عظیم مسلم سائنسدان ابن طفیل
ابن طفیل بین الاقوامی شہرت کا مالک، قدیم اسلامی اندلس کا مشہور عالم، جراح اور فلسفی تھا۔ اس کا نام ابوبکر محمد عبدالمالک تھا، ابوجعفر الاندلسی القرطبی الاشبیلی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ وہ قبیلہ قیس میں 1105ء میں پیدا ہوا۔ اس کا مقام پیدائش غرناطہ کی ایک وادی میں تھا۔
ابن طفیل کے خاندان اور تعلیم و تربیت کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ وہ طبیب تھا اور غرناطہ میں مطب کرتا تھا۔ پھر وہ والیٔ صوبہ کا کاتب بنا۔ 1154ء میں اس نے یہی خدمت والیٔ طنجہ اور سبتہ کے یہاں انجام دی۔ ان سب کیلئے وہ خاندان الموحد کے حکمران ابویعقوب یوسف اوّل کا طبیب مقرر ہوا۔ طفیل کے بعد مشہور فلسفی و طبیب ابن رشد اسی عہدہ پر فائز ہوا۔
ابن طفیل کو ابو یعقوب کے یہاں کافی رسوخ حاصل ہو گیا۔ اسی اثر سے یعقوب کے دربار میں کئی نامور علما جمع ہو گئے۔ نوجوان ابن رشد بھی ان میں سے ایک تھا۔ ابن طفیل ہی کے مشورہ پر ابن رشد نے ارسطو کی تصنیفات پر حاشیے لکھے۔
1185ء میں یعقوب کا انتقال ہو گیا تو اس کے بیٹے جانشین ابو یوسف یعقوب نے ابن طفیل کا والد کی طرح ہی خیال رکھا۔ ابن طفیل کا جب انتقال ہوا تو اس کے جنازے میں ابو یوسف نے بھی شرکت کی۔
ابن طفیل کی تصنیفات ناپید ہیں، البتہ اس کی ایک تصنیف جو اب تک موجود ہے اور جس نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی، وہ ہے رسالہ ''حئی بن یقظان‘‘۔ اس کا ذیلی عنوان اسرارالحکمۃ الاشراقیہ ہے۔ اس کا ترجمہ لاطینی زبان میں سترہویں صدی میں شائع ہوا، اس کے بعد اس کا ترجمہ دنیا کی اور خاص طور پر یورپ کی کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اس میں اس نے اپنے فلسفیانہ خیالات کو ایک داستان کی شکل میں پیش کیا ہے۔
اسرارالحکمۃ الاشراقیہ میں اشراقی فلسفہ اپنی اعلیٰ ترین بلندیوں پر ملتا ہے۔ اس کی مدد سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ چونکہ فلسفہ کا فہم و ادراک عام لوگوں کے ذہن سے بالاتر ہے، لہٰذا اسے ایک قصہ کے ذریعہ عام فہم انداز میں پیش کیا جائے۔ اس میں اس نظریہ کی حمایت کی گئی ہے کہ حق دو گونہ ہوتا ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق حکمت سے ہے اور دوسرا وہ جس کا تعلق شریعت سے۔ اس دور کے حکمائے اسلام کا یہی خیال تھا اور آگے چل کر ابن رشد نے بھی اس پر خاص طور پر زور دیا۔ ابن سینا نے بھی اس پر ایک رسالہ تصنیف کیا تھا۔ چنانچہ ابن طفیل نے یہ عنوان ابن سینا ہی سے لیا ہے۔ آگے چل کر ان ہی ناموں کو استعمال کر کے جامی نے ایک مثنوی اور طوسی نے ایک افسانہ تصنیف کیا۔ بعض لوگ ان خیالات کا رشتہ نوافلاطونی فلسفہ سے ملاتے ہیں۔
حئی بن یقظان کی زبان سراسر رمزی ہے اور اس کا مقصور اس امر کی تشریح ہے کہ فلسفے کی غرض و غایت ذات الہٰی سے اتحادواتصال ہے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے دل کی صفائی اور نوربصیرت سے اس مقام پر پہنچ جائے جہاں حق کے ادراک کیلئے کسی قیاس و استدلال کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس سلسلہ میں ابن طفیل نے اپنے پیش روؤں ابن سینا، ابن ماجہ اور غزالی کی بڑی تعریف کی ہے۔
