آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات:عمران خان کا سنجیدہ نوعیت کا خط آئینی بینچ نے دیکھنا ہے،عدالتی اصلاحات پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو بلالیا:جسٹس یحییٰ آفریدی
اسلام آباد(کورٹ رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اورآئی ایم ایف کے 6 رکنی وفد کے درمیان سپریم کورٹ میں ایک گھنٹہ ملاقات ہوئی جس میں چیف جسٹس نے آئی ایم ایف وفد کو عدالتی نظام اور اصلاحات پر بریف کیا اس دوران ججز تقرری اور آئینی ترمیم پر بھی بات چیت کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا وفد کو بتایا یہ ہمارا کام نہیں آپ کو ساری تفصیل بتائیں،ہم نے عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھارکھا ہے ،عمران خان کا سنجیدہ نوعیت کا خط آئینی بینچ نے دیکھنا ہے ، عدالتی اصلاحات پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو بلالیا، جوڈیشل کمیشن اجلاس کا بائیکاٹ نہ ہوتا تو اچھا جج مل جاتا۔ آئی ایم ایف وفد سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا آئی ایم ایف وفد کی ملاقات پر بریف کروں گا، بانی پی ٹی آئی کے خط پر بات کروں گا،نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی پر بھی بات کروں گا، عوام کو حقائق معلوم ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف وفد کیوں سپریم کورٹ آیا ،میں نے آئی ایم ایف وفد کو جواب دیا ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھا رکھا ہے یہ ہمارا کام نہیں ہے آپ کو ساری تفصیل بتائیں ،میں نے وفد کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے کا بتایا، وفد کو بتایا ماتحت عدلیہ کی نگرانی ہائیکورٹس کرتی ہیں، وفد نے کہا معاہدوں کی پاسداری اور پراپرٹی حقوق کے بارے میں ہم جاننا چاہتے ہیں، میں نے جواب دیا اس پر اصلاحات کر رہے ہیں، میں نے وفد کو بتایا ہم تجویز دیں گے ، ہائیکورٹس میں جلد سماعت کیلئے بینچز وہ بنائیں گے ، جو آپ کہہ رہے ہیں وہ دو طرفہ ہونا چاہیے ، وفد نے کہا ہم پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا تحفظ چاہتے ہیں، میں نے وفد سے کہا ہمیں عدلیہ کیلئے آرٹیفشل انٹیلی جنس چاہیے ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا مجھے خط بہت آتے ہیں، مجھے وزیراعظم شہباز شریف صاحب کا خط بھی ملا ہے ، تاہم وزیراعظم کو اٹارنی جنرل کے ذریعے سلام کا جواب بھجواتے ہوئے پیغام دیا کہ خط کا جواب نہیں دوں گا،میں نے وزیراعظم صاحب کو بذریعہ اٹارنی جنرل کہا اپنی ٹیم کے ساتھ آئیں، ہم نے قائد حزب اختلاف سے بھی بڑی مشکل سے رابطہ کیا، ہم نے حکومت اور اپوزیشن دونوں سے عدالتی اصلاحات کیلئے ایجنڈا مانگا ہے ۔ پاکستان ہم سب کا ملک ہے ، بانی پی ٹی آئی کا خط آیا ہے ، جس میں سنجیدہ نوعیت کے نکات شامل ہیں،بانی پی ٹی آئی جو ہم سے چاہتے ہیں، وہ آرٹیکل 184 کی شق تین سے متعلق ہیں، بانی پی ٹی آئی کا خط آئینی بینچ کمیٹی کو بھجوایا ہے وہ طے کریں گے ، یہ معاملہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت آتا ہے ، اسے آئینی بینچ نے ہی دیکھنا ہے ۔
بانی پی ٹی آئی کے خط بارے کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ کل کر لیا تھا۔ایک صحافی نے سوال کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے خط کو ججز آئینی کمیٹی کو بھیجنے کیلئے کن وجوہات یا اصولوں کو مدنظر رکھا گیا؟ عدلیہ میں اختلافات کو ختم کرنے کیلئے کیا اقدامات کریں گے ؟ چیف جسٹس کہا ججز کی خط لکھنے والی پرانی چیزیں چل رہی ہیں، انہیں ٹھیک ہونے میں ٹائم لگے گا، پرانی چیزیں ہیں آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا،خط لکھنے کے بارے میں پرانی عادتیں جلد ٹھیک ہوجائیں گی، ججز پینک کر جاتے ہیں شاید ان کو اعتبار نہیں رہا اس میں قصور میرا ہے ، خط لکھنے والے ججز اگر کمیشن اجلاس تک انتظار کر لیتے تو اچھا ہوتا، ہمیں چیزوں کو مکس نہیں حل کرنا ہے ، جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی آئی ہے خوبصورتی یہ ہے کہ کوئی بھی جوڈیشل کمیشن ممبر نام دے سکتا ہے ، بہت اچھے ججز آ رہے ہیں،میں نے ججز سے کہا سسٹم کو چلنے دیں، سسٹم کو نہ روکیں، مجھے ججز لانے دیں، جسٹس میاں گل حسن ٹیکس کیسز میں ایکسپرٹ ہیں،میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ لانے کا حامی ہوں، میرے بھائی ججز جو کارپوریٹ کیسز کرتے تھے ، وہ آجکل کیسز ہی نہیں سن رہے ۔
جسٹس میاں گل حسن کانام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے زیر غور ہو گا، جسٹس میاں گل حسن کو قائم مقام جج کے طور پر لایا گیا، جوڈیشل کمیشن کے آئندہ اجلاس میں انکا نام دوبارہ زیر غور ہوگا۔ ہمیں سسٹم پر اعتبار کرنا ہوگا آئندہ ہفتے سے 2 مستقل بینچز صرف کریمنل کیسز سنا کریں گے ،سزائے موت کے کیسز تیزی سے سماعت کے لیے مقرر کررہے ہیں ججز لائینگے تب ہی کیسز سماعت کیلئے فکس ہونگے ۔26اکتوبر کو حلف لینے کے بعد ہائی کورٹ کے ججز کواپنے گھر بلایاجومیرے اختیار میں ہے وہ میں ضرور کروں گا، 4 ججوں کا خط ابھی کھولا بھی نہیں تھا ،دیکھا ٹی وی پر چل رہا ہے نہ جانے انتظار کیوں نہیں کرتے ، پینک کر جاتے ہیں، خط لکھنے والے ججز کو انتظار کرنا چاہیے تھا، سپریم جوڈیشل کونسل کی ہرمیٹنگ میں مداخلت کی بات ایجنڈا آئٹم نمبر ایک پر ہوتی ہے ، میں اپنی بات متعلقہ فورم اور وقت پر کرتا ہوں ، ان ججز کا اعتراض اسلام آباد ہائیکورٹ کے معاملے پر تھا وہ معاملہ کل ہمارے سامنے آگیا ہے دوسرا اعتراض لاہورکے ججز پرتھا ، وہ لاہور والے جج توتعینات نہ ہوسکے ، وہ ججزچاہتے تھے ہم اسے کسی مخصوص ایونٹ تک روک دیں، میں نے سنیارٹی پر کل رائے دی کہ ایک مخصوص نام سنیارٹی میں نہیں بنتا، ججوں کے تبادلے کو سنیارٹی سے جوڑناغلط تھا، اٹارنی جنرل نے کل میرے مؤقف کی تائید کی، سسٹم پر یقین رکھنا چاہیے کل سسٹم بولا ہے ، کل لاہور کے ججزکے معاملے پر2ججزکے چلے جانے پر بھی ان کے مؤقف کی ہی پذیرائی ہوئی،ایک بہت اچھے جج کی تعیناتی کل ان ممبران کی عدم موجودگی کے باعث نہ ہوسکی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان یحیی آفریدی سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد کی ملاقات کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا۔ اعلامیے کے مطابق یہ ملاقات فنانس ڈویژن کی درخواست پر کی گئی،اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ اس طرح کے مشنز کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ تاہم چیف جسٹس پاکستان نے آئی ایم ایف وفد کا خیر مقدم کیا اور عدالتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے جاری کوششوں سے آگاہ کیا۔چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے اہم آئینی پیش رفت اور اصلاحات پر روشنی ڈالی، جبکہ عدلیہ اور پارلیمانی کمیٹی کے انضمام کی خوبیوں پر بھی گفتگو کی۔ ملاقات میں عدالتی احتساب اور ججوں کے خلاف شکایات کے ازالے کے طریقہ کار پر بھی بات چیت ہوئی۔چیف جسٹس یحیی آفریدی نے عدلیہ کی سالمیت اور آزادی برقرار رکھنے کے لیے مضبوط اور منصفانہ احتسابی عمل کی اہمیت پر زور دیا۔ ملاقات میں رجسٹرار سپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکرٹریز نے بھی شرکت کی۔