قطب نما سربستہ راز صدیوں پر محیط سفر کی کہانی
اسپیشل فیچر
نقل و حرکت کی بہت سی پرانی چیزیں مثلاً بیل گاڑی ، گھوڑا ، بادبان اور چیو وغیرہ فرسودہ ہو گئے لیکن برقی آلات کی ایجاد کے باوجود قدیم قطب نما بدستور کار آمد چلا آرہا ہے۔ جہاں راہ و منزل کا کوئی نشان نہیں ملتا وہاں مسافروں کا سب سے بڑا سہارا قطب نما ہی ہوتا ہے۔ یقینا اس میں بھی اصلاحات ہوئیں لیکن ان کی رفتار بہت سست تھی۔ اصل مقناطیسی آلہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ چودہویں صدی میں یا اس سے پیشتر تھا۔ سیرو سیاحت اور مہم جوئی میں انسان اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔
مگرکوئی نہیں جانتا کہ یہ سادہ سا آلہ کس نے بنایا اور کس نے سب سے پہلے اسے استعمال کیا۔ قیاس یہ ہے کہ بحیرہ روم کے کسی ملاح کے پاس یہ آلہ موجود ہو گا۔ یکا یک موسم خراب ہو گیا، آسمان پربا دل چھا گئے، ستاروں کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو اس موقع پر اس آلے نے کام دیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بارہویں صدی کا کوئی اطالوی یا عرب ملاح ہوگا جس نے سب سے پہلے قطب نما سے کام لیا، لیکن وہ کوئی ہو اور کسی سر زمین کا رہنے والا ہو اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ قطب نما کی ایجاد تاریخ کا نہایت ہی اہم واقعہ تھا۔
اس بارے میں بڑے افسانے مشہور ہیں مثلاً کہا جاتا ہے کہ چین کے ایک بادشاہ کو حضرت مسیح علیہ السلام سے2634 برس پہلے دشمن سے لڑائی پیش آگئی۔ اتفاق سے فضا میں سخت کہر پھیل گئی اور کچھ معلوم نہ ہوتا تھا کہ فوج کو کس رخ چلنے کا حکم دیا جائے۔ بادشاہ نے ایک ایسی جنگی گاڑی بنوائی جس سے جنوبی سمت معلوم ہوسکتی تھی۔ اس گاڑی کی رہنمائی میںد شمن پر حملہ کیا گیا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ گاڑی مقناطیس کے اصول پر بنائی گئی تھی یا اُس وقت تک اہلِ چین کو مقنا طیس کے خواص کا علم ہو چکا تھا لیکن چین میں قطب نما کے وجود کی پہلی شہادت 1297ء میں ملتی ہے۔
چینیوں کے بعد دوسری قومیں بھی قطب نما بنانے کی مدعی ہیںمثلاً عرب ، یونانی، اطالوی وغیرہ۔ اس کا ذکر پہلی مرتبہ ایک انگریز الیگزانڈر نیکم(Alexander Neckam 1157 -1217) کی کتاب میں ملتا ہے جو بارہویں صدی ہیں لکھی گئی تھی۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مارکو پولو نے مشرق کے سفر سے واپسی پر 1260 ء میں یورپ کو قطب نما سے روشناس کیا تو صاف ظاہر ہے کہ یہ بات غلط ہے۔مدت تک کسی کو مقنا طیس کے اس اصول کا علم نہ تھا‘ جس کی وجہ سے قطب نما کی سوئی شمال کی طرف رہتی ہے یا جنوب کی طرف جیسا کہ چینیوں نے اپنے حساب کے لیے مناسب سمجھا)۔اسی طرح کسی کو یہ علم بھی نہ تھا کہ جغرافیائی قطب شمالی اور مقناطیسی قطب شمالی ایک دوسرے سے بالکل الگ اور جدا گانہ ہیں۔ نیز یہ کہ مقناطیسی قطب شمالی ایک جگہ مستقل نہیں رہتا بلکہ بدلتا رہتا ہے۔ مقناطیسی قطب شمالی نقشے پر پہلے پہل 1821 ء میں متعین کیا گیا تھا۔
قطب نما میں فنی اصلاح کی رفتار اتنی سست تھی کہ 1820 ء میں انگلستان کی بحریہ کے پاس یہ شکایت پیش ہوئی کہ بحر یہ کے نصف سے زیادہ آلے بالکل بے کار ہیں۔قطب نما کی ایجاد نے انسانیت کی تاریخ اور نقل و حرکت پر جو اثرات ڈالے ان کا اندازمشکل ہے۔ افسوس نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کا موجد کون تھا اور نہ یہ جانتے ہیں کہ یہ آلہ کیوں کر ایجادہوا۔