حئی بن یقظان کا قصہ یہ ہے کہ ایک جزیرے کی شہزادی اپنے بچے کو سمندر میں پھینکنے پر مجبور ہوتی ہے۔ وہ بچہ پانی کی رو میں بہہ کر ایک سنسان جزیرے میں پہنچ جاتا ہے۔ ایک ہرنی اس بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ وہ اس کی پہلی معلمہ ہے۔ بچہ جب کسی قدر بڑا ہوتا ہے تو اپنے اطراف کے جانوروں کو پاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان سب کے جسم ڈھکے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے جسم کو بھی پتوں سے ڈھانکتا ہے۔ تجربے سے وہ درخت کی لکڑی استعمال کرنا سیکھ جاتا ہے اور اس طرح اسے ہاتھوں کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ پھر وہ شکاری بن جاتا ہے۔ ہنرمندی ترقی کرنے لگتی ہے تو جسم کو پتوں کی جگہ عقاب کی کھال سے ڈھانکنے لگتا ہے۔ ہرنی، جس نے اسے پالا تھا، جب بوڑھی ضعیف اور بیمار ہو جاتی ہے تو اسے بڑا دکھ پہنچتا ہے اور وہ اس بڑھاپے اور بیماری کی کھوج میں اپنے جسم کا مطالعہ کرتا ہے اور اس طرح اسے اپنے حواس کا شعور ہوتا ہے۔ جب ہرنی مر جاتی ہے تو پتھر سے چیر کر وہ جسم کے اندر کی چیزوں سے واقف ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ مرنے پر کوئی غیرمرئی چیز جسم سے چلی جاتی ہے۔ یہ روح کا بالکل ابتدائی تصور ہوتا ہے۔ لاش سڑنے لگتی ہے تو پہاڑی کوے اسے دفن کرنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔
اتفاقاً رگڑ سے اسے آگ سے واقفیت ہوتی ہے اور اس کا استعمال سیکھنے لگتا ہے۔ بڑھتے ہوئے تجربوں کے ساتھ وہ جانوروں کو چیرنا، پھاڑنا، انہیں سدھانا، ان کے اون سے کپڑے بنانا سیکھ جاتا ہے۔ داستان میں اس ارتقا کی تفصیل بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔
حئی بن یقظان کا علم جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے، اس میں اور تیز رفتاری آتی جاتی ہے اور آخر میں وہ فلسفہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ تمام نباتات و معدنیات کا علم حاصل کرتا ہے۔ حیوانات کے اعضائے جسمانی اور ان کے استعمال سے واقف ہوتا ہے اور انہیں اصناف اور انواع میں مرتب کرتا ہے۔ ابتدائی جواہر کی جستجو میں وہ عناصر اربعہ کی شناخت کر لیتا ہے۔ زمین کا معائنہ کرتے وقت اس کے ذہن میں مادہ کا تصور جنم لیتا ہے۔
پانی کو گرم کرنے پر وہ بھاپ بن جاتا ہے تو اس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہر نئی تخلیق کے لیے علت کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے اس کے ذہن میں اس کائنات کے خالق مطلق کا تصور آتا ہے۔ اس کا مطالعہ وہ اطراف کی چیزوں میں کرتا ہے لیکن چونکہ یہ سب فانی ہیں اس لیے اب وہ اپنی جستجو کا رخ اجرام سماوی کی طرف موڑ دیتا ہے۔
حئی جب اٹھائیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اب وہ آسمان کے بارے میں غوروخوض شروع کرتا ہے اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تصور موجودات عالم کے مطالعہ سے کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ اپنے ارادے میں مختار ہے، دانا ہے، عالم ہے، رحیم ہے وغیرہ۔ اسی سے وہ اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ وہ غیر فانی ہے وہ انہی مسائل پر غوروخوض میں لگ جاتا ہے۔
اس کے بعد الہامی مذہب کا ایک سچا پیرو اسال قریب کے جزیرے سے پہنچ جاتا ہے۔ جب دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھنے لگتے ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ الہامی مذہب بھی دراصل وہی فلسفیانہ عقیدہ ہے جس تک حئی پہنچ چکا ہے، اور اسال کو اس میں تمام الہامی مذاہب کی وجدانی تعبیر نظر آتی ہے۔
اسال حئی کو ترغیب دے کر اسے اپنے جزیرے میں لے جاتا ہے تاکہ وہ عام لوگوں کے سامنے اپنی تعلیم پیش کرے۔ مگر وہ اپنا فلسفہ لوگوں کو سمجھانے سے قاصر رہتا ہے۔ حئی اور اسال مایوس ہو کر غیر آباد جزیرے میں واپس چلے آتے ہیں تاکہ باقی زندگی خالص غوروفکر میں گزاریں۔ لوگ بدستور خیالی رموز و علامات کے سہارے زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