2عظیم مسلم سائنسدان حکیم یحییٰ منصور اور حجاج بن یوسف مَطر
حکیم یحییٰ منصور ہیئت داں اور منجم تھا اور دربار میں اسی حیثیت سے وہ باریاب ہوا۔حکیم یحییٰ منصور صدگاہ شماسہ کا منتظم تھا۔ مامون الرشید کے دور میں دو رصد گاہیں تعمیر ہوئیں۔ شماسہ کی رصد گاہ اور ملک شام میں دمشق کی رصد گاہ اور ایک ماہرین کی جماعت تحقیق کے کاموں پر مقرر کر دی گئی تھیں۔ حکیم یحییٰ منصور اس جماعت کا صدر اور منتظم تھا۔ چند نئی نئی دریافتیں ہوئیں، اور قدر دانوں نے اس کی قدر کی۔
ابتدائی زندگی تعلیم و تربیت
مامون الرشید کے دربار میں اسے یہی حیثیت حاصل تھی۔ حکیم یحییٰ منصور ایک پڑھے لکھے خاندان کا چشم و چراغ تھا اس کے والد علم ہیئت کے ماہر تھے، علم منجم کا تعلق علم ہیئت سے ہے، اس لئے ہیئت داں نجومی بھی ہوتا ہے۔ اس دور میں بھی عوام کو حلم نجوم سے بڑی دلچسپی تھی۔ عوام چاند تاروں کے اثرات کے قائل تھے۔
اس دور میں عام لوگ یہ سمجھتے تھے کہ دنیا میں جو کچھ واقعات پیش آتے ہیں، سب چاند ستاروں کے اثرات کے تحت عمل میں آتے ہیں۔ نجومی چاند تاروں کو دیکھ کر آئندہ پیش آنے والی باتیں بتا دیتے تھے۔ اس علم کو علم نجوم، علم جوتش یا انگریزی میں (Astrology) کہتے ہیں۔اس دور میں لوگ اس علم نجوم کو بڑے شوق سے سیکھتے تھے۔حکیم یحییٰ منصور نے علم نجوم میں کمال پیدا کیا چونکہ اپنے فن کا ماہر تھا، دربار میں عزت کی جگہ مل گئی۔ مامامون الرشید بہت مانتا تھا۔
علمی خدمات اور کارنامے
سائنس کی دنیا میں مامون الرشید کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے ایک عظیم رصد گاہ بغداد میں شماسہ کے مقام پر تعمیر کرائی اور دوسری رسد گاہ ملک شام میں دمشق کے قریب قاسیون کے بلند اور سطح میدان میں تعمیر کرائی۔
اس تعمیر میں باکمال ہیئت دانوں کی ایک جماعت مقرر تھی جو سب نگرانی کرتے تھے ان میں حکیم یحییٰ منصور بھی تھا۔ بغداد کی رسدگاہ دو برس میں کام کرنے لگی، ہر قسم کے آلات مثلاً اصطرلاب وغیرہ نصب تھے۔ ماہرین کی جماعت میں حکیم یحییٰ منصوربھی تھا۔
قاسیون (دمشق) کی رسد گاہ جب تیار ہو گئی تو حکیم یحییٰ منصور کا تقرر صدر کی حیثیت سے وہاں ہو گیا۔ حکیم یحییٰ منصور اور ماہرین کی جماعت نے وہاں فلکیاں کا مطالعہ اور مشاہدہ شروع کردیا۔
حکیم یحییٰ منصور نے چاند اور بعض دیگر سیاروں کے متعلق چند نئی نئی دریافتیں کیں، ستاروں کے متعلق زیچ سب سے پہلے تیار کی۔ جس کا نام زیچ مامونی رکھا۔ یہ زیچ فلکیات سے متًعلق پہلی کتاب ہے۔
حکیم یحییٰ منصور علم ریاضی کا بھی ماہر تھا، اس نے علم ہندسہ میں کئی نئے اصول مرتب کئے۔ بیت الحکمۃ( سائنس اکاڈیمی) کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ یحییٰ منصور بیت الحکمۃ بھی معزز ممبر تھا۔
حجاج بن یوسف بن مطر
حجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ میں کمال رکھتا تھا۔ اس نے دو بڑے کام کئے۔ مقدمات اقلیدس کے نام سے ایک جامع کتاب علم ریاضی میں مرتب کی۔ دوسرا کام اس کا قدیم دور کی مشہور کتاب المجسطی کو اصلاح اور نظرثانی کے بعد (ایڈٹ کرکے) مرتب کیا۔
ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیت
حجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ کا ماہر تھا۔ اس فن میں اس نے کمال پیدا کیا۔ حجاج بن یوسف دیہات کا باشندہ تھا، والدین تو کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن حجاج نے اپنے شوق اور اپنی محنت سے اچھی تعلیم حاصل کی، پھر دیہات کے تنگ دائرے سے نکل کر 786ء میں بغداد آ گیا اور یہیں بس گیا۔حجاج نے بغداد کے علمی ماحول سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور بغداد کی علمی صحبتوں سے مستفید ہو کر اپنی قابلیت اور استعداد میں اچھا اضافہ کر لیا۔ حجاج نے ہارون الرشید اور مامون الرشید دونوں کا روشن دور دیکھا تھا، مگر وہ خاموش علمی کام کرتا رہا۔
علمی خدمات اور کارنامے:
حجاج ایک بلند پایہ ریاضی دان تھا۔ اس نے دو بنیادی کام کئے، ایک تو علم ہندسہ یعنی جو میٹری کا کام تھا اور دوسرا علم ہیئت سے متعلق تھا۔ اس نے ان دونوں علوم کو نئے ڈھنگ سے فروغ دیا۔ جومیٹری میں اس نے نئے نئے انکشاف کئے اور اپنا ایک حلقہ بنا لیا۔ اس وقت علم ہندسہ میں اس کا کوئی ہمسر نہ تھا۔علم ہندسہ میں ایک جامع کتاب ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے اس ریاضی دان نے مرتب کی۔ یہ ریاضی دانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔دوسرا کارنامہ اس کا علم ہیئت سے متعلق ہے۔ قدیم زمانے کی مشہور کتاب '' المحسبعیٰ‘‘ کو اصلاح اور تصحیح کے ساتھ نئی ترتیب سے اس نے مرتب کیا اور اس علم کو نئے انداز سے فروغ دیا۔ اہل یورپ نے حجاج کی دونوں کتابوں سے فائدہ اٹھایا۔