ایک غلطی،90افراد کی جان لے گئی

ایک غلطی،90افراد کی جان لے گئی

اسپیشل فیچر

تحریر : طاہر جاوید مغل


وہ4دسمبر1957ء کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی شام تھی، لندن کے دفتروں اور کارخانوں میں چھٹی ہو چکی تھی اور گھروں کو جانے والے افراد بہت جلدی میں نظر آتے تھے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو لندن کے مضافاتی علاقوں سے کام کرنے کیلئے آتے تھے، اس شام بہت بے چین نظر آ رہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس روز سردی معمول سے کچھ زیادہ تھی اور دھند بھی وقت سے بہت پہلے پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔ روزانہ سفر کرنے والوں کو معلوم تھا کہ اگر دھند مزید گہری ہو گئی تو ریل گاڑیوں کی آمدورفت متاثر ہوگی اور اس طرح ان کا گھروں تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا۔
لندن کے دو ریلوے سٹیشنوں '' چیئرنگ کراس‘‘ اور ''کینسن سٹریٹ‘‘ پر مسافروں کا زبردست ہجوم تھا۔ چیئرنگ کراس سٹیشن پر 5بج کر18منٹ پر چلنے والی الیکٹرک ٹرین مسافروں سے کھچا کھچ بھری کھڑی تھی اور سبزی سگنل کا انتظار کر رہی تھی۔ اس ٹرین کی دس بوگیاں تھیں اور تقریباً پندرہ سو مسافر اس میں سوار تھے۔ ان مسافروں میں سے زیادہ تر دفتروں میں کام کرنے والے کلرک، ٹائپسٹ، فیکٹریوں کے مزدور اور کرسمس کی خریداری کیلئے آنے والی عورتیں تھیں۔ یہ سب لوگ اب جلد سے جلد گھروں کو پہنچنا چاہتے تھے اور بار بار اپنی گھڑیوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یہ گاڑی مضافاتی سٹیشن ''بینر‘‘ تک جا رہی تھی لیکن درمیان میں بھی گاڑی کو کئی دوسرے سٹیشنوں پر رکنا تھا۔ آخر آدھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد5بج کر 48منٹ پر گاڑی کو سبز سگنل ملا اور گاڑی ایک خوشگوار جھٹکے کے ساتھ اپنی جگہ سے حرکت میں آ گئی۔
لندن کے مضافاتی علاقے کو جانے والی یہ ریلوے لائن اس وقت دنیا کے معروف ٹرین لائن تھی۔ اس لائن پر آنے جانے کے لئے چار پٹڑیاں تھیں چوبیس گھنٹے کے دوران ان پٹڑیوں پر سے 990گاڑیاں گزرتی تھیں۔ صبح و شام کے اوقات میں رش بہت زیادہ ہو جاتا تھا اور اڑھائی منٹ کے بعد ایک گاڑی ہر ایک پٹڑی پر سے گزرتی تھی۔ گاڑیوں کی اس بے تحاشا آمدورفت سے نبٹنے کے لئے ٹریفک سگنل کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا اور تقریباً ہر پانچ سو گز پر ایک سگنل نصب تھا۔
الیکٹرک ٹرین نسبتاً دھیمی رفتار سے اپنے راستے پر دوڑی جا رہی تھی۔ ٹرین کا ڈرائیور موٹر مین سکٹن‘‘ تھا اور اس وقت اس کے دو سینئر ساتھی بھی انجن روم میں اس کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ یہ تینوں افراد ہر لخط پھیلتی ہوئی دھند میں گہری نظروں سے سامنے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اور کسی سگنل کو نظرانداز کرنا نہیں چاہتے تھے۔ تقریباً دس میل کا سفر بخوبی طے ہو گیا اور انہیں کسی جگہ رکنا نہیں پڑا۔ آخر جب وہ ''پارکس برج کنکشن‘‘ کے قریب پہنچے تو انہیں سرخ سگنل کا منہ دیکھنا پڑا اور یوں الیکٹرک ٹرین پل کو پار کرنے کے فوراً بعد ایک جگہ پر ٹھہر گئی۔ اس سے پہلے بہت کم ایسا ہوا تھا کہ کسی ٹرین کو اس جنکشن پر رکنا پڑا ہو۔ ڈرائیور سلکٹن نے اپنے کیبن سے سگنل باکس کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں سے پوچھا کہ کیا سرخ بتی کسی خرابی کی وجہ سے تو نہیں جل رہی۔ دوسری طرف سے کرخت لہجے میں جواب ملا کہ نہیں بتی ٹھیک جل رہی ہے۔ گاڑی کو اس وقت تک روکے رکھو جب تک صحیح سگنل نہیں ملتا۔
ڈرائیور خاموش ہو گیا اور سگریٹ سلگا کر اپنے دوسرے ساتھیوں سے گپ شپ میں مصروف ہو گیا دھند اب گہری ہو گئی تھی۔ گاڑی میں موجود تمام زندگی ٹھہر گئی تھی۔ لوگ بار بار کھڑکیوں میں سے سرنکال کر دھند کی دبیز چادر میں ٹمٹماتی ہوئی سرخ بتی کو دیکھ رہے تھے اور ٹھنڈی آہیں بھر رہے تھے۔وہ اس آفت سے بے خبر تھے جو ایک ٹرین کی صورت میں عقب سے تیزی کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہی تھی اور ان میں سے بہت سوں کے لئے ہلاکت اور تباہی کا پیغام لا رہی تھی۔یہ بھاپ کے انجن سے چلنے والی گیارہ ڈبوں پر مشتمل ایک مسافر بردار گاڑی تھی جو مسافروں سے لدی ہوئی ''کینن سٹریٹ سے ''رامس گیٹ‘‘ جا رہی تھی۔
کینن سٹریٹ‘‘ تک گاڑی کو ایک اور ڈرائیور چلا کر لایا تھا۔ اس نے گاڑی کا چارج ''ٹریو‘‘ کے حوالے کرتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ گاڑی میں پانی کی مقدار کم ہے اور اسے پانی بھروا لینا چاہئے۔'' ٹریو‘‘ گاڑی کا انتظار کرتے کرتے بہت بور ہو چکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ شیڈول کے مطابق سیدھا برج ٹائون جانے کے بجائے وہ راستے میں ''سیلون آکس‘‘ کے مقام پر گاڑی روکے گا اور وہاں سے پانی بھروا لے گا۔لندن برج سے گزرتے ہی اس نے رفتار بڑھا دی اور بھاپ کا وزنی انجن 30میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دندناتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔
دھند بہت گہری تھی لیکن پٹڑی کے ساتھ ساتھ جھلملاتے ہوئے سبز سگنل اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ آگے راستہ صاف ہے۔وہ پوری رفتار سے ''سٹریٹ جوہن‘‘ کے سٹیشن میں داخل ہوا تھا اور اب '' پارکس برج جنکشن‘‘ کی سمت بڑھ رہا تھا۔ دراصل بطور ڈرائیور اپنی زندگی میں ''ٹریو‘‘ کو کبھی اس سٹیشن پر رکنا نہیںپڑا تھا، ہو سکتا ہے اس کے ذہن میں یہ خیال ہی نہ آیا ہو کہ اس کو یہاں رکنا پڑ سکتا ہے۔ اچانک ''ٹریو‘‘ کے ذہن میں کسی شے نے سر ابھارا اور اس نے چلا کر اپنے فائر مین سے پوچھا '' کیا تم پلیٹ فارم کے آخری سرے پر موجود سگنل دیکھ سکتے ہو؟ فائر مین، ہوٹر نے باہر جھانکا اور چیختی ہوئی آواز میں بولا '' سگنل سرخ ہے‘‘۔ کیا کہا سگنل سرخ ہے؟ '' ٹریو نے دہشت زدہ آواز میں دہرایا اور پھر اس نے جلدی سے بریک لگانے کی کوشش کی لیکن اب وقت گزر چکا تھا۔ دھند اور اندھیرے کی دبیز چادر میں لپٹی ہوئی الیکٹرک ٹرین صرف 138 گز کے فاصلے پر موجود تھی۔ سٹیم ٹرین کا وزنی انجن الیکٹرک ٹرین کے آخری ڈبے سے ٹکرایا اور اس کو کاغذ کی طرح ادھیڑتا ہوا نویں اور آٹھویں ڈبے کو تہس نہس کر گیا۔ دسواں ڈبہ تو عملے کے استعمال کے لئے تھا اور خالی تھا لیکن نواں اور آٹھوں ڈبہ مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ دونوں ڈبے ایک دوسرے میں اس طرح دھنس گئے کہ ایک ڈبے کی صورت اختیار کر گئے۔
جائے حادثہ سے نزدیک ترین جگہ ''ایلسوک روڈ‘‘ تھی جس وقت حادثہ رونما ہوا اس وقت قصبے کے لوگ سردی سے بچنے کیلئے گھروں میں آگ جلائے بیٹھے تھے اور رات کے کھانے کی تیاری کر رہے تھے۔ اچانک گڑگڑاہٹ کی آواز آئی اور پھر زور دار دھماکے سے درو دیوار لرز اٹھے۔ قصے کے لوگ بھاگتے ہوئے جائے حادثہ پر پہنچے اور پھر وہاں کا منظر دیکھ کر ان کی چیخیں نکل گئیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں: بیگم خورشید مرزا ریڈیو،ٹی وی اور فلم کی ممتاز اداکارہ

یادرفتگاں: بیگم خورشید مرزا ریڈیو،ٹی وی اور فلم کی ممتاز اداکارہ

بیگم خورشید مرزا جن کا اصل نام خورشید جہاں تھا تقسیم ہند سے قبل رینوکا دیوی کے نام سے مشہور ہوئیں اور پاکستان بننے کے بعد سرکاری ٹی وی کی ممتاز فنکارہ کے طور پر جانی گئیں۔ 8 فروری 1989 کو لاہور میں وفات پانے والی بیگم خورشید مرزا کو ناظرین ''اکا بوا‘‘ کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے۔ اُس دور میں شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے اُن کے یادگار ڈرامے ''کرن کہانی‘‘، ''زِیر زبر پیش‘‘، ''انکل عرفی‘‘، ''پرچھائیں‘‘، ''رومی‘‘، ''افشاں‘‘ اور' 'انا‘‘ نہ دیکھے ہوں۔ لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ بیگم خورشید مرزا کا تعلق برصغیر کے کتنے معروف علمی، ادبی اور ثقافتی خانوادے سے تھا۔بیگم خورشید مرزا 4مارچ 1918ء کو برٹش انڈیا دور میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں اور ان کا نام خورشید جہاں تھا۔ ان کے والد شیخ عبداللہ بیرسٹر تھے، جنہوں نے علی گڑھ گرلز کالج کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کی والدہ وحیدہ جہاں تھیں۔ بیگم خورشید جہاں کا گھرانہ علی گڑھ کے پڑھے لکھے گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ ان کی بڑی بہن ڈاکٹر رشیدہ تھیں جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی اراکین میں سے تھیں اور ان کی دوسری بہنیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔خورشید جہاں نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کی۔ سکول کالج سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے انڈیا کے مختلف تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم کی سندیں حاصل کیں۔ 1934ء میں ان کی شادی دہلی کے ایک پولیس آفیسر اکبر حسین مرزا سے ہوئی اور وہ بیگم خورشید مرزا کہلائیں۔ ان دنوں فلموں کی اداکارائوں کو زیادہ اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ رینو کا دیوی( بیگم خورشید مرزا) کی پہلی فلم ''جیون پرابھت‘‘ کے نام سے 1937ء میں ریلیز ہوئی۔ ان کی دوسری فلم ''بھابی‘‘ تھی جو 1938ء میں ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ہوئی۔ یوں بیگم خورشید پورے انڈیا میں رینوکا دیوی کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ اس فلم میں وہ ہیروئن تھیں۔ فلم ''نیا سنسار‘‘ بھی ان کی ایک سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے ہیرو اشوک کمار تھے اور ہیروئن رینو کا دیوی (بیگم خورشید مرزا) تھیں۔ فلم ''سنسار‘‘ کے ہدایتکار این آر اچاریہ تھے۔ اس فلم میں بھی رینوکادیوی نے کئی گانے گائے تھے۔1941ء کی یہ سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے بعد رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) نے بمبئی کو خیر باد کہا اور لاہور آئیں۔1943ء میں لاہور سے زینت بیگم فلمز کی جانب سے ان کی ایک فلم ''سہارا‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی۔1947ء میں پاکستان وجود میں آیا اور رینوکادیوی اپنا نام اور فلمیں انڈیا میں چھوڑ کر پاکستان آ گئیں۔ پاکستان آنے کے بعد کافی عرصہ تک ان کا نام ہندوستان میں گونجتا رہا اور وہاں کے شائقین فلم رینو کادیوی کو یاد کرتے رہے، مگر رینوکادیوی پاکستان آ گئیں اور یہاں بیگم خورشید مرزا کے نام سے معروف ہوئیں۔ابتدا میں بیگم خورشید مرزا ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہیں اور اپنے پروگراموں میں غریب پسماندہ علاقوں کے مسائل پر روشنی ڈالتی رہیں مگر انہوں نے یہاں کی فلمی صنعت جوائن نہیں کی، کیونکہ یہاں کی فلموں کی تباہ حالی اوراداکارائوں کی عزت کا معیار ان کے حساب سے توہین آمیز تھا، اس لئے انہوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا اور ریڈیو کے ذریعے حق کی آواز بلند کرتی رہیں۔ 1964ء میں سرکاری ٹیلی ویژن کا قیام عمل میں آیا اور اس میں خواتین بھی پڑھی لکھی تھیں، اس میں شمولیت اختیار کی۔ بیگم خورشید مرزا کا پی ٹی وی پر پہلا ڈرامہ سیریل ''کرن کہانی‘‘ کے نام سے تھا، جس کو حسینہ معین نے تحریر کیا تھا۔70ء کی دہائی میں بیگم خورشید مرزا سرکاری ٹی وی کی معروف فنکارہ بن گئیں۔1974ء میں ان کی ڈرامہ سیریل ''زیر، زبر، پیش‘‘ تھی۔ یہ کامیڈی ڈرامہ تھا، جس کی پروڈیوسر شیریں خان تھیں۔ کہانی حسینہ معین نے لکھی تھی۔1974ء ہی میں ان کا ایک اور ڈرامہ ''انکل عرفی‘‘ کے نام سے شروع ہوا جو کافی مقبول ہوا۔ اس کے بعد ان کے بے شمار ڈرامے پی ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ ہوئے۔1984ء میں ان کی ڈرامہ سیریل ''انا‘‘ پیش کی گئی جو بہت مقبول ہوئی۔ کراچی سینٹر کی یہ سیریل 21اقساط پر مشتمل تھی۔ ان کے دیگر معروف ڈراموں میں شمع، افشاں، عروسہ، رومی، شوشہ، پناہ، دھند اور ماسی شربتی وغیرہ شامل ہیں۔ 1982ء میں بیگم خورشید مرزا نے اپنی خود نوشت ایک مقامی میگزین میں 9اقساط میں لکھی جو ہر ماہ شائع ہوئی تھیں۔ ان سوانح حیات میں انہوں نے برطانوی دور حکومت میں اپنی تعلیم زندگی، ازدواجی زندگی اور بھارتی فلموں میں ان کی اداکاری پر تفصیلی نوٹ لکھا جو بعد میں ان کی بیٹی لبنیٰ کاظم نے ترتیب دیا جوA Woman of Substance: The Memoirs of Begum Khurshid Mirza, 1918-1989کے نام سے شائع ہوا۔ بیگم خورشید مرزا نے بہت سماجی خدمات بھی انجام دیں، ان میں ''اپوا‘‘ (Apwa) ''آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن‘‘ ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں 1985ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ بیگم خورشید مرزا کا انتقال 8 فروری 1989ء کو لاہور میں ہوا ۔اور ان کی تدفین میاں میر قبرستان لاہور میں کی گئی۔ 

پیٹرادنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک

پیٹرادنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک

1812ء میں سوئٹزر لینڈ کا ایک مہم جو جان برک ہارڈ(Johann Ludwig Burckhardt) ایک عرب سوداگر کا بھیس بدل کر اردن کے قدیم شہر میں سے گزرا۔ جب وہ قدیم آدم کی پہاڑیوں کے نزدیک پہنچا تو اس نے ان کہانیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک حقیقت کی شکل میں دیکھا جو اس نے بدوئوں سے زمین میں دفن ہو جانے والے شہر کے متعلق سنی تھیں۔برک ہارڈ اس جگہ جانے کی خواہش کا کھلم کھلا اظہار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ اس جگہ سے وابستہ قدیم داستانوں سے واقف تھا، اس لئے اس نے اس بنا پر اجازت حاصل کی کہ وہ ایرون کے مندر میں ایک قربانی دینا چاہتا ہے۔ پہاڑوں کے ایک تنگ درے سے گزر کر ''برک ہارڈ‘‘ مندروں اور گنبدوں کے اس خوبصورت شہر میں پہنچا جو چٹانوں کو کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ اس شہر کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گیا اور یوں اس نے پیٹرا کا قدیم شہر دوبارہ دریافت کیا، جس کے اصل مقام کو مغربی دنیا کے لوگ ایک ہزار سال قبل بھلا چکے تھے۔پیٹرا جنوبی اردن کے چٹانی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ شہر ایک آئوٹ ڈور میوزیم کی مانند لگتا ہے۔ قسطنطنیہ، مصری، رومی اور یونانی طرز تعمیر کا امتزاج یہ شہر دیگر قدیم شہروں سے بڑا منفرد نظر آتا ہے۔ اس کی بنیاد نباتینز نے رکھی جو کہ عرب تھے۔ دیگر قدیم شہروں کی طرح پیٹرا کی معیشت کا دارومدار بھی تجارت پر تھا۔ قدیم نباتینز نے تقریباً 300قبل مسیح میں اس شہر کو چٹانوں کو تراش کر بنایا۔ اس وقت پیٹرا پہاڑ کی نوکیلی چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اصل میں یہ شہر مشرق وسطیٰ کے قدیم راستوں کے سنگم پر واقع ہے۔ اونچے پہاڑوں میں سے گزر کر یہ ہی وہ راستہ تھا جہاں سے گزر کر عربوں کے تجارتی قافلے بحیرہ روم اور بحیرہ اسود پہنچا کرتے تھے اور ان عربوں (نباتینز) کی کمائی کا اصل ذریعہ تجارتی راستوں کی حفاظت سے حاصل ہونے والا ٹول ٹیکس تھا۔پیٹرا کی ایک اور اہمیت یہ تھی کہ یہاں پانی کثرت سے تھا جو ان قافلوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہوتا تھا۔ جلد ہی یہ شہر ایک عظیم تجارتی مرکز اور نباتی سلطنت کا دارالحکومت بن گیا۔ یہ سلطنت 106ء تک قائم رہی پھر رومیوں نے پیٹرا کو فتح کر لیا۔ رومی سلطنت کے ایک صوبے کی حیثیت سے پیٹرا کی اہمیت کچھ عرصہ قائم رہی۔ اس لئے اس کے طرز تعمیر پر رومیوں کا بہت گہرا اثر نظر آتا ہے۔ جب رومیوں نے دیگر تجارتی راستوں کو ترقی دی تو اس شہر کی اہمیت آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔ چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں یہ شہر بالکل ویران ہو گیا۔ آخر کار 8ویں صدی عیسوی کے وسط میں ایک خوفناک زلزلے کے نتیجے میں یہ عظیم الشان شہر مکمل طور پر زمین کے نیچے دفن ہو گیا۔اب اس شہر کے جو کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں اس کے مطابق اس میں داخلے کیلئے ایک تنگ گھاٹی سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ 5میٹر چوڑی اور 200 میٹر بلند ہے۔ بہت سے مندر اور گنبد جو پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ اب تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور''کیشنی‘‘ ہے جو پیٹرا تک جانے والے تنگ درے''سق‘‘ کے اندرونی سرے کی مخالف سمت میں بنا ہے۔پہلی صدی قبل مسیح میں بننے والی یہ عمارت کیشنی کی دو منزلیں ہیں۔ نچلی منزل کی طرز تعمیر یونانی مندروں جیسی ہے جس کے اوپر کے حصے میں مثلث نما ستون نظر آتے ہیں۔ چٹانوں کو کھود کر اس یادگار پر دلکش نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ کیشنی کی مرکزی عبادت گاہ202 مربع میٹر رقبہ پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ دو چھوٹے کمرے ہیں جو راہبوں کیلئے مخصوص تھے۔کیشنی ایک مندر ہے اور اس کا ایک گنبد بھی ہے۔ اس لفظ کا عربی مفہوم''خزانہ‘‘ ہے۔ مقامی بدوئوں کا خیال تھا کہ اوپر کے مرکزی ہال میں جو خاکدان بنا ہوا ہے اس میں ایک مصری فرعون کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ کئی بدوئوں نے خزانہ حاصل کرنے کیلئے اس خاکدان پر گولیاں چلائیں تاکہ اسے توڑا جا سکے۔ پیٹرا میں داخلے والی تنگ گھاٹی سے آگے کئی ستونوں والے مقبرے ہیں۔ آگے کی طرف جائیں تو ایک تھیڑ آتا ہے جو چٹانوں کو کاٹ کر بنایا گیا تھا اس کی تعمیر پہلی صدی قبل مسیح میں ہوئی۔تھیڑ سے آگے کئی مقبرے ہیں۔ یہیں ایک تنگ پہاڑی راستے سے گزرتے ہوئے ایک گھنٹہ کی پیدل مسافت پر قدیم عبادت گاہ ہے جو رومیوں کے عہد میں بنائی گئی تھی۔ اس سے بھی اوپر قربان گاہ ہے جہاں کئی درزیں بنی ہیں جن کے ذریعے قربانی کے جانوروں کا خون نیچے گرایا جاتا تھا۔ پیٹرا سے جنوب کی طرف وسیع و عریض صحرائی لینڈ سکیپ ہے جسے وادی روم کہا جاتا تھا۔ یہاں بدو قبائل آباد ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

برقی کرسی پر پابندی08فروری 2008ء کو نبراسکا میں سزائے موت دینے کیلئے برقی کرسی کے طریقے پر پابندی عائد کی گئی۔ یہ طریقہ سزائے موت دینے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ سزائے موت کے مجرم کو لوہے کی کرسی پر بٹھا کر اس کے پورے جسم پر بجلی کی تاریں لگا دی جاتی تھیں اور کرسی میںکرنٹ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ کچھ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مجرم کو کرسی کے ساتھ باندھ کر اس کے پاؤں پانی میں ڈال دئیے جاتے تھے اور منہ میں لوہے کا راڈ یا سیخ رکھ دی جاتی تھی۔ بین الاقوامی فورمز پر اس طریقہ کی شدید مخالفت کے بعد2008ء میں برقی کرسی پر پابندی لگادی گئی۔خلامیں رہنے کا ریکارڈ8فروری1974ء کو تین امریکی خلا باز ڈاکٹر ایڈورڈ گبسن، لیفٹیننٹ کرنل جیرالڈ کار اور لیفٹیننٹ کرنل ولیم پوگ سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 85دن خلاء میں رہنے کے بعد بحفاظت زمین پر واپس پہنچے۔ انہوں نے 85 دن امریکی خلائی اسٹیشن اسکائی لیب میں گزارے۔ اسی پروگرام کو مزید جدت کے ساتھ اب دوبارہ شروع کرنے کی تیاریاں کی جائیں گی جس میں خلا اور چاند پر ایسے سٹیشن بنائے جائیں گے جس میں خلا باز طویل عرصے تک قیام کر سکیں گے۔فلسطین ، اسرائیل فائر بندی معاہدہ2005ء میں آج کے روز اسرائیل اور فلسطین کے درمیان فائر بندی کا معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کے باوجود اسرائیل نے بمباری اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ معاہدے کی خلاف ورزی پر فلسطین نے احتجاج بھی کیا لیکن اسرائیلی افواج نے طاقت کا بے رحم استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں پر بھی فائرنگ کر دی۔ معاہدے کی خلاف ورزی کو بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کا نشانہ بنا یا گیا لیکن اسرائیل نے اس معاہدے کو بھی ماضی کے دیگر معاہدوں کی طرح ہوا میں اڑا دیا اورظلم و ستم کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جاپان روس جنگ کا آغاز8 فروری 1904ء میں جاپان اور روس کے مابین جنگ کا آغاز ہوا جو 2سال تک جاری رہی۔ کوریا اور منچوریا پر اثرو رسوخ قائم کرنے کو لے کر جاپان اور روس میں کافی عرصہ سے مذاکرات جاری تھے جن کی ناکامی پر جاپان نے روس کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جاپانی بحریہ نے چینی بندرگاہ پورٹ آرتھر پر موجود روسی بحر ی بیڑے پر پے درپے حملے کر کے جنگ کا باقاعدہ آغاز کیا۔ ان حملوں سے روسی بیڑے کو شدید نقصان پہنچا۔  

یادرفتگاں:تم ہی ہو محبوب میرے ایم اشرف

یادرفتگاں:تم ہی ہو محبوب میرے ایم اشرف

ایم اشرف ، پاکستانی فلمی تاریخ کے سب سے کامیاب ترین موسیقار تھے جن کے کریڈٹ پر بہت بڑی تعداد میں سپر ہٹ گیت ہیں۔ انھوں نے چار عشروں کے فلمی کریئر میں چار سو سے زائد فلموں میں تقریباً اڑھائی ہزار سے زائد اردو اور پنجابی گیت کمپوز کیے تھے۔یکم فروری 1938ء کو پیدا والے ایم اشرف شروع میں منظور اشرف کے نام سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے۔ دراصل یہ دو افراد تھے منظور اور اشرف پھر بعد میں یہ الگ ہو گئے اور اشرف صاحب ایم اشرف کے نام سے فلموں میں موسیقی دینے لگے۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنے نانا سے موسیقی کی تربیت لی جو ماسٹر عنایت حسین کے ماموں تھے۔انہوں نے اپنے ماموں اختر حسین اکھیاں کے معاون کے طور پر بہت عرصہ تک کام کیا۔ اختر حسین اکھیاں بڑے باکمال موسیقار تھے اور ان کی عظمت کا ایک زمانہ معترف رہا۔ 1961ء میں انہوں نے فلم ''سپیرن‘‘ کی موسیقی دی اور اسی فلم سے گلوکاراحمد رشدی کو زبردست شہرت ملی۔ احمد رشدی نے ایم اشرف کی موسیقی میں جو گیت گایا اس کے بول تھے ''چاند سا مکھڑا گورا بدن‘‘ احمد رشدی کو یہ خوبصورت گیت گانے پر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ منظور اور اشرف نے 1956ء سے 1967ء تک اکٹھے کام کیا۔ 1967ء میں ایم اشرف علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے ''سجدہ‘‘ فلم کی موسیقی ترتیب دی۔ اس کے بعد ایم اشرف کو مختلف فلموں کا شاندار میوزک دینے پر نگار ایوارڈ دیئے گئے۔ ان فلموں میں ''گھرانہ میرا نام ہے محبت‘ شبانہ اور قربانی‘‘ شامل ہیں۔ ایم اشرف بڑی دلکش دھنیں بناتے تھے اور ان کی موسیقی آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ انہوں نے 1963ء میں فلم ''تیس مار خان‘‘ میں سب سے پہلے گلوکار شوکت علی کو متعارف کرایا۔ 1974ء میں فلم ''ننھا فرشتہ‘‘ میں گلوکارہ ناہید اختر کو گانے کا موقع دیا۔ اس گانے کے بول تھے ''جانے کیوں دل تڑپتا رہتا ہے‘‘۔ نیرہ نور کا پہلاسپرہٹ گیت بھی ایم اشرف کی موسیقی میں تھا۔ رجب علی نے بھی 1971ء میں ان کی فلم ''یادیں‘‘ میں ایک دلکش گیت گایا۔ اس کے بعد اسد امانت علی خان کو بھی شباب کیرانوی کی فلم ''سہیلی‘‘ میں 1978ء میں موقع دیا۔ اسد امانت علی خان نے پہلے ہی گیت سے دھوم مچا دی۔ دراصل ایم اشرف بہت عرصے سے اس کوشش میں تھے کہ اسد امانت علی خان سے پلے بیک گائیکی کرائی جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اسد امانت علی خان ایک اچھے پلے بیک سنگر بن سکتے ہیں اور ان کی یہ بات درست ثابت ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اسد امانت علی خان نے بعد میں خود ہی دلچسپی نہیں لی وگرنہ وہ بہت دھوم مچا سکتے تھے۔ ایم اشرف نے پاکستان میں کئی ریکارڈ قائم کئے۔ انہوں نے سب سے زیادہ فلموں کی موسیقی دی اور اس کے علاوہ چار اہم گلوکاروں کے ساتھ بیک وقت کام کیا جن میں نور جہاں، مہدی حسن، مسعود رانا اور احمد رشدی شامل ہیں۔ ایم اشرف کو چوٹی کے نغمہ نگاروں کی خدمات بھی حاصل رہیں جن میں فیاض ہاشمی، تسلیم فاضلی‘ قتیل شفائی‘ کلیم عثمانی اور خواجہ پرویز شامل ہیں۔ انہوں نے ناہید اختر سے بڑے شاندار نغمات گوائے۔ 1974ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''شمع‘‘ میں ناہید اختر نے ان کی موسیقی میں بڑے خوبصورت گیت گائے۔ خاص طور پر ناہید اختر کا گایا ہوا گیت ''کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجا دی‘‘ آج بھی اپنی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایم اشرف نے مہدی حسن سے بڑے باکمال گیت گوائے۔ فلم ''شبانہ‘‘ میں انہوں نے مہدی حسن سے ایک ایسا رومانی گیت گوایا جسے بے پناہ شہرت ملی اس گیت کے بول تھے ''تیرے بنا دنیا میں‘‘ خود مہدی حسن حیران تھے کہ ایم اشرف نے ان کی صلاحیتوں کو کس خوبصورتی سے استعمال کیا کیونکہ مہدی حسن کا انداز گائیکی اس سے بہت مختلف تھا۔ ایم اشرف نے بہت کام کیا شباب کیرانوی کی فلم ''مہتاب‘‘ میں حزین قادری کا لکھا ہوا یہ گیت ''گول گپے والا آیا‘ گول گپے لایا‘‘ بھی اپنے زمانے کا سپرہٹ گیت تھا۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایم اشرف کے مشہور گیتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ایم اشرف ، ان تین موسیقاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے مسعودرانا سے سو سے زائد گیت گوائے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1964ء سے 1976ء تک ان دونوں کے مسلسل ساتھ کے بعد ایک آٹھ سال کا گیپ آتا ہے لیکن پھر آخری دس برسوں میں پچاس سے زائد مشترکہ گیت ملتے ہیں۔ جب اردو فلمیں زوال کا شکار ہوئیں اس وقت بھی ایم اشرف کی شہرت کا آفتاب چمک رہا تھا۔ وہ یقینی طور پر بڑے ذہین موسیقار تھے اور ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ ہر قسم کے گیتوں کو اپنی لاجواب موسیقی سے امر کر دیتے تھے۔ شباب کیرانوی کی زیادہ تر فلموں کی موسیقی ایم اشرف ہی نے دی تھی۔ 4 فروری 2007ء کو ایم اشرف حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ ان کا نام بھی زندہ ہے اور کام بھی۔مقبول گیت1۔ تم ہی ہو محبوب میرے (آئینہ)2۔ یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم (میرا نام ہے محبت)3۔ ہمارے دل سے مت کھیلو (دامن اور چنگاری)4۔ تیرے بنا دنیا میں (شبانہ)5۔ کسی مہرباں نے آ کے (شمع)6۔ آنکھیں غزل میں آپ کی (سہیلی)7۔ تو ر ترو تارا تارا (محبت زندگی ہے)8۔ بے ایمان چاہوں تجھے صبح و شام (جب جب پھول کھلے)9۔ جو درد ملا انہوں نے سے ملا (شبانہ)10۔ تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا (گھرانہ)  

آج کا دن

آج کا دن

فیس بک کا قیامفیس بک کو مارک زکربرگ نے 4جنوری 2004ء میں ہارورڈ کالج کے ساتھی طلباء اور روم میٹ ایڈورڈو سیورین، اینڈریو میک کولم، ڈسٹن ماسکووٹز، اور کرس ہیوز کے ساتھ قائم کیا۔ اس کا نام فیس بک ڈائریکٹریز سے آتا ہے جو اکثر امریکی یونیورسٹی کے طلباء کو دی جاتی ہیں۔ رکنیت ابتدائی طور پر ہارورڈ کے طلباء تک محدود تھی، آہستہ آہستہ شمالی امریکہ کی دیگر یونیورسٹیوں تک پھیلتی گئی۔ فیس بک دنیا کی سب سے معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن چکی ہے جس کے صارفین کی تعداد 3ارب سے زائد ہے۔ افغان زلزلہ 4فروری 1998ء کو افغان، تاجکستان سرحد کے قریب زلزلہ آیا۔ زلزلے کے پہلے جھٹکے کی شدت 5.9 ریکارڈ کی گئی ۔ان زلزلوں کے جھٹکوں کو تاشقند اور دوشنبہ میں محسوس کیا گیا اور اگلے سات دن تک اس کے آفٹر شاکس جاری رہے۔ریاستہائے متحدہ امریکہ کے جیولوجیکل سروے کی جانب سے اس زلزلے کے نتیجے میں2ہزار323افراد کی موت کی اطلاع دی گئی جبکہ یونائیٹڈ اسلامک فرنٹ فار سالویشن آف افغانستان کے ترجمان نے اس وقت پریس کو بتایا کہ انہوں نے تقریباً3ہزار500لاشیں اکٹھی کی ہیں۔ کچھ غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق ہلاک ہونیوالوں کی تعداد 4ہزار کے قریب تھی۔منیلا کی جنگ منیلا کی جنگ فلپائن اور امریکہ کے درمیان ہونے والی پہلی اور سب سے بڑی جنگ تھی۔ اس لڑائی کا آغاز 4 جنوری 1899ء کو ہوا۔اس جنگ میں 19 ہزار امریکی افواج نے جبکہ15ہزار فلپائنی مسلح ملیشیاؤں نے حصہ لیا۔مسلح تصادم اس وقت شروع ہوا جب امریکی فوجیوں نے باغیوں کو اپنے کیمپ سے ہٹانے کے حکم کے تحت فلپائنیوں کے ایک گروپ پر فائرنگ کی۔ فلپائن کے صدر ایمیلیو اگینالڈو نے جنگ بندی کی کوشش کی لیکن امریکی جنرل ایلویل اسٹیفن اوٹس نے اسے مسترد کر دیا اور اگلے دن لڑائی بڑھ گئی۔ یہ جنگ امریکی فتح پر ختم ہوئی۔والڈیویا پر قبضہ والڈیویا پر قبضہ چلی کی جنگ آزادی کے دوران 4فروری1820ء کو ہونے والی ایک جھڑپ کے نتیجے میں ہوا۔ یہ لڑائی والڈیویا شہر اور اس کے اسٹریٹجک اور بھاری قلعہ بند بندرگاہ کے کنٹرول پر لڑی گئی۔ جنگ میں رات کی تاریکی میں حملہ کر کے والڈیوین فورٹ سسٹم کے جنوب مغربی حصے کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اگلے دن مایوس ہسپانیوں نے باقی ماندہ قلعوں کو خالی کر دیا، والڈیویا میں مقامی پیٹریاٹ املاک کو لوٹ لیا گیا ۔ والڈیویا پر قبضہ پیٹریاٹس کیلئے ایک بڑی فتح تھی کیونکہ اس نے ہسپانوی سلطنت کو ایک اہم بحری اڈے سے محروم کر دیا تھا جہاں سے جمہوریہ چلی کو ہراساں کرنا یا اسے دبانا بہت آسان کام تھا۔ 

یادرفتگاں: خیام سرحدی، ہر دلعزیز اداکار

یادرفتگاں: خیام سرحدی، ہر دلعزیز اداکار

1980ء کی دہائی میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ پاکستانی ٹی وی ڈرامے بھارت میں بہت مقبول ہیں اور ان ڈراموں کے معیاری ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ پونا انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان کے ٹی وی ڈرامے دکھائے جاتے تھے۔ پونا انسٹی ٹیوٹ فلم کے حوالے سے ایک انتہائی معتبر ادارہ ہے۔ بھارت کے کئی معروف اداکاروںنے اسی انسٹی ٹیوٹ سے تربیت حاصل کی اور بعد میں اپنی فنی عظمت کا سکہ جمایا۔ بعد میں کئی فنکاروں نے پونا انسٹی ٹیوٹ میں انسٹرکٹر کے طور پر بھی فرائض انجام دیئے۔ پاکستان میں چونکہ کبھی کسی فلم اکیڈمی کا قیام عمل میں نہیں آیا، لیکن یہ کمی ٹی وی نے پوری کردی۔ پاکستان میں ٹی وی ہی فنکاروں کی اکیڈمی تھا اور ہے۔ ہمارے فنکاروں نے خداداد صلاحیتوں کی بنا پر ہر جگہ اپنی شہرت کا ڈنکا بجایا۔ اگر ٹی وی فنکاروں کا ذکرکیا جائے، تو ایک بہت لمبی فہرست ہے، جس میں ماضی اور حال کے وہ ٹی وی فنکار شامل ہیں، جن کی شہرت کا آفتاب پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ مرد فنکاروں میں بے شمار نام لیے جا سکتے ہیں، لیکن آج ہم اپنے قارئین کو ایک ایسے فنکار کے بارے میں بتائیں گے، جس نے اپنی منفرد اداکاری کی وجہ سے انمٹ نقوش چھوڑے۔ اس فنکار کی انوکھی اداکاری نے لاکھوں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ اس کا نام تھا، خیام سرحدی۔خیام سرحدی فلم، ٹی وی، ریڈیو اور سٹیج کے ہر دلعزیز اداکار اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے کی پہچان تھے۔ اپنے کردار کو اس خوبصورتی سے نبھاتے تھے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتے تھے، آج ان کی 14ویں برسی ہے۔خیام سرحدی پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور مصنف و ہدایتکار ضیاء سرحدی کے صاحبزادے اور موسیقار رفیق غزنوی کے نواسے تھے۔ ضیا سرحدی نے بھارتی فلم انڈسٹری میں بطور کہانی نگار،شاعر اور ڈائریکٹر بہت نام کمایا جبکہ رفیق غزنوی کا شمار بالی وڈ کے معروف میوزک ڈائریکٹروں میں ہوتا تھا۔ان کی والدہ طاہرہ غزنوی بھی رائٹر تھیں۔1948ء میں ممبئی میں پیدا ہونے والے خیام سرحدی نے جب ہوش سنبھالا تو وہ کراچی آ گئے۔ کچھ عرصہ کراچی میں قیام کرنے کے بعد خیام سرحدی کا خاندان لاہور آ گیا۔ خیام سرحدی چھوٹی عمر میں ہی شوبز سے وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے امریکا سے سینماٹو گرافی میں ماسٹر کیا۔ پہلے انہوں نے تھیٹر میں بطور اداکار اور ہدایتکار کام کیا۔بعد میںسرکاری ٹی وی کے ڈراموں میں حصہ لیا۔ انہوں نے ان گنت ڈراموںمیں اداکاری کے جوہر دکھائے اور ڈراموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ کچھ فلموں میں بھی کام کیا، جن میں ''بول، جناح اور بلڈ آف حسین‘‘ شامل ہیں۔خیام سرحدی نے طویل دورانیہ کے ڈراموں میں بھی یادگار اداکاری کی۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ''انوکھا لاڈلا، ڈیڈی، دیپ سے دیپ چلے، غلام گردش، من چلے کا سودا، منزل، مرزا اینڈ سنز، پرندہ، سورج کے ساتھ ساتھ اور وارث‘‘ شامل ہیں۔ اصغر ندیم سید کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریل''غلام گردش‘‘ میں ان کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔ بانو قدسیہ کے طویل دورانیے کا کھیل ''فٹ پاتھ کی گھاس‘‘ ایک عدیم النظیر ڈرامہ تھا جسے محمد نثار حسین نے ڈائریکٹ کیا تھا۔محمد نثار حسین کو طویل دورانیے کے ڈراموں کی ہدایات دینے میں ملکہ حاصل تھا۔ ان کے بے شمار ڈرامے ایسے ہیں، جو کلاسک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ''فٹ پاتھ کی گھاس‘‘ میں یوں تو سبھی فنکاروں نے شاندار اداکاری کی، لیکن اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ بندیا اور خیام سرحدی کا فن اس ڈرامے میں اوج کمال کو پہنچ گیا تھا۔ خیام سرحدی کا مکالمہ بولنے کا انداز بھی سب سے الگ تھا۔ وہ دھیمے انداز میں بولتے تھے اور پھر چہرے کے تاثرات سے وہ سب کچھ بیان کر دیتے تھے، جو اُن کے دل میں موجود ہوتا تھا۔ خیام سرحدی کو فن ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد ضیا سرحدی ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خیام سرحدی نے اپنے والد کی توقیر میں اضافہ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک عظیم باپ کے عظیم بیٹے تھے۔ وہ بڑے ہمدرد انسان تھے۔ انہوں نے فن کی جتنی خدمت کی اس پر ان کی جتنی توصیف کی جائے کم ہے۔ انہوں نے بے شمار ایوارڈ حاصل کیے، جن میں سرکاری ٹی وی کا نیشنل ایوارڈ، نگار ایوارڈ اور دوسرے شامل ہیں۔1991ء میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ وہ ان فنکاروں میں شامل ہیں، جنہوں نے نسبتاً کم عمر میں پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کیا۔خیام سرحدی نے دوشادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی عطیہ شرف تھیں، جو خود ٹی وی اور فلم کی آرٹسٹ تھیں۔ یہ شادی علیحدگی پر منتج ہوئی۔ ان کی دوسری شادی اداکارہ صاعقہ سے ہوئی،جو کامیاب ثابت ہوئی۔ خیام سرحدی کی چار بیٹیاں ہیں۔ وہ ماڈل و اداکارہ ژالے سرحدی کے چچا تھے۔ خیام سرحدی ہمیشہ اس بات پر نازاں رہے کہ وہ ضیا سرحدی کے فرزند اور رفیق غزنوی کے نواسے ہیں۔اس خاندان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ معروف ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید کا کہنا ہے کہ خیام سرحدی کو جو کردار دیا جاتا تھا، وہ اس میں ڈوب جاتے تھے۔وہ اکثر کہتے تھے کہ وہ اپنے ہر کردار کو یادگار بنانے کی آرزو مندہیں۔ کردار جتنا مشکل ہوتا تھا ،اتنا ہی وہ اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ایک بڑے فنکار کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ہر مشکل کردار کو چیلنج سمجھ کر قبول کرتے۔ خیام سرحدی جیسے فنکار بھی مشکل کردار کو چیلنج سمجھ کر قبول کرتے تھے اور پھر اپنی چھاپ چھوڑ جاتے تھے۔3فروری 2011ء کو خیام سرحدی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر 62 برس تھی۔ انہوں نے اپنے فن کا جو خزانہ چھوڑا ہے، آج کے نوجوان فنکار اس سے پوری طرح استفادہ کر رہے ہیں۔پاکستانی ٹی وی ڈراموںکی تاریخ میں خیام سرحدی کا نام تادیر یاد رکھا جائے گا۔