساتھ قندیلیں لٹکی ہوئی تھیں۔ دروں میں ریشمی اور مخملی پردے پڑے تھے اور اسی دیوان میں تخت طائوس رکھا ہوا تھا، اس کے چھ بڑے بڑے بھاری بھاری طلائی پایوں میں زمرد اور ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ اس تخت میں موردم کو چنور کئے ہوئے تھے۔ اسی لئے ان میں نیلم، یاقوت، ہیرے، لعل، زمرد، پکھراج اور دوسرے رنگ برنگ کے جواہرات موروں کی دم کو اصلیت کا رنگ دینے کیلئے جڑے ہوئے تھے۔ تخت کے اوپر ایک زری کا شامیانہ تھا جس کے بارہ ستون تھے۔ یہ بیش قیمت جواہرات سے جگمگا رہے تھے۔ شامیانہ کی جھالر موتیوں کی تھی،دونوں مور کے بیچ میں ایک طوطا بھی اصلی قدو قامت کا ایک ہی زمرد میں تراشا ہوا تھا۔
تخت کے دونوں جانب دو شاہی چتر تھے جن میں قرمزی مخمل کے نہایت عمدہ کار چوبی کام کے موتیوں کی جھالریں تھیں۔ ان کی ڈنڈیاں آٹھ فٹ لمبی ٹھوس سونے کی تھیں۔ ان پر بھی جواہرات جڑے ہوئے تھے، بارہ مرصع ستونوں پر مغرق محرابیں اور جڑاو مینا کاری کی چھت پڑی تھی، چھت سے پائے تک کا حصہ خالص کندن اور آب دار جواہرات سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا، اس کی روکار کی محراب پر ایک بھاری طلائی درخت بنا ہوا تھا، جس کو سبزہ و الماس سے سر سبز اور لعل و یا قوت سے گل رنگ کیا گیا تھا، اس کے اِدھر اُدھر دونوں اطراف میں تسبیحیں لئے اس طرح کھڑے تھے گویا اب ناچنے کو ہیں، چاروں طرف زرنگار چتر تھے، جن میں موتیوں کی جھالر جھلملاتی تھی، اس کے گرد چوکیاں اپنے اپنے رتبے سے سجی ہوئی تھیں، تخت کے گرد پاس ادب کیلئے کئی کئی گز تک حاشیہ چھوڑ کر سونے کا خوش نما کٹہرا لگا ہوا تھا جس کی مینا کار جالیاں مرغ نظر کو شکار کرتی تھیں، طلائی سخت پر شاہی اسلحہ ڈال دیئے گئے تھے۔ ان میں مرصع شمشیریں پھول کٹارا وغیرہ تھے، طلائی کٹہرے کے بعد ایک نقرئی کٹہرا تھا، جس پر کمخواب کا شامیانہ چوڑے چوڑے زریں جھالروں کا بنا ہوا تھا، دیوان کے تمام ستونوں پر کم خواب اور زری بوٹی کے ساٹن لپٹے ہوئے تھے۔ اس کے سامنے شامیانے تھے جو ریشمی ڈورویں سے تنے ہوئے تھے۔ ان شامیانوں میں ریشم اور کلابتوں کے پھندنے تھے، فرش پر بیش قیمت قالین بچھے تھے، صحن میں جا بجا اسپک نصب تھے، اس کے گرد قناتیں لگی تھیں، جن پر چاندی کے پتروں کے خول چڑھے ہوئے تھے۔
دیوان خاص کے رنگ برنگ کے سبز، زرد، نیلے، سرخ، گلابی، کشمشی اور زعفرانی پتھروں اور ان پر غیر معمولی پچے کاری اور نقش و نگار سے قدرتی تزئین و آرائش پیدا ہو رہی تھی، اس روز اس کو اور بھی زیادہ سجایا گیا تھا۔ در و دیوار، ستون و مرغول، محراب و فرش سب ہی آراستہ و پیراستہ تھے۔
نجومیوں نے تخت نشینی کی نیک ساعت کا اعلان کیا تو آفتاب طلوع ہونے سے تین گھنٹے پندرہ منٹ کے بعد اورنگزیب دیوان عام میں ایک پردے کے پیچھے سے نمودار ہوا اور تخت پر جلوہ افروز ہو گیا۔ یکا یک نقارہ کی صدا بلند ہوئی، شادیانے بجنے لگے، طنبورہ، قانون، ارغنوں، چنگ، زمزمے اور ترانے کی آواز بھی فضا میں گونجنے لگی۔ اہل نشاط نے رقص بھی کیا، امراء نے بڑھ کر سیم و زرنچھاور کرنے شروع کر دیئے تخت کے پاس چاندی، سونے اور جواہرت کا انبار لگ گیا ،جس نے جو چاہا اٹھا لیا، خطیب نے خطبہ پڑھا، خطبہ میں اورنگزیب کے خاندانی فرمانروائوں کے نام بھی لئے گئے اور ہر نام پر خطیب کو ایک خلعت عطا کیا گیا اور جب خود عالمگیر کا نام آیا تو خطیب کو سب سے زیادہ بیش قیمت خلعت دیا گیا اور روپے انعام میں دیئے گئے۔ پھر امراء نے بڑھ کر اظہار تعظیم کیا اور ان میں سے ہر ایک کو رنگا رنگ خلعت دیئے گئے۔ دربار کی فضا بخور، ارگجہ اور عود کے دھوئیں سے معطر کی جا رہی تھی، مشک برابر چھڑ کے جا رہے تھے، پان تقسیم ہو رہے تھے، اسی روز عالمگیر کے نام سے سکہ جاری ہوا اور اس پر یہ شعر کندہ کیا گیا۔
سکہ زد در جہاں چو بدر منیر
شاہ اورنگ زیب عالم گیر
سکہ کے دوسری طرف دارالضرب، سنہ جلوس اور اورنگزیب کا پورا نام اور لقب درج ہوا دبیروں نے اس تخت نشینی کے فرامین تمام صوبوں میں فوراً جاری کئے۔شعراء اور فضلا نے تخت نشینی کی طرح طرح کی تاریخیں پیش کیں اسی روز عالمگیر نے حکم دیا کہ نو روز شہوار کی بدعت ختم کردی جائے کیونکہ یہ اسلامی تہوار نہ تھا، مسکرات اور نشہ آور چیزوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی اور اس کیلئے محتسب مقرر ہوئے اور بہت سے غیر شرعی ٹیکس بھی اٹھائے گئے، یہ جشن کئی ہفتہ تک جاری رہا۔عالمگیر سے پہلے یا اس کے بعد تخت نشینی کی تقریب اتنے پرشکوہ طریقہ پر کبھی نہیں ہوئی، عالمگیر کے بعدجتنے بادشاہ تخت پر بیٹھے، انہوں نے اس شاہی روایت کی پابندی کی لیکن جوں جوں ان کے زوال کے آثار بڑھتے گئے، ان کی تقریبوں میں شان و شوکت کی بھی کمی ہوتی گئی یہاں تک کہ سلطنت کا چراغ ٹمٹمانے لگا اور وہ جب سنبھالا لے رہی تھی تو بہادر شاہ ظفر تخت نشیں ہوا۔