شہری کے گھر گھسنا بھی جرم،کورکمانڈرز ہاؤس میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی:آئینی بینچ

شہری کے گھر گھسنا بھی جرم،کورکمانڈرز ہاؤس میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی:آئینی بینچ

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کسی عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

 جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا 9مئی کو کور کمانڈرز ہاؤس میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی،آج کل جلاؤ گھیراؤ کرنا، توڑ پھوڑ کرنا ایک فیشن بن چکا ہے ،جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا پارلیمنٹ کا کام سپریم کورٹ  سے کیوں کرانا چاہتے ہیں؟جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی نے سماعت کی،درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کاآغازکرتے ہوئے کہا کل کیلئے معذرت چاہتا ہوں، ٹریفک میں پھنسنے کے سبب نہیں پہنچ سکا، جسٹس امین الدین نے کہا جس نے عدالت پہنچنا تھا وہ تو پہنچ گیا تھا،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کوشش کریں آج دلائل مکمل کر لیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا میں کل تک دلائل مکمل کر لوں گا، مرکزی فیصلے میں کہا گیا آرٹیکل 175 کی شق تین سے باہر عدالتیں قائم نہیں ہو سکتیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سروس معاملات میں ابتدائی سماعت محکمانہ کی جاتی ہے ، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا 9 مئی واقعات کی فوٹیج ٹی وی چینلز پر بھی چلائی گئی، کور کمانڈرز ہاؤسز میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی، آج کل جلاؤ گھیراؤ کرنا، توڑپھوڑ کرنا ایک فیشن بن چکا ہے ۔ 9 مئی واقعات میں ایک گھر میں گھس کر ٹی وی سکرینوں پر ڈنڈے مارے گئے ، بنگلہ دیش میں بھی یہی کچھ ہوا، شام میں بھی لوٹ مار کی گئی، یہ کلچر بن چکا ہے ،سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ آرمی آفیسرز پر بھی آرٹیکل 175 کی شق تین کا اطلاق ہونا چاہیے ۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا ملک میں 1973 کا آئین بنا،18ویں ترمیم میں مارشل لاء ادوار کے تمام قوانین کا جائزہ لیا گیا، وہ کام جو پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے ،

وہ سپریم کورٹ سے کیوں کروانا چاہتے ہیں، اگر کوئی ملٹری افسر آیا تو اس سوال کا جائزہ لیں گے ، آپ کیس کے اختیار سماعت سے باہر نہ نکلیں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا عدالتی فیصلوں میں جو نشاندہی کی گئی کیا اس پر قانون سازی ہوئی؟جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا پارلیمنٹ پتہ نہیں کن کاموں میں پڑی ہوئی ہے ، جو باتیں آپ یہاں کر رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کے کرنے کی ہیں، سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ سزا دینے کے عمل میں جوڈیشل اختیار کو استعمال کیا جانا چاہئے ، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ملزموں نے ملٹری کورٹس حوالگی کو چیلنج کیوں نہ کیا؟ کیا یہ ملزموں کی جانب سے لاپرواہی نہیں برتی گئی؟سلمان اکرم راجا نے مؤقف اپنایا کہ یہ لاپرواہی نہیں تھی، آپ نے سوال پوچھا تو حقیقت بتاتا ہوں، 9 مئی کے ملزموں اور ان کے اہلخانہ کو سخت حالات سے گزرنا پڑا، 10 ملزموں نے تو ٹرائل چیلنج کرنے کے لیے مجھے وکیل کیا تھا، ہائیکورٹ پٹیشن فائل کرنے سے پہلے ملزموں کی فیملی کی کال آجاتی، کال پر کہا جاتا پلیز نہ فائل کریں، ہمارا گھر ہی نہیں بچے گا، ایک ملزم جنید رزاق نے پٹیشن واپس لینے سے انکار کیا، آج میں اسی جنید رزاق کا وکیل ہوں اور اسے سلام پیش کرتا ہوں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا ملٹری کورٹ کا دائرہ اختیار سے متعلق کوئی فیصلہ موجود ہے ؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا عدالت کو تفصیلات حاصل کرکے آگاہ کروں گا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹ کیس کی سماعت آج صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔سلمان اکرم راجہ آج بھی دلائل جاری رکھیں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں