پتھر کے مجسمے کس نے تراشے؟سائنسدانوں نے 900سال قدیم معمہ حل کر دیا
اسپیشل فیچر
دنیا کے سب سے پراسرار مجسموں میں شمار ہونے والے ایسٹر آئی لینڈ کے مشہور پتھریلے سر، جنہیں ''موائی‘‘ (Moai) کہا جاتا ہے، صدیوں سے ماہرین آثار قدیمہ کیلئے معمہ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں تک یہ سوال موجود تھا کہ اتنے بھاری اور بڑے مجسمے کس نے تراشے اور انہیں اس جزیرے پر کیسے منتقل کیا۔ایسٹر آئی لینڈ کے ارد گرد سب سے بڑے اس راز کو ممکنہ طور پر حل کر لیا گیا ہے۔ سائنسدانوں نے آخرکار یہ معلوم کر لیا ہے کہ تقریباً 900 سال قبل مشہور پتھریلے سر ''موائی‘‘ (Moai) کس نے بنائے تھے۔ ماضی میں محققین کا خیال تھا کہ 12 سے 80 ٹن وزنی یہ مجسمے بنانے اور منتقل کرنے کیلئے سینکڑوں مزدوروں کی مشترکہ محنت درکار ہوئی ہو گی۔ تاہم، حالیہ آثار قدیمہ کے شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مجسمے کسی ایک طاقتور قبیلے نے نہیں تراشے تھے بلکہ ہر ''موائی‘‘ ایک چھوٹے قبیلے یا فرد کی فیملی نے تراشا، جس پر صرف چار سے چھ افراد کام کرتے تھے۔
جزیرے کے مرکزی مجسمے کی نئی 3ڈی ماڈلنگ کے ذریعے محققین نے 30 منفرد ''ورکشاپس‘‘ کی نشاندہی کی جہاں یہ مجسمے تیار کیے جاتے تھے۔محققین نے پایا کہ ہر قبیلے کا اپنا منفرد فن، مخصوص تراشنے کی تکنیک اور پسندیدہ کھدائی کے مقامات تھے۔ ''بنگ ہیمٹن یونیورسٹی‘‘ (Binghamton University) کے پروفیسر کارل لیپو نے کہا کہ ہم نے علیحدہ ورکشاپس دیکھی ہیں جو مختلف قبیلوں سے متعلق ہیں اور جو اپنے مخصوص علاقوں میں بھرپور محنت کر رہے تھے‘‘۔
ایسٹر آئی لینڈپر موائی مجسموں کی تیاری کا آغاز تقریباً 13ویں صدی میں ہوا، جب پولینیثیائی برادریوں نے بڑے اور مزید شاندار یادگاریں تراشنا شروع کیں۔ جب 1700ء کی دہائی میں پہلی بار مغربی مہم جو جزیرے پر پہنچے تو وہاں تقریباً ایک ہزار مجسمے بکھرے ہوئے تھے، جبکہ بہت سے مجسمے ایک کان کے اندر ادھورے پڑے تھے۔ تاہم یہ سوال کہ اس چھوٹی سی جزیرہ کمیونٹی نے اتنے وسیع وسائل ان یادگاروں کی تعمیر پر کیوں اور کیسے خرچ کیے؟، ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔
پروفیسر لیپو کہتے ہیں:یہ کان تو جیسے آثارِ قدیمہ کی ڈزنی لینڈ ہے۔یہ ہمیشہ معلومات اور ثقافتی ورثے کا خزانہ رہی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر اب تک اس کی مناسب دستاویز بندی نہیں ہوئی۔ایک نئی تحقیق میں پروفیسر لیپو اور ان کے ساتھیوں نے اس معمہ کو حل کرنے کی کوشش کی اور کان کا ایک انتہائی تفصیلی ڈیجیٹل نقشہ تیار کیا۔ ڈرون کی مدد سے محققین نے اس مقام کی تقریباً 22 ہزار تصاویر لیں اور انہیں جوڑ کر ایک ایسا 3D ماڈل تشکیل دیا جسے کوئی بھی دیکھ اور جانچ سکتا ہے۔یہ شاندار نقشہ نہ صرف مستقبل کی تحقیق کیلئے اس مقام کو محفوظ بناتا ہے بلکہ اس نے کئی ایسے حیران کن حقائق بھی آشکار کیے ہیں جو پہلے کی مطالعہ جات سے پوشیدہ رہے تھے۔
پروفیسر لیپو کہتے ہیں:آپ ان چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں جو زمینی سطح پر نظر ہی نہیں آ سکتیں۔ آپ اوپر سے، اطراف سے اور ان تمام حصوں کو دیکھ سکتے ہیں جہاں تک پیدل کبھی پہنچا ہی نہیں جا سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ کان کے اندر موجود ہر ورکشاپ ایک دوسرے سے کتنی مختلف تھی۔ مثال کے طور پر، زیادہ تر مواقع پر مجسمے اس طرح تراشے جاتے تھے کہ پہلے چہرے کی تفصیلات کو نکھارا جاتا، پھر سر اور جسم کی بیرونی ساخت بنائی جاتی۔لیکن کچھ مجسمہ ساز پہلے پورا بلاک تراشتے تھے اور بعد میں چہرے کی تشکیل شروع کرتے، جبکہ کچھ کاریگر چٹان کے اندر ایک طرف سے تراشنا شروع کر دیتے تھے۔
اسی طرح کچھ مجسموں میں منفرد فنکارانہ انداز کے آثار پائے جاتے ہیں حتیٰ کہ کچھ مجسموں میں نمایاں طور پر نسائی خصوصیات بھی دکھائی دیتی ہیں۔ورکشاپس کا تعین بھی بڑی جغرافیائی تقسیم کے بجائے چٹان کی قدرتی ساخت اور قدرتی حدود کے مطابق ہوتا تھا۔
سر کو آگے پیچھے جھٹکے دینے سے موائی مجسموں کو دائیں بائیں ہلایا جا سکتا ہے اور انہیں آگے کی طرف 'چلنے‘ کی انداز میں سرکایا جا سکتا ہے۔اس طریقہ کار نے نسبتاً کم افراد پر مشتمل ٹیموں کو یہ قابل بنا دیا کہ وہ ان دیوہیکل مجسموں کو طویل فاصلے تک بہت کم محنت کے ساتھ منتقل کرسکیں۔بعد ازاں یہ مجسمے خصوصی طور پر تیار کردہ سڑکوں پر لے جائے جاتے تھے، جو کان کنی کے مقام کو ان کی آخری منزل سے ملاتی تھیں۔تقریباً 4.5 میٹر چوڑی اور اندر کی طرف دھنسی ہوئی ساخت والی ان سڑکوں کے بارے میں محققین نے دریافت کیا کہ ان کی مخصوص بناوٹ مجسموں کو حرکت کے دوران متوازن رکھنے میں مدد دیتی تھی اور انہیں آگے کی جانب سرکانا زیادہ آسان ہو جاتا تھا۔3D ماڈلنگ اور حقیقی تجربات کے امتزاج سے پروفیسر لیپو اور ان کے ساتھی اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ صرف 18 افراد کی مدد سے ایک موان کو 'چلا‘ سکتے ہیں۔یہ طریقہ اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ ایک بار جھٹکا دینے کے بعد لوگ صرف ایک ہاتھ سے رسی کھینچ کر مجسمے کو حرکت دیتے رہے۔